شبیر کو پورا یقين تھا کہ میونخ پہنچنے کے بعد اسکا ٹائیگر اسے ڈھونڈتا ہوا آج ہی اس کی رہائش پر پہنچ جائے گا اسی لئیے رابرٹ کو ہدایات دے کر وہ جرمنی کے وزیر دفاع اور اقوام متحدہ کے نمائندے سے ملنے چلا آیا تھا کہ اب وہ بھی اپنے وطن اپنے دوستوں اور اپنی زویا کے پاس واپس جانا چاہتا تھا۔۔
پارلیمنٹ آفس میں وزیر دفاع اور اقوام متحدہ کے نمائندے نے اٹھ کر اس گریس فل سائسندان کا استقبال کیا ۔
” ویلکم مسٹر شبیر ۔۔
” معاہدے کے مطابق میرا رسرچ ورک مکمل ہے اب آپ پاکستان کی فوجی فنڈنگ اپروؤ کیجئیے تاکہ اس فارمولے پر حکومت پاکستان اور یورپی یونین کے اشتراک سے کام ہوسکے ۔“ شبیر نے سنجیدگی سے مطالبہ کیا
”پروفیسر آپ کی ساری ڈیمانڈز تو ہم پہلے ہی منظور کر چکے ہیں آپ جینیوا جانے کی تیاری کیجئیے اب وقت آگیا ہے کہ دنیا کے سامنے آپ کو لایا جائے اور دیگر ممالک کو جرمنی اور پاکستان سے ملاپ کرکے ان دھشت گرد تنظیموں کے خاتمے کیلئیے کام کرنے راضی کیا جائے ۔“ اقوام متحدہ کے نمائندے نے کہا
شبیر ہاتھ ملاتا ہوا اٹھا اور اپنی بی ایم ڈبلو میں بیٹھ کر روانہ ہوگیا ۔
”شبیر سر کدھر چلنا ہے ۔“ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے شبیر کے جانثار ساتھی عمر نے پوچھا ۔
”میونخ “ شبیر نے سنجیدگی سے کہا اور ساتھ ہی اپنا لیپ ٹاپ کھول کر مانیٹرنگ اسکرین سیٹ کرنے لگا تھوڑی دیر بعد لب بھینچتے ہوئے اس نے عمر کو مخاطب کیا ۔
”عمر وقت کم ہے رفتار بڑھاؤ۔“
*********************
زویا شاک کی سی کیفیت میں زوار کو اس لڑکی کے ساتھ دیکھ رہی تھی اس کے قدم جم سے گئے تھے اس میں اتنی بھی ہمت نہیں تھی کہ زوار کو آواز دے پاتی ابھی اس نے ہمت جمع کی ہی تھی کہ بنجامن چلتا ہوا اس کے پاس آکر رکا ۔۔
” کیا ہوا سویٹ ہارٹ ایسے کیوں کھڑی ہو چلو آؤ ڈنر آڈر کریں ۔“ وہ اسے لیکر میز تک آیا اور جوس کا گلاس لبالب بھرا دیکھ کر چونک گیا ۔
”تم نے جوس کیوں نہیں پیا چلو شاباش جوس پیو ۔“ وہ گلاس اس کی طرف بڑھاتا ہوا بولا
”نو تھینکس میرا دل نہیں کررہا ۔“زویا گلاس اپنے سامنے سے ہٹاتے ہوئے بولی ۔
”او کے چلو تمہیں اچھا سا ڈنر کرواتا ہوں ۔“بنجامن نے ڈنر آرڈر کیا ۔
”ایکسکیوزمی میں فریش ہو کر آتی ہوں ۔“زویا اٹھتے ہوئے بولی ۔
بنجامن نے سر اثبات میں ہلایا اور زویا خاموشی سے اٹھ کر ریسٹورنٹ کے آخری کونے پر بنے لیڈیز واش روم کی جانب بڑھ گئی اس کی آنکھیں برسنے کیلئیے تیار تھی واش روم کے پاس پہنچ کر اس نے اپنا رخ بدلا اور باہر کے دروازے کی طرف تیزی سے دوڑ لگائی ۔
بنجامن دونوں ہاتھوں کو جوڑے بڑے آرام سے زویا کو واش روم کی طرف جاتے دیکھ رہا تھا جب ویٹر کے بھیس میں موجود اسکا ساتھی پاس آیا ۔۔
