سجل نے کھیر کی پلیٹ روحاب کے سامنے رکھی اور اس کے پاس ہی کھڑی ہو گئی۔
کھڑی کیوں ہو سر پر کیا اب میرے نوالے گنو گی۔
“جی”
سجل نے آرام سے جواب دیا۔
کیا کہا۔
روحاب نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
میرا مطلب تھا نہیں۔۔۔
بلکل بھی نہیں۔۔۔
آپ کھیر کھائیں ناں خاص طور پر آپکے لئے اپنے ہاتھوں سے بنائی ہے۔
روحاب نے کھیر کا پہلا چمچ لیا اور پھر سجل کی طرف دیکھا جو مسکراتا ہوا چہرہ لئے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
روحاب دوبارہ سر جھکا کر چپ چاپ کھیر کھانے لگا۔ایک پلیٹ ختم کرنے کے بعد اس نے باؤل میں سے باقی کی کھیر بھی لے لی۔
جبکہ سجل خوش ہوتی ہوئی سوچنے لگی لگتا ہے انکو کھیر کچھ زیادہ ہی پسند آگئی ہے۔
روحاب کھیر کھانے کے بعد بغیر کچھ کہے چلا گیا۔ارے دیکھو تو کتنے مزے سے کھیر کھا کر چپ چاپ چلے گئے۔
جب کھیر اتنی ہی پسند آئی ہے تو بندہ کوئی کومپلیمنٹ ہی پاس کر دیتا ہے۔
مگر نہیں یہ کیوں کریں گے تعریف کرنے سے انکی شان میں فرق جو پڑ جاۓ گا۔
تعریفیں کروانے کے لئے تو بس ایک یہی بنے ہیں اور کسی کا تو دل ہی نہیں چاہتا اپنی تعریف سننے کو۔ابھی بھی ویسے ہی اکڑو خان ہیں اور شائد ہمیشہ ہی ایسے رہیں گے۔
سجل کھیر کے برتن اٹھا کر شیلف پڑ پٹک رہی تھی وہ اپنی تعریف نا ہونے کا غصہ ان پڑ نکال رہی تھی۔سجل نے فریج میں سے کھیر کا چھوٹا باؤل نکالا اور کھانے لگی۔
پہلا چمچ لیتے ہی اس کے منہ میں کرواہٹ گھل گئی۔ارے یہ کیا۔اس نے جلدی سے کلی کی۔
میں نے تو اس میں ذرا بھی نمک نہیں ڈالا پھر یہ کڑوا زہر کیسے بن گئی۔
او میرے خدایا۔
سجل کے ذہن میں جھماکا سا ہوا۔
اب سمجھ آئی روحاب ساری کی ساری کھیر کیوں کھا گئے۔
میں بھی کتنی پاگل ہوں ناں اپنی تعریف نا ہونے پڑ مری جا رہی تھی مگر اتنا بھی معلوم نہیں کہ اس پڑ تعریف نہیں بلکہ اچھی خاصی ڈانٹ بنتی تھی۔
مگر انہوں نے تو مجھے کچھ بھی نہیں کہا اسکا مطلب تو یہ ہوا کہ وہ مجھے ڈانٹ کر اداس نہیں کرنا چاہتے تھے۔
مگر سمجھ نہیں آ رہا کہ اس میں نمک آیا کیسے مجھے تو اچھے سے یاد ہے کہ میں نے اس میں چینی ہی ڈالی تھی۔
اف کیا مصیبت ہے کچھ پتا نہیں چل رہا۔سجل اپنے اندازے لگا لگا کر تھک چکی تھی اس لئے کھیر سنک میں الٹ کر تا کہ کوئی کھا نا لے کچن کی لائٹ بند کرتی ہوئی اپنے کمرے میں آگئی۔
۔**********************
اف ایک تو اس بیلنس کو بھی ابھی ختم ہونا تھا۔انعم تمہارا موبائل کہاں ہے۔
معارج نے انعم سے اسکا موبائل مانگا۔
وہاں سائیڈ ٹیبل پڑ ہوگا۔
