“ارے ارے وہ دیکھو وہ آگیا ہے” احد نے اونچی آواز میں کہا
” کہاں کہاں”غنی بھاگتی ہوﺉ آﺉ احد نے ہاتھ کے اشارے سے اسے دیکھایا
“شکر ہے ” غنی نے ہاتھ اٹھا کر شکر ادا کیا کرنا بھی چاہیے تھا آخر ڈیڑھ کے انتظار کے بعد نظر آیا تھا
“چلو اب جو میں نے کہا تھا ویسے ہی کرو یہ آج بچ کر نہ جائے ” انو نے احد کو حکم صادر کیا
“کیوں کیوں میں کیوں کروں تم خود کرو ویسے بھی تم دونوں کو ہی زیادہ شوق تھا ” احد نے انو اور غنی کو دیکھتے ہوئے کہا
“دفعہ ہو جاو پھر خبردار جو تم یہاں نظر آے اگر ہم نے اسے پکڑ لیا تو تمھیں اس کی شکل بھی نہیں دکھائیں گے” غنی نے اپنی پوری آنکھیں کھول کر دھمکایا
“اچھا اچھا اب ڈراؤ تو نہیں میں کرتا ہوں کچھ ” احد کا اشارہ اس کی آنکھوں کی طرف تھا
“جلدی کرو کہیں وہ بھاگ نہ جائے ” انو نے اس کی کمر پر ہاتھ مارا
“یہ کیا بدتمیزی ہےایک تو میں کام کروں اور……” احد کی بات درمیان میں ہی رہ گئی کیونکہ غنی گیند کے ساتھ پتھر باندھ کر اسے پکڑا رہی تھی
“بعدمیں لڑ لینا پہلے یہ لو اور جلدی کرو” احد نے گیند پکڑا کچھ دیر اسے دیکھا پھر کچھ سوچ کےربولا
“بات دراصل یہ ہے کہ میری دور کی نظر کچھ کمزور ہے اور اگر نشانہ غلط لگ گیا تو وہ ہمارے ہاتھ نہیں آ سکے گا غنی تم لگاو نشانہ تم ایسا کر سکتی ہو چلو شاباش جلدی کرو”
“میں؟ غنی حیرت سے بولی
“ہاں ہاں کیوں نہیں “انّونےبھی تاﺉید کی
“غنی نے گیند پکڑا اور فاسٹ بولر کی طرح تیزبھاگتے ہوے ہوا میں اچھال دیا گیند دیوار سے ٹکڑا کر کھلی ہوئی کھڑکی سے سیدھا کمرے میں موجود ٹیبل پر پڑے گلدان پر لگا نتیجہ کے طور پر گلدان اپنی نا قدری پر نشانہ باز کو کوستے ہوے زمیں بوس ہو گیا۔موحد جو کچھ دیر قبل ہی سویاتھا ہڑبڑا کر اٹھا “یہ .. یہ کیا ہوا”
وہ جلدی سے بیڈ سے اترااور ادھر ادھر دیکھنے لگااچانک اسکی نظر گلدان پر پڑی”یہ کیسے گرا”ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھاکہ کوﺉ چیز زور سے اس کی ناک پر آکر لگی اسے دن میں تارے نظر آگےء ” اف میرے خدا”کچھ دیر بعدوہ سنبھل کر کھڑا ہوااور اس چیز کو ڈھونڈنے لگا ایک کونے میں اسے ایک گیند نظر آیا وہ اسے اٹھانے کو جھکا تو میز کے پاس اسے دوسرا گیند نظر آیا جس پر بڑی مہارت سے پتھر لگا کر ربڑبینڈچڑھایا گیا تھاـوہ دونوں گیند اٹھا کر تیزی سے کمرے سے نکلا۔
* * * * * * *
“بہ ..بھیا آپ کی قسم یہ میں نے نہیں پھینکا”احد نے موحد کو دیکھتے ہوے کہا جو کڑے تیوروں سے اسے گھور رہا تھا احد کے انکار پر موحد نے انعم کو دیکھا وہ تینوں اس وقت مجرموں کی طرح سر جھکاے کھڑے تھے صوفیہ بیگم اور ریحان صاحب بھی وہیں موجود تھے اور خاموشی سے دیکھ رہے تھے
“بھیا۔۔۔۔۔آپ کی قسم یہ والا میں نے نہیں پھینکا ۔۔”انعم نے پتھر والے گیند کی طرف اشارہ کیا
“جسٹ شٹ اپ “موحد نے اٹھتے ہوے کہا “اور تم ” اس نے غانیہ کی طرف اشارہ کر کے کہا “تم بھی کہہ دو آپ کی قسم میں نے نہیں پھینکا اگر تم لوگوں نے نہیں پھینکا تو کیا ممی پاپا نے پھینکا ہے ؟؟”