”بنجامن یہ کیا کیا اسے اکیلے جانے دیا وہ بھاگ جائے گئی ۔“ ویٹر نے سرگوشی کی ۔
”یہ لڑکی بہت بےوقوف اور سیدھی ہے تم فکر مت کرو اور روم میں ڈرگ کا انجکشن لیکر پہنچو جوس تو اس نے پیا نہیں اور اب اس حرکت کے بعد میں اسے چھوڑونگا نہیں۔“ بنجامن زہریلے لہجے میں بولتا ہوا اٹھا
”مگر ڈنر کا کیا ہوگا ۔“ ویٹر بولا
” بھاڑ میں گیا ڈنر تم اوپر پہنچو میں اسے لاتا ہوں ۔“ یہ کہہ کر بنجامن کھڑا ہوا اور بڑے بڑے قدم اٹھاتا مین دروازے کی جانب جا کر کھڑا ہوگیا ۔
**********************
صوفیہ گاڑی اسٹارٹ کئیے پچھلی گلی میں زوار اور بلال کا ویٹ کررہی تھی جب دور سے بلال تیز قدموں سے چلتا ہوا گاڑی تک آیا وہ اپنا نقاب اتار کر جیب میں رکھ چکا تھا گاڑی کے نزدیک پہنچ کر اس نے ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھولا اور صوفیہ کو اترنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔
”کیپٹن میں ڈرائیو کررہی ہوں تم پسنجر سیٹ پر آجاؤ ۔“ صوفیہ نے اترنے سے انکار کیا
”کیپٹن نہیں میجر ۔۔میجر بلال تمہارا سپیئریر “ بلال نے سنجیدگی سے تصیح کی ۔
”اور تمہاری ڈرائیونگ میں قطر میں دیکھ چکا ہوں دوبارہ کسی حادثے کا متحمل نہیں ہوسکتا اس لئیے شرافت سے سیٹ خالی کرو اٹس این آرڈر ۔۔۔
صوفیہ نے اس کے سنجيده چہرے کو ایک نظر دیکھا اور خاموشی سے سیٹ خالی کرکے پیچھے بیٹھ گئی ۔
”ایجنٹ صوفیہ آگئے آؤ میں تمہارا ڈرائیور نہیں ہوں اور ویسے بھی پیچھے میجر زوار بیٹھ کر زویا سسٹر کو ٹریس کرینگے ۔“ بلال نے اس کے چہرے کو فوکس کرتے ہوئے کہا
اب کے صوفیہ غصہ پیتے ہوئے نیچے اتری اور آگے آکر بیٹھتے ہوئے بولی ۔
”میجر بلال جب گاڑی چلا رہے ہو تو ڈرائیور ہی کہلاؤں گئے اور مائنڈ یو صوفیہ کسی کے انڈر نہیں ہے اور نہ ہی کبھی ہوگی ۔“ ..
بلال نےایک نظر ساتھ بیٹھی ہوئی صوفیہ کو گہری نظر سے دیکھا ۔
” میڈم یہ تو تمہیں اب وقت بتائے گا اور اب تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ تم اپنے دماغ میں اچھی طرح سے بٹھا لو کہ تم میری ہو اور میرے انڈر ہی رہوگی اس مشن کے بعد تمہارے سارے حقوق صرف اور صرف میرے ہونگے۔۔“ وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا
” بلال تم ۔“ صوفیہ نے تلملا کر بات شروع ہی کی تھی کہ بلال اس کی بات کاٹ کر گویا ہوا
” اور آخری بات میں آئندہ تمہیں کبھی بھی غیر مردوں سے کلوز ہوکر ہنس ہنس کر باتیں کرتا نہ دیکھو ورنہ تمہیں وہی زندہ گاڑ دونگا ۔“ بلا کی سرد مہری تھی بلال کے لہجے میں ۔
” ایک ذرا سا اظہار محبت کیا کردیا تم تو سر پر چڑھے جا رہے ہو ۔۔بلال خواب دیکھنا چھوڑ دو میں اتنی بھی ۔
ابھی صوفیہ کے الفاظ بیچ ہی میں تھے کہ زوار تیزی سے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر بیٹھا ۔