انعم کے کہنے پڑ معارج نے سائیڈ ٹیبل پڑ پڑا اسکا موبائل لے لیا اور جلدی سے کسی کا نمبر ڈائل کیا۔ہیلو۔۔۔
ہاں ہاں بس میں آرہی ہوں دس منٹ میں پہنچ جاؤں گی اچھا اچھا ٹھیک ہے ابھی فون رکھتی ہوں۔
معارج آپی آپ کہیں جا رہی ہیں کیا۔
انعم نے اس کے کپڑے دیکھے اور اسے اتنا تیار دیکھا تو پوچھنے لگی۔
ٹائٹ جینز اوپر شارٹ شرٹ اور گلے میں بس نام کا دوپٹہ لئے وہ تیار کھڑی تھی۔
ہاں ایک دوست کی سالگرہ ہے ہم سب دوستوں کو انوائٹ کیا ہے۔
کون سی دوست کی سالگرہ ہے۔
بس ہے ایک دوست ابھی مجھے دیر ہو رہی ہے اس لئے چلتی ہوں بائے۔
معارج واقعی میں جلدی میں تھی اس لئے کمرے سے نکل گئی۔
۔******************
انعم معارج کہاں ہے نظر نہیں آرہی۔
سجل نے کمرے میں آتے ہوئے پوچھا۔
آپی وہ تو اپنی کسی دوست کی سالگرہ پڑ گئی ہیں کہہ رہی تھیں کہ دیر ہو رہی ہے اس لئے جلدی میں چلی گئیں۔
کون سی دوست بتایا نہیں اس نے۔
ہاں پوچھا تھا میں نے مگر انہوں نے کہا کہ ہے ایک دوست نام نہیں بتایا جلدی میں تھیں ہوگی کوئی نئی دوست انکی میرے موبائل سے فون کر رہی تھیں اسے انکے اپنے موبائل میں بیلنس نہیں تھا تو وہ گھر ہی چھوڑ گئی ہیں۔
انعم سجل کو بتا کر اپنے کپڑے اٹھاۓ نہانے کے لئے واش روم چلی گئی۔
سجل نے انعم کا موبائل پکڑا اور اس آخری نمبر پڑ کال کرنے لگی۔
معارج جلدی میں نمبر ڈیلیٹ کرنا شائد بھول گئی تھی۔
کال فوراً پک کر لی گئی۔دوسری طرف کوئی لڑکا تھا۔دس منٹ کا کہہ رہی تھی تم اور ابھی تک پہنچی نہیں جان اب اتنا انتظار بھی مت کرواؤ اب آبھی جاؤ ناں۔
سجل نے جلدی سے کال ڈسکنکٹ کر دی اور وہ نمبر اپنے موبائل پڑ سینڈ کر کے انعم کے موبائل سے ڈیلیٹ کر دیا اور پھر اپنے کمرے میں آگئی۔
یہ موبائل اسے موحد نے گفٹ کیا تھا سجل کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بعد اسکا موبائل بھی وہیں بس اسٹینڈ پر رہ گیا تھا۔
مگر موحد نے اسے بلکل ویسا ہی موبائل گفٹ کر دیا۔کیا کروں میں اس معارج کو سمجھایا بھی تھا میں نے پتا نہیں اب تک پہنچ بھی گئی ہوگی خدا کرے نا ہی پہنچی ہو۔
کیا کروں روحاب کو بتاؤں یا نا بتاؤں اب تو لگتا ہے بتانا ہی پڑے گا۔
سجل نے روحاب کو فون ملایا مگر اس نے رسیو نا کیا۔اپنی ناراضگی کے چکر میں یہ فون ہی نہیں اٹھا رہے اتنا بھی نہیں سوچتے کہ اگلے بندے کو کوئی ضروری کام بھی تو ہو سکتا ہے۔
سجل نے اسے میسج کیا پلیز کال رسیو کریں بہت ضروری بات بتانی ہے آپکو۔
اور پھر دوبارہ اسے کال کرنے لگی۔
