ارحم نے سر جھٹکا
مہر کے لیے ہنسی روکنا بھال ہوگیا
امی میں آج رات کا کھانا بنا لوں مہر نے تائید سے پوچھا
تحمینا بیگم کچھ دیر مہر کو دیکھتی رہی پھر مسکرا کے فقط سر ہلایا ….
وہ اٹھ کے کچن میں چلی گئی ….
بیبی جی آپ کی کوئی مدد کردوں ملازما نے ہاتھ دوپٹے کے پلو سے پوچھتے ہوے پوچھا
مہر نے نچلا لب کاٹتے ہوے دروازے کی طرف دیکھا
فاخرہ ( ملازمہ ) تمہارے چھوٹے صاحب کو کیا پسند ہے کھانے میں مہر نے سبزی میں چمچ چلاتے ہوے آہستہ سے پوچھا
ارحم بابا کو تو جی بریانی بڑی پسند ہے وہ تو جی جب بھی گھر آتے ہیں بریانی ہی بنتی ہے انکے لیے
اچھا پھر تم ایسا کرو چاول بھگو دو جلدی سے مہر نے مصروف سے انداز میں کھا
اممم بہت اچھی خوشبو آرہی ہے لگتا ہے کچھ اسپیشل بن رہا ہے تحمینا بیگم کچن میں داخل ہوئیں
مہر انکودیکھ کے مسکرائی
جی امی بریانی اور کباب رائتا ہوگیا ہے بس تھوڑا سا کام رہ گیا ہے مہر نے چیزیں سمیٹتے ہوے کہا
اچھا فاخرہ تم سلاد بنا لو تب تک تحمینا بیگم کہتی ہوئیں باھر نکل گئیں کب سے اس دشمن جان کا ویٹ کررہا ہوں لیکن وہ موحترما جب تک تڑپائینگی نہیں تب تک مجال ہے جو سکوں سے رہے ارحم نے ایل ای ڈی زچ ہوتے ہوے بند کی
اور کمرے سے باہر نکل گیا سیڑھییان اتر تے ہی اس کی نظر کچن میں کام کرتی مہر پر پڑی
ارحم کی آنکھیں اس کو دیکھ کے چمک اٹھیں
مہر کی ارحم کی طرف پشت تھی وہ کچھ نکالنے میں مصروف تھی ارحم نے ہاتھ کے اشارے سے ملازمہ کو باہر جانے کا کہ دیا
ملازمہ سر ہلا کے باہر نکل گئی
ارحم کو شرارت سوجھی وہ مہر کے پیچھے کھڑا ہوگیا مہر اور اس کے بیچ بہت کم فاصلہ تھا
فاخرہ یہ تم برتن سیٹ کردو میں ذرا کھانا اففف ……. میرے اللہ مہر زور سے ارحم کی چوڑی چھاتی سے ٹکرائی
ہائے اللہ میرا سر مہر نے آنکھیں میچے کہا اسنے دھیرے سے آنکھیں کھولین سامنے ارحم کھڑا محبت بھری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا
مہر کا چہرہ غصے سے سرخ پڑ گیا
بیوی کب سے آپ کا شوہر آپ کے انتظار میں آہیں بھر رہا ہے اور آپ یہاں پر مصروف ہیں ارحم سلیب پر بیٹھ گیا
ہونہ کیوں رات کو تھپڑوں سے دل بھرا نہیں آپ کا
جو اب قتل کرنے کا سوچ رہے ہیں مہر نے تپے ہوے لہجے میں کھا
اونہوں وہ تو آپنے غصہ دلایا تھا اس لیے ارحم نے کھیرے کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوے کھا
مہر نے سر جھٹکا
ارے یہ کالا کالا کیا لگا ہے تمہارے گالوں پر ارحم سلیب سے اتر کر مہر کے پاس کھڑا ہوگیا مہر نے پریشانی سے اپنے دونو گالوں پر ہاتھ رکھا ارحم نے بھرتی سے دھڑا دھڑ اس کے دونوں گالوں پر بوسا دیا اور کچن سے بھاگ گیا ہا یہ بدتمیز کمینہ کہیں کا دیکھ لوں گی اسے میں مہر نے اپنے گال رگڑے
اممم امی بہت ہی ٹیسٹی بریانی ہے آئ جسٹ لوو اٹ ارحم نے بریانی کا چمچ منہ میں ڈالتے ہوے کھا
ارے مینے نہیں یہ تو مہر نے بنائی ہے تحمینا بیگم نے ہنس کر کھا
کیا یہ مہر نے بنائی ہے بلکل مزے کی نہیں ہے مجھے لگا آپنے بنائی ہے تبھی مینے یوں ہی تعریف کردی ارحم نے مہر کو دیکھتے ہوے کھا جو مزے سے بریانی سے انصاف کرنے میں مشغول تھی
مہر کو پہلے سے ہی اس پر غصہ تھا اس کی اتنی اچھی بریانی کی توہین پر وہ مزید تپ گئی
وہ اٹھی اور کچن میں چلی گئی
بری بات ارحم بیٹا کیوں اسے ایسے تنگ کرتے ہو اب دیکھو بچی ناراض ہوگئی تحمینا بیگم نے افسوس سے کھا
وہ جب واپس آئ تو اس کے ہاتھ میں ایک پلیٹ تھی اس نے ارحم کی بریانی کی پلیٹ اٹھائی اور کچھڑی کی پلیٹ ارحم کے سامنے رکھ دی
ارحم نے نا سمجھی سے پلیٹ کو پھر مہر کو دیکھا امی آج ابو (خلیل صاحب ) کی طبیعت کی خرابی کی وجہہ سے مینے ان کے لیے کچھڑی بنا کے انکے روم میں بھیج دی تھی انکو بریانی نہیں کہانی چاہیے کیوں کے انکا پیٹ خراب ہے صبح سے دس بار واشروم کے چکر لگاے ہیں انہوں نے ان فیکٹ امی یہ بریانی کباب رائتا بہی میں لے جاتی ہوں ٹھیک ہے نا مہر نے ارحم کی ساری چیزیں اٹھا کر کچن میں رکھ دیں ارحم نے شولا بہار نظروں سے مہر کی۔ طرف دیکھا وہ شانے اچکا کے کچن میں چلی گئی
وہ مزے سے ڈائجسٹ پڑھنے میں مصروف تھی جب ارحم واشروم سے باتھ لیکے نکلا
سنو میری ٹی شرٹ نکال کے دو وارڈ روپ سے ارحم نے ٹوول سے بال رگڑتے ہوے کہا
وہ ہنوز بنی ڈائجسٹ میں منہ دئے بیٹھی رہی
ارحم نے سر جھٹک کے اس کی طرف دیکھا پھر خود ہی ٹی شرٹ نکالنے لگا
ارحم کی موبائل پر بیل ہوئی ریحان کالنگ
اسلام علیکم کیسا ہے تو
ارحم بیڈ پر بیٹھتے ہوے خوش گوار موڈ میں بولا
وعلیکم سلام میں ٹھیک ہوں تو سنا ریحان بھی خوش گوار موڈ میں تھا
تو سنا کیسے کال کی کوئی کام تھا تجھے ؟؟؟
ہاں وہ مجھے کچھ بات کرنی تھی تجھ سے ریحان اصل بات پر آیا
ٹھیک ہے میں آتا ہوں تیری طرف ارحم اٹکھڑا ہوا
نہیں نہیں بڈی تو بیٹھ آرام سے میں آتا ہوں تیری طرف پھر مل کے بات کرتے ہیں
ٹھیک ہے آجاؤ میں ویٹ کر رہا ہوں
اوکے خدا حافظ
وہ سیدھا ہوکے بیٹھ گیا ایک نظر مہر کو دیکھا وہ ابھی بھی محوئیت سے ناول پڑھنے میں مشغول تھی ارحم نے تاسف سے سر جھٹکا
وہ موبائل پر ٹائپنگ کرنے لگا کے چھت سے چھپکلی این مہار کے پاؤں پر گری مہار کی دل خراش چیخ برآمد ہوئی وہ اچھل کے ارحم کی گود میں بیٹھ گئی اور سر اس کی گردن میں چھپا لیا بچاؤ بچاؤ اللّہ مجھ چھپکلی مار دیگی امی امی بچاؤ مجھ مہر چیخنے لگی ارحم کے کچھ سمجھ میں نہیں آیا کے کیا کرے مہر چپ ہوجاؤ اور دور ہٹو میں چھپکلی کو ہٹاوئن نا ارحم نے اسے خود سے دور کرنا چاہا
نہیں نہیں چھپکلی مجھ کھا جاۓگی مہر نے مزید سختی سے ارحم کو پکڑ لیا
مہر میری بات اس کی بات منہ میں ہی رہ گئی ریحان دروازہ کھول کے اندر داخل ہوا اندر کا سین دیکھ کے اسکا منہ کھل گیا اس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا سوری سوری آئ تھنک غلط ٹائم پر آگیا میں کیری آن
وہ کھتا باہر چلا گیا
ابے رک مہر کچھ سمبھلی ارحم نے مہر کو دیکھ کے سر جھٹکا …..
