وہ نہا کر نکلی ہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔
اس نے سر پر دوپٹہ اوڑھا اور آگے بڑھ کر دروازہ کھولا۔۔
“کیسی ہو ٹڈی۔۔۔؟”
وصی نے شرارت سے کہا۔۔
“ٹھیک ہوں۔۔” اس نے مختصر کہا۔۔
“یہ دیکھو میں برگر۔۔۔تمہارے لیے لایا ہوں۔۔”
وصی نے برگر اس کے سامنے کیا۔۔
“نہیں۔۔۔میرا دل نہیں کر رہا۔۔”
حور نے اترے ہوئے چہرے سے کہا۔۔
“کھانا تو پڑے گا۔۔۔” وصی نے سائیڈ ٹیبل پر رکھا۔۔
“نہیں۔۔پلیز آپ لے جائیں۔۔”
حور نے پھر جواب دیا۔۔
“حور تم جانتی ہو۔۔ایسا کر کے تم ہم سب کو تکلیف دے رہی ہو۔۔نہیں کرو یار خود کو سزا کیوں دے رہی ہو۔۔؟”
وصی نے اس کے چہرے کو بغور دیکھا۔۔
“کیوں کہ اس سب میں میری غلطی تھی۔۔۔”
حور نے سر جھکائے کہا۔۔
“نہیں تمہاری غلطی نہیں تھی۔۔میری غلطی تھی ۔نا میں تمہیں لے جاتا اپنے ساتھ نا اس دن تم بے حوش ہوتی اور نا میں ڈاکٹر حمنہ۔۔۔۔” وہ کہتا کہتا رکا۔۔۔
“اس دن ڈاکٹر حمنہ نے جھوٹ کیوں کہا؟”
وصی کو جیسے کچھ یاد آیا۔۔
حور خاموش کھڑی اسے دیکھ رہی تھی
“حور مجھے سمجھ نہیں آرہا۔۔۔ڈاکٹرحمنہ نے ایسا کیوں کیا۔۔۔؟” وصی الجھا۔۔
“مجھے پتا ہے اس نے ایسا کیوں کیا”
حور نے یک دم کہا۔۔
“کیا مطلب۔۔۔؟” وصی نے حیرت سے اسے دیکھا ۔
“آپ دونوں کی غیر موجودگی میں ایک دن حمنہ آئی تھی۔۔میرے پاس”
حور نے وصی کو اس دن کا سارا واقع بتایا۔۔
“تو اس لیے کیا حمنہ نے سب۔۔ مگر تم نے یہ بات پہلے جھے نہیں بتائی۔۔”
وصی نے اسے دیکھا۔۔
“نہیں۔۔میں نے اگنور کردی۔۔۔اور۔۔۔”
حور نے ہچکچا کر کہا۔۔
“اتنی بڑی بات اگنور کردی۔۔۔مجھے نہیں بتاتی شفی کو بتادیتی۔۔۔”
وصی نے تلخ لہجے میں کہا ۔
“وہ۔۔مجھے لگا کہ ان کی دوستی خراب ہوجائے گی۔۔۔وہ کیا سوچیں گے حمنہ کے بارے میں۔۔۔اسی لیے مجھے بہتر نہیں لگا بتانا”
حور نے معصومیت سے کہا۔۔
“یار۔۔۔۔حور تمہاری غلطی ہے تمہیں شفی کو سب بتانا چاہیے تھا۔۔اگر تم یہ بات پہلے ہی شفی کو بتا دیتی تو آج اتنی نہیں بڑھتی بات۔۔۔”
وصی نے سر پر ہاتھ رکھا۔۔
“مجھے نہیں پتا تھا وہ ایسا کرے گی۔۔۔” حور کی آنکھوں میں نمی تیر آئی۔۔
وصی اس کی آنکھوں میں اترنے والی نمی کو نوٹس کرتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔
“خیر کوئی بات نہیں۔۔ جو ہونا تھا وہ ہوچکا۔۔اور میں کیوں بھول گیا کہ میں ٹڈی سے عقل کی امید رکھ رہا ہوں۔۔۔”
وصی نے جھک کر اس کے جھکے سر کو دیکھا۔۔۔
“اچھا۔۔۔یہ برگر کھا لینا۔۔میں دیکھو کل جانا ہے مجھے تیاری شیاری کرلوں۔۔”
وصی نے مسکرا کر کہا۔۔
تبھی پھپھو کمرے میں داخل ہوئی۔۔
“وصی۔۔۔میرے ساتھ آؤ۔۔۔”
پھپھو نے کہا اور باہر نکل گئی۔۔
وصی بھی ان کے پیچھے چل دیا۔۔
آج کافی ٹھنڈ تھی۔۔
اور صبح سے شفی کو احمد نہیں نظر آیا۔۔۔
تو شفی وجہ پتا کرنے اس کے پاس گیا۔۔
“کیا ہوا ہے آج نظر ہی نہیں آیا۔۔۔؟”
شفی نے کمرے میں داخل ہوتے ہی کہا۔۔
جہاں احمد کمبل تانے لیٹا تھا۔۔
