(Last Updated On: )
شایان صوفے پر بیٹھے موبائل چلا رہا تھا کہ اسے کوئی میسج آیا۔”ہائے”
شایان نے دیکھا کہ کسی پریٹی اریبہ کا میسج آیا ہے اس نے بھی سامنے سے ہائے کیا۔
“کیسے ہیں آپ” سامنے سے میسج آیا۔
“ٹھیک اور آپ؟”
“میں بھی ٹھیک”
” کیا میں آپ کو جانتا ہوں۔”
“نہیں لیکن میں آپ کو جانتی ہوں”
“کیسے؟”
“کل آپ جب اپنے کسی دوست یا رشتیدار کے ساتھ ریسٹورینٹ آئے تھے وہیں آپ کو دیکھا اور نام پتہ چلا بڑی مشکل سے آپ کا اکاؤنٹ ملا۔”
شایان کل سعد کے ساتھ ریسٹورینٹ گیا تھا لیکن اسے یاد نہیں کے کوئی لڑکی اسے دیکھ رہی تھی اسے تو بس یہ یاد ہے کہ اس کے قریب کچھ لڑکوں کی ہی ٹیبل تھی
“جی میں اپنے بھائی کے ساتھ ہی آیا تھا لیکن آپ نے مجھے ہی کیوں میسج کیا.” شایان نے میسج کیا۔
“دراصل میں نے جب آپ کو دیکھا تو لگا کہ آپ سے دوستی کرنی چاہیے”
“لیکن پہلے آپ مجھے اپنے بارے میں کچھ بتائیں”
“میرا نام اریبہ ہے میں بیوٹی پالر میں کام کرتی ہوں، میری آٹھ بہنیں ہیں میں نے انٹر کیا ہے اور دو سال بیوٹیشن کا کورس کیا اب چند ماہ سے پارلر میں کام کر رہی ہوں” اریبہ نے ساری تفصیلات دی۔
“آٹھ بہنیں؟”
“ہاں”
“چلو اچھا ہے بھائی نہیں ہے”
“ہاہا اچھا ویسے آپ کچھ اپنے بارے میں بتائیں”
شایان نے بھی ساری تفصیلات دی
“تو دوستی پکی” سامنے سے میسج آیا۔
“ہاں” شایان نے بھی میسج کیا۔
___________
سعد نے نور سے لسی کی خواہش ظاہر کی۔ رانیہ جو فضاء کے گھر جانے کے لئے تیار تھی نور نے اس پر ،ذمیداری ڈال دی۔
“پر امی میں تو فضاء کے گھر جا رہی ہوں”رانیہ نے کہا۔
“چپ کرو اور جو بولا ہے وہ کرو” نور نے اسے غصے سے کہا۔
“نہیں امی میں نہیں بنا رہی ہوں”
“سیدھا بناؤ ورنہ ایک ہفتے تک گھر سے باہر جانا بند”
“اچھا بناتی ہوں” رانیہ نے غصے سے کہا
سعد کی ہنسی نہیں رکے رک رہی تھی اور وہ اسے غصے سے دیکھ کر چلی گئی۔
رانیہ نے لسی بنائی اور ایک گلاس میں لال مرچیں ڈالی اور پھر لسی ڈالی اس نے سب کو گلاس دیے اور اسپیشل گلاس سعد کو دینے چلے گئی
“یہ لو اپنی لسی” رانیہ نے گلاس پٹختے ہوئے کہا۔
“احسان نہیں کیا ہے کوئی” سعد نے بھی اسی انداز میں کہا۔
“کچھ زیادہ ہی شوق نہیں ہو رہا تھا لسی کا”
“ہو تو رہا تھا لیکن اب دل نہیں کر رہا کہیں ایسا نہ ہو تمھاری کرواہٹ بھی اندر چلی گئی ہو”
“نہیں اس میں صرف زہر گیا ہے”
“اگر عام زہر ہوگا تو زندہ بچ جاؤں لیکن اگر تمھاری زبان کا ہوا تو مات واقع ہے”
“فکر مت کرو ڈھیٹ لوگ جلدی سے نہیں مرتے”
“تبھی تم اب تک زندہ ہو”
“ویری فنی سیدھا اسے پی لو ورنہ تمھارے منہ پر پھینک دوں گی”
“ہاں تو تم یہاں سے رفع دفع ہو”
