عبرانی زبان میں بلل کے معنی درہم برہم کرنا گڈمڈ کرنا کے ہیں اس سے کتاب پیدائش کے مرتب کو دھوکہ ہوا چونکہ وہ یہاں دعوہ’ کررہا تھا کہ خداوند نے اس جگہ لوگوں کی زبانوں کو گڈمڈ کردیا اسلیے اس شہر کا نام بابل پڑا اسکا ذہن عبرانی کے لفظ بلل کی طرف منتقل ہو گیا
حالانکہ بابل کے عبرانی لفظ بلل سے کوئی تعلق نہیں یہ لفظ اصل میں مرکب ہے دو الفاظ باب اور ایل کا اس جگہ کا قدیمی نام باب ایلی تھا جس کے آخر میں یونانیوں نے نون کے اضافے سے بابلیون بنالیا
باب عربی میں دراوزے کو اور ایل کے معنی خدا یا معبود کے ہیں سومری ، اکدی اور عبرانی تینوں زبانوں میں یہ لفظ انھی معنوں میں استمعال ہوا ہے یعنی باب ایلی کے معنی ” خداوں یا دیوتاوں کادروازہ” ہے
عہد نامہ قدیم کے بعض مقامات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہیکہ پرانے وقتوں میں شہر کا پھاٹک بہت اہم جگہ ہوا کرتا تھا یہی آکر دوسرے شہر کے ایلچی اپنی سفارت اور پیغام پہنچاتے تھے یہ عدالت گاہ اور پنچ کا بھی کام دیتا تھا پنچ یہی اجلاس کرتے تھے اور شہر کے باشندے یہی ان کے سامنے اپنی شکایات اور مقدمے پیش کرتے تھے اسلیے دوسرے لفظوں میں بابل کے معنی ” دیوتاوں کے اجلاس کی جگہ”
یہ شہر دریائے فرات کے بائیں کنارے پر آباد تھا آج بھی اس شہر کے کھنڈرات بغداد کے جنوب مغرب میں تقریبا” پچاس ساٹھ میل کے فاصلے پر دیکھے جا سکتے ہیں لیکن یہ اس شہر کے نہیں جو حموربی یا پہلی بادشاہی کے زمانے میں تھا کیونکہ جب حتیوں نے 1870 قبل مسیح میں پہلی بادشاہی کے آخری بادشاہ شمس ویتنا کو شکست دیکر اس خاندان کا چراغ گل کیا تو انھوں نے پرانا شہر بھی جلا ڈالا تھا یہ موجودہ کھنڈر اس شہر کے ہیں جو مشہور بابلی بادشاہ نو بخت نصر نے حضرت مسیح سے چھ سو سال قبل تعمیر کیا تھا
جغرافیائی اعتبار سے بابل انتہائی اہم اور موزوں مقام پر واقع تھا مشرق اور مغرب کی تین تین شاہراوں کے قافلے یہاں سے ہو کر گزرتے تھے مشرقی ممالک یعنی ایران اور عیلام سے مغرب کی طرف جانے والے تمام قافلوں کی گزرگاہ تھی
شمال میں طرسوس اور دیار بکر سے ہو کر ترکی اور ایشیائے کوچک تک آمدورفت عام تھی
ظاہر ہے ایسی اہم تجارتی منڈی ہونے کے باعث یہ شہر بہت عظیم الشان اور خوشحال تھا لیکن اس سے بڑھ کر اس شہر کے محل و وقع کی سیاسی اہمیت تھی
امویوں نے بے شک اپنا دارالحکومت کوفہ میں بنایا لیکن انکے علاوہ تین بڑی سلطنتوں نے بابل اور اسکے نواح کو سیاسی لحاظ سے اتنا اہم خیال کیا کہ انھوں نے اپنا صدرمقام بنایا
سکندر مقدونی کے جانشین سلیوکس فاتح نے دجلہ کے کنارے سلوکیا بسایا جبکہ ساسانیوں نے دجلہ کی دوسری طرف طیسیفون آباد کیا اسکے بعد عباسیوں نے شمال میں بغداد آباد کیا جو دجلہ کے دونوں کناروں پر آباد تھا یہ سارے شہر تیس میل کے دائرے کے اندر واقع ہیں جو بابل کی اہمیت کو ثابت کرتا ہے
عرب پیش قدمیاں
تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہیکہ عرب لوگ جزیرة العرب سے چار مرتبہ نکل کر بیرونی دنیا پر سیلاب کی طرح چھا گئے
پہلا خروج وہ جب وہ دجلہ اور فرات کی وادی میں اپنے قدم جمانے میں کامیاب رہے جسکے باعث شاملی بابل میں ریاست اکد کی بنیاد پڑی یہ حضرت مسیح سے ساڑھے تین ہزار برس پہلے کا واقعہ ہے
دوسرا خروج وہ جب کنعانی یا اموری ریاست وجود میں آئی ان پہلی دونوں پیش قدمیوں میں زمانے کے لحاظ سے کتنا فرق تھا کہنا مشکل ہے بلکہ ممکن ہے کہ دوسری پیش قدمی پہلی کا ہی حصہ ہو
تیسرا خروج چودھویں صدی قبل مسیح میں شام میں آرامی حکومت کا قائم ہونا تھا جسکا دارالحکومت دمشق تھا اور سب آخر و عظیم الشان تحریک تھی جب ساتویں صدی عیسوی میں اسلامی فوجیں یکایک اپنے مرکز سے نکل کر مغربی ایشیا کو فتح کرنے کے بعد مشرق میں چین کی سرحدوں تک مغرب میں شمالی افریقہ فتح کرنے ککے بعد جنوبی یورپ پر قابض ہو گئیں
اس میں ذرہ بھر بھی گنجائش نہیں کہ اگر چارلس مارٹر نے اس پیش قدمی کو فرانس میں نہ روکا ہوتا تو آج دنیا کی تاریخ کسی اور ڈھنگ سے لکھی گئی ہوتی آخری تحریک کے واقعات چونکہ ہمارے سامنے ہیں انھیں دیکھکر اندادی لگایا جا سکتا ہیکہ پہلی تحریکوں میں بھی اس قوم نے کچھ اسی طریقے سے کام کیا ہوگا
ہمارا موضوع پہلی دو عرب تحریکیں ہیں
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...