اور باہر نکل گیا اب بتا کیا کام تھا وہ نظریں چرا گیا ریحان نے اسکے شانے پر ہاتھ رکھا
اوہ ہو بہت رومانس ہورہا تھا وہ دونو لان میں رکھے صوفے پر بیٹھ گئے
ریحان نے اسے چیھڑا
کہاں یار تو جو آگیا بیچ میں رنگ میں بھنگ ڈالنے ارحم نے اسے دیکھ کے منہ بنایا ریحان کا قہقا بلند ہوا چل بتا بھابی نے تجھے معاف کیا سب نارمل ہوگیا نا ریحان نے فکرمندی سے پوچھا
نہیں یار فلحال تو ایسا کچھ نظر نہیں آرہا مجھے ارحم نے آہ بھری
ہوجاۓ گا یار سب سیٹ تو امید مت ہار ریحان نے اسے دلاسا دیا
تو بتا کیا کام تھا تجھے؟؟ ارحم نے مشکوک نظروں سے ریحان کو دیکھا
ماریا کا رشتہ فکس ہوگیا ہے تجھے پتا ہے نا اسکے سسرال والے کل نکاح کرنا چاہتے ہیں تو اس حوالے سے
یار تیری رائے چاہیے تھی کیا کرنا چاہیے وہ ابھی پڑھ رہی ہے ریحان نے پریشانی سے پوچھا ؟
اگر وہ لوگ کہ رہے ہیں تو پھر ہاں کر دیتے ہیں ویسے بھی کونسا ابھی شادی کرنے کو بول رہے ہیں اور رہی بات پڑھائی کی تو وہ تو بعد میں بھی پوری کی جا سکتی ہے بس تو ہاں کر دے پھر کل ہوجاۓ نکاح ٹھیک ہے ارحم نے اسکی پریشانی دور کی بس یہی بات تھی نا ارحم نے مشکوک نظروں سے ریحان کو دیکھا
نہیں مطلب تو غلط مت سمجھنا مجھے لگتا ہے اب میری بھی شادی کی عمر ہو رہی ہے تو میں سوچ رہا تھا کے میں بھی شادی کر ہی لوں ریحان نے دانت نکالے 😁😁
اچھا تو جناب کو شادی کرنی ہے پھر یہ بھی بتادیں کے کس سے کرنی ہے شادی ؟؟؟
ارحم نے ابرو اچکا کے پوچھا
بھابی کی بہن ریحان نے ڈرتے ہوے کھا
بہن مطلب حیا ارحم کی آنکھیں پھیل گئیں
ہاں ریحان شرمآیا
ابے تجھے کب سے پسند آ گئی وہ چل بہت جمےگی دونو کی پھر کیا سوچا کب کرنی ہے شادی ؟؟
بھابی سے بات کرلوں نا پہلے ٹھیک ہے کر لے پھر بات وہ دونو ساتھ میں ارحمکے روم میں گئے
اسلام علیکم بھابھی
ریحان نے اندر آتے ہوے سلام کیا
وعلیکم سلام بھائی مہر سیدھی ہوکے بیٹھ گئی
بھابھی اصل میں ایک بات کرنا تھی آپسے ریحان نے ڈرتے ہوے کھا
جی بولیں میں سن رہی ہون
بھابھی میں آپ کی بہن میرا مطلب حیا سے شادی کرنا چاہتا ہوں اگر آپ اگری ہیں تو آپ کے گھر بات کرنے آئین ہم ؟؟
مہر دھیرے سے مسکرائی جی جی ضرور میں تو ویٹ کر رہی ہوں موحترما کے ہاتھ پیلے کرنے کے لیے مجھ کوئی اعتراض نہین نا ہی کسی اور کو ہوگا آپ بس تیاری شروع کریں میں گھر پر بات کر لوں ٹھیک ہے
مہر نے اسکی پریشانی دور کی
تو بھابی پرسوں بات کرنے چلیںگی نا آپ ہمارے ساتھ ؟؟؟
جی جی ضرور
بھابھی ایک اور ریکویسٹ تھی
جی بولیں کل میری بہن کا نکاح ہے تو میں چاہتا ہوں آپ اسکے ساتھ رہیں ٹھیک ہے میں ضرور ساتھ رہوں گی ٹھیک ہے وہ مسکراتا ہوا کمرے سے باہر نکل آیا
مہر نے ٹھنڈی سانس خارج کی اور بیڈ پر لیٹ گئی کچھ ہی وقت میں نیند اس پر غالب آ گئی
وہ محوئیت سے مہر کی معصوم صورت کو دیکھے جا رہا تھا پھر جھک کر اس کے چہرے پر آئی چند لٹون کو مہر کے چہرے پر سے ہٹایا اور جھک کر اس کی صبیح پیشانی پر بوسہ دیا
اس کی آنکھ فجر کی اذان پر کھلی وہ اٹھی بال سمیٹے اور واشروم وضو کرنے چلی گئی دعا کرکے جا نماز سمیٹ کر واپس لیٹ گئی وہ چھت کو گھور نے لگی پھر اٹھ بیٹھی لیٹنے کا دل نہیں کر رہا تھا اس کا وہ دوپٹہ کندھوں پر درست کرتی نیچے چلی آئ
حسب معمول تحمینا بیگم لان میں صوفے پر بیٹھی چائے سے لطف اندوز ہو رہی تھیں
اسلام علیکم امی مہر نرمی سے سلام کیا
وعلیکم اسلام میری بچی تحمینا بیگم نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا
وہ دھیرے سے مسکرا کر کچن میں چلی آئ
کپ میں چائے انڈیلی اور ناشتے کی تیاری کرنے لگی
وہ ٹریک سوٹ میں مبلوس تیزی سے سیڑیان پھیلانگ رہا تھا مہر نے ایک گھوری سے جاتے ہوے ارحم کو نوازا
ہونہ آیا بڑا پتا نہیں اسے کیوں لگتا ہے کے سب اس کے لیے مری جا رہی ہیں میری بلا سے بھاڑ میں جائے مہر بڑبڑائی
وہ ناشتہ بنا کے روم میں چلی آئ تو دیکھا وہ سر تک بلنکٹ اوڑھے سورہا تھا وہ سر جھٹک کر وارڈ روپ سے کپڑے نکال کر واشروم میں گھس گئی وائٹ کرتی پر وائٹ کیپری سوٹ اسنے زیب تن کیا تھا اسنے بال یوں ہی پشت پر چھوڑ دئے بالوں سے پانی کے کترے ٹپک رہے تھے اس نے شال کو کندھوں کے گرد لپیٹ لیا اور صوفے پر بیٹھ گئی ایک نظر سوتے ہوے ارحم کے وجود پر ڈالی اس کی موبائل پر بیل ہوئی ریحان کالنگ اسنے یس کا بٹن دبایا
اسلام علیکم بھابھی ریحان کی چہکتی ہوئی آواز آئ