رانیہ منہ بگاڑ کر چلی گئی۔
سعد نے جلدی میں لسی ایک ساتھ پیلی اور پھر مرچی کا احساس ہوا۔
“آہ آہ مرچی” اس نے جلدی سے پانی پیا لیکن جب احساس ختم نہ ہوا اس نے فرج سے پانی کی بوتل نکال کر پانی پیا اور پھر منہ میں چینی ڈالی جبکہ سب حیران ہوئے
“کیا ہوا سعد بیٹا” نور نے پوچھا
“لسی تیکھی تھی” سعد نے جواب دیا۔
“تیکھی۔۔”شایان نے حیرانی سے پوچھا۔
“ہاں”
“ہم سب کی تو میٹھی تھی”
سعد نے حیرانی سے رانیہ کو دیکھا اور اس کا کھیل سمجھ گیا۔
“نہیں تیکھے لوگوں کو دیکھ کر چیزیں بھی تیکھی ہو جاتی ہے”
“سہی بات ہے” رانیہ نے اسے تالی ماری
سعد غصے میں وہاں سے چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل سب کا کراچی لوٹنے کا پروگرام طے ہوا عینی باجی نے آنے سے منع کردیا کیونکہ ان کی ساس کی طبیعت ناساز تھی اس لئے آج سب شاپنگ پر گئے۔
عرش اور فارس کی تو ایک گھنٹے میں شاپنگ مکمل ہوچکی تھی لیکن دو گھنٹے ہونے کو آئی لڑکیوں کے ہاتھ میں تو ایک شاپنگ بیگ بھی نہ تھا۔ ان دونوں نے پلے ایریا میں ٹائم پاس کیا، کھانا بھی کھایا اور فارس نے تو باقاعدہ کئی لڑکیوں سے دوستی بھی کی لیکن لڑکیوں کی شاپنگ اپنے اختتام تک نہ پہنچ سکی اس لئی اب وہ ان کے پاس ہی آگئے عینی آپی اپنی اور حسان کی شاپنگ کر رہی تھی جبکہ کنیز اپنی شاپنگ میں مصروف تھی۔
“عرش جاکر آگے دکانوں میں دیکھو نمرہ شاپنگ کر رہی ہوگی اسے پیسوں کی ضرورت ہوگی تم اس کی مدد کرو” اور عرش جی بولتا وہاں سے چلا گیا۔
نمرہ دکان میں اسکارف پسند کر رہی تھی۔
“وہ والا دکھانا” نمرہ ایک جانب اشارہ کرتے ہوئے بولی۔
“میڈم آپ کو پچھلے آدھے گھنٹے سے مختلف اسکارف بتا رہے ہیں اور آپ کو پسند ہی نہیں آ رہے” دکاندار نے پریشانی سے کہا۔
“ہاں تو کوئی اسکارف اچھا ہے ہی نہیں”
“تو آپ کسی اور دکان سے لے لیں”
“لیکن یہاں پر اسکارف اچھے ہیں”
“آپ ایک بات کریں”
“یہاں پر اسکارف اچھے ہیں لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہا کون سا خریدوں” نمرہ نے پریشانی سے بولا۔
عرش یہ سب دور سے دیکھ رہا تھا کیونکہ اسے اس کاروائی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
ان کی بات سن کر ایک پٹھان بوڑھا دکاندار آیا۔
“کیا اوا بیٹا ام کو بتاؤ کس طریقے کا اسکاف چاہئیے”
نمرہ نے ان کو اپنے اسکارف کے بارے میں بتایا۔ انھوں نے نمرہ کو کچھ اسکارف بتائے جس میں سے نمرہ کو تین بہت پسند آئے۔
پٹھان انکل نے اسے ایک اور اسکارف بتایا۔
“یہ تم پر بوت اچا لگے گا جب تم اجاب کرے گا”
“لیکن میں تو حجاب کرتی ہی نہیں” نمرہ نے معصومیت سے جواب دیا.