”لیٹس گو بلال ٹائم کم ہے ۔“ زوار نے کہا
بلال تیز رفتاری سے جیپ چلا رہا تھا اور زوار اپنے سیل نما ڈیوائس پر زویا کی گردن میں لگائی اپنی ٹریکنگ ڈیوائس کو آن کررہا تھا۔۔۔
”ٹاؤن سینٹر کی جانب چلو زویا وہاں بار اینڈ گرلڈ ریسٹورانٹ میں موجود ہے ۔“ زوار نے ہدایات دیں ۔۔۔
***********************
زویا کے دل کی حالت عجیب تھی وہ زوار کو دیکھ کر اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ پا رہی تھی آنسو تھے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی امنڈتے جا رہے تھے اپنی بھرائی آنکھیں صاف کرتی وہ تیزی سے چلتے ہوئے دروازے کے پاس پہنچی ہی تھی کہ اسے بنجامن نظر آیا جو دروازے سے ٹیک لگائے اسے ہی گھور رہا تھا ۔
”کدھر جانے کا ارادہ ہے سویٹ ہارٹ ۔“ وہ زویا کا ہاتھ پکڑ کر زہریلے انداز میں بولا
”چھوڑو میرا ہاتھ مجھے تمہارے ساتھ کوئی ڈنر ونر نہیں کرنا ۔“ زویا نے بنجامن کا ہاتھ جھٹکا ۔
بنجامن نے ایک جھٹکے سے مچلتی ہوئی زویا کو اپنے قریب کیا اور اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے گھسیٹتا ہوا اوپر اپنے بک کرائے ہوئے کمرے میں لے گیا ۔
یہ ایک سویٹ روم تھا جہاں بنجامن کا آدمی ویٹر کے بھیس میں ڈرگ کا انجکشن لئیے انتظار کررہا تھا تھوڑی ہی دیر میں دروازہ کھول کر بنجامن نے زویا کو سیدھا لا کر بیڈ پر پٹخا ۔
” اسے انجکشن دو ۔“ وہ غرایا
ویٹر تیزی سے سوئی ہاتھ میں لئیے زویا کی جانب بڑھا ہی تھا کہ زویا اسے دھکا دیتے ہوئے دروازے کی طرف بھاگی ۔
بنجامن نے زویا کو تیزی سے پکڑا اور ایک زوردار تھپڑ مارا جس سے وہ لڑکھڑا کر فرش پر گر گئی اور بنجامن نے اس کی آستین اٹھا کر بڑی بےدردی سے سوئی اس کے بازو میں گھسیڑ دی ۔
**************************
زوار ریسٹورانٹ کے قریب پہنچ چکا تھا بس ایک روڈ کراس کرنے کا فاصلہ تھا جب اسے دور سے دروازے پر زویا نظر آئی جس کے چہرے پہ خوف تھا دیکھتے ہی دیکھتے زویا کے سامنے کھڑے آدمی نے زبردستی اس کی کمر میں ہاتھ ڈالا ۔۔۔
”بلال گاڑی روکو۔“۔
اور پھر گاڑی کے رکنے کا انتظار کئیے بغیر زوار چلتی گاڑی سے دروازہ کھول کر جمپ لگا کر اترا اور دوڑتے ہوئے روڈ کراس کر کے ریسٹورانٹ کے دروزاے پر پہنچا اس کی نظریں زویا کو ڈھونڈنے میں لگی تھی اس کا خون کھول رہا تھا وہ اس ملگجے ماحول میں ایک ایک میز کو بغور دیکھتا آگے بڑھ رہا تھا جب اس کی نظر اوپر کی منزل پر پڑی وہ آدمی زویا کو لیکر ایک روم میں داخل ہورہا تھا ۔۔
لفٹ دور تھی زوار تیزی سے زینے کی جانب بڑھا اور کئی سیڑھیاں پھلانگتا ہوا اوپر پہنچا دروازہ بند تھا اس نے اپنی جیب سے تار نکالا اور کلک کی آواز سے دروازہ ایک سیکنڈ میں کھل گیا وہ اندر داخل ہوا تو وہ یہودی ایجنٹ زویا کو انجکشن لگا رہا رہا تھا وہ برق رفتاری سے آگے بڑھا پر انجکشن لگ چکا تھا ۔۔