“کچھ نہیں یار بس سردی لگ گئی۔۔”
احمد نے اکتا کر کہا
“اچھا۔۔۔تو میڈیسن وغیرہ لے نا۔۔۔”
شفی نے مشورہ دیا۔۔
“لی تھی یار فرق نہیں پڑا۔۔”
احمد نے کہا۔۔۔
“اچھا چل اٹھ ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔۔”
شفی اٹھ کھڑا ہوا۔۔
اور ہاتھ پکڑ اسےکھڑا کیا۔۔
اور وہ دونوں سیدھا ہسپتال پہنچے۔۔۔
جہاں ڈاکٹر حمنہ پہلے سے موجود تھی۔۔۔
شفی کو وہاں دیکھ فوراً اس کے پاس آئی۔۔
“شفی خیریت۔۔۔یہاں کیسے آنا ہوا؟”
حمنہ نے خوش دلی سے پوچھا۔۔
“احمد کی طبیعت سہی نہیں ہے اسی لیے آئیں ہیں۔۔”
شفی نے جواب دیا۔۔
“کیا ہوا احمد خیریت۔۔۔؟”
حمنہ احمد سے مخاطب تھی۔۔
“بس سردی لگ گئی ۔۔۔” احمد نے کھانستے ہوئے کہا۔۔
پھر ڈاکٹر حمنہ نے چیک اپ کے بعد۔۔۔
کچھ دوا لکھ کر اسے تھمائی۔۔۔
اور تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد وہ لوگ باہر نکل آئے۔۔
اب اپنا خیال رکھنا۔۔۔لا مجھے دے۔۔۔میں دوا لیتا ہوں۔۔۔”
شفی نے اسٹور کے پاس رک کر کہا۔۔
اور احمد کی دواؤ کا کاغذ کھولا۔۔۔تو اس کے ماتھے پر بل پڑے۔۔
“وصی۔۔۔تمہیں اب یو حور سے ملنا نہیں تھا۔۔”
پھپھو نے کہا۔۔
“کیوں۔۔؟”
وصی نے حیرانی سے پوچھا۔۔
“وہ عدت میں ہے۔۔۔”
پھپھو نے بتایا۔۔
“تو کیا ہوا۔۔۔میں غیر تھوڑی نا ہوں۔۔”
وصی نے سادگی سے کہا۔۔
“تم غیر نہیں۔۔ مگر نامحرم تو ہو اس کے لیے۔۔۔
اسلام میں جس سے نکاح جائز ہو اس سے پردہ ہے۔۔”
شائستہ بیگم نے سمجھایا۔۔
وصی ان کی بات سن سوچ میں پڑ گیا۔۔
“اب جب تک عدت نہیں پوری ہوتی تم اس کے کمرے میں مت جانا۔۔” شائستہ بیگم نے تاکید کی۔۔۔
وہ اثبات میں سر ہلاتا اپنے کمرے میں آگیا۔۔
وہ گہری سوچ میں تھا۔۔
(تم غیر نہیں۔۔ مگر نامحرم تو ہو اس کے لیے۔۔۔
اسلام میں جس سے نکاح جائز ہو اس سے پردہ ہے)
پھپھو کی کہی بات اسے اب سمجھ آگئی تھی۔۔
“میں حور کے ساتھ اسی طرح رہتا تھا جیسے شادی سے پہلے۔۔کیوں کہ وہ میری کزن تھی۔۔۔مگر شفی بھی غلط نہیں۔۔۔میں نامحرم تھا حور کے لیے۔۔۔مجھے یہ بات سمجھنی چاہیے تھی۔۔”
وصی نے خود کلامی کی۔۔
اور بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے گہری سوچ میں ڈوب گیا۔۔
جو کچھ بھی ہوا تھا اس میں کہیں نا کہیں اسے اپنا قصور لگ رہا تھا۔۔
شفی نے گھر آتے ہی دراز سے وہ کاغذ نکالا جو وصی نے دیا تھا۔۔
پھر جیب سے وہ کاغذ نکالا جو آج حمنہ نے احمد کو دیا تھا۔۔
دونوں پر ہی دواؤں کے نام لکھے تھے۔۔
اور ہینڈ رائٹنگ بھی ایک جیسی تھی۔۔۔
اسے اس دن کا سارا واقع پھر سے یاد آگیا۔۔
“مگر اس دن اگر حمنہ آئی تھی یہاں تو پھر اس نے جھوٹ کیوں بولا۔۔؟”
شفی صوفے پر بیٹھا سوچنے لگا۔۔
“اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں ہینڈ رائٹنگ ڈاکٹر حمنہ کی ہی ہیں۔۔مگر اب مجھے جاننا یہ ہے کہ اگر ڈاکٹر حمنہ یہاں آئی تھی تو اس نے صاف انکار کیوں کیا۔۔”
شفی الجھا۔۔
رات گھنی سیاہ ہوتی جارہی تھی۔۔