وعلیکم اسلام بھائی خیریت صبح صبح کال کی آپ نے ؟؟؟
جی بھابھی اصل میں مینے یہ بتانے کے لیے کال کی کے آپ دس بجے تک ریڈی رہیئےگا میں آپ کو پک کرنے آؤنگا ٹھیک ہے
جی ٹھیک ہے ارحم بھابھی سو رہا ہے کیا مہر نےایک نظر ارحم کو دیکھا جی مہر نے آہستہ سے کہا پھر کال ڈس کنیکٹ کر دی
تحمینا بیگم خلیل صاحب اور مہر بیٹھے ڈائیننگ ٹیبل پر ناشتہ کر رہے تھے اسلام علیکم ارحم نے مہر کے برابر والی کرسی گھسیٹتے ہوے سب کو اسلام علیکم کیا
وہ اس وقت ارحم نے بلیک شلوار کمیز زیب تن کیا ہوا تھا
وعلیکم سلام خلیل صاحب اور تحمینا بیگم نے یک زبان ہوکے کہا
ارحم نے چپ چاپ ناشتہ کرتی مہر کو دیکھا پھر سرد آہ خارج کی
موحترما سلام کا جواب مسلمانو پر فرض کیا گیا ہے ارحم نے مہر پر چوٹ کی
مہر ہنوز بنی پراٹھے سے انصاف کرنے میں مگن تھی
ذرا وہ جوس کا گلاس تو پاس کرائین
ارحم نے ہنسی دباتے ہوے مہر کو تنگ کیا
مہر نے ایک سخت نگاہ ارحم پر ڈالی جیسے کہ رہی ہو خود کے ہاتھوں میں کانٹے لگے ہوے ہیں جو مجھے بول رھے ہو مہر نے ارحم کو نا چاہتے ہوے بھی جوس کا گلاس پکڑایا ارحم نے مہر کی انگلییوں کو نرمی سے دبایا
مہرکو تو مانو کرنٹ لگ گیا ہو اسنے جلدی سے اپنے ہاتھ پیچھے کیے …
بیبی جی ریحان بابا آپ کا نیچے انتظار کر رھے ہیں مہر موبائل میں منہ گھسائے بیٹھی تھی جب بفاخرہ نے اسے ریحان کی آمد کی اطلاح دی
ٹھیک ہے انھیں بیٹھائو میں آ رہی ہوں نیچے
مہر نے چہرے کے گرد سفید سکارف لپیٹا اورسیڑیہان اتر کے نیچے لان میں آ گئی
اسلام علیکم ریحان نے اٹھتے ہوے مہر کو سلام کیا وعلیکم سلام بھائی مہر نے بھی گرم جوشی سے کھا
چلیں پھر بھابھی ریحان نےکی گھماتے ہوے کھا
جی چلیں
وہ دونو ریحان کے گھر روانہ ہوگے
امی امی ارحم نے یکا یک تحمینا بیگم کو آوازیں دیں وہ بیڈ پر بیٹھی تسبیح پڑھنے میں مصروف تھیں ارحم کی آواز پر تسبیح کو ہونٹوں سے لگا کے ایک سائیڈ پر رکھ دیا ارحم ان کے ساتھ بیٹھ گیا
کیا ہوا کیوں چیخ رہے ہو ایسے تحمینا بیگم کو فکر لاحق ہوئی
امی مہر کہاں ہے نظر نہیں آرہی ارحم نے دھیمےلہجے سے پوچھا ؟؟؟
بیٹا وہ تو کچھ دیر پہلے ریحان کے ساتھ اس کے گھر گئی ہے ریحان نے بتایا ہوگا نا تمہیں ؟؟
ارحم نے پیشانی کو دو انگلیون سے مسلہ میں بھول گیا امی ارحم نے آنکھیں موند کر کہا
ابھی تک ٹھیک نہیں ہوا سب کچھ تم دونو کے بیچ ہے نا ؟؟؟
تحمینا بیگم نے ارحم کو خاموش بیٹھے پایا تو کہا
بیٹا غلطیاں ہر کسی سے ہوتی ہے مہر کا ظرف بہت آعلیٰ ہے بیٹا تم اس سے معافی مانگو بار بار مانگو ایک دں ضرور ایسا آئے گا جب تم کو وہ معاف کر دیگی بس شرط یہ ہے کے تم اس سے معافی مانگو تحمینا بیگم نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا
میں تو کہتی ہوں تم بھی جاکے ریحان کا ہاتھ بٹاؤ اسی بہانے مہر بھی تمہارے سامنے ہوگی
ٹھیک ہے امی میں چلتا ہوں پھر
وہ گاڑی چلاتے ہوے بھی مہر کے خیالوں میں غم تھا
آج مجھ مہر سے سب کلیر کرنا ہی پڑیگا چاہے کچھ بھی ہوجاۓ آج اسے میری بات سننا پڑیگی بہت ہوگیا اب بس آج مہر کو بتانا ہوگا کے آخر وہ چاہتی کیا ہے ارحم نے گہرا سانس لیا اور گاڑی تیزی سے چلاتا ریحان کے گھر کی طرف روانہ ہوا
پورا دں اسے مہر سے بات کرنے یا ملنے کا موقع ہی نہ ملا وہ بری طرح کاموں میں پھنس گیا تھا اسے رہ رہ کے مہر پر غصّہ آرہا تھا وہ کمرے سے ایک بار بھی نہیں نکلی تھی ارحم سخت بدمزہ ہوا تھا
بس ہوگیا ما شا اللہ بہت پیاری لگ رہی ہو میری بہن مہر نے ماریا کی نظر اتاری اچھا اب بیٹا آپ بھی تیار ہوجائین بہت لیٹ ہوگیا ہے پہلے سے ہی نادیہ (ریحان کی چچی ) نے مہر سے لاڈ سے کھا
ٹھیک ہے آنٹی
مہر دوسرے روم میں تیار ہونے چل دی ارحم جو پھول والوں کو کوئی بات سمجھا رہا تھا مہر کی ایک جھلک دیکھ کے خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا بے اختیار اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی
ابے کیوں مسکرا رہا ہے جا جاکے تیار ہوجا ریحان نے اسکو جھاڑا
سرخ پاؤں کو چوتھا فراق اس پر گولڈن کلر کا کام اور ہم رنگ سرخ نیٹ کا دوپٹہ جس کے بارڈر پر سنہیرے موتی اور لیس لگی ہوئی تھی مہر نے زیب تن کیا تھا
وہ سرخ رنگ میں غضب ڈھا رہی تھی سرخ رنگ جیسے بناہی اس کے لیے ہو i
اف یہ شادی کی تکریب میں تیار ہونا بھی مانو ایک عذاب ہے سچی مہر بڑبڑائی ……….
