عارف فرہادؔ(راولپنڈی)
بہارِ دشتِ سخن میں کھِلا خیال ہے تُو
حریمِ ناز میں چلتی ہوئی غزال ہے تُو
تجھے خبر نہیں تیرے حریر و مرمر کی
تجھے خبر ہی نہیں کتنی خوش جمال ہے تُو
نہ پوچھ مل کے بھی تجھ سے میں تشنہ لب کیوں ہوں
نہ پوچھ مجھ سے کہ دریائے بے مثال ہے تُو
تُو کہ رہی ہے کہ میں ابتسامِ صبحِ ازَل!
میں کہ رہا ہوں کہ بس روشنی کی شال ہے تُو
میں تجھ کو لاکھ چھپاتا پھروں مگر نہ چھپے
تُو روشنی ہے، دھنک ہے، مرا خیال ہے تُو
بتا اے گوہرِ ناسُفتہ! آج کچھ تو بتا
یہ کس کے واسطے گلیوں میں پائمال ہے تُو
مرے قریب سے کچھ اس طرح گزرتی ہو
کہ دل یہ کہتا ہے مہکا ہوا رمال ہے تُو
کہیں پہ میں ہوں، کہیں وہ، کہیں ترا عارف
خود اپنے آپ میں فرہادؔ خال خال ہے تُو
عارف فرہادؔ
ہتھیلیوں کی دُعا کے اَثر کی روشنی ہے
کہا نہ تھا کہ تُو میری فجر کی روشنی ہے
کوئی تو دشت ہے ایمن کا، کوئی طور تو ہے
جہاں پہ میری وفا کے اَثر کی روشنی ہے
کہا نہ تھا کہ مجھے کچھ نظر نہیں آتا
کہا نہ تھا کہ تُو میری نظر کی روشنی ہے
کہا نہ تھا کہ سفر در سفر اندھیرا ہے
کہا نہ تھا کہ تُو میرے سفر کی روشنی ہے
کہا نہ تھا کہ مرے لفظ لفظ میں فرہادؔ
ترے خیال کے دستِ ہُنر کی روشنی ہے