مگر شفی اسی طرح صوفے پر ٹیک لگائے بیٹھا۔۔
سوچوں کے سمندر میں غوطے لگارہا تھا۔۔
صبح صبح وصی ناشتہ کرتے ہی نکل گیا تھا
سب سے مل کر۔۔۔
سفر کے دوران بھی اس کے دماغ میں ساری سوچیں۔۔
ذخیرہ تھی۔۔
اب بس اسے انتظار تھا کہ کب وہ پہنچے اور ڈاکٹر حمنہ کو کھری کھری سنائے۔۔
آخر کو اس نے کتنی ہی زندگیاں خراب کردی تھی۔۔
اسکی ایک جھوٹی گواہی نے شفی اور حور کو دور کردیا تھا۔۔
اس کی ایک غلط بیانی نے دو بھائیوں کےبیچ دراڑ پیدا کردی تھی۔۔
“اس کے خود غرضی کے اس عمل نے شفی اور اس کی فیملی کو الگ کردیا تھا۔۔
مگر کہیں نا کہیں اس سب کا زمہ دار وصی خود کو بھی سمجھ رہا تھا۔۔
وصی نے پہنچتے ہی روم میں اپنا سامان رکھا۔۔
اور سیدھا ہسپتال پہنچا۔۔
اتنے لمبے سفر کے بعد بھی اسے تھکاوٹ محسوس نہیں ہورہی تھی۔۔
یا یہ کہیں کہ کرنا ہی نہیں چاہ رہا تھا۔۔
اس وقت اسے صرف ڈاکٹر حمنہ سے ملنا تھا۔۔
وہ ہسپتال کی سیڑھیاں تیزی سے پھلانگتا اوپر پہنچا۔۔
جہاں ایک بار پہلے بھی وہ حمنہ سے ملنے آیا تھا۔۔
وہ جانتا تھا کہ وہ یہیں ہوگی۔۔
وہ شیشے کا دروازہ کھول اندر داخل ہوا۔۔
مگر اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ حمنہ اس ڈپارٹمنٹ کے کس حصہ میں ہوگی۔۔
“ایکسکیوز می۔۔۔”اس نے پاس سے گزرتی ایک نرس سے پوچھا
“یس۔۔۔” نرس رکی۔۔
“کیا آپ بتا سکتی ہیں ڈاکٹر حمنہ کہاں ملیں گی۔۔؟”
وصی نے پوچھا۔۔
“جی وہ میٹنگ میں ہیں ابھی تو۔۔۔”
نرس نے جواب دیا۔۔
“کب تک فری ہوں گی۔۔؟” وصی نے پھر پوچھا۔۔
“کچھ پتا نہیں۔۔۔شاید پندرہ سے بیس منٹ۔۔۔”
وہ کہ کر چلی گئی۔۔۔
وہ جیسے ہی میٹنگ سے نکلی۔۔۔
آواز پر اس کے قدم رکے۔۔
“ڈاکٹر حمنہ۔۔۔” وصی کی گمبھیر آواز اس کے کانوں میں پڑی۔۔
وہ لمحہ بھر رکی پھر تیز تیز قدم اٹھاتی آگے بڑھ گئی۔۔
“کیوں بھاگ رہی ہیں آپ مجھ سے۔۔۔جہاں قصور ہوتا ہے خاموشی بھی وہیں ہوتی ہے۔۔۔”
وصی اس کے پیچھے لپکا۔۔
“ضروری نہیں ہے وصی۔۔جہاں قصور ہو وہاں ہی خاموشی ہو۔۔۔”
وہ کہتی اپنی کیبن میں داخل ہوئی۔۔
“مگر آپ تو قصور وار بھی ہیں خاموش بھی۔۔۔”
وصی نے تیکھے لہجے میں کہا۔۔
“میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔۔۔ہاں میں نے صرف شفی سے محبت کی ہے۔۔اور محبت میں کچھ غلط نہیں ہوتا۔۔” حمنہ نے نرم لہجے میں کہا۔۔
“آپ نے جھوٹ بول کر دو زندگیاں خراب کردی۔۔۔
ایک فیملی سے ان کا جوان بیٹا چھین لیا۔۔
دو بھائیوں کی محبت نفرت میں بدل دی۔۔”
وصی نے تلخی سے کہا۔۔
“میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔۔یقین کرو وصی۔۔میں نے کبھی نہیں چاہا تھا۔۔کہ سب ہوجائے۔۔۔میں شفی اور حور کو الگ بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔”
ڈاکٹر حمنہ نے سنجیدگی سے کہا۔۔
“پھر کیوں اس دن آپ نے جھوٹ کہا۔۔
آپ کو پتا ہے۔۔۔میرا بھائی میرا اپنا سگا بھائی جو مجھ سے اتنا پیار کرتا تھا۔۔آج نفرت کرتا ہے۔۔مجھے اتنا گھٹیا سمجھ رہا ہے۔۔۔کہ۔۔۔کیوں کیا یار۔۔۔؟”