مہر نے بالوں میں برش کیا
اف میرے اللہ یہ لمبے بال بھی کتنی مصیبت دیتے ہیں مہر نے کوفت سے کہا جیسے ہی اسنے سر اوپر اٹھایا
دروازے کی چوکھٹ پر بازو سینے پر بندھے ارحم دل کش مسکراہٹ لیے مہر کو دیکھ جا رہا تھا
مہر کی ہارٹ بیٹ تیز ہونے لگی وہ آہستہ آہستہ چلتا بیڈ پر بیٹھ گیا
مہر کو جی بھر کے غصّہ آیا
ہونہ آگیا شوخا اب ہوگئی تیار میں …..
مہر زچ ہوکے بولی
وہ بیڈ سے ٹیک لگاے ٹکٹکی باںدھے مہر کو گھورے جا رہا مہر کے لیے تیار ہونا مشکل ہوگیا
ارحم کی گہری نظریں مہر خود پر محسوس کر رہی تھی
کیا مسلہ ہے آپ کے ساتھ اب کیا آنکھوں سے کھانے کا ارادہ ہے آپ کا مہر آخر تنگ آکے پھٹ پڑی ……
ہا ئے یہ غصّہ قسم سے جان لے لیگا ہماری ارحم نے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوے کھا
مہر نے شولا بھار نظروں سے ارحم کی طرف دیکھا
ارحم آہستہ آہستہ چلتا مہر کے قریب کھڑا ہوگیا
ک کیا مسلہ ہے ہٹیں مجھ دیر ہورہی ہے ارحم مہر کے مزید قریب ہوا ان دونو کے بیچ فاصلہ ایک انچ کے برابر تھا مہر کی سانسیں اوپر نیچے ہونے لگیں مہر نے فاصلہ کرنے کے لیے قدم پیچھے بڑھانے کی کوشش کی
ارحم نے اسکے گرد بازو حائل کر دئے مہر اسکی حرکت پر سٹپٹا گئی ک کیا کر رھے ہیں آپ یہ چھ چھوڑیں کوئی آجاۓ گا مہر نے ارحم کا حصار توڑنے کی کوشش کی ارحم نے گرفت مزید مضبوط کردی مہر کی سانس رکنے لگی اسے ارحم کی گہری نظریں کنفیوز کر رہی تھیں
اہاں چھوڑنے کے لیے نہیں پکڑا اب تو عمر بھر کا ساتھ ہے ہمارا ارحم نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور گلابون کے گجرے نکال کر مہر کے سامنے کیے
مہر نے سوالیا نظروں سے پہلے گجرے پھر ارحم کی طرف دیکھا
ارحم نے مہر کی کلائی کو تھام کے دونو گجرے اسے پہنا دئے سرخ گجرے مہر کی دودھیہ کلائییوں میں بہت جچ رھے تھے مہر نے ایک نظر ان گجروں پر ڈالی
پھر ارحم کی گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کرنے لگی ارحم نے گرفت مزید مضبوط کرکے مہر کو قریب کیا پھر اس کے کان کے قریب ہوکے دھیرے سے گویا ہوا
❤❤بس اتنی سی میری محبت ہے ❤❤
❤❤میری خوائش بس تو ہے ….❤❤
ارحم نے گرفت ڈھیلی کی اور مہر سے الگ ہوا مہر کی پیشانی پر اپنے ہونٹ رکھ دئے اور کمرے سے باہر نکل گیا
یہ کیا تھا مہر خود سے ہم قلام ہوئی
اف پپتا نہیں کیا ہے یہ بندا پل میں تولا پل میں ماشا ہونہ
مہر اکتا کے بولی
مہر نے کلائی کو قریب کرکے ان گجروں کو دیکھا پھر نرمی سے اپنے ہونٹ ان گجروں پر رکھ دئے وہ دھیرے سے مسکرا دی
پھر سر جھٹک کے تیار ہونے لگی
اسنے بالوں کی فشٹیل بنائی ماتھے اور سنہیرے رنگ کا مانگ ٹیکا پہنا جس پر سرخ چھوٹے چھوٹے جگر جگر کرتے ہیرے لگے تھے
پتلی چین اور چھوٹے سے جھمکے کانوں میں پہنے
آنکھوں میں گہرا کاجل اور سرخ رنگ کی لپسٹک لگا کے مہر نے ایک نظر خود کو آئینے میں دیکھا تو ایک لمحے کے لیے اسے خود کو دیکھ کے حیرانی ہوئی
مہر نے ڈریسنگ ٹیبل پر پڑی سرخ اور سنہیری چوڑیون کو دیکھا پھر انھیں باکس میں رکھ دیا اور موبائل نکال کے کلائی میں پہنے گجروں کی سلفی نکال کر واٹس اپ پر پروفائل پکچر لگا دی
ارحم بے قراری سے بار بار اوپر کی طرف دیکھ رہا تھا پر ابھی تک مہر نہیں آئ تھی تھک ہار کر اسنے سر جھٹکا
آخر مہر نے ارحم کا انتظار ختم کیا اور نیچے دلہن کو ایک سائیڈ سے پکڑے آ ہی گئی
ارحم بس اسے دیکھتا ہی رہا بنا پلک جھپکے وہ بہت زیادہ حسین لگ رہی تھی ارحم نے پہلی بار ایسا حسن دیکھا تھا وہ تو مہر کا مزید دیوانہ ہوگیا
نکاح پڑھایا گیا سب ایک دوسرے کو نکاح کی مبارک دے رھے تھے ارحم نے بھی اپنا دماغ ڈورایا اور مہر کو گلے لگا کے مبارک بعد دی مہر اسکی حرکت پر ہکابکا رہ گئی شکر تھا کے سب آپس میں ملنے میں بزی تھے مہر نے ارحم کے پاؤں پر زور سے پاؤں مارا ارحم کی چیخ برامد ہوئی
ریحان وہ سب بہت مزے سے دیکھ رہا تھا مہر نے کھا جانے والی نظروں سے ارحم کو دیکھا اور پیر پٹخ کے چل دی
اہم اہم جناب اپنے حواسون پر تھوڑا کنٹرول رکھیں یہ سب اپ اپنے روم میں کر لیا کریں ریحان نے ہنسی دبا کر ارحم کو چھیڑا ارحم نے اسکے پیٹ میں کہنی ماری
اف ظالم بھابھی پوچھے تجھ سے ریحان پیٹ سہلا کر بولا
نکاح خیر و عافیت سے ہوگیا تھا مہر بیٹا چلیں تحمینا بیگم نے مہر کو متوجہ کیا