“نہ۔۔۔نہیں میں آپ کی قسم نہیں کہوں گی کیونکہ مجھے پتا آپ پھر مر جاںیں گے ” غنی نے تیزی سے کہا
“واٹ ؟؟” موحد کا منہ حیرت سے کھل گیا
“م۔۔میرا مطلب ہے کہ۔۔۔۔یہ پتھر والا میں نے پھینکا تھا مگر آپ کے کمرے میں نہیں پھینکا تھا یہ دیوار کو لگ کر آپ کے کمرے میں آیا تھا تو میرا کیا قصور اس میں ہے ما آنٹی؟؟”اس نے صوفیہ بیگم سے تاںید چاہی وہ نہ چاہتے ہوے بھی مسکرا دیں
“ارے چھوڑو بیٹا کوںی بات نہیں بچے ہیں نا….”صوفہ بیگم نے درخواست کی
“یہ بچے ہیں آپ کو پتا ہے ان کی عمریں کیا ہیں؟؟ اور ْآپ انہیں بچہ کہہ رہی ہیں ”
“22سال”احد کی آواز آ ی
“20سال انعم نے بھی جوش سے بتایا
“19سال”غانیہ بھی کیوں پیچھے رہتی
وہ تیزی سے ان کی طرف بڑھا انکل کے اشارے پر وہ تینوں تیزی سے بھاگے”رکو میں بتاتا ہوں عمریں تم لوگوں کی”
“موحد چھوڑ دو بیٹا چھٹیاں ہیں انجواے کرنے دو کچھ ہی تو دن ہے پھر سے ٹف روٹین شروع ہو جاے گی کسے ٹاںم ملے گا رونق لگی رپتی ہے” ریحان صاحب اب بیٹے کو سمجھا رہے تھے
* * * **
“آج تو بہت مشکل سے بچے ہیں اگر پاپا نہ ہوتے نہ تو۔۔۔”غنی نے انعم کی بات کاٹی “تو ۔۔تو کیا ہونا تھا ؟؟ وہ کون سا کھا جاتے ہمیں تم نے سنا نہیں جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں تمہارے بھاﺉبھی بس خالی برستے ہی ہیں۔”
“واہ واہ یہ سب باتیں ہمارے سامنے ہی آتی ہے بس ان کے سامنے بھی بولا کرو ۔۔۔۔پھر مانیں تمھیں “احد نے اس کی چٹیا کھینچتے ہوے کہا
“چھوڑو بدتمیز مجھے ” وہ اس کے ہاتھ سے آم کی پلیٹ لے کر بھاگ گیا اور وہ اس کے پیچھے بھاگنے لگی ـ وہ تینوں اس وقت لان میں موجود تھے ـ انعم نے اس کے آگے ٹانگ کی اور غنی جو احدکو مارنے لگی تھی ـ دھڑام سے زمین بوس ہو گںی دونوں بہن بھاںی زور زور سے ہنسنے لگے غنی غصے سے کھڑی ہو گںی “بات مت کرنا تم لوگ مجھ سے “اور تیزی سے اندر بھاگ گںی اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑا موحد یہ منظر دیکھ کر بے ساختہ مسکرا دیا
” غنی غنی اٹھو یہ کونسا وقت ہے سونے کا ” انعم نے اسے زور سے ہلاتے ہوئے کہا
” کیامسئلہ ہے اب میں سوبھی نہیں سکتی اپنی مرضی سے” اسنے تڑخ کر جواب دیا
“افوہ یار تم ابھی تک ناراض ہو اچھا تم اٹھو تو سہی ایک بار مجھے بہت ضروری بات بتانی ہے تمہیں”
مجھے نہیں سننی تمہاری بات اپنے بھائی کو سناو جاکر ” اس کا اشارہ رات والی بات کی طرف تھا جب تینوں نے مل کر سیر کا پروگرام بنایا تھا مگر اپنے بھائی کے سامنے وہ دونوں صاف مکر گئے تھے اور اسے اکیلی کو اتنی باتیں سننے کو ملیں تھیں اور شاید پہلی بار اسے شدت سے محسوس ہوا تھا کہ یہ اس کا اپنا گھر نہیں ہے ـ
” اچھا پرامس آج ہم تمھارے ساتھ ضرور چلیں گے” انعم نے اسے منانے کی کوشش کی
” مت جانا کوئی ضرورت نہیں ”
