(Last Updated On: )
اقلیمِ جاں سے آگے کدھر جائے آدمی
اک دشت بے ثمر ہے جدھر جائے آدمی
سفاک اسقدر ہے کہ شرمندہ گرگ بھی
خود اپنا حال دیکھے تو ڈر جائے آدمی
پیروں میں آبلے تو نگاہوں میں فاصلے
ان منزلوں سے کیسے گزر جائے آدمی
خود بن گیا مشین مشینوں کے ساتھ ساتھ
کاموں سے جان چھوٹے تو گھر جائے آدمی
روٹی کے دو نوالے ہیں مشکل سے دستیاب
مہنگائ اسقدر ہے کہ مر جائے آدمی
دھن،دھونس،دھاندلی کے بھنور ہیں تو کیا ہوا
بس بے ضمیر بن کے اتر جائے آدمی
ایسے میں سچ سنا کے بھلا جاں گنوائے کیوں
بہتر نہیں کہ صاف مکر جائے آدمی
اس میں حرج ہی کیا کہ نیا شہر ڈھونڈ لے
کاشر جب ایک شہر سے بھر جائے آدمی