جی امی چلیں تحمینا بیگم کو ارحم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں دوسری گاڑی میں جانے کی التجا کی تحمینا بیگم کو اسکے انداز پر ہنسی آئ
مہر بیٹا آپ ارحم کے ساتھ چلی جائیں
مہر انکو دیکھنے لگی لے لیکن امی مجھ آپ کے ساتھ چلنے میں کوئی مسلہ نہیں ہے میں چلتی ہوں نا آپ کے ساتھ مہر منمنائی
اتنے میں ارحم نے آکے مہر کے کندھے کے گرد بازو حائل کیے مہر اسکی حرکت دیکھ کے ارحم کو گھور نے لگی
امی آپ جائیں ہم آ جائیں گے
تحمینا بیگم خلیل صاحب کے ساتھ روانہ ہوگئیں
یہ کیا بدتمیزی ہے مہر نے دانت پیس کے کھا
ارحم نے سرد آہ بھری کیا کریں موہترما آپ پیار بھی تو نہیں کرنے دیتی ہیں ارحم مہر کے سامنے جھکا مہر پیچھے ہٹی
میں آپ کے ساتھ گاڑی میں نہیں بیٹھونگی ہونہ
ٹھیک ہے پھر ہم آپ کو خود گاڑی میں بیٹھائینگے
ارحم مہر کی جانب بڑھا مہر کو تو کچوکے لگ گئے
وہ تیز تیز چلتی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی
ارحم اسکی اس حرکت پڑ سلگ کر رہ گیا
ارحم نے فرنٹ سائیڈ کا دروازہ کھولا اور بیٹھ گیا مہر نے رخ موڑ لیا بیوی صاحبہ آگے آخر بیٹھنے کی زحمت کریں ارحم کو شرارت سوجہی
مہر رخ موڑ کے بیٹھی رہی
آجاۓ آگے ارحم منمنایا جی نہیں مجھے ایسا کوئی شوق نہیں مہر نے دانت پیس کے کہا
اچھا پھر ہم ہی آجاتے ہیں پیچھے ویسے بھی پیچھے بیٹھنے کا یہ بھی فائدہ ہے کی پیچھے کا منظر کسی کو نظر نہیں آئے گا ہے نا ارحم نے ابرو اچکا کے کہا
مہر کو مانو ارحم کی بات پڑ سانپ سونگھ گیا ہو وہ چپ چاپ فرنٹ سیٹ پڑ بیٹھ گئی
ارحم نے مہر کو چھیڑنے سے گریز کیا وہ پورا راستہ ارحم کے بولنے کا انتظار کرتی رہی اسے لگا ارحم آج اسے معافی مانگ کر مانا لگا وہ اسے زیادہ تنگ بھی نہیں کرتی کیوں کے اب اس کے لیے اجنبیون کی طرح رہنا مشکل ہورہا تھا ارحم کچھ نہیں بولا مہر نے بھی بات خاموشی اختیار کرلی پورا راستہ وہ بھاگتے ڈورتے منظرون کو دیکھتی رہی
گاڑی گھر کے سامنے رکی ارحم نے مہر کی سائیڈ کا دروازہ کھولا مہر نے کوئی ریایکٹ نہیں کیا بس چپ چاپ اپنے روم میں آ گئی
کپڑے چینج کرکے وضو کرکے عشاء کی نماز پڑھی
ارحم بھی نماز پڑھ کے آ چکا تھا
مہر نے جا نماز سمیٹ کر الماری میں رکھ دی اور فرش پر بچھے کارپیٹ پر نیچے بیٹھ گئی کمرے میں ہیٹر آن تھا جس کی وجہہ سے سردی کم تھی مہر نے دوپٹہ شانوں پڑ پھیلا دیا اور صوفے سے سر ٹکا لیا اور آنکھیں بند کرکے تسبیح پڑھنے لگی
ارحم فرش ہوکے جب واشروم سے آیا تو مہر کو ایسے بیٹھے دیکھا تو ٹھٹھک گیا اسنے دروازہ بند کیا پر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا مہر کے ساتھ نیچے فرش پر بیٹھ گیا ارحم کا رخ مہر کی طرف تھا وہ دونو آمنے سامنے بیٹھے تھے مہر کو کسی کی موجودگی کا احساس ہوا اسنے جھٹ سے آنکھیں کھولیں ارحم اسکے بہت قریب بیٹھا تھا
مہر نے اٹھنے لگی ارحم نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا اسکے مہر کے ہاتھ گرم تھے ارحم نے اسکا ہاتھ دھیرے سے دبایا
اور اسکو بیٹھنے کا اشارہ کیا اسکے اشارے میں کچھ ایسا تھا کے مہر نے بنا چوں چڑان کیے بیٹھ گئی
وہ دونو خاموش تھے ارحم لفظوں کو ترتیب دینے لگا مہر بھی خاموش تھی وہ بس ارحم کو سننا چاہتی تھی
ایک طویل خاموشی کا وقفہ ٹوٹا ارحم نے بولنے کے لیے لب کھولے
مہر کو اسکی چپ بے قرار کر رہی تھی
تمہیں پتا ہے مہر جب حضرت آدم اور بیبی ہوا کو اللہ پاک نے ایک دوسرے سے جدا کر دیا تھا تو امان ہوا اور بابا آدم نے کیا کیا تھا ارحم خاموش ہوا
تب ان دونو نے توبہ کی تھی پھر اللہ پاک نے انکی توبہ قبول کی اور ان دونو کو پھر سے ملا دیا
تمہیں پتا ہے کس چیز نے ان دونوں کے فاصلے کو ختم کیا تھا
توبہ نے دو سالوں سے میرے ساتھ صرف میں تھا میرا پشتاوہ اذیت اور تنہائی تھی مجھ بھی شیطان نے بھٹکا دیا تھا میں اس رشتے میں سکوں ڈھونڈھنے چلا تھا جس میں رسوائی کے سوا کچھ نہیں تھا میں تم سے دستپرس ہوگیا تھا پھر پتا ہے مجھے تمہیں چھوڑنے کی کیا سزا ملی ……؟؟؟؟
مجھے یہ سزا ملی کے اللہ نے مجھ پر تمہارے لیے محبت مسلط کردی…. ارحم کی آواز بھراگئی پھر مینے بھی توبہ کی اور میری توبہ اللہ نے قبول کرکے تمہیں مجھسے ملا دیا اگر اللہ معاف کر سکتا ہے تو تم بھی مجھ معاف کردو نا مجھ رہا کرو نا اس پشتاوے سے ارحم نے اسکے ہاتھ کو مضبوطی سے تھام لیا …..مہر نے جو آنسوں کب سے روکے رکھے تھے وہ پلکوں کی حدود کو ٹور کر بہ گئے ….