وصی نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔۔
“میں نے کچھ بھی جان بوجھ کر نہیں کیا۔۔۔
میں شفی سے آج سے نہیں بہت پہلے سے محبت کرتی ہوں۔۔
مواقع ڈھونڈتی تھی اس سے بات کرنے کے۔۔مگر اس نے کبھی میری طرف نہیں دیکھا۔۔
پھر وہ ایک دن خود سے آیا میرے پاس۔۔۔
مگر اس بار بھی وہ تمہارے لیے میرے پاس آیا۔۔۔
اور میں انکار نہیں کرسکی۔۔
اسے جب جب میری ضرورت پڑی میں حاضر رہی۔۔۔
میں نے بہت چاہا ہے اسے۔۔۔
تو اس ناطے اسے میرا ہونا چاہیے تھا۔۔۔ناکہ حور کا”
حمنہ نے نم آنکھوں سے کہا۔۔
“آپ تو اسے ابھی چاہنے لگی ہیں۔۔۔حور وہ تو بچپن سے اس کی تھی۔۔۔اس کے نام پر بیٹھی تھی۔۔
شفی بھی اسے پسند کرتا تھا۔۔۔اور آپ نے اپنی ایک طرفہ محبت پر ان دونوں کو الگ کردیا۔۔؟”
وصی نے کرختگی سے کہا۔۔
“میں نے ایسا نہیں سوچا کہ میں انہیں کبھی الگ کروں۔۔۔مگر اس دن جب موقع خود میرے پاس چل کر آیا۔۔۔تو میں لالچ میں آگئی تھی وصی۔۔۔میں جانتی ہوں میں نے غلطی کی ہے۔۔۔مگر میں اتنی بری بھی نہیں۔۔۔”
حمنہ کی آنکھ سے دوآنسوں گرے۔۔۔
“ارے آپ کو اندازہ نہیں آپ نے کیا ہے۔۔۔وہ جو بچپن سے شفی کو پسند کرتی ہے چار دن ساتھ رہ کر عدت پوری کر رہی ہے۔۔۔صرف آپ کی وجہ سے۔۔۔آپ نے اس معصوم کو طلاق کروا دی۔۔آپ کی وجہ سے آج بھی رو رہی ہے۔۔
آپ کو کیا لگتا ہے۔۔؟ آپ کسی کا نقصان کر کے خوش رہ سکیں گی۔۔ہر آنسوں کا بدلہ آپ کو ایک دن چکانا ہوگا۔۔۔”
وصی نے تلخ لہجے میں اسے سنا رہا تھا۔۔
“جو دو بھائی ایک دوسرے کے بغیر رہ نہیں سکتے تھے۔۔۔آج شکل تک نہیں دیکھنا چاہتے۔۔۔صرف آپ کی وجہ سے۔۔
میرے بوڑھے ددا، ددو جن کا سہارا تھا شفی ان کا غرور۔۔۔
آج انہوں نے اسے خود سے دور کردیا۔۔۔کس کس بات کا قرض اتاریں گی آپ؟”
وصی نے چبا کر کہا۔۔
وہ خاموشی سے بھیگا چہرہ لیے اس کی بات سن رہی تھی۔۔
“یہ محبت نہیں ہوتی۔۔۔محبت دینے کا نا ہے چھیننے کا نہیں۔۔اور آپ نے حور سے شفی کو چھینا ہے۔۔۔”
وصی نے غصہ سے تیر برسایا۔۔۔اور وہاں سے نکل گیا۔۔۔
مگر حمنہ کھڑی اپنے پیروں پر ساکت ہوگئی۔۔۔
وہ ڈیوٹی سے ابھی گھر آیا تھا۔۔
اس نے بیڈ پر بیٹھ جوتے اتارے۔۔۔
تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔۔
اور اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔۔
دروازہ کھولا تو سامنے ہی ڈاکٹر حمنہ کھڑی تھی۔۔
“او ڈاکٹر حمنہ اچھا ہوا آپ آگئی۔۔اندر آئیں۔۔”
شفی نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا
وہ اندر داخل ہوئی۔۔
مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔۔”
ڈاکٹر حمنہ نے سنجیدگی سے کہا۔۔
“مجھے بھی آپ سے ضروری بات کرنی تھی آؤ۔۔۔”
شفی کہ کر کمرے میں داخل ہوا اور دراز سے وہ دونوں کاغذ نکالے۔۔
اور اس کے سامنے رکھے۔۔۔
“ان دونوں کاغذوں پر آپ کی ہی ہینڈ رائٹنگ ہے نا۔۔؟”