“تم ایک بار کر کے دیکو”
نمرہ نے حجاب کیا اور وہ اس میں بے حد خوبصورت لگ رہی تھی کہ عرش نے بھی اس کی دل میں تعریف کی۔
اس نے حجاب اتارا اور اسے بھی پیک کروایا کہ اچانک نظر ایک طرف لٹکے پشتوں ڈوپٹوں پر رکی.
“مجھے وہ بھی دکھائیں”
“لیکن وہ تو پشتوں ہے” پٹھان انکل نے کہا
“آں لیکن امیں بی پیننا اے” نمرہ نے بھی اسی انداز میں کہا جبکہ عرش اور دوکاندار حیران ہوا۔
دوکاندار نے اسے دوپٹہ دکھایا اور نمرہ نے وہ دلہن کی طرح پہنا اور عرش بس اسے دیکھتا رہ گیا وہ بغیر پلک جھپکے اسے دیکھے جا رہا تھا۔
“اس کی قیمت کیا ہے”
“آٹھ سو” دوکاندار نے جواب دیا
“آٹھ سو اتنا مہنگا نہیں چاہئیے انکل” نمرہ نے دوپٹہ واپس دے دیا۔
عرش اس کی حرکت پر مسکرا رہا تھا کہ پیچھے سے آواز آئی۔
“کب سے کہہ رہا ہوں سائیڈ پر ہو تاکہ میں جا سکوں لیکن تم تو غیر لڑکی کو دیکھنے میں مگن ہو شرم تو آتی نہیں”
“غیر نہیں بیوی ہے میری” عرش نے سائیڈ پر ہو کر کہا۔
“وہ تو دکھ رہا ہے بدتمیز انسان” آدمی کہتا اندر چلا گیا جبکہ عرش اپنی بات پر حیران ہوا کہ پہلی بار اس نے نمرہ کو بیوی کہا۔
عرش نے جا کر نمرہ کی خریدیں ہوئی چیزوں کی رقم ادا کی جبکہ نمرہ حیران رہ گئی کہ یہ ڈریکولا اتنا اچھا کیسے ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“خالہ آپ کا سامان لے آیا”شایان نے سامان اور لسٹ رکھ کر کہا۔
“دیکھاؤ کیا سامان منگوایا تھا” رانیہ نے لسٹ اٹھا کر پوچھا۔
“ویسے حد ہے تنہائی کی تمھاری، اب تم نے فیس بک والے سنگل جیسے کام شروع کردیے۔
“ایسا کیا کیا اس نے” سعد نے صوفے پر بیٹھ کر پوچھا۔
“یہ دیکھو” رانیہ نے اس کو لسٹ دکھائی جہاں دیٹ کے کالم میں لکھا تھا ‘ہاں جلدی چلو’
“حد ہے میں نے بھی یونی کے بعد کسی لڑکی سے بات نہیں کی لیکن پھر بھی تمھاری طرح رو نہیں رہا” سعد بولا۔
“تمھاری کون گرلفرینڈ بنے گی” رانیہ نے اس کی بات کا جواب دیا۔
“کیوں کیا کمی ہے مجھ میں” سعد نے پوچھا
“گرلفرینڈ ہونے کے لئے منہ کی ضرورت ہوتی ہے”
“تو کیا میں ابھی سر کٹا ہوں”
“کاش ہوتے تو تم ذرا دیکھنے کے لائق تو ہوتے”
“ہو گیا چھپکلی”
“چپ کرو چلغوزے کے منہ والے”
“تم نے مجھے کیا کہا”
“سوری یار غلط کہاں تمہیں چلغوزے کے منہ والے نہیں کہنا چاہئیے تھا”
“ہااااں” سعد نے ہاں پر زور دیا۔
“صحیح کیونکہ چلغوزے 5000 کلو ہیں تمھارے تو کوئی دو روپے بھی نہ دے” لگتا نے ہنستے ہوئے کہا
“لگتا ہے رات کو چھپ کے چلغوزے بیچنے جاتی ہو اور ویسے بھی میری کوئی دو روپے کیوں دے لاکھ سے کم کا بندہ نہیں ہوں تمہیں تو یہ بھی پتا نہیں ہوگا کہ لاکھ میں پانچ زیرو ہوتے ہیں” سعد نے فخریہ انداز میں کہا۔
“بچپن میں پڑھا تھا زیرو کی کوئی ویلیو نہیں ہوتی احساس آج ہوا”
