عارف فرہاد نوجوان جدید شاعروں میں ایک اہم نام ہے۔ ان کی شاعری میں صرف لفظیات کی تازگی ہی نہیںملتی ، خیال کی تازگی بھی ملتی ہے۔ اپنے ہم عصر نظم نگاروں میں انہیں منفرد مقام حاصل ہے۔ عارف فرہاد پہلے مساوی الاوزان مصرعوں کے ”ماہیے“کہتے رہے ہیں۔ادبی رسائل میں ماہیے کے وزن کے سلسلے میں جو بحث ہوتی رہی ہے وہ اسے توجہ سے پڑھتے رہے ہیں۔ انہوںنے جب محسوس کیا کہ ماہیے کا وزن اس کی دھن سے ہی دریافت کیا جا سکتا ہے اور پھر دھن کے ذریعے وہ درست وزن کو سمجھ گئے تو انہوںنے اسے اپنانے میں دیر نہیں کی۔ اس سلسلہ میں نہ تو انہوںنے اپنے موقف کی تبدیلی کو اپنی سبکی سمجھا، نہ اسے اپنی انا کا مسئلہ بنایا جیسا کہ ہمارے بعض ماہیا نما ثلاثی نگاروں نے اپنے ثلاثی کو ”ماہیے“قرار دلوانے کواپنی انا کا مسئلہ بنا رکھا ہے۔ عارف فرہاد کا رویہ دراصل ادب سے ان کی وابستگی اور ذاتی تعلقات پر ادبی سچائی کو فوقیت دینے کا رویہ ہے جو ہمارے ادیبوں کے عمومی طرز عمل سے مختلف اور لائق تحسین ہے۔ اردو ماہیے میں جن شعراءکے ہاں پنجابی ماحول اور ثقافت کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں عارف فرہاد بھی ان میں ایک اہم شاعر ہیں۔ ان کے چند ایسے ماہیے دیکھیں جن میں پنجابی ثقافت کے اثرات اپنی مٹھاس کے ساتھ موجود ہیں۔ا ن ماہیوں میں پنجابی معاشرے کا منظر تشکیل پاتا دکھائی دیتا ہے:
پھولوں بھرے گاﺅں کو
بھول نہیں سکتا
پیپل تری چھاﺅں کو
کھیتوں میں اگی سرسوں
خوشبو کہتی ہے
ملنا مجھے پھرپرسوں
جھومر ترے ہلتے ہیں
لوگ زمینوں کے
آکاش سے ملتے ہیں
زرخیز زمینوں میں
راوی بہتا ہے
پنجاب نگینوں میں
کوا ہے بنیرے پر
آنے والا ہے
وہ یار کے ڈیرے پر
چنری پہ کناری تھی
لال پراندی بھی
ہمراز ہماری تھی
چمپا سے، چنبیلی سے
پیار بھری باتیں
کرتی تھی سہیلی سے
جھرنا ترے گاﺅں میں
دھوپ کے راہی بھی
آبیٹھے ہیں چھاﺅں میں
ایسے ماہیوں میں زیادہ تر پنجابی معاشرے کا دیہات نمایاں ہے تاہم عارف فرہاد کے ماہیوں میں دیہاتی ماحول کے ساتھ ساتھ پنجاب کے شہروں کا رنگ ڈھنگ بھی موجود ہے۔ پنجاب کے نگینوں جیسے دیہاتوں میں بسنے والا راوی شہروں میں آکر محبوب کے حسن میں ڈھل جاتا ہے اور محبت کے جذبے کے کئی رنگ اس حسن میں منعکس ہونے لگتے ہیں۔
راوی نہ بہے کیسے
حسن ترا ساجن
پردوں میں رہے کیسے
خوشبو مجھے کہتی ہے
قوس قزح بن کر
بادل پہ وہ رہتی ہے
گلبرگ کے پھولوں میں ٹیرس پہ جب آتی تھی
خوشبو نہیں ویسی کیسے ہنس ہنس کر
صدبرگ کے پھولوں میں وہ ہاتھ ہلاتی تھی
دل کے لیے غم ڈھونڈے کمخواب کے جوڑے میں
راولپنڈی میں کتنا روئی ہے
کیا کوئی صنم ڈھونڈے اس بار وچھوڑے میں
پنجاب کے ثقافتی اثرات سے قطع نظر۔عارف فرہاد کے ماہیوں میں محبت کا والہانہ اظہار اور محبت کی یادوں کی کسک بڑی شدت سے موجود ہے۔ پہلے محبت کے اظہار کے چند خوبصورت ماہیے دیکھیں:
آکاش کا تارا میں
حسن سمندر کا
بن جاﺅں کنارا میں
چن تارے اتار آﺅں
تیری آنکھوں میں
اک رات گذار آﺅں
دیوار گراسجنی
گھر کے لوگوں کو
جلدی سے منا سجنی
زنجیر کریں کیسے
خوابوں میں تجھ کو
تسخیر کریں کیسے
اور اب یادوں کے اثرات دیکھیں جن میں جدائی کا دکھ، پانہ سکنے کا دکھ، ہوک بن کر سامنے آتا ہے:
دو ہونٹ سلیمانی
ہم سے کرتی تھی
باتیں وہ پرستانی
ساجن میں ترے غم میں
کتنا رویا تھا
اپریل کے موسم میں
بادل کوئی برسا ہے
بھیگے جسموں کو
پیاسا کوئی ترسا ہے
کس گاﺅں میںآئے ہیں
چاہا ہے جن کو
وہ لوگ پرائے ہیں
اک ضرب ہتھوڑے کی
دل پہ لگی کیسے
مت پوچھ وچھوڑے کی
جھوٹے افسانے میں
کیسے ملتے ہم
بے درد زمانے میں
عارف فرہاد نے اپنے ماہیوں کے ذریعے اردو ماہیے کے دامن کو وسیع کرنے کی تخلیقی کاوش کی ہے۔ اس عمل کے دوران انہوں نے جہاں ماہیے کی روایت سے خود کو کٹنے نہیں دیا وہیںروایت کی زمین میں رہتے ہوئے نئے نئے گل بوٹے کھلائے ہیں۔ ان کے چند ایسے ماہیے دیکھیں:
کابل سے ہوا آئی
بہتے دریا میں
پھولوں کو بہا لائی
صحرا سے گذر جائیں
پیاسے دریا میں
اک روز اتر جائیں
زیتون کی شاخوں سے
خوشبو آتی ہے
اب دل کی آہوں سے
اپنے ہیں سبھی چہرے
ہم نے ملنا ہے
تو لاکھ بٹھا پہرے
تلوار میں دیکھا تھا
حیراں آنکھوں کے
بازار میں دیکھا تھا
اس دل میں اترتی ہے
جب آئینے میں
چھپ چھپ کے سنورتی ہے
صحرا میں سراب ایسا
خوابوں میں آئے
اک شخص گلا ب ایسا
کس دیس میں آئے ہیں
بنجر کھیتوں پر
جلتے ہوئے سائے ہیں
اس نوعیت کے ماہیے ابھی تجربے کے مرحلے میں ہیں۔چونکہ ان میں ماہیے کی روایت سے آگے کا سفر ہے اس لیے بعض لوگوں کو نامانوسیت کا ہلکا سا احساس بھی ہو سکتا ہے۔ مجھے ایسے ماہیوں میں عارف فرہاد کی نظم نگاری کے مثبت اثرات کا احساس ہوا ہے۔ اردو ماہیے کو وسعت دینے کے لیے ایسے تجربات بے حد ضروری ہیں۔ اس نوعیت کے تجربات کی قدرو قیمت کا اندازہ شاید اس وقت سے زیادہ آنے والے وقت میں ہو سکے گا۔
آخر میں عارف فرہاد کے چند خوبصورت اور موضوعاتی لحاظ سے ملے جلے ماہیے پیش ہیں۔ یہ ماہیے عارف فرہاد کی ماہیا نگاری کے ساتھ اردو ماہیے کے امکانات کو بھی اجاگر کرتے ہیں:
ہم لوگ تو بچے تھے
ماں کے آنچل میں
سب موسم سچے تھے
تم عید پہ آجانا
پیار بھری باتیں
سکھیوں کوبتا جانا
جب بھی مرے گھر آئیں
روشن آنگن ہو
چن تارے اتر آئیں
خوابوں میں سنورتی ہے
میری گلی سے وہ
کب روز گزرتی ہے
گھر چھوڑ نہ دے میرا
لڑکی دیوانی
دل توڑنہ دے میرا
سودائی نہیںآیا
کھلتے پھولوں کا
شیدائی نہیں آیا
گاﺅں کی ہوا بولی
ڈھولا کیوں رویا
یہ کس کی اٹھی ڈولی
کوئی نہ ہمیں ٹوکے
ہجر میںسجنی کے
مرجائیں گے رو رو کے
یاقوت کے دانوں سے
بھاﺅمحبت کے
مت پوچھ پٹھانوں سے
ہر جائی نہیں ملتا
تیری یادوں سے
یہ زخم نہیں سلتا
٭٭٭٭