“ایک غلط تصور اور کسی یقین پر مصر رہنا۔ عقل و منطق اس میں دراڑ نہ ڈال سکے۔ جبکہ اس کا حققیت میں وجود نہ ہو”۔ یہ تعریف ویبسٹر ڈکشنری میں لفظ delusion کی کی گئی ہے۔
عقلیت پسندی ایک ایسا ہی سراب ہے۔ ریشنلزم کا مرکزی خیال یہ ہے کہ reasoning ہماری سب سے برتر خاصیت ہے۔ افلاطون کے مطابق “یہ ہمیں خدا کے قریب لے جاتی ہے” یا پھر الحادِ نو کے عقیدے میں “یہ ہمیں خدا کے سراب سے آزاد کر دیتی ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عقلیت پسندی کا سراب صرف انسانی فطرت کے بارے میں دعویٰ ہی نہیں بلکہ اس کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ عقل پسندوں کے گروہوں (سائنسدان یا فلسفیوں) کے پاس زیادہ طاقت ہونی چاہیے۔ اور عام طور پر ساتھ ایک utopian ideal بھی ہے کہ اگلی نسلیں زیادہ عقل پسند ہو کر دنیا میں جنتِ ارضی بنا دیں گی۔
افلاطون سے کانٹ اور کوہلبرگ تک، کئی ریشنلسٹ یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ اخلاقیات کے بارے میں عقلی دلائل ہماری اخلاقیات بہتر کر سکتے ہیں۔ اس تصور میں ریزننگ کی صلاحیت اخلاقی سچ تک پہنچے کا راستہ ہے۔ اور جو لوگ اس صلاحیت میں مہارت رکھتے ہیں، زیادہ امکان ہے کہ ان کی اخلاقیات برتر ہوں گی۔
اور اگر ایسا ہی ہوتا تو پھر ماہرینِ اخلاقیات کو دوسرے لوگوں کے مقابلے میں اخلاقیات کے معاملے میں زیادہ بااصول ہونا چاہیے تھا، کیونکہ ان کے شب و روز اخلاقی اصولوں کے بارے میں ریزن کرتے گزرتے ہیں۔ تو ہم آسان سا سوال کر لیتے ہیں کہ “کیا واقعی میں ایسا ہے؟”۔
ایرک شوٹزگیبل نے اس سوال کا جواب تلاش کرنے پر تحقیق کی۔ کئی طریقوں سے انہوں نے پیمائش کی کہ ماہرینِ اخلاقیات خیرات کرنے، ووٹ دینے، اپنے والدین سے تعلق رکھے، خون کا عطیہ دینے، اخلاقیات کی کانفرنس کے بعد اس جگہ کی صفائی کرنے یا ای میل کے جواب دینے میں کیسے ہیں۔ اور ان میں سے کسی بھی معاملے میں ماہرینِ اخلاقیات کسی دوسرے شعبے کے پروفیسروں سے بہتر نہیں تھے۔
شوٹزگیبل نے درجنوں لائبریریوں کا جائزہ لیا۔ یہاں پر گمشدہ کتابوں کی فہرستیں کنگھالیں اور دریافت کیا کہ اخلاقیات کے موضوع پر واپس نہ کی جانے والی اکیڈمک کتابوں کا تناسب اتنا ہی ہے جتنا کسی اور موضوع پر۔ یعنی اخلاقی ریزننگ کا تعلق اخلاقی رویے سے نہیں تھا۔ بلکہ یہ تعلق کسی حد تک معکوس تھا (شاید یہ ذہن کے مہاوت کو اپنے عمل کے دفاع میں زیادہ ماہر بنا دیتا ہے)۔ کوئی ایک پیمائش بھی ایسی نہیں نکلی جس میں ماہرینِ اخلاقیات بذاتِ خود اخلاقی معاملات میں دوسروں سے بہتر ہوں۔
اخلاقیات کا پرچار اور تبلیغ کرنے والے پروفیسر، مبلغ، فلسفی یا عالم اخلاقی لحاظ سے کسی بھی طرح دوسروں سے برتر نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس کسی کو سچ کی تلاش ہے، اسے عقل کی پرستش چھوڑ دینی چاہیے۔ ہیوگو مرسئیر اور ڈان سپربر نے وسیع لٹریچر کے تجزیے کے بعد (عجیب اور ناگوار) نتیجہ اخذ کیا کہ عقل کی مہارت سچ تلاش کرنے میں نہیں بلکہ دلیل دینے، قائل کرنے، گروہ بنانے اور بحث کرنے میں ہے۔