رانیہ نے اپنے پاستہ کا پیالہ اٹھاتے ہوئے کہا جس کی خوشبو شایان تک پہنچ گئی۔
“رانیہ اکیلے اکیلے” شایان نے رونی صورت بناتے ہوئے کہا۔
“نہیں چمچ اور کانٹے کے ساتھ” رانیہ نے بھی اسی انداز میں کہا۔
“مجھ غریب کو تو یاد کرو” شایان نے مسکین سی صورت بناتے ہوئے کہا۔
“دیکھنا بھی نہیں ورنہ تمھارا قتل کر دینا ہے اسی سے” رانیہ نے کانٹا دکھاتے ہوئے کہا۔
سعد مسکراہٹ چھپانے میں ناکام رہا اسے یاد آیا کہ کس طرح اس نے آدھا پیکٹ نمک چھپ کے پاستا میں ڈالا تھا.
دونوں کے اس طرح دیکھنے پر رانیہ نے تین بڑے چمچ منہ میں ڈالے لیکن احساس بعد میں ہوا اور منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے بھاگی۔
“اسے کیا ہوا” شایان نے حیرانی سے پوچھا۔
“تیری نظر لگ گئی” سعد نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“کاش پہلے پتا ہوتا میری نظر میں اتنا اثر ہے” یہ کہہ کر شایان پاستا پر لپکا اور پہلے ہی نوالے میں حال بڑا ہوگیا۔
” سچ مچ بہت اثر ہے” وہ منہ پر ہاتھ رکھے کہتے ہوئے بھاگا۔
سعد کو بہت ہنسی آئی اور پھر فریج سے پاستا کا باؤل نکالا جو اس نے پہلے سے ہی الگ کر لیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن سب کراچی کے لئے نکلے عرش، فارس، انوشے اور نمرہ ایک ہی گاری میں تھے۔ نمرہ اور انوشے اپنے ہی باتوں میں مگن تھے جبکہ عرش کا آدھا دھیان نمرہ پر تھا جس کے بال ہائے پونی میں قید تھے اور کچھ بال بار بار چہرے پر آ رہے تھے عرش اپنی حرکت پر خود حیران تھا لیکن آج پہلی بار نمرہ کی باتوں سے عرش نے محسوس کیا کہ وہ بےوقوف نہیں ہاں لیکن تھوری الگ ہے جس میں بچپنا ابھی بھی ہے اور زندگی کو جینے کی آرزو بھی ہے۔
بیچ میں سب ناشتے کے لئے بھی رکے اور پھر کراچی پہنچے۔
___________
شام کو کزنز پارٹی ایک کمرے میں بیٹھی تھی تاکہ میرپور کی تصویریں دیکھ سکیں۔ رانیہ نے لیپ ٹاپ کنیکٹ کیا اور ویڈیو چلائی سب جو میرپور کی تصویریں دیکھنے کے منتظر تھے سامنے ویڈیو میں منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔
ویڈیو میں سعد پاگلوں کی طرح کھجلی کر رہا تھا کبھی ناچ رہا تھا تو کبھی خود کو مار رہا تھا کبھی ہاتھ سے تو کبھی ہینگر سے تو کبھی لیٹ کر ناچ رہا تھا۔ سب کبھی ویڈیو کو دیکھتے، تو کبھی سر جھکائے بیٹھے سعد کو، سب اپنی ہنسی دبانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن پھر رانیہ زور زور سے ہنسنا شروع ہوگئی اور اس کو دیکھ کر سب کی ہنسی چھوٹ گئی۔
“یہ کیا ہے سعد کونسے دوڑے چڑھے تھے” عرش نے ہنسی دباتے ہوئے پوچھا۔
“شاید اس نے دوائی نہیں کھائی تھی” رانیہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