” یار پلیز معاف کردو اب اٹھو نا” اس نے رونی صورت بنا کر کہا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی لیکن انعم کی اگلی بات سن کر وہ اچھل کر بیڈ سے نیچے اتری
” کیا ،، کیا کہا تم نے تمہاری پھوپھو آرہی ہیں اور وہ تمہاری سڑو کزن ؟؟”
صرف سڑو کزن ہی نہیں بلکہ اس کےبھائی صاحب بھی تشریف لارہے ہیں” انعم نے منہ بنا کر کہا
” اوہووو ،، ” غنی نے معنی خیزی سے آنکھیں گھما کر کہا ‘ اتنی گندی شکل کیوں بنا رہی ہو دل مہں لڈو پھوٹ رہے ہیں اور اوپر اوپر سے یہ ،،،
اس کی بات ادھوری رہ گئی انعم نے تکیہ اس کے منہ پر مارا” فضول میں بولا کرو تم بس تمہیں پتا تو ہے کتنا زہر لگتا ہے مجھے وہ،،، ہونہہ ”
“اورمجھے اسکی بہن ” غنی نے اسی کے انداز میں کہا تو دونوں ہنس پڑیں ـ
* * * * * * * *
غانیہ سجاد اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی چھ سال کی عمر میں وہ اپنی ماں کی ممتا سے محروم ہو گئی تھی مگر سجاد صاحب نے اسے ماں اور باپ دونوں کا پیار دیادوسری شادی کے بعد بھی وہ غانیہ کا ہر طرح سے خیال رکھتے تھےوہ شروع سے ہی شوخ چنچل اور ہنس مکھ تھی ابھی وہ میڑک کا امتحان دے کر فارغ ہوئی تھی جب اس کے باباکو ہارٹ قٹیک ہوا اور وہ بھی اسے چھوڑ کر چلے گئےصوفیہ بیگم اسکی خالہ تھیں اسکی سوتیلی ماں کا رویہ دیکھ کر وہ اسے اپنے ساتھ لے آئیں صوفیہ بیگم کے تین بچے تھے موحد احد اور انعم
انعم اور احد سے تو اس کی آتے ہی دوستی ہو گﺉ تھی مؤحد جو کہ تعلیم کے سلسلے میں بیرونِ ملک مقیم تھا اس لیے وہ اسے دیکھ نہ پائی تھی مگر احد اور انعم اپنے بھائی سے بہت ڈرتے تھے ان دونوں نے اپنے بھائی کا جو نقشہ کھینچا تھا اس نے یہی سمجھا کہ وہ کوئی ہلاکو خان ٹائپ ہوں گے اس دوران ایک بار ریحان صاحب کی بہن اور بیٹی (شیزہ)بھی ملنے آﺉیں تھیں شیزہ کو نہ جانے غانیہ سے کیا پُرخاش تھی وہ بلاوجہ ہی اسے جھڑک دیتی تھی اس لیے غانیہ ان ماں بیٹی کے سامنے کم ہی جاتی تھی کچھ دن رہنے کے بعد وہ ماں بیٹی واپس انگلینڈ چلی گئیں تو غانیہ نے سکھ کا سانس لیاـ تین سال بعد مؤحد جب وطن واپس پہنچا تو غانیہ نے سب سے چھپ کر دیکھا
“اوے !اٹھو دیکھو تمھارا بھائی آیا ہے” اس نے انعم کو ہلایا
” سچی ؟؟بھائی آگئے ” وہ تیزی سے اٹھی اور باہر کو بھاگی غانیہ بھی منہ بناتے اس کے پیچھے چل پڑی موحد نے سب سے ملنے کے بعد اسے دیکھا تو اسنے ہڑبڑا کر سلام کیا وہ مسکرا کر سلام کا جواب دیتا آگے بڑھ گیا غانیہ کو بہت غصہ آ یا “اپنی بہن کو تو گلے لگا کر ملےاور مجھے ،،، ” اور یوں اس دن سے غانیہ نے اسے اپنا بھائی ماننے سے انکار کر دیا مگر یہ بات اسنے صرف اپنے تک ہی محدود رکھی تھی نجانے کیسے ،،
* * * * * * * * *