زوار نے کالر سے پکڑ کر بنجامن کو زویا سے دور کیا اور ایک زور دار کک اس کی کمر میں لگائی اتنے میں وہ ویٹر بھی قریب آچکا تھا پر زوار بڑی بیدردی سے ان دونوں کو پیٹے جا رہا تھا ویٹر کی تو اس نے گردن مڑوڑ دی تھی اور بنجامن مار کھا کھا کر نیم بیہوش ہوچکا تھا جب زوار کو زویا کے کراہنے کی آواز آئی وہ بنجامن کو فرش پر پٹخ کر زویا کے پاس پہنچا ۔۔
”زویا مائی لو تم ٹھیک ہو نا ۔“ وہ بڑی بیتابی سے اس کے چہرے سے لٹ ہٹاتے ہوئے بولا اور اس کے رخسار پر انگلیوں کے نشان دیکھ کر تڑپ گیا اس کے سرخ گال پر ثبت تھپڑ کی چھاپ پر اس نے اپنی انگلی پھیری ۔۔۔
اور پلٹ کر بنجامن کی جانب پلٹا ۔۔
”ذلیل انسان تمہاری ہمت کیسے ہوئی اس کو ہاتھ لگانے کی ۔“ زوار غرایا
زوار نے اس کو گردن سے جکڑ کر اٹھایا اور پے در پے اس کے منہ پر گھونسے مارنے لگا وہ بالکل جنونی ہو رہاتھا بنجامن کے منہ سے خون بہنے لگا تھا۔۔۔زوار نے ایک زور دار جھٹکا دے کر اسے زمین پر پٹخا پھر اس کے دونوں بازو پشت پر لیجاکر بری طرح سے توڑ دئیے بنجامن تکلیف کی شدت سے بیہوش ہوچکا تھا اسے چھوڑ کر آستین سے منہ صاف کرتے ہوئے وہ مڑا مگر خالی کمرہ اس کا منہ چڑا رہا تھا زویا غائب تھی ۔۔
****************************
زوار کے کودتے ہی بلال نے گاڑی کو سامنے موجود پلازا کی پارکنگ میں روکا اور تیزی سے نیچے اتر کر صوفیہ کو ساتھ آنے کا اشارہ کرکے بھاگتے ہوئے ریسٹورانٹ کی جانب بڑھا وہ دونوں اندر داخل ہوکر زوار اور زویا کی تلاش میں نظریں دوڑا رہے تھے جب بلال کی نظر ایک میز پر کسی ڈانسر ٹائپ لڑکی کے ساتھ بیٹھے زوار پر پڑی ابھی وہ آگے بڑھنے ہی والا تھا کہ پیچھے سے صوفیہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔۔۔
”یہ میجر زوار نہیں ہے ۔“وہ سرگوشی میں بولی۔
”جانتا ہوں اس کے کپڑے اور جوتے زوار بھائی سے مختلف ہیں ۔“ بلال نے دھیمے سے جواب دیا ۔
”میجر بلال یہ کوئی بہت بڑی گیم ہے ڈانس فلور کے پاس غور سے دیکھو وہ سنہرے ٹاپ والی لڑکی بہت بڑے دھشت گردی کے ریکٹ سے تعلق رکھتی ہے ۔“ صوفیہ نے اس کی توجہ ڈانس فلور کے پاس موجود ایک خوبصورت لڑکی کی طرف دلائی جو کن اکھیوں سے جعلی زوار کی جانب دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔
بلال نے صوفیہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے آگے کیا۔
”کیا ہوا ۔“ صوفیہ نے حیرت سے پوچھا
بلال نے جواب دئیے بغیر اسے دیکھا اور ہاتھ بڑھا کر اس کے جوڑے میں لپٹے بال بکھیر دئیے اور اس کی کمر میں ہاتھ ڈالکر ڈانسنگ فلور پر آگیا۔