“مجھے لگتا ہے سعد کا بریک اپ ہوگیا تھا اور اس کا سوگ منا رہا تھا” شایان نے بھی اپنی رائے دی۔
“میں بھی اپنے کسی بریک اپ پر اتنا پاگل نہیں ہوا ویسے ایک بات تو بتاؤ یہ خوشی میں تھا یا غم میں” فارس کہاں چپ رہنے والا تھا۔
“ویری فنی” سعد نے غصے میں کہا۔
“مجھے لگتا ہے سعد نے سرکس میں کام کرنا شروع کردیا ہوگا اور یہ پریکٹس کر رہے تھے” نمرہ نے دماغ لگاتے ہوئے کہا
“ویسے سیلری کتنی ہے” رانیہ نے پوچھا۔
“کیوں تمہیں کام کرنا ہے” سعد نے غصے میں کہا۔
“ایسے نہ کہو سعد رانیہ کو تو سرکس والے دیکھ کر ہی رکھ لیں گے اور کہیں گے تم ابھی سے کام شروع کردو ٹیلنٹ کا تو پتا نہیں، ہاں شکل دیکھ کر لوگ ہنس ہنس کر پاگل ہو جائیں گے اور اسے صرف اسٹیج پر کھڑے ہونے کے پیسے ملیں گے” فارس نے ہنستے ہوئے کہا۔
“ویری فنی سرکس میں بندر کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے سعد کو مجھ سے زیادہ پیسے ملیں گے” رانیہ بولی۔
سعد غصے سے کمرے سے چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رانیہ کمرے میں جا رہی تھی کہ سعد نے اس کا راستہ روکا۔
“یہ کیا بدتمیزی ہے ہٹو میرے راستے سے”رانیہ نے غصے میں کہا
“یہ ویڈیو تم نے چلائی تھی” سعد نے بھی غصے میں کہا۔
“ویسے ویڈیو بہت اچھی تھی کھجلی کے پاؤڈر نے اچھا کام کیا”
“تم نے کھجلی کا پاؤڈر لگایا تھا۔”
“ہاں”
“میں تمھارا قتل کر دونگا”
“سوچ لو اگر تم نے کچھ کیا تو میں یہ ویڈیو سب کو دکھادونگی”
“اور کس کو دکھاؤ گی”
“میں یہ تمھاری ویڈیو انٹرنیٹ پر ڈالونگی، سوچو کتنے لوگ دیکھیں گے پچھلی میک اپ والی ویڈیو میں تم پہچان میں نہیں آرہے تھے لیکن اس میں۔۔۔”
“تم ایسا کچھ نہیں کروگی” سعد نے اس کی بات کاٹی۔
“ایک شرط پر کہ تم مجھے میرا کمرہ واپس دے دو گے”رانیہ نے کہا
“بالکل نہیں”
“سوچ لو میں کیا کر سکتی ہوں”
“ٹھیک”سعد بے بسی سے بولا۔
” تو کمرہ خالی کرو”
“ابھی”
“ہاں” رانیہ نے ہاں پر زور دیا۔
اور سعد نے کمرہ خالی کیا اور اپنا سامان دوسرے روم میں شفٹ کیا اور رانیہ اور نمرہ کا سامان بھی ان کے روم میں شفٹ کردیا۔
ہائے ہینڈسم کیسے ہو” شایان کو اریبہ کا میسج آیا۔
“ٹھیک، آج میسج نہیں کیا”شایان نے میسج کیا۔
“نہیں آج پارلر میں زیادہ کام تھا اس لئے بزی تھی”
“اوہ تو اب”
“اب فری ہوں”
“تو کال کرو”
“نہیں یار بہنیں بیٹھی ہیں”
“تم ہمیشہ کال کی بات کو ٹال دیتی ہو”
“ایسی کوئی بات نہیں”
“تو تصویر بھیجو اپنی۔”
“نہیں”
“کیوں”
“میں تم سے ملنا چاہتی ہوں”
“کب”
“ایک ہفتے بعد”
“اوکے”
“اوکے”
اریبہ اور شایان کی دوستی ہوئے دو ہفتے گزر چکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