اسے یہاں آۓ ایک ماہ ہونے کو آیا تھا مگر مڑ کر کسی نے خبر تک نہیں لی تھی۔مگر اب اسے بھی کسی کے پیار کا انتظار نہیں تھا۔
کبھی کبھی انسان اپنوں کی چاہت کا طلب گار ہوتا ہے اسے ہر لمحہ اپنوں کی یاد تڑپاتی ہے اپنوں کے پاس جانے ان کی توجہ پانے کی تڑپ ہوتی ہے شدّت ہوتی ہے مگر جب بار بار وہ انسان دھتکارا جاۓ اسے بے رُخی اور نفرت کا سامنا کرنا پڑے تو آہستہ آہستہ انسان کی یہ شدّت مانند پڑ جاتی ہے اسکا انتظار ختم ہونے لگتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کوئی طلب باقی نہیں رہتی انسان اپنے آپ میں رہنا پسند کرنے لگتا ہے۔
وقت گزرتا جا رہا تھا وہ بھی جینا سیکھ گئی تھی ہنسنا سیکھ گئی تھی۔ وقت سب سکھا دیتا ہے دکھ میں ہنسنا ، غم چھپانا، درد سہنا اور صبر کرتے رہنا سب کچھ وہ بھی وقت کے رنگ میں ڈھل گئی تھی۔۔
وہ صبح کی نماز پڑھ کر سو گئی تھی اب جب آنکھ کھلی تو صبح کے 10 بج رہے تھے۔ وہ فریش ہو کر کچن میں آئی اور اپنے لیے ناشتہ بنانے لگی تبھی دروازہ ناک ہوا
اس نے دروازہ کھولا تو سامنے مزمل کھڑا تھا وہ اسے لے کر کچن میں ہی آگئی۔
آج سنڈے تھا اور سنڈے کو مزمل یا سُنبل اس کو وقت دینے اسکے ہی فلیٹ پر آجاتے تھے سنبل نہ بھی آتی مگر مزمل ضرور آتا تھا۔ اس کی شرارت بھری باتوں کو سن کر وہ جی بھر کر ہنستی۔ اسے اکثر ماضی یاد آ جاتا جب وہ بھی مزمل کی طرح شرارتیں کرتی تھی باتیں کرتی تھی۔
آپ نے ناشتہ نہیں کیا ابھی۔
مزمل نے اسے آملیٹ بناتے دیکھ کر کہا
نہیں نماز کے بعد سو گئی تھی ابھی کچھ دیر پہلے آنکھ کھلی۔
ایمل نے آملیٹ پلیٹ میں رکھتے ہوۓ کہا۔
اوہ پھر ناشتہ کر کے تیار ہو جائیں میں آپ کو اپنے گھر لے کر جاؤں گا۔
مزمل نے کچن میں رکھے اسٹول پر بیٹھتے ہوۓ کہا
کیوں بھئی آج کیا خاص بات ہے جو گھر لے کر جاؤ گے؟
اس نے ٹیبل پر ناشتہ سیٹ کیا اور دوسرا اسٹول گھسیٹ کر خود بھی بیٹھ گئی۔
یہ لو میرے ساتھ ناشتہ کرو۔
ایمل نے مزمل کو بھی دعوت دی۔
آپ ویسے بَن رہی ہیں یا سچ میں آپ کو کچھ نہیں پتہ۔
مزمل نے اسکی ناشتے کی آفر کو اگنور کرتے ہوۓ کہا
میں سمجھی نہیں۔
اس نے نوالا منہ میں چبھاتے ہوۓ کہا۔
زیان بھائی آۓ ہیں۔
مزمل کے کہنے پر اسے اُچھو لگا اس نے جلدی سے جوس کے گھونٹ بھرے
کب؟