”پاگل ہوگئے ہو کیا ۔۔“ صوفیہ تلملائی
”ہم رقص کرتے ہوئے ان کے قریب جائینگے ان کے آس پاس کے مشکوک افراد کو غور سے دیکھنا ہے ۔“ بلال نے سرگوشی کی
اب وہ دونوں ایسے ڈانس کررہے تھے جیسے آپس میں گم ہوں مگر ایک دوسرے کے شانوں کی آڑ سے وہ اپنے ٹارگٹ جعلی زوار اور اس مشتبہ لڑکی اور ان کے آس پاس موجود لوگوں کو چیک کرچکے تھے ۔
بلال صوفیہ کو اپنی بانہوں میں جکڑے گول گھومتا ہوا فلور کے اندھیرے حصہ میں آگیا تھا اس نے دھیرےبسے صوفیہ کو خود سے الگ کیا
”صوفیہ مجھے کوور کرو میں اس جعلی زوار کو بیک ڈور سے باہر لیکر آتا ہوں اور یہ لڑکی خود ہی پیچھے آئیگی تم پہلے ہی وہاں جا کر پوزیشن لے لو ہم ان دونوں کو ایک ساتھ ہی پکڑ لینگے ۔“ بلال نے کہا اور آگے بڑھ گیا ۔
**********************
زویا جسے شبیر نے نازو سے پالا تھا اور زوار نے کانچ کے نازک آبگینے کی طرح سنبھال کر رکھا تھا بنجامن کا تھپڑ سہہ نہ سکی اور بری طرح لڑکھڑا کر گری اس سے پہلے وہ کچھ کرپاتی بنجامن نے اس کے بازو میں انجکشن کی سوئی گاڑ دی تھی اسکا سر گھوم رہا تھا آنکھوں میں رنگ برنگے دائرے ناچ رہے تھے وہ چاہتے ہوئے بھی خود کو حاضر نہیں رکھ پا رہی تھی تبھی اسے لگا جیسے زوار اسکا اپنا میجر سر اس کے پاس اسے پکار رہا ہے چھو رہا ہے ہمت کر کے چکراتے ہوئے سر کو تھامتے ہوئے وہ بڑی مشکل سے کھڑی ہوئی سارا کمرہ گول گول گھومتا محسوس ہورہا تھا وہ لڑکھڑاتے ہوئے دروازے کی جانب بڑھی اور کمرے سے باہر نکل گئی چند قدم ہی ڈگمگاتے ہوئے آگے بڑھی تھی کہ کسی سے ٹکرا گئی ۔
کاکول اکیڈمی کے بڑے میدان میں پاسنگ آوٹ پریڈ جاری تھی نئے جوانوں کے چہروں کی چمک اور قدموں کی دھمک سے پورا گراؤنڈ گونج رہا تھا جب اسٹیج پر آرمی چیف آف اسٹاف کے ساتھ کھڑے کرنل جھانگیر کے پاس ایک باوردی جوان آیا اس کی بات سن کر کرنل جھانگیر چیف سے معذرت کرتے خاموشی سے اسٹیج سے اتر کر اندر کی طرف چلے آئے ۔۔
”یس کیپٹن حمید کیا بات ہے ۔“
”سر ابھی ابھی انٹیلیجنس کے پاس رپورٹ آئی ہے کہ اسرائیلی ایجنسی نے قطری شہزادے فہد کریمی سے میجر زوار کی سیکیورٹی فوٹیج مانگی ہے اور ساتھ ہی ساتھ میجر جیسی قدوقامت کا کوئی ایشیائی آدمی جس کا تعلق دھشت گرد تنظیم سے ہو اسے فوری طور پر میونخ میں اسرائیلی سفارت خانے رپورٹ کرنے کو کہا ہے ۔“ کیپٹن حمید نے تفصیل بتائی
” کیا آپ نے آئی ایس آئی کو انفارم کیا ۔؟ “ کرنل نے سوال کیا
” سر آئی ایس آئی کا کہنا ہے کہ ان کے تین ایجنٹ اسوقت میونخ میں ہیں وہ جیسے ہی ان سے رابطہ ہوتا ہے یہ انفارمیشن پاس کردینگے ۔“ کیپٹن حمید نے کہا
کرنل جھانگیر نے سر سے پیر تک چھ فٹ لمبے کیپٹن حمید کو بغور دیکھا۔۔