تمہیں پتا ہے ارحم کے تمہارا مسلہ کیا ہے ؟؟؟؟
مہر نے رندھی ہوئی آواز میں کہا تمہارا مسلہ یہ ہے کی مجھ سے پہلے بھی تم کسی اور سے محبت کر چکے ہو جب کے میرا مسلہ یہ ہے کے میری پہلی محبت بھی تم ہو اور …..میری آخری محبت بھی تم ہی ہو مہر کے آنسوںون میں روانی آ گئی
ارحم نے اپنا جھکا ہوا سر اٹھایا معاف نہیں کروگی اگر نہیں کرسکتی تو مجھے سزا ہی دے دو ارحم نے مہر کے دونو ہاتھ تھام لیے مہر کے ہاتھ ارحم کے بہتے آنسوؤں سے بھیگ گئے آنسوں ارحم کی آنکھوں سے بہے تھے لیکن انکا اثر مہر کی روح پر ہوا تھا وہ کیسے اسے معاف نا کرتی محبت جو اسکی کمزوری بن گئی تھی آخر کیسے وہ اپنے محبوب کو یوں اذیت میں دیکھتی کیسے ؟؟؟
ارحم مینے آپ کو معاف کر دیا ہے میں آپ کو معاف کیسے نا کرتی میں …..میں آج بھی آپ……….. آپ سے ہی محبت کرتی ہوں مہر روتے ہوے بولی ۔۔۔۔۔
وہ دونو ہی خاموش تھے بس آنسوں تھے جو انکی آنکھوں سے بہ رہے تھے ارحم نے خود کو سمبھالا
مہر ابھی بھی رو رہی تھی ارحم نے مہر کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لیکر انگلیون کی پروں سے مہر کے آنسوں صاف کیے
سوری ارحم مہر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوے گویا ہوا
جواب نادرد””
مہر معاف کردو ارحم نے التجا کی
مہر نے آنسوں صاف کیے …..ایک شرط ہے میری مہر بھیگی آواز میں بولی
سو شرطیں بولو میری جان ارحم نے محبت سے چور لہجے میں کہا
میری شرط یہ ہے کے آپ ہمیشہ مجھ سے ہی محبت کرینگے چاہے آپ کی پہلی محبت واپس کیوں نا آجاۓ کچھ بھی ہو جاۓ آپ میرے علاوہ کسی اور کو اپنی زندگی میں نہیں آنے دینگے صرف مجھ سے محبت کرینگے مہر نے لاڈ سے کھا
ارحم کی ہنسی چھوٹ گئی
مہر نے ارحم کو گھورا
اچھا بابا سوری ارحم نے کان پکڑ کر کہا
مہر ارحم نے مہر کو قریب کیا
میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں بہت عیب ہیں مجھ میں بہت غلطیاں کی ہیں مینے مہر کیا تم مجھے میری خامیوں غلطیوں اور عیبون کےساتھ قبول کرنے کو تیار ہو ارحم نے آس بھری نگاہ سے مہر کو دیکھا
مہر نے کچھ نہیں بولا بس اثبات میں ہلایا
ارحم نے مہر کو خود میں بھینچ لیا مہر اپنا اختیار کھو بیٹھی اور دل کھول کر ارحم کے سینے سے لگی رونے لگی
اب بس بھی کرو مہر کب تک ٹھنڈے فرش پر ایسے بیٹھا کر رکھو گئی ارحم نے مہر کے بال سہلا تے ہوے کہا
مہر ارحم سے الگ ہوئی اب رووں بھی نا میں مہر نے خفا ہوتے ہوے کہا
میں تمہیں اب کبھی رونے نہیں دونگا مہر تمہارے رونے سے مجھ تکلیف ہوتی ہے ارحم نے مہر کے گال پر بوسہ دیا
اوفو یہ بار بار چمییاں دینے کی فضول عادت کو تو پہلے ختم کریں مہر نے ارحم کو گھوری دکھائی
ہاہاہاہاہا نائیس ورڈ چمییاں ارحم ہنسنے لگا
مہر اٹھ کے بیڈ پر منہ پھلا کر بیٹھ گئی
ارحم مزید ہنسنے لگا
پھر اٹھ کے مہر کے پاس گیا وار اسکی گود میں سر رکھ دیا
مہر اسکے بالوں میں انگلییاں پھیرنے لگی ارحم نے مہر کا ہاتھ تھام کر اپنے ہونٹوں سے لگایا
کچھ بھی کرنا بس مجھے کبھی دور نا جانا مہر میں میں نہیں رہ پاؤنگا
میں آپ کو چھوڑ کے جانا بھی نہیں چاہتی مہر نے صدق دل سے کہا
ارحم اٹھا اور مہر کی پیشانی پر محبت کے پھول چھوڑ دئے ایک حسین رات ان دونو کے بیچ گزری
مہر مہر اٹھ جاؤ کتنا سوتی ہو تم ارحم نے کوئی دسویں مرتبہ مہر کا شانہ ہلایا مہر بھوکھلا کے اٹھی کیا ہوا کون مار گیا کیا قیامت آ گئی مہر بھوکھلا کر ادھر ادھر دیکھ کر بولی
قیامت نہیں آئ ٹائم دیکھو کتنا ہوگیا ہے کتنا سوتی ہو تم اب اٹھنے کی زحمت کرو امی والے سب ریڈی ہیں ریحان بھی آگیا ہے بس تم ہی ریڈی نہیں ہو
ارحم نے گھڑی پہنتے ہوے کہا
مہر جلدی سے وارڈروپ کی طرف بھاگی سکائی بلیو کلر کا سوٹ زیب تن کر کے باہر آئ ارحم روم میں نہیں تھا
مہر نے ہلکا سا کاجل لگایا اور لپسٹک لگا کے باہر آ گئی سب لوگ نکلنے کے لیے ریڈی تھے
گاڑی اپنے سفر کو پوھنچی ریحان اور ارحم آگے جب کے مہر پیچھے بیٹھی ہوئی تھی
بھابھی آپ بات سمبھال تو لینگی نا سب ریحان کو فکر لاحق ہوئی
آپ فکر نا کریں بھائی نا کی کوئی وجہہ ہی نہیں بنتی ویسے بھی میرے بھائی کسی سے کم تھوڑئی ہیں مہر نے چہک کر کہا
ریحان کی پریشانی کسی حد تک کم ہوئی
کچھ ہی دیر میں سب لوگ آمنے سامنے بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے
بھائی صاحب اصل میں آج ہم ایک خاص مقصد سے آپ کے پاس آے ہیں امید ہے کی آپ ہمیں مایوس نہیں کرینگے خلیل صاحب نے چائے کا سپ لیتے ہوے کہا
جی جی کہیں کونسا خاص مقصد ہے بھائی حسین صاحب خوش گوار موڈ میں بولے
آپ نے مہر کو ہمارے گھر کی زینت بنا کر ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے ماشاءالله ایسی بہویں اللہ سب کو عطا کرے اب ہم چاہتے ہیں کے آپ اپنی چھوٹی بیٹی حیا کا رشتہ ریحان کے لیے قبول کریں خلیل صاحب نے دو ٹوک بات کی