پہلی ہی بیل پڑ کال رسیو کر لی گئی۔کیا مصبت آن پڑی ہے اب کیوں ڈسٹرب کر رہی ہو مجھے۔
روحاب فون اٹھاتے ہی بول پڑا۔
روحاب مجھے آپکو کچھ بتانا ہے۔
اور پھر سجل نے ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر روحاب کو ساری صورت حال سے آگاہ کیا۔
تم نے مجھے یہ سب پہلے کیوں نہیں بتایا اب عین وقت پڑ کیوں بتا رہی ہو تمہیں اب میں کیا کہوں کم عقل بیوی۔۔۔
جلدی سے وہ نمبر سینڈ کرو مجھے۔
جی کرتی ہوں۔
سجل نے فون بند کرنے کے بعد وہ نمبر روحاب کو سینڈ کر دیا۔
۔*********************
حولدار جلدی سے یہ نمبر ٹریس کرواؤ میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔
جی انسپکٹر روحاب میں ابھی آتا ہوں۔
حولدار جلدی سے وہاں سے غائب ہوگیا اور پھر دو منٹ بعد ظاہر بھی ہوگیا۔
انسپکٹر اس نمبر کو استعمال کرنے والا زیادہ دور نہیں ہے یہیں پرانی مندی کے پاس موجود ہے۔
روحاب اسی حولدار کو ساتھ لئے جیپ میں جا کر بیٹھ گیا۔
۔*****************
یہ تم کیا کر رہے ہو ساحر تم نے تو کہا تھا کہ تم نے مجھے بس ایک دفعہ دیکھنے کے لئے بلایا ہے اور وعدہ بھی کیا تھا کہ تم مجھے چھوؤ گے نہیں۔
کیسا وعدہ ایسے وعدے تو میں ہر روز ہر کسی سے کرتا ہوں۔
یہ وعدہ تو تمہاری نظر میں ہے ناں مگر میری نظر میں میں جو نا کرنے کا وعدہ کرتا ہوں وہ تو میں ضرور کرتا ہوں۔
ساحر نے ہنستے ہوئے اسے خود سے قریب کر لیا۔
یہاں میرے اور تمہارے علاوہ کوئی بھی نہیں ہے اس لئے بہتری اسی میں ہے کہ شور مچا کر مجھے غصہ مت دلانا۔
کتنے جھوٹے ہو تم ساحر تم نے جھوٹ بول کر پھسایا ہے مجھے۔
مجھے تمہاری بات ماننی ہی نہیں چاہیے تھی۔معارج اسے خود سے دور کرنے کی کوشش کرنے لگی۔
وہ لڑکی ہی کیا جو مجھ سے نا پٹے۔
لڑکیوں کو پٹانا تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔یونیورسٹی میں تو ہر وقت تمہاری وہ چپکو کزن تمہارے ساتھ ہوتی تھی اور ہاں وہ تمہارا بھائی بھی مگر اب تو نا بھائی ہے نا ہی کزن یہی تو اصل موقع ہے۔
گھٹیا انسان چھوڑو مجھے نہیں چھوڑوں گا کیا کر لو گی۔
ساحر نے اپنے پیلے دانت دکھاۓ۔
معارج نے اس کے ہاتھ پڑ اپنے دانت گاڑھ دیے۔
جاہل لڑکی یہ کیا کر رہی ہو زیادہ چلاکی مت دکھاؤ۔ساحر نے اسے کندھوں سے پکڑ کر دیوار کے ساتھ لگایا اور پھر ساتھ ہی اس کے اوپر جھکا مگر تک ہی دروازہ توڑ کر وہ اندر داخل ہوا یعنی روحاب۔
روحاب غصے سے قدم اٹھاتا اسکی طرف آیا اور پھر اسے گریبان سے پکڑ کر مارنا شروع کر دیا۔
مکے لاتیں گھونسے مار مار کر اسے پڑے گرایا۔
ساحر کو سمجھ نا آئی کہ یہ اچانک ہوا کیا۔