”ٹھیک ہے کیپٹن تم آرمی کاپٹر سے فوری طور پر قطر نکل جاؤ کسی بھی طرح محل میں موجود ہمارے ایجنٹ سے ملو تمہارا قد کاٹھ زوار سے ملتا ہے تم ایحنسی سے میک اوور کروالو اور خود کو زوار کے ڈمی کیلئیے پیش کردو اور مجھے لمحہ لمحہ کی رپورٹ دیتے رہنا میں اتنے میں اس ایجنٹ کو ہدایات دیتا ہوں ۔۔“ کرنل جہانگیر نے اسے ہدایات دی ۔
”یس کرنل سر “ کیپٹن حمید نے سلیوٹ کیا اور باہر نکل گیا ۔۔
کیپٹن کے جاتے ہی کرنل جہانگیر نے اٹھ کر ٹرانسمیشن ڈیوائس نکالی اور قطری محل میں موجود پاک فوج کے ایجنٹ ڈاکٹر کو کنٹیکٹ کرنے لگے فریکوئنسی ملتے ہی کوڈ ورڈذ کا تبادلہ ہوا پھر کرنل جہانگیر نے اسے ہدایات دی ۔
”کیپٹن حمید تین گھنٹے تک پہنچ جائے گا اسے اپنا زخمی پیشنٹ جو ابھی علاج سے فارغ ہوا ہے کہہ کر شہزدے سے ملوانا ہے اور کسی بھی طرح جو بھی آدمی زوار کی ڈمی کیلئیے جائے اس کی جگہ کیپٹن کو بھیجنا ہے ۔“۔
کرنل جہانگیر نے ہدایات دیں اور چہرے پہ گہرے تفکر کے آثار لئیے واپس گراؤنڈ کی طرف جانے کیلئیے نکل گئے
********************
میٹنگ جاری تھی سارے تنظیمی سربراہ اور غیرقانونی ہتھیاروں کی ترسیل کرنے والے ڈان سب اس وقت بغداد میں موجود اس میٹنگ کے شرکاء میں شامل تھے ۔۔
عراق کے نواحی علاقے میں تباہ ہوئے دھشت گردوں کے بڑے ٹھکانے اور لیب کو لیکر سب تنظیم کے حکمران پریشان تھے کچھ کا شک امریکن جکومت کی طرف تھا اس دن اور اسے اگلے دن کی تمام ائیرپورٹ فوٹج اس وقت ایک بڑے اسکرین پر چل رہی تھی جب شہزادہ فہد کریمی نے سیکیورٹی فلم رکوائی اور ریوائنڈ کر کے سلو موشن میں دوبارہ دیکھی ۔
صوفیہ چلتی ہوئی شاپ میں داخل ہوئی پھر کچھ دیر بعد عبایا پہنے باہر نکلی۔۔
شہزادہ فہد کریمی نے ہاتھ کے اشارے سے فلم رکوائی اور ایک گہرا سانس بھر کر کھڑا ہوگیا ۔۔
”أصدقائي المحترمون“ اس نے سب کو مخاطب کیا۔۔
” یہ کام امریکن حکومت کا نہیں ہے بلکہ یہ کام پاکستانی ایجنسیوں کا ہے یہ پاکستانی ایجنٹ ہی اتنے سرپھرے ہوتے ہیں کہ اپنی جان کی پروا کئیے بغیر اتنے منظم ریکٹ کو اڑا سکتے ہیں ۔“
یہ کہہ کر میٹنگ برخواست کرنے کا اشارہ کر کے شہزادہ فہد کریمی بنا رکے باہر نکل گیا اس کا رخ اپنے پرائیوٹ پلین کی طرف تھا وہ جلد از جلد اپنے محل پہنچنا چاہتا تھا ۔۔
ایک گھنٹے کی فلائٹ کے بعد وہ اپنے محل پہنچ چکا تھا ۔
” محترم فہد سب خیریت تو ہے آپ اسقدر غصہ میں کیوں ہیں۔“ فہد کریمی کے دست راست نے اس کا خراب منہ اور غصہ سے سرخ چہرہ دیکھ کر پوچھا ۔
”جبار بن عزیز وہ پاکستانی لڑکی زندہ ہے جس کی ہم نے شہزاده فہد کریمی نے خواہش کی وہ زندہ ہے اور اس وقت میونخ میں ہے ہم اسے اپنے حرم کی زینت بنانا چاہتے تھے اور چاہتے ہیں ۔“ شہزاده فہد کریمی نے جواب دیا