شفی نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا۔۔
ڈاکٹر حمنہ نے ان کاغذوں کو دیکھا پھر سر جھکائے ہی اثبات میں سر ہلایا۔۔
“مجھے اسی بارے میں آپ کو کچھ بتانا تھا۔۔”
ڈاکٹر حمنہ نے کہا۔۔
“کیا؟” شفی نے پوچھا۔۔
“میں نے جھوٹ کہا تھا کہ میں اس دن آپ کے گھر نہیں آئی۔۔۔۔اس دن وصی نے مجھے بلایا تھا جب حور کی طبیعت خراب تھی۔۔حور۔۔بے حوش تھی۔۔اور۔۔۔میں نے ہی اس کے کپڑے چینج کیے تھے۔۔۔اور۔۔”
وہ اپنی بات پوری کرتی اس سے پہلے ہی شفی کا بھاری ہاتھ اس کے گال پر انگلیاں چھپا گیا۔۔
“جھوٹ کہا تھا۔۔۔کیوں۔۔۔؟” شفی آخری لفظ پر چیخا
“شفی۔۔مجھے معاف کردو۔۔۔میں جانتی ہوں مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔مگر۔۔۔”
حمنہ نے تھپڑ کے کی تکلیف کو بھلاتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ کہا۔۔
“مگر کیا۔۔۔تم جانتی ہو تم نے کیا کروادیا مجھ سے۔۔۔
میں نے تم پر بھروسہ کیا اور تم نے میرا ہی گھر خراب کردیا۔۔۔”
شفی نے غصہ سے کہا۔۔
“شفی میں نے جو بھی کیا تمہاری محبت میں اندھی ہوکر کیا۔۔مگر میں یہ بھول گئی کہ برائی کا انجام تو برا ہی ہوتا ہے۔۔میرے جھوٹ کی وجہ سے سب ہوا ہے۔۔۔
مگر میں کیا کرتی۔۔انسان ہوں نہیں برداشت ہورہا تھا اپنی محبت کسی اور کی ہوتے دیکھ۔۔۔۔پلیز مجھے معاف کردو۔۔”
حمنہ نے روتے ہوئے معافی مانگی۔۔
“کون سی محبت؟ میں نے کبھی کسی قسم کا آسرا دیا تمہیں؟۔۔۔محبت کا اظہار کیا؟ نہیں نا۔۔۔۔تو پھر۔۔۔؟
میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ تم اتنی گھٹیا نکلو گی۔۔۔”
شفی نے تلخ لہجے میں کہا۔۔
“نہیں شفی۔۔۔پلیز مجھے معاف کردو۔۔۔”
حمنہ نے پھر سے معافی مانگنی چاہی۔۔
“مجھے اپنوں سے دور کر کے تم معافی مانگ رہی ہو۔۔۔۔
لیکن قصور تمہارا نہیں میرا ہے جو میں نے تم پر یقین کیا۔۔۔
نفرت آرہی ہے تمہاری شکل سے مجھے۔۔۔جاؤ یہاں سے۔۔”
شفی نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔۔
“تم مجھ سے نفرت نہیں کرسکتے۔۔۔پلیز شفی۔۔۔”
حمنہ نے روتے ہوئے کہا۔۔
“تم ایسے نہیں جاؤں گی۔۔۔۔” شفی کہ کر آگے بڑھا۔۔۔اور اسے بازوں سے پکڑتا باہر لے گیا۔۔۔
“جاؤ یہاں سے۔۔۔” شفی نے اسے باہر دھکیلا۔۔۔
اور کھٹاک سے اس کے منہ پر دروازہ بند کیا۔۔۔
شفی کی آنکھوں سے آنسوں پھسلے۔۔
اس نے ضبط سے آنکھیں بند کی۔۔۔
(میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔۔)
اس کے کانوں سے جملہ ٹکرایا۔۔
“یااللہ یہ میں نے کیا کردیا۔۔”
شفی نے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو تھاما۔۔۔
وہ اپنے کمرے میں لیٹا چھت کو گھور رہا تھا۔۔
جو کچھ ہوا تھا وہ اسے بدل نہیں سکتا تھا۔۔۔
مگر بار بار حور کا معصوم چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے آرہا تھا۔۔
“شفی اگر میں تجھے حمنہ کی سچائی بتاؤں تب بھی تو یقین نہیں کرے گا۔۔۔میں کیا کروں ایسا کہ تجھے احساس ہوجائے۔۔۔”