کمرے کا دروازہ کھول کر وہ لرزتے قدموں سے اندر داخل ہوئی ـ اس کی توقع کے عین مطابق وہ صوفے پر بیٹھا اپنا شغل پورا فرما رہا تھا اس نے سارے کمرے میں نظر دوڑاﺉ پورے کمرے میں ایک عجیب سی بُو پھیلی ہوئی تھی جگہ جگہ کانچ بکھرا ہوا تھا کمرے کا حلیہ بے ترتیب تھا کچھ دیر بعد شایداس کی حالت اس کمرے سے بھی بد تر ہونے والی تھی اپنی متوقع حالت کا سوچ کر اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی اس سے پہلے کے وہ اپنے قدم واپسی کے لیے اٹھاتی سلطان کی نظر اس پرپڑچکی تھی وہ تیزی سے اس کی جانب بڑھا
“باقی دو بوتلیں کہاں ہیں؟؟؟”
” ک…کون ….سی بوتلیں …؟؟؟؟؟” مگر جواب زبان کی بجائے ہاتھ سے آیا تھا وہ ایسا ہی تھا ظالم جابر غریب کی بے بسی کا مزہ لینے والا
” م مجھے نہیں پتا قسم سے ” وہ لڑکھڑایں ” شٹ اپ” وہ دہاڑا ” تو ابھی بتاے گی اپنی زبان سے کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ میری چیز کو ہاتھ لگاے سواے تیرے اور ایسی نیکی کا بخار بھی تجھے ہی چڑھتا ہے ” اس نے اس کے بال چھوڑے اور اس کا بازو پکڑ کے کمرے سےباہر آیا ـ ” کہاں ۔۔۔کہاں لے کے جا رہے ہیں پلیز بات سنیں ” وہ روتے ہوئے کہی رہی تھی مگر کوئی انسان ہوتا تو ان آنسووں سے پگھلتا وہ تو پتھر تھا مضبوط سخت پتھر جس پر کبھی کسی موسم کا اثر نہ ہوتا تھا
“جا ـ ـ ـمانگ اپنے عاشق سے دو بوتلیں ـ ـ ـجا لے کر آ ” فرجاد نے اس کے کان کے پاس جا کے کہا اور کمرے کی طرف دھکیلا وہ تو ساکت رہ گئی اس شخص کے پاس جانے کا حونصلا ہی نہ تھا اوپر سے یہ حکم اور اس حکم سے روگردانی کی سزا وہ جانتی تھی
” پلیزسلطان یوں نہ کریں یہ غلط ہے ” مگر اس کے کان پر جوں تک نہ رینگی
” جاو ـ ـ جلدی ـ ـ ـ ورنہ ” اس آنکھیں نکال کر دھمکایا
” نہ نہیں میں نہیں جاوں گی “وہ تیزی سے بھاگی اس کا رخ کمرے کی بجائے باہر کی طرف تھا مگر اسے لاونج میں ہی رکنا پڑا
* * * * * * *
“ارے میں نہیں ڈرتی ورتی تمہارےسڑیل بھائی سے…” وہ جو کچن کی جانب آرہا تھا غانیہ کی آواز پہ فروازے میں رک گیا”اچھااا تو تم انہیں دیکھ کر کانپنے کیوں لگ جاتی ہو پھر ،، ہممممم؟؟”انعم نے طنز کیا”وووہ..”وہ جوش سے کھڑی ہوگئی اور تیزی سے بولی “تمہارےبھائی کونسا انسانوں کی طرح بات کرتے ہیںوہ تو یوں گھور کر دیکھتے ہیں جیسے ابھی کچاچبا جائیں گے تم دیکھنا تمہارےبھائ سےکوئی شادی نہیں کرے گااور اگرکوئی قسمت کی ماری بیچاری مل بھی گئی تو تمہارےبھائی کوچھوڑ کر اسی دن بھاگ جائے گی جب وہ صورِاسرافیل پھونکے گےیا پھرتمھارےبھائی اسکا قیمہ بنا دیں گےیا پھر ” ارے بس بس یہ نہ ہو تمہارا ہی قیمہ بن جائے ،، ہاہاہا،، انعم کے کہنے پر وہ بےہوش ہوتے ہوتے پچی”اللہ نہ کرے” اسنے بے ساختہ کہا
“خدا کا واسطہ ہے اب بتا بھی دوبھائی نے کیا کہا تھا”احد نے اسکے منہ پر ہاتھ رکھ کرکہا کہ کہیں وہ کچھ اور ہی نہ کہہ دے “ارے کچھ بھی نہیں بس منتیں کر رہے تھے کہ پلیز باہر کم جایا کرو میں نے بھی کہہ دیا آپ ہماری چوکیداری مت کیا کریں” غا نیہ کی بات پر دونوں کا منہ کھل گیا اور باہر کھڑا موحد غصے سے کچن میں داخل ہوا “کیا ہو رہا ہے یہاں “موحد کی آواز پر تینوں بری طرح چونکے” وووہ کچھ بھی نہیں” احد باہر کو بھاگا”جاوٴ مما بلا رہی ہیں تمہے” اسنے انعم کو بھی نکالا غانیہ بھی موقع دیکھ کر کھسکنے لگی “رکو” وہ دو قدم آگے آیا”تمہاری منت کب کی میں نے ؟ ” اس سے کوئی جواب نہ بن پڑا تو وہ پھر بولا”آئندہ میں نے اگر تمہارے منہ سے جھوٹ سنا تو پھر دیکھنا تم” وہ انگلی اٹھا کر وارن کرتا وہاں سے چلا گیااور وہ اسکی پشت گھورتی رہ گئی