”مگر وہ تو شادی شدہ ہے ۔“ جبار ہچکچایا
فہد کریمی کی آنکھوں میں بلال کی شبہیہ چمکی ۔۔
”اس کے شوہر کو جان سے مار کر اس محبوبہ دلنواز کو اپنی خواب گاہ میں لانا ہے اب اسے پائے بغیر ہمیں چین نہیں آئیگا تم ہمارے فوراً میونخ جانے کا انتظام کرو ۔۔“ وہ سرد لہجے میں بولا
جبار بن عزیز اثبات میں سر ہلاتا باہر نکل گیا اور فہد کریمی صوفہ پر آنکھیں بند کرکے بیٹھ گیا آج کتنے دنوں کے بعد اس نے صوفیہ کو دیکھا تھا اس کا تیکھا چمکدار چہرہ شہد رنگ گھونگریالے بال متناسب سراپا شہزادہ فہد کے دل میں آگ سلگا رہا تھا کہاں کہاں اس نے اس لڑکی کو نہیں ڈھونڈا تھا ۔ ابھی وہ صوفیہ ہی کو سوچ رہا تھا جب اجازت لیکر جبار بن عزیز دوبارہ اندر داخل ہوا ۔
”محترم فہد کریمی اسرائیلی تنظیم کا فون آیا ہے وہ آپ سے بات کرنا چاہ رہے ہیں ۔“ ۔۔یہ کہہ کر اس نے فون شہزاده کی طرف بڑھایا ۔
تھوڑی دیر تک فون پر بات کرنے کے بعد شہزادہ فہد کریمی نے جبار بن عزیز کو دوبارہ طلب کیا ۔۔
”جبار چھ ماہ پرانی جب میجر زوار ادھر آیا تھا اس وقت کی سیکورٹی فلم اور کیمرہ پکچر نکلواؤ اور اس پتہ پہ بھیج دو ۔۔“ وہ اپنے سیل میں آیا ایڈرس اس کو دکھاتا ہوا بولا
”اور اس میجر زوار سے ملتا جلتا کوئی دیسی آدمی اپنے آدمیوں میں ڈھونڈو یاد رکھنا ہمیں اس کام کا معاوضہ منہ مانگا ملے گا اور یقیناً جہاں یہ اس نقلی میجر کو بلوائیں گئے وہاں ہماری محبوبہ صوفیہ بھی ہوگی ہمارا جیٹ تیار کرو ۔۔“
*********************
کیپٹن حمید پلاسٹک میک اپ کے ماہرین کے ہاتھوں زوار کے بھیس میں آچکا تھا اور اسوقت ملگجے کپڑے پہنے بال بکھرائے ایک غنڈے کی طرح ایکٹنگ کرتا محل میں موجود پاکستانی ایجنٹ جو کہ شہزادہ فہد کا خاص معالج تھا اس کے سامنے پہنچ چکا تھا اور وہ دونوں پلان بنا چکے تھے کہ شہزاده کے سامنے کیسے آنا ہے ۔۔
ڈاکٹر نے شہزادہ فہد کریمی کے دروازے پر دستک دی اور اجازت ملنے پر اندر آگیا ۔
”محترم فہد میرے ایک عزیز پر قبائلی علاقہ میں خون کا الزام لگا ہے اور اسے قصاص میں رقم دینے کیلئیے آپ کی مدد چاہئیے وہ بدلے میں آپ جو کہیں گئے کریگا بڑے کام کا آدمی ہے اگر آپ مل کر اس کو کام پر رکھ لیتے تو ۔۔۔
شہزادہ فہد کریمی نے بیزاری سے ڈاکٹر کی بات کاٹی ۔۔
”میرے پاس ان فضولیات کے لئیے وقت نہیں ہے ۔“
ڈاکٹر مایوس ہو کر جانے لگا تو فہد کریمی کی پیچھے سے آواز آئی ۔۔
” ٹھیک ہے مگر بس پانچ منٹ
ڈاکٹر نے تیزی سے باہر نکل کر حمید کو آواز دی ۔۔
حمید کو دیکھ کر شہزاده حیران رہ گیا وہ تو بنا بنایا میجر زوار تھا بس اسکا حلیہ گنواروں جیسا تھا ۔
وہ ساری تیاری کے ساتھ اپنے پرائیوٹ جیٹ میں حمید کو لیکر میونخ پہنچا ۔