وصی نے دل میں سوچا ۔۔
مگر احساس ہوکر بھی کیا فائدہ۔۔۔شفی تونے کیا کیا یہ۔۔”
وصی سوچوں میں گم تھا کہ اس کا فون بجا۔۔۔
اس نے فون اٹھایا۔۔
اسکرین پر شفی کالنگ جگمگا رہا تھا۔۔
وصی کو حیرانی ہوئی۔۔۔
پھر اس نے کال رسیو کی اور کان سے لگایا۔۔۔
“ہیلو۔۔۔”
وصی نے کہا۔۔
“ہیلو وصی۔۔۔مجھے تجھ سے ملنا ہے جلدی آ۔۔۔”
شفی نے اسے کہا اور فون بند کردیا۔۔
وصی کو حیرت ہورہی تھی شفی نے اس وقت اسے بلایا تھا۔۔۔
وہ کھڑکی کے پاس کھڑی تھی کہ لان میں اسکی نظر پڑی۔۔
اکثر وصی اسے وہاں نظر آتا تھا۔۔
مگر اب لان بلکل خالی تھا۔۔
وصی کے ساتھ گزارےلمحے۔۔۔یاد کر اسےکوئی تکلیف نہیں ہورہی تھی۔۔
تبھی دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی اور شائستہ بیگم اندرداخل ہوئی۔۔
“حور۔۔۔یہ لو دودھ۔۔۔وہاں کیا کر رہی ہو؟”
شائستہ بیگم نے دودھ کا گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھا۔۔۔
“کچھ نہیں مما۔۔۔ایسے ہی بس۔۔”
وہ چل کر قریب آئی۔۔
“اچھا یہ دودھ ختم کرو جلدی۔۔۔”
شائستہ بیگم نے کہا۔۔
“مما میرا دل نہیں کر رہا واپس لے جائیں۔۔”
حور نے منہ بنایا۔۔۔
“حور نخرے نہیں کرو جلدی ختم کرو۔۔۔”
شائستہ بیگم نے سختی سے حکم دیا۔۔
“آپ زبردستی کر رہی ہیں۔۔۔اب کھانے پینے میں تو میری مرضی چلنے دیں۔۔۔”
حور نے بیٹھتے ہوئے کہا۔۔
شائستہ بیگم کے تاثرات یک دم سنجیدہ ہوئے۔۔
“سوری حور۔۔۔کوئی بھی ماں اپنی بیٹی کے لیے جان بوجھ کر غلط فیصلہ نہیں کرتی۔۔میں جانتی ہوں جو کچھ ہوا اس میں میرا قصور ہے”
شائستہ بیگم نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا
“نہیں مما۔۔میرا وہ مطلب نہیں تھا۔۔۔میں تو بس۔۔۔”
حور نے تصحیح کرنی چاہی۔۔
“تمہارا بھلے جو بھی مطلب تھا مگر سچ تو یہی ہے نا کہ میں نے زبردستی تمہیں شفی کے ساتھ باندھا تھا۔۔”
شائستہ بیگم نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔۔
“ہاں آپ نے زبردستی یہ رشتہ کیا تھا۔۔۔مگر اس میں آپ کی کوئی غلطی نہیں تھی۔۔۔یہ میرا نصیب تھا۔۔۔”
حور نے کہا۔۔
“مجھے نہیں پتا تھا شفی ایسا نکلے گا۔۔۔وہ عمر میں تم سے بڑا تھا۔۔تمہارا کوئی جوڑ نہیں تھا اس کے ساتھ۔۔۔مگر جب بھائی بھابھی نے تمہیں شفی کے لیے مانگا تھا تو میں انکار نہیں کرسکی۔۔۔شفی بھی مجھے اچھا ہی لگا۔۔۔یہ خواہش میرے مرحوم بھائی کی تھی۔۔میں کیسے نا پوری کرتی۔۔؟”
شائستہ بیگم نے نم آنکھوں سے کہا۔۔
“مجھے ایسے کوئی گلہ نہیں ہے مما۔۔۔”
حور نے ان کے آنسوں صاف کرتے ہوئے کہا۔۔
“مجھے اندازہ بھی نہیں تھا کہ شفی تمہارے ساتھ ایسا کرے گا۔۔ورنہ میں شفی کے بجائے وصی سے تمہارا رشتہ کرتی۔۔جس کے ساتھ تمہارا جوڑ بھی تھا۔۔”
شائستہ بیگم نے اپنے دل کی بات کہی۔۔
حور یک دم خاموش ہوئی۔۔۔
“اچھا مجھے کچن میں کام ہے۔۔۔تم یہ دودھ لازمی پی لینا۔۔۔اور ہاں۔۔۔جو تمہارے نئے کپڑے ہیں مجھے دے دینا۔۔۔ماسی کو دے دوں گی۔۔”
