عارف فرہاد(راولپنڈی)
ہجر کی تنہائیوں میں بال بکھرائے ہوئے
آج پھر اے یار تم اِس دل میں ہو آئے ہوئے
آج پھر اُن خیال اِس دل میں گھر کرنے لگا
آج پھر ہم لَوٹ آئے گھر کو گھبرائے ہوئے
کیا جوانی کی مہک ہو، کیا دھنک سے رنگ ہوں
ہم تو ایسے پھول ہیں جو تھے ہی مرجھائے ہوئے
کب نہ ڈوبا کوئی سورج زندگی کی شام پر
کب نہ دنیا میں اے تیرہ شب ! ترے سائے ہوئے
خاک ہو جانے کو ہے، ہاں راکھ ہو جانے کو ہے
پھر بھی تُو چلتا ہے اِس مٹّی پہ اترائے ہوئے
زندگی فرہادؔ شاید کوئی ایسا شہر ہے
جس کے لوگوں پر سدا افلاس کے سائے ہوئے
عارف فرہاد
یقیں نے ایسے سجائے تھے دھیان کے پردے
اُتر گئے مرے وہم و گمان کے پردے
تجھے نہ سوچیں تو پھر کیسے اور کو سوچیں
کھِچے ہیں ذہن پہ تیرے ہی دھیان کے پردے
یہ آنکھ ہونے لگی ہے ابھی سے کیوں خیرہ
ابھی تو دیکھے ہیں تیرے مکان کے پردے
کس انکسار سے یہ دل خریدنا چاہے
دکاندار کی دولت، دکان کے پردے
عجیب ڈھنگ سے قصرِ فلک میں کھینچے ہیں
خدا نے میرے لئے اِس جہان کے پردے
ہماری چشم ابھی چاک پر سنورنے دے
اے سیم تن مت اُٹھا اِس جہان کے پردے
عطا ہوئی مجھے بینائی بھی مگر اِس پر
خود اُس نے تان دئیے آسمان کے پردے
ہمیں یہ غم ہے کہ فرہادؔ عمر بیت چلی
مگر نہ کھل سکے ہم پر جہان کے پردے