حسین صاحب نے مدیحہ بیگم کو دیکھا اور ہاں بولنے کا اشارہ کیا
مہر نے ہمیں ساری بات سے آگاہ کر دیا تھا اور حقیقت میں ہمیں بہت خوشی ہے کے اللہ نے ہم پر ایک اور احسان کر دیا ہم میں سے کسی کو بھی اس رشتے سے کوئی اعتراض نہیں ہے ہماری طرف سے ہاں ہی سمجھیں حسین صاحب نے خلیل صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھا
حیا جو ٹرے میں دیگر لوازمات لیکر آرہی تھی اپنے رشتے کی بات سن کر تو سکتے میں آ گئی ریحان نے حیا کو دیکھ کر ابرو اچکاے حیا نے کھا جانے والی نظروں سے ریحان کو گھورا
ایک منٹ ایک منٹ بابا آپ کو کس نے کھا کے میں اس بکھڑ سے شادی کرونگی ہونہ مجھ نہیں کرنی ایسے بکھڑ سے شادی حیا نے سینے پر بازو بباندھ کر بے نیازی سے کہا
مدیحہ بیگم اور عروہ نے حیا کو آنکھ دکھائی حیا یہ کیا بات ہوئی مہر نے اسکے کان میں سر گوشی کی
حیا بنا کچھ کہی روم میں چلی گئی
معذرت چاہتے ہیں حیا ایسی ہی ہے مدیحہ بیگم نے بات سمبھالی خلیل صاحب اور تحمینا بیگم ہنس پڑے
کوئی بات نہیں آپا دونو کی خوب جمے گئی تحمینا بیگم ریحان کو دیکھتے ہوے بولی جو کے حیا کے ریایکٹ پر ہکا بکا ہوئے بیٹھا تھا
بہی تم لوگ جانوں اب کے کیسے حیا کو منانا ہے خلیل صاحب نے سب کی طرف دیکھتے ہوے کا
مہر اور ارحم اٹھ کر حیا کے کمرے میں چلے گئے
یہ کیا کر کے آئ ہو تم باہر مہر نے کمر پر ہاتھ رکھتے ہوے حیا کو جھاڑا
تم اس بکھڑ کی سائیڈ مت لو مہر تمہیں پتا ہے میری پوری بھری ہوئی پلیٹ اس نے اچک لی تھی ہونہ آیا بڑا مجھسے شادی کرنے
حیا نے برا سا منہ بنایا
آپ کیا دانت نکال رھے ہیں سمجھایں نا اسے مہر نے ارحم کی طرف دیکھتے ہوے کہا
میں نہیں ریحان سمجھاۓ گا اب حیا کو ارحم نے دروازے کی طرف دیکھتے ہوے کہا
دروازے پر ریحان کھڑا تھا
آگیا شوخا حیا نے منہ بسورا
آہم آہم اتنی برائی ہماری ریحان حیا کے قریب آتے ہوے بولا ارحم اور مہر کمرے سے جا چکے تھے
حیا نے رخ موڑ لیا
حیا ایک بات کہوں ریحان نے جھکی ہوئی نظروں سے کہا ۔
حیا کا دل کیا کہ دے بکو لیکن خاموش رہی
رات کو روز میں اپنے لیے جب چائے بناتا ہوں نا تو اکثر میرا ایک کپ بچ جاتا ہے مجھ بے حد افسوس ہوتا ہے جب جب میں اپنے لیے گول گپے لاتا ہوں وہ بھی بچ جاتے ہیں اور بریانی تو مجھسے پوری کبھی کھائی ہی نہیں گئی ریحان نے ہنسی دبائی
میں چاہتا ہوں کے اب ایسا نا ہو حیا کیا تم وہ ایکسٹرا کپ جو بچ جاتا ہے وہ تم پیو حیا کیا تم میرے ساتھ پوری عمر چائے پیو گئی؟ آئ پرومس کے میں ہی ہمیشہ چائے بناؤںگا ریحان منمنایہ
حیا کا قہقا چھوٹ گیا پھر ہنسی تو ہنستی چلی گئی
مہر اور ارحم جو دیوار سے کان لگاے کھڑے تھے دونو کی جان میں جان آئ دونوں نے سکھ کا سانس لیا
حیا نے ریحان کے لیے ہاں کردی تھی سب لوگ بہت خوش تھے مہر اور ارحم کی زندگی میں بھی خوشیوں نے بالاخیر رخ کر ہی لیا تھا ٹھیک دس دیں بعد ریحان اور حیا کی شادی تھی ریحان تو اتنے دنو کا سن کر ہی چکرا گیا اس کا بس نہ چل رہا تھا کے ارحم کا گلہ دبا دے جس نے شادی دس دن بعد کرنے کا مشورہ دیا
شادی کی تیاریان عروج پر تھیں مہر تو گھن چکر بنی پھر رہی تھی
مہر بیٹا آپ شادی تک اپنے میکے چلی جائیں وہاں پر آپ کی ضرورت ہوگی یہاں پر ہم سب سمبھال لینگے تحمینا بیگم نے مہر سے چائے کا کپ لیتے ہوے کھا
لیکن امی ارحم نہیں جانے دینگے نا مہر نے مشکل ظاہر کی
کچھ نہیں ہوتا تم جاؤ میں دیکھ لونگی ارحم کو مہر خوش ہو گئی
شادی میں صرف ایک ہی رہ گیا تھا مہر روم میں فریش ہوکے آئ تو ارحم کڑی نظروں سے مہر کو دیکھ رہا تھا کہاں جانے کی تیاری ہو رہی ہے ؟؟؟
اپنے گھر ویسے بھی یہاں اور تو سب سیٹ ہے کچھ دیں وہاں بھی رہ کر رلیکس ہوجاؤں گئی نا مہر نے بیگ اٹھاتے ہوے کھا
تم ایسے کیسے جا سکتی ہو مہر ارحم اسکے راستے میں حائل ہوا
ایسے مطلب اپنے پیروں سے اور کیسے مہر نے ارحم کی بات کا مذاق اڑایا
مہر چلی گئی ور ارحم مٹہیاں بھینچ کر رہ گیا
بالا خیر شادی کا دن بھی آ ہی گیا حال کو بہت خوبصورتی سے دیکوریٹ کیا گیا تھا ہر طرف خوش گوار ماحول تھا اف یہ جھمکے بہت بڑے ہیں ہاے یہ لپسٹک تو ڈارک مت لگاؤ ایسا نا ہو کے میرا میاں مجھے چڑیل سمجھ لے حیا نے بیوٹیشن کو خوب زچ کیا بہت مشکل سے حیا کا پورا مکیپ پورا ہوا حیا نے ڈیپ ریڈ لہنگا زیب تن کیا ہوا تھا جب کے ریحان نے وائٹ شلوار کمیز پر ریڈ واسکٹ پہنی ہوئی تھی شادی کی تقریب سادگی سے رکھی گئی تھی کیوں کے آج کے دن ریحان کے والدین کی برسی تھی صرف جاننے والوں کو ہی شادی میں بلایا گیا تھا
ان دونو کا نکاح شام کو ہوگیا تھا ابھی رخصتی کا ٹائم تھا مہر حیا کے ساتھ پورے دن سر کھپاتی رہی ارحم بھی مہر سے سخت ناراض تھا مہر نے بھی مہرروں اور گولڈن رنگ کا لہنگا پہنا ہوا تھا آج ارحم کا برتھڈے تھا اور مہر نے ارحم کے لیے دلہن والا مکیپ کیا تھا پر وہ دشمن جان تو اسکی طرف دیکھ ہی نہیں رہا تھا مہر کو ارحم پر خوب غصہ آیا