* * * * * * *
ریحان صاحب کی بہن اور بچےآئے ہوے تھے گھر میں کافی رونق تھی وہ لوگ اب پاکستان میں شفٹ ہو رہے تھے اس لیے آج کل اپنا گھر دیکھنےمیں مصروف تھے انعم اور اسد کی منگنی کی تیاریاں چل رہی تھیں ان کا رشتہ بچپن سے طے تھا لیکن انعم کو اسد شروع دن سے نا پسند تھا اب بھی سب شاپنگ کے لیے آے ہوئے تھے مگر اس کا دل بیزار ہو چکا تھا اس نے غنی کو تلاشنے کے لیے ادھر اُدھر نظریں گھما یں مگر وہ اسے کہیں نظر نہیں آئی “پتہ نہیں کہاں چلی گئی ” وہ بڑبڑاتے ہوے آگے بڑھ گی
* * * * * *
غنی بھی سب کو ڈھونڈتے ہوے باہر آ گئی مگر اسے کوئی نہیں آیا اسے اب ٹینشن ہو رہی تھی وی پیچھے مڑنے لگی تو اچانک کسی سے ٹکڑایی ناک پر لگنے والی ضرب اتنی شدید تھی کہ سب شاپنگ بیگ اس کے ہاتھ سے گر پڑے اور اس نے اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا ـ مقابل شخص اسے یوں روتا دیکھ کر بوکھلا گیا
” دیکھیں مس پلیز میری بات سنیں آپ رو کیوں رہی ہیں ؟؟؟ دیکھیں آپ مجھے بتائیں تو سہی ” مگر نہ جی دوسری طرف تو شاید اس کی آواز سنی ہی نہ تھی وہ کچھ دیر کھڑا بے بس ہو کر اسے دیکھتا رہا پھر جیسے ہی اس نے تنگ آ کر واپسی کے لئے قدم بڑھاے اسے غنی کی چنگاڑتی ہوئی آواز دی
” اوے مسٹر لمبوـ ـ ـ تمھیں دیکھ کر چلنا نہیں آتا کیا یا منہ اوپر اٹھا کر کر چلتے ہو اگر میرا ناک ٹوٹ جاتا تو کون ذمہ دار ہوتا ”
اس نے ٹھٹھک کر غنی کو دیکھا اور اپنا لہجہ نارمل رکھنے کی کوشش کرنے لگا بہرجال غلطی اس کی تھی
” آئم سوری میں ذرا جلدی میں تھا مگر غلطی آپکی بھی تھی آپ بھی تو ـ ـ ” مگر اس سے پہلے کے وہ بات مکمل کرتا غنی نے غصے سے بات کاٹی “کیا غلطی تھی میری ہاں؟؟؟یہ دیکھو میرا ناک کیا حال ہو گیا میرے ناک کا ایک تو میں آرام سے بات کر رہی ہوں اور تم پھیلی جا رہے ہو چلو یہ سب اٹھا کر دو مجھے ”
غنی کی بات پر اس کا منہ کھل گیا
” آئم سوری مس یہ آپ کا کام ہے آپ خود کریں سمجھیں ـ” اس نے چبا چبا کر کہا اور جانے لگا کہ غنی نے پیچھے سے اس کا کوٹ کھینچا
” اووو ہیلو ایک تو تم نے پہلے میرا ناک توڑنے کی کوشش کی اور اب تم ند تمیزی کر رہے ہو تم ایسے نہیں جا سکتے اٹھا کر دو سب کچھ نہیں تو میں شور مچا دوں گی یہ لڑکا میرے پیسے چوری کر کے بھاگ رہا ہے بلکہ میں تمھاری تصویر ہی لے کر نیوز پیپر میں دے دوں گی دیکھنا کتنے مشہود ہو جاو گے تم ” اور اس سے پہلے کے وہ اپنے کہے پر عمل کرتی سلطان نے شاپنگ بیگ اٹھا کر اسے پکڑاے اور غصے سے اسے گھورتاوہاں سے چلا گیا