اقوالِ بیکن
(آپ انگلستان کے مشہور و معروف سیاست دان اور ناول نویس ہو گزرے ہیں 1804ء میں پیدا ہوئے اور 1881ء میں وفات پائی۔ آخرکار وزیر اعظم کے عہدہ پر بھی سرفراز رہے۔ آپ کی مشہور تصنیف ’دیون گرے ‘ ہے۔ )
٭ دولت کی کثرت نوجوانوں کی تباہی کا باعث ہے۔
٭ جو شخص دولت کے استعمال سے ڈرتا ہے وہ دولت پانے کا مستحق نہیں۔
٭ یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص عالی مرتبہ اور دولت مند ہو بلکہ یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ عقل مند ہو لیکن یہ البتہ ضروری ہے کہ وہ نیک چلن اور ایماندار ہو۔
٭ جس شخص کو قرض لینے اور خوشامد کرنے کی ضرورت نہیں وہ سب سے زیادہ مالدار ہے۔
٭ دولت کی مثال کھاد کی طرح ہے کہ اسے جب تک پھیلایا نہ جائے۔ اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔
٭ پیٹ یعنی بھوکوں اور فاقہ کشوں کی سازش بہت ہی بری ہے۔
٭ کسی کے غصّے میں کہی ہوئی کلام کو کبھی مت بھولو۔
٭ کوئی قوم جو علم اسلحہ سے بے بہرہ ہے۔ کبھی اقبال مندی کا منہ نہیں دیکھ سکتی۔
٭ کامیابی صرفا یک مرتبہ آ کر دروازہ کھٹکھٹاتی ہے۔ مگر مصیبت دن اور رات میں کئی بار تم پر حملہ کر سکتی ہے۔
٭ انسان کو لازم ہے کہ اپنی ہمدردی کے حلقہ کو تنگ نہ رکھے اور غیروں سے بلاوجہ نفرت اور تعصب نہ کرے۔
٭ علم سے آدمی کے دل کی وحشت اور دیوانگی دور ہو جاتی ہے۔
٭ مشورہ لینا بری بات نہیں مگر مشورہ پر بلا غور و تامل کے عمل کرنا بہت برا ہے۔
٭ ضرورت میں انسان جو وعدہ کرتا ہے وہ بہت کم پورا کرتا ہے۔
٭ آزمائش کے موقع پر نیک و پارسا انسانوں کو نسبت چالاک اور سست لوگ زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔
٭ جو لوگ فائدے میں کسی کو شریک نہیں کرتے۔ نقصان میں بھی ان کا کوئی شریک نہیں ہوتا۔
٭ خاموشی سے ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بحث و مجادلہ کی تکلیف سے نجات ہوتی ہے۔
٭ عاقل کے لیے وہی لباس کافی ہوتا ہے۔ جس سے موسم کے لحاظ سے اس کی ضرورت پوری ہو سکے۔
٭ اگر بڑا بننے کی خواہش ہے تو پہلے چھوٹا بننے کی کوشش کرو۔
٭ بہادر اور جوانمرد آدمی کی بڑی خوبی اور شناخت یہ ہے کہ وہ سرداری اور حکومت سے بھاگتے ہیں اور دوسروں کے زیر اثر و ہدایت عوام کی خدمت کرنے میں اپنی خوشی تصور کرتے ہیں۔
٭ شاید ہی کوئی شخص اعلیٰ مناصب تک پہنچ سکتا ہے۔ جب تک اس میں نیک و بدفنون کی آمیزش نہ ہو۔
٭ جب کوئی رفیع الشان عمارت بناؤ تو اس کی چھوٹی چھوٹی بنیادوں کی طرف سے غافل نہ ہو۔
٭ دنیا میں کوئی ایسی اعلیٰ سے اعلیٰ خوبی نہیں۔ جس کے ساتھ اسی مناسبت سے کوئی طرفہ نہ ہو۔
٭ جو شخص فراغت اور سنجیدگی سے زندگی بسر کرنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ اپنا خرچ آمدنی سے آدھا رکھے اور اگر اس کی خواہش دولت مند بننے کی ہے تو اس کا خرچ اس کی آمدنی سے تہائی ہونا چاہیے۔