ریحان اورحیا کو ایک ساتھ بٹھایا گیا فوٹوشوٹر نے انکی بہت سی تصاویر لیں حیا دلہن بنی بہت خوبصورت لگ رہی تھی روپ تو اس پر ٹوٹ کے آیا تھا ریحان کا تو بس نہیں چل رہا تھا اسنے تو اپنی شادی میں خود ہی بھنگڑے ڈال کر سب کو خوب ہنسایا
ریحان نے اسٹیج سے نیچے اتر کر حیا کی طرف ہاتھ بڑھایا حیا نے مسکرا کر ہاتھ تھام لیا
ان دونو نے بہت ہی خوبصورتی سے کپل ڈانس کیا حیا تو شرما ہی گئی سب نے ان دونوں کی دائمی خوشیوں کی دعا کی
ارحم سب سے خوش گپییوں سے بات کر رہا تھا لیکن جب بھی مہر بات کرتی یا تو وہاں سے چلا جاتا یا پھر موبائل میں گھس جاتا
مہر کو تنگ کرنے کا آج اسنے عزم کر لیا تھا مہر خوب زچ ہوئی تھک ہار کر ایک سائیڈ پر بیٹھ گئی اچانک اسکی آنکھوں میں چمک ابہری
ناؤ پلیز گیو آ بگ ہینڈس فور برائیڈس سسٹر
مہر اسٹیج پر کھڑی تھی ڈی جے نے گانا چلایا سب مہر کی ڈانس کی طرف متوجہ تھے حیا بھی اٹھ کر مہر کے ساتھ کھڑی ہوگئی
ون ٹو تہری
ایک ٹو ہینڈ سم سوڑان سب سے میرے دل کو گیا لیکر
میری نیند چرا لی اسنے اور خواب گیا دے کر
اب ٹو نینا بولے یار بولے یہی لگاتار کوئی چاہے کتنا روکے کرونگی پیار میرے سائیاں سوپر سٹار میرے سائیاں سوپر سٹار میں فین ہوئی انکی میرے سائیاں سپر سٹار مہر اور حیا کے ڈانس نے سب کو حیران کر دیا ریحان اور ارحم کا تو منہ ہی کھل گیا اتنا خوب صورت ڈانس سب نے ان دونو کو خوب سرہایا
ایک تو پہلے سے ہی مہر سجی سنوری ارحم کی دھڑکن کو بڑھا رہی تھی اوپر سے اتنا خوب صورت ڈانس ارحم تو مہر کا مزید دیوانہ ہوگیا
رخصتی کا وقت آیا تو حیا ایسا روئی کے سب کی آنکھیں نم ہوگئیں ڈھیر ساری دعاؤں کے ساتھ حیا کو رخصت کیا گیا حسین صاحب نے حیا کو ہمیشہ خوش رکھنے کی ریحان کو نصیحت کی
ارحم ابھی بھی خاموش تھا کیوں کے مہر اسکے ساتھ نہیں آئ تھی اسکا غصہ ساتویں آسمان کو چھو رہا تھا اس کا بس نہ چل رہا تھا
وہ گھر پوھنچا اور فریش ہونے واشروم چلا گیا واپس آیا تو کمرے میں گھپ اندھیرا تھا کچھ نظر نہیں آرہا تھا ارحم کو کچھ سمجھ نہیں آیا
ارحم آگے بڑھا اچانک سے ڈھیر ساری مومبتیاں کمرے میں جل اٹھیں سامنے ہی موم بتیون کے بیچ ایک چھوٹا سا کیک رکھا تھا خوبصورت پھولوں سے دل بنا ہوا تھا جس کے بیچ میں آئ لوو یو ارحم لکھا ہوا تھا
اس سے پہلے ارحم کچھ سمجھتا کسی نے اسکی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا مہر ارحم کے کان کے نزدیک آئ ہیپی برتھڈے مائے لوو مہر نے سر گوشی کی مہر نے جیسے ہی ہاتھ اٹھایا کمرہ روشنی میں ناہا گیا
مہر ریڈ کلر کی ساڑھی میں مبلوس تھی ہلکا سا نائٹ مکیپ ریڈ لپسٹک لگائی وہ ارحم کے دل میں اتر رہی تھی
ارحم کا سارا غصہ ختم ہو گیا اسکی محبت مہر کے لیے مزید بڑھ گئی تھی
مہر نے ایک بڑا سا خوبصورت کارڈ ارحم کو تھمایا سامنے دیوار پر مہر کی اور ارحم کی بہت سی پکچرز کو ایڈٹ کر کے ایک بڑے سے فریم میں قید کر کے لگایا گیا تھا وہ لمحے جو ارحم اور مہر کے تھے
ارحم نے کیک کاٹا مہر کو کھلایا پھر مہر نے ارحم کو کھلایا
تمہیں میرا برتھڈے یاد تھا ارحم مہر کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گیا
مہر نے جواب نہیں دیا بس سر ارحم کے سینے پر رکھ دیا
مہر ایک بات پوچھوں؟؟؟ ارحم نے مہر کے گرد بازو حائل کر دئے
جی مہر نے صرف اتنا ہی کھا ۔۔۔۔۔
تم مجھے کبھی چھوڑ کر تو نہیں جاؤگی نا ؟؟!
نہیں میں آپ کو چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی ارحم
مہر نے محبت بھرے لہجے میں کھا
ہاے یہ محبت قسم سے جان لے لیگی میری ارحم نے ڈائلاگ مارا
مہر نے ارحم کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا مرنے مرانے کی باتیں نا کیا کریں مہر نے تہںبیہ کیا
ارحم نے مہر کے ہاتھ کو ہونٹوں تک لیجا کر بوسہ دیا
بہت سردی لگ رہی ہے مجھ مہر نے بلنکٹ اوڑھتے ہوے کہا ارحم نے اسے خود کے قریب کیا کوئی بات نہیں میں ختم کر دونگا سردی ارحم نے معنی خیز نظروں سے مہر کو دیکھا مہر نے شرم کے مارے منہ ارحم کے سینے میں چھپا لیا ارحم نے اسے خود میں بھینچ لیا
حیا میں تمسے محبت کرتا ہوں کیا تم مجھے محبت کرنے کا اختیار دیتی ہو ریحان نے محبت پاش لہجے میں حیا کو دیکھتے ہوے پوچھا
میں آپ کو ہر اختیار دیتی ہوں ریحان ریحان نے حیا کے ماتھے پر بوسہ دیا اور اپنے ساتھ لگا لیا
میں تمسے محبت کرتا ہوں حیا آئی رئیلی لوو یو
لوو یو ٹو میرے چائے والے محرم ریحان کا ققا بلند ہوا ❤❤❤❤❤
میری خوائش بس تو
میری جستجو بس تو
جو دکھوں تو تو ہی تو جو سوچوں تو تو ہی تو
جب جب مانگوں دعائیں میں
میری دعاؤں میں شامل بس تو
کہنے کو تو یہ محبت بہت خوب صورت ہے
لیکن اس محبت کی خوبصورتی بس تو
میری خوائش بس تو
میری جستجو بس تو
ختم شد