بحث کے ماہر سچ کے لئے نہیں بلکہ اپنے نکتہ نظر کی حمایت کے لئے آرگومنٹ بناتے ہیں۔ اور زیادہ ذہین لوگ یہ کام زیادہ اچھا کر لیتے ہیں۔
اور یہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ہم اخلاقی معاملات میں اس قدر ضدی اور اڑیل کیوں ہوتے ہیں۔
کیا طلباء کو یہ بات سکھائی جا سکتی ہے کہ “دوسری سائیڈ” کی نظر سے دنیا کو کیسے دیکھا جائے؟ اس نکتہ نظر سے جو انہیں پسند نہیں؟ یہ بہت مشکل کام ہے کیونکہ کنفرمیشن بائیس ذہن کا فیچر ہے نہ کہ اس کی خامی جسے ٹھیک کیا جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم سب کو عقل کو ترک کر دینا چاہیے اور اپنے بدیہی جذبات کے فیصلوں پر پختہ ہو جانا چاہیے۔ کئی بار بدیہی احساس اچھی راہنمائی کرتے ہیں لیکن یہ پبلک پالیسی، سائنس یا قانون بنانے کے لئے تباہ کن ہیں۔
بنیادی نکتہ یہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ کہ ہمیں ایک “فرد” کی ریزن کرنے کی صلاحیت پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ کوئی بھی ایک فرد سماج میں ویسے ہے جیسے دماغ میں ایک “نیورون”۔ ایک نیورون کسی ایک چیز میں بہت اچھا ہے۔ یہ “فیصلہ” لینے میں کہ ایک نبض فائر کی جائے یا نہیں۔ لیکن ایک نیورون خود بہت عقلمند نہیں۔ تاہم، اگر نیورونز کو ٹھیک ترتیب میں رکھا جائے تو پھر دماغ بنتا ہے جس سے ذہن ابھرتا ہے جو کہ کسی ایک نیورون سے کہیں زیادہ لچکدار اور عقلمند ہے۔
اسی طرح، ایک فرد کی عقل ایک کام میں بہت اچھی ہے۔ اپنی طے شدہ پوزیشن کے بارے میں شواہد اکٹھے کرنے میں۔ ہمیں یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ افراد اچھی، کھلے ذہن اور سچ کی تلاش میں ریزن دینے کی اہلیت رکھیں گے۔ لیکن اگر افراد کا نظم ٹھیک طریقے سے رکھا جائے تو پھر ان سب کی ریزن کی طاقت ایک دوسرے کی غلطیوں کی اصلاح کرتی رہے گی۔
اس میں اہم چیز یہ ہے کہ افراد ایک دوسرے سے مشترک بندھن بنا سکیں، جو انہیں ایک دوسرے سے مناسب طریقے سے معاملہ کرنے کی اجازت دے۔ اور کسی بھی اچھے سماجی نظام کے لئے یہ مشترک بندھن انتہائی ضروری ہیں۔
کوئی گروہ یا ادارہ جو کسی سچ تک پہنچنا چاہے(مثلاً، سائنسدانوں کی کمیونیٹی یا انٹلی جنس ادارہ) یا اچھی پالیسی بنانا چاہے (مثلاً قانون ساز اسمبلی یا مشاورتی بورڈ)، اس میں موجود انٹلکچوئل اور نظریاتی تنوع ہونا لازم ہے ۔
اور اگر مقصد محض اچھی سوچ تک محدود نہیں بلکہ اچھے رویے کا بھی ہے تو پھر اس بات کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ کبھی بھی اخلاقیات پر کوئی ایسے لیکچر یا کلاس ایجاد نہیں ہو سکے گی جس سے باہر نکل کر لوگوں کی اخلاقی حالت سدھر جائے۔
ایسی کلاس مہاوت کے لئے ہے اور مہاوت کسی بھی نئے حاصل کردہ نالج کی مدد سے اپنے ہاتھیوں کی بہتر خدمت کریں گے۔ اپنے تعصبات کے بہتر جواز بنائیں گے۔
عملی اخلاقیات کے لئے ذہنی ہاتھی تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔ ماحول میں کی جانے والی چھوٹی تبدیلیاں جو اس کا راستہ بدل سکیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...