حمید کو میونخ اسرائیلی ایمبیسی بھیج کر شہزادہ فہد نے جبار کو اس کے اوپر کڑی نظر رکھنے کا حکم دے دیا تھا ۔
************************
کیپٹن حمید اسرئیلی ایمبیسی میں آفیسر کے سامنے بیٹھا تھا اس کے سامنے زویا کی تصویر پڑی تھی ۔۔
”اس لڑکی کو اچھی طرح دیکھ لو آج شام یہ لڑکی ایک ریسٹورانٹ میں آئیگی اور تم اس کے سامنے اسے مکمل اگنور کرتے ہوئے ہماری دی گئی لڑکی کے ساتھ قریب ہوکر نازیبا حرکات کروگے ۔۔“ آفیسر نے حمید کو کام سمجھایا
حمید غور سے ساری بات سن رہا تھا جب اس آفیسر نے ایک قیمتی لباس اس کی جانب بڑھایا ۔۔
”وقت کم ہے لباس تبدیل کرو اور کرسٹین کے ساتھ ریسٹورانٹ پہنچ جاؤ ۔“
حمید اثبات میں سر ہلاتا تیار ہونے چلا گیا اسے ابھی کرنل جہانگیر کو بھی موقع دیکھ کر اطلاع کرنی تھی ۔
************************
شہزادہ فہد کریمی جبار سے اطلاع ملنے پر وقت سے پہلے ہی بار اینڈ گرلڈ پہنچ گیا تھا اور اب ایک تاریک گوشے میں بار میں بیٹھا بئیر کی چسکیاں لیتے ہوئے چاروں طرف دیکھ رہا تھا نقلی زوار یعنی حمید بھی اسے نظر آچکا تھا آدھے گھنٹے کے بعد اسے اپنے جسم میں سنسنی سی پھیلتی محسوس ہوئی سامنے دروازے سے صوفیہ بلال کے ساتھ داخل ہورہی تھی وہ پہلے سے بھی بڑھ کر حسین و دلکش محسوس ہو رہی تھی تبھی بلال نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈالا اور اسے اپنے قریب کرکے اس کے ساتھ رقص کرنے لگا۔
ان دونوں کی نزدیکی صوفیہ کے خوبصورت بالوں کا بار بار ہچکولے لیکر بلال کے چہرے کو چھونا اور آخر میں تو حد ہی ہوگئی صوفیہ نے بلال کے شانے پر سررکھ دیا تھا اس سے برداشت نہیں ہوا وہ گلاس رکھ کر کھڑا ہوا اسکا رخ اوپر کی طرف کسی پرسکون گوشے کی تلاش میں تھا ۔۔
اوپری منزل پر پہنچ کر شہزاده فہد کریمی نے جیب سے فون نکالا ۔۔
”جبار صوفیہ اور بلال دونوں ہی ادھر موجود ہیں تم پائلیٹ کو جیٹ تیار رکھنے کا حکم دو اور خود گاڑی پچھلے دروازے پر لے آؤ میں اپنی محبوبہ کو گن پوائنٹ اغوا کرکے وہی لاتا ہوں ۔“ فون بند کر کے وہ پلٹا ہی تھا کہ نیلے لباس میں ملبوس پریوں سا حسن رکھنے والی ایک کمسن دوشیزہ اس سے ٹکرا گئی لڑکی تھوڑی مدہوش سی تھی شہزاده فہد نے اسے سہارا دیا ۔۔
”میجر سر نہیں نہیں آپ ناراض ہو جاؤگے زوار صرف زوار مجھے پلیز ادھر سے لے چلو ۔۔۔۔“ یہ کہہ کر وہ لڑکی بیہوش ہوگئی ۔
میجر زوار ! شہزاده فہد کریمی چونک گیا اور غور سے زویا کو دیکھا۔۔
سرخ و سفید کتابی چہرہ سنہرے گھنے سیدھے بال گالوں پہ سایہ فگن گھنی سنہری پلکیں ۔
”یا اللہ تو نے ساری جنت کی حوریں ان پاکستانی فوجیوں کے ہی نصیب میں لکھ دی ہیں پہلے صوفیہ اور اب یہحور شمائل مجھے دونوں چاہئے ۔
وہ بڑے آرام سے ذویا کو اٹھایا اور باہر چلا گیا