شائستہ بیگم کہ کر چلی گئی۔۔۔
حور اٹھ کر الماری کی طرف گئی۔۔
اسٹول رکھ اوپر چڑھی اور الماری پر سے بیگ اتارنے لگی۔۔
وہ بیگ اتارنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔مگر شاید وہ تھوڑا بھاری تھا۔۔
بہر حال اس نے اتار ہی لیا۔۔
پھر بیگ کھولنے لگی۔۔کہ ایک سنہری یاد اس کو چھا گئی
(ویسے بتا رہے ہیں تم سے نا ہوپائے گا )
وصی کا شرارت سے کہا جانے والا جملہ اسے یاد اور اس کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔۔
“وصی بولنا تو ے مجھے معاف کردیا۔۔۔”
شفی اس کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑا تھا
“میرے معاف کرنے سے کیا ہوگاشفی۔۔تو نے میرے علاوہ بھی بہت سے لوگوں کو دکھ پہنچایا ہے۔۔۔سب سے زیادہ تکلیف تو حور کو دی ہےتونے۔۔۔اس سب میں اس معصوم کا کیا قصور تھا؟”
وصی نے چبا کر کہا۔۔
“میں جانتا ہوں میں نے غلط کیا۔۔۔میں غصہ میں کرگیا یار”
شفی نے بھیگی ہوئی آنکھوں سے کہا۔۔
“شفی تو بھول رہا ہے۔۔۔غصہ میں کہی جانے والی طلاق بھی طلاق ہی ہوتی ہے۔۔۔ارے تو تو اتنا سمجھدار تھا۔۔۔پھر یہ سب۔۔۔کیا کردیا یار تونے۔۔”
وصی نے دکھ سموئے کہا۔۔
“پتا نہیں یار۔۔۔یہ۔۔کیسے کردیا۔۔۔مجھے غصہ میں کچھ یاد ہی نہیں رہا۔۔۔میں جانتا میں نے غلط کیا تمہارے ساتھ حور کے ساتھ۔۔۔مگر وصی۔۔کیا کروں یار۔۔انسان ہوں۔۔ہوجاتی ہے غلطی۔۔کردی میں نے غلطی۔۔مجھے پلیز معاف کردو یار۔۔۔”
شفی نے بھری ہوئی آواز میں کہا۔۔
“اب غلطی کا احساس ہوا ہے تجھے۔۔اب بہت دیر ہوگئی۔۔۔
میں تو معاف کردوں گا۔۔۔مگر پھپھو۔۔وہ معاف کرے گی۔۔جن کی لاڈلی بیٹی کی زندگی خراب کردی تونے؟۔۔۔ددا، ددو۔۔۔کیا وہ لوگ معاف کریں گے تجھے۔۔؟”
وصی نے تلخ لہجے میں سمجھایا۔۔
“میں۔۔۔میں ان سب سے بھی معافی مانگ لوں گا۔۔۔پاؤں میں گر کر اپنی غلطیوں کی معافی مانگ لوں گا۔۔۔ہاں۔۔۔وہ معاف کردیں گے مجھے۔۔”
شفی نے اپنے ہاتھ چہرے پر رگڑتے ہوئے بھیگا چہرہ صاف کیا۔۔
“اچھا اور حور۔۔۔کیا وہ معاف کردے گی تجھے۔۔۔؟”
وصی نے تیکھا جملہ پھر دوہرایا۔۔
جسے سن شفی نے فوراً اسے دیکھا۔۔
“ہاں میں اس سے معافی مانگ لوں گا۔۔میں نے اس پر بھروسہ نا کر کے اسے بہت تکلیف دی ہے۔۔۔وہ جو بھی سزا دے گی مجھے قبول ہوگی۔۔بس وہ مجھے معاف کردے۔۔۔”
شفی نے کہا۔۔
“اور اگر وہ تجھے معاف کر بھی دے تو کیا؟ تو اسے طلاق دے چکا ہے۔۔۔”
وصی نے یاد دلایا۔۔۔اور وہ سرخ آنکھوں سے وصی کو دیکھنے لگا۔۔
وہ چھٹی لے کر سیدھا گھر پہنچا۔۔۔
لان میں ددو اور ددا بیٹھے باتوں میں مصروف تھے۔۔
شفی لمبے ڈگ بھرتا ان تک گیا۔۔
“اسلام علیکم ددا” شفی نے قریب آکر کہا۔۔
وہ دونوں اسے دیکھ چونکے۔۔
“شفی۔۔۔” ددو اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
“تو یہاں کیوں آیا ہے؟”
ددا نے کڑک لہجے میں کہا۔۔
“میں اپنے گناہوں کی معافی مانگنے آیا ہوں ددا۔۔۔میں نے آپ سب کے بھروسے کو توڑا ہے۔۔۔میں جانتا ہوں میں بہت برا ہوں۔۔۔مجھے معاف کردیں۔۔۔”
شفی نے ہاتھ جوڑے۔۔
“تیرے گناہ اتنے بڑے ہیں شفی کہ معافی کی گنجائش نہیں۔۔۔”
ددا نے غصہ سے کہا۔۔
ان کی بے رخی دیکھ شفی کی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔۔
ایسے مت کہیں ددا۔۔۔میں اپنی غلطی مان رہا ہوں آپ لوگ جو سزا دو گے مجھے قبول ہے۔۔مجھے معاف کردیں ددا۔۔۔”
شفی نے منت کی۔۔
تبھی شائستہ بیگم وہاں آئی اور شفی کو دیکھ ٹھٹکی۔۔
“پھپھو۔۔۔میں آپ کا بھی گناہگار ہوں۔۔۔پلیز مجھے معاف کردیں آپ سب کی ے رخی مجھے اندر تک جلا رہی ہے۔۔۔
میں جانتا ہوں میری غلطی معافی کے لائق نہیں مگر۔۔۔
میں آپ سب سے معافی مانگ رہا ہوں۔۔۔۔
پلیز پھپھو میں ہاتھ جوڑتا ہوں مجھے معاف کردیں۔۔”
شفی نے بھیگے چہرے سے کہا۔۔
“اب معافی مانگنے سے کیا ہوگا شفی۔۔۔تو نے میری بچی کی زندگی خراب کردی۔۔۔کیا قصور تھا میری حور کا۔۔۔
یہی نا کہ وہ معصوم تھی۔۔ جس کا تم نے فائدہ اٹھایا۔۔”
شائستہ بیگم دکھ بھرے لہجے میں گویا تھی۔۔
“پھپھو میں اس سے بھی معافی مانگ لوں گا۔۔۔
وہ جو سزا دے گی میں ہنستے ہنستے قبول کروں گا۔۔۔
میں سب ٹھیک کردوں گا پھپھو۔۔۔”
شفی نے ان کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔۔
اور شائستہ بیگم ہی نہیں ددو کی آنکھ بھی بھر آئی۔۔۔
وہ بیٹھی قرآن پاک پڑھ رہی تھی۔۔
جب شائستہ بیگم کمرے میں داخل ہوئی۔۔
ساتھ ددو بھی تھی۔۔
“حور۔۔۔ہمیں کچھ بات کرنی ہے تجھ سے۔۔”
شائستہ بیگم نے کہا۔۔
حور نے اثںات میں سر ہلایا اور قرآن پاک کو چومتے ہوئے بند کیا۔۔۔
اٹھ کر قرآن پاک رکھا۔۔۔پھر مڑ کر ان کے پاس آئی۔۔
“حور۔۔۔میری بچی یہاں بیٹھ۔۔۔” ددو نے اسے اپنے بٹھایا
وہ چپ چاپ بیٹھ گئی۔۔
“حور شفی آیا ہے۔۔۔”
شائستہ بیگم کی بات سن حور چونکی۔۔
“وہ معافی مانگ رہا ہے۔۔۔اسے اپنی غلطیوں کا احساس ہوگیا ہے۔۔وہ تجھ سے بھی معافی مانگنا چاہتا ہے مگر عدت میں ہونے وجہ سے میں نے اسے روک دیا۔۔۔”
شائستہ بیگم نے سنجیدگی سے کہا۔۔
کسی قسم کی کوئی زبردستی نہیں ہے۔۔اس نے تیرا دل دکھایا ہے تو معاف کرنا یا نا کرنا تیرے اختیار میں ہے۔۔۔
جو کچھ ہوا بہت برا ہوا۔۔۔اور سو فیصد شفی کی غلطی تھی۔۔جس کی وہ معافی بھی مانگ رہا ہے۔۔
مگر ہم تیری مرضی جاننا چاہتے ہیں کہ تو کیا چاہتی ہے؟”
شائستہ بیگم نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔۔
مگر وہ نظریں جھکائے بیٹھی تھی۔۔
“بچہ ابھی کچھ نہیں بگڑا۔۔۔تو چاہے گی تو شفی کے ساتھ دوبارہ زندگی میں آگے بڑھ سکتی ہے۔۔۔
اسے معاف کرسکتی ہے۔۔
تو ہمیں سوچ کر جواب دے دے۔۔۔”
ددو نے اسے پیار کیا۔۔
مگر اسی انداز میں بیٹھی زمین کو گھور رہی تھی جانے اس کے دل میں کیا چل رہا تھا۔۔
آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب امڈ آیا تھا۔۔
مگر زبان خاموش تھی۔۔