حولدار پکڑو اسے اور لے جا کر جیل میں اس کی اچھی دھلائی کرو ایک پل کے لئے بھی ہاتھ پیچھے مت ہٹانا۔
حولدار اسے گاڑی میں لے گیا جبکہ روحاب اب غصے سے معارج کی طرف دیکھتا اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے تقریباً گھسیٹتا ہوا گھر لے آیا۔
۔*******************
روحاب نے اسے دھکا دے کر بیڈ پر گرایا اور بولا۔آج کے بعد اگر گھر سے باہر قدم بھی نکالا تو ٹانگیں توڑ دوں گا تمہاری آئی سمجھ۔
روحاب اسے غصہ دکھا کر واپس پولیس اسٹیشن چلا گیا۔
سجل نے آگے بڑھ کر روتی ہوئی معارج کو گلے لگا لیا اور چپ کروانے لگی۔
جبکہ انعم پاس کھڑی ساری صورت حال سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔
وہ اتنی سمجھدار تو تھی ہی کہ روتی ہوئی معارج اور پولیس اسٹیشن سے روحاب بھائی کے چلے آنے اور اسے اس طرح گھسیٹتے ہوئے ساتھ لانے کی ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے اور پھر اوپر سے گھر سے باہر نا نکلنے کی پابندی بھی۔
انعم سرد آہ بھرتی ہوئی ان دونوں کے پاس ہی بیٹھ گئی۔
۔**********************
یہ بات گھر میں ان چاروں کے علاوہ کسی کو معلوم نا تھی اور معارج شکر ادا کر رہی تھی کہ روحاب نے یہ بات گھر کے بڑوں کو نہیں بتائی تھی۔
سجل جو روحاب کی ناراضگی دور کرنے کے چکر میں اتنا کچھ کر چکی تھی معارج والی بات اس سے چھپانے پڑ روحاب اس سے اور بھی ناراض ہوگیا تھا۔پہلے تو وہ اسے ڈانٹ لیتا تھا اس پڑ غصہ کر لیتا تھا مگر اب تو اس سے بات تک نہیں کر رہا تھا۔
سجل روحاب کی شرٹ پریس کر رہی تھی شرٹ پریس کرنے کے بعد وہ ساتھ والے کمرے میں آگئی۔موحد اور انعم بیٹھے کسی ٹوپک پڑ بحث کر رہے تھے۔جبکہ معارج خاموش بیٹھی سن رہی تھی۔
تم دونوں کس بحث میں پڑ گئے۔
ہم دونوں یہ بحث کر رہے ہیں کہ مرغی پہلے آئی یا انڈا۔
موحد نے الٹا ہی جواب دیا۔
آپی فضول بات کر رہے ہیں یہ ہم تو اس بات پڑ بحث کر رہے تھے کہ۔۔۔۔۔
کہ عقل بڑی یا بھینس۔۔۔
موحد انعم کی بات کاٹ کر پھر الٹا ہی بولا۔
چلو سجل تم ہی بتاؤ عقل بڑی یا بھینس۔
ظاہر ہے عقل۔
سجل نے فوراً ہی جواب دیا۔پہلے ایک دفعہ تم اپنی عقل اور بھینس کا موازنہ کر کے دیکھو پھر مانو گا۔موحد کی اس بات پڑ انعم اور چپ بیٹھی معارج کو بھی ہنسی آگئی۔
موحد بدتمیز چھوٹی عقل ہوگی تمہاری۔
سجل اس کی بات کا مطلب سمجھتے ہوئے بولی۔
سجل کہاں چلی گئی ہو فوراً کمرے میں آؤ۔ساتھ والے کمرے سے سجل کو روحاب کی روبدار آواز سنائی دی۔لو جی آگئی بیچاری سجل کی شامت۔
موحد نے پہلے ہی سب کو بتا دیا کہ اسے یقیناً روحاب سے اچھی خاصی سننے کو ملنے والی ہیں۔
سجل تو روحاب کی آواز پڑ ہی بھاگ گئی تھی۔
۔**********************
جی آپ نے بلایا۔سجل کمرے میں آتی ہوئی فرمابرداری سے بولی۔
یہ کیا ہے۔
روحاب نے شرٹ اس کے سامنے لہرائی۔
یہ شرٹ ہے۔
سجل نے معصومیت سے جواب دیا۔
وہ تو مجھے بھی دکھائی دے رہا ہے کہ یہ شرٹ ہے اندھا نہیں ہوں میں مگر ذرا غور سے دیکھو یہ کیا ہے۔اب کی بار روحاب نے اس کے سامنے شرٹ کا جلا ہوا بازو لہرایا۔
ہائے ربا یہ کیسے جل گئی۔وہی تو میں بھی تم سے پوچھ رہا ہوں کہ یہ کیسے جل گئی۔
مم۔۔۔۔۔مم۔۔۔۔
میں نے اسے نہیں جلایا۔۔۔
سجل ہکلاتی ہوئی بولی۔
اچھا ذرا یہ بتاؤ کہ یہ شرٹ پریس کس نے کی۔ظاہر ہے تمہارے علاوہ کون کر سکتا ہے۔
روحاب نے خود ہی سوال پوچھ کر خود ہی جواب بھی دے دیا۔
مگر اسے میں نے نہیں جلایا میں نے تو اسے بہت آرام سے بہت محبت سے پریس کیا تھا سچ میں۔۔۔
اور ہاں اس دن آپ نے میری خاطر چپ چاپ وہ نمک والی کھیر بھی کھا لی مگر میں سچ کہہ رہی ہوں روحاب میں نے اس میں ایک چٹکی بھی نمک نہیں ملایا تھا پتا نہیں وہ کیسے آگیا اس میں۔
میں تو آپ کا ہر کام بہت دھیان سے کرتی ہوں مگر پتا نہیں وہ ہر بار خراب کیسے ہو جاتا ہے اور اب یہ شرٹ بھی۔۔۔۔۔
سجل کی آنکھوں سے ننھے منے آنسوؤں کے قطرے بہہ نکلے۔
وہ بات ادھوری چھوڑے رونے لگی۔
سجل جتنا بھی روحاب کا کام دھیان سے کرتی اسے خوبصورت بنانے کی کوشش کرتی وہ اتنا ہی خراب ہوتا چلا جاتا اور پھر سجل کو روحاب سے اچھی خاصی ڈانٹ پڑتی۔
روحاب نے اس کے روانی سے بہتے ہوئے آنسوؤں کو دیکھا اور شرٹ پڑے پھینکتا ہوا اس کے پاس آیا۔سجل سویٹ ہارٹ میں جانتا ہوں کہ تم میرا کام کتنے دھیان اور کتنی محبت سے کرتی ہو۔
مگر کیا کروں اتنی بری عادت جو پڑ گئی ہے تم پڑ روب جھاڑنے کی چھوٹتی ہی نہیں حلانکہ کتنی ہی کوشش کرتا ہوں۔
یہ روب جھاڑنے والی عادت کو چھوڑیں وہ تو مجھے بھی ہوگئی ہے آپکی ڈانٹ سننے کی۔
مگر وہ جو آپ مجھ سے ناراض ہیں اسکا کیا۔سجل سو سو کرتی ہوئی بولی۔
کون پاگل ناراض ہے تم سے وہ تو میں ایسے ہی تنگ کر رہا تھا تمہیں۔
کیوں کہ جب تم مجھے مناتی ہو مجھے منانے کے لئے اتنا کچھ کرتی ہو تو مجھے اچھا ہی اتنا لگتا ہے کہ دل چاہتا ہے کہ بس روٹھا ہی رہوں تم سے۔
مگر آج تو میری ڈانٹ نے تمہیں رلا ہی دیا۔
ادھر دیکھو سجل میری طرف۔
روحاب نے ایک ہاتھ اس کے کندھے اور دوسرا اس کی تھوری پڑ رکھتے ہوئے اس کا چہرہ اپنی طرف کیا۔تمہارا کوئی بھی کام غلط بلکل نہیں ہے اور نا ہی خراب انفیکٹ تم تو بہت سمجھدار ہوگئی ہو۔
تھوڑی بہت شرارتیں ابھی بھی ہیں تم میں مگر اچھی لگتی ہو ایسے مجھے۔
میرا ارادہ تمہیں رلانے کا بلکل بھی نہیں تھا اس لئے اب مسکرا دو جلدی سے کیوں کہ آج میں اپنی پیاری سی وائف کو ڈنر پڑ لے کر جانے والا ہوں۔
سچ میں روحاب۔
سجل کو یقین نا آیا کہ اکڑو خان آج اسے ڈنر پڑ لے کر جانے والا ہے۔
ہاں بلکل سچ اور اس کے بعد میں تمہیں تمہاری پسند کی شاپنگ بھی کرواؤں گا۔
آپ کتنے اچھے ہیں نا روحاب۔
سجل خوشی سے چہکتی ہوئی روحاب کے سینے سے لگ گئی۔
“you know sajal you are the queen of my heart” میں جانتی ہوں مسٹر اکڑو خان۔
سجل کے اکڑو خان کہنے پڑ روحاب زور سے ہنسنے لگا۔روحاب کے سینے سے لگی سجل بھی ہنس پڑی۔
۔**********************
سجل شیشے کے سامنے کھڑی اپنے بال بنا رہی تھی جب روحاب کی نظر اس کے بازو پر پڑی۔
سجل یہ کیسا نشان ہے تمہارے بازو پر۔کون سا نشان۔۔۔؟؟
سجل کا پورا دھیان بال بنانے پر تھا۔
یہی جو تمہارے بازو پر ہے ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی کٹ کا نشان ہے۔
روحاب نے اپنا اندازہ لگایا تو سجل نے فوراً اپنا بازو نیچے کر لیا۔
وہ نشان واقعی میں کٹ کا تھا۔وہی کٹ جو سجل نے زارون کو خود کو ختم کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے اپنے بازو پر لگایا تھا۔
ارے ہاں یہ اب کا تھوڑی نا ہے پہلے کا ہے۔
اس بدتمیز موحد کے پیچھے بھاگ رہی تھی ناں تو اسی چکر میں پتا ہی نہیں چلا ٹھوکر کھا کر زمین پر گر گئی اور زمین پر پڑے کانچ کے ٹکڑے پر میرا بازو آگیا تو یہ کٹ لگ گیا۔
صرف اور صرف اس موحد کو پکڑنے کے چکر میں۔سجل نے کیا خوب بات بنائی۔
ورنہ اگر روحاب کو سچ بتا دیتی کہ وہ خود کو جان سے مارنے کے چکروں میں یہ کٹ لگا بیٹھی تھی تو روحاب کھڑے کھڑے اس کو خوب سنا دیتا۔
اور وہ روحاب سے ڈانٹ سننے یا اسے دوبارہ سے ناراض کرنے کے موڈ میں بلکل بھی نہیں تھی۔
اچھا چلو چھوڑو یہ بال وال بنانا۔جان کچھ دیر اب میرے پاس آکر بھی بیٹھ جاؤ ویسے بھی اب تو سونے کا وقت ہوگیا ہے۔
اس لئے اب آبھی جاؤ یار۔
جی بس آگئی۔
سجل بالوں کو فولڈ کر کے انہیں کیچر لگا کر بیڈ پر بیٹھے روحاب کے پاس آگئی۔
روحاب نے مسکراتے ہوئے اپنا بازو اس کی طرف کیا تو سجل نے بھی مسکراتے ہوئے اس کے بازو پر اپنا سر ٹکا دیا۔
روحاب نے سائیڈ لیمپ بند کیا اور آنکھیں موند گیا۔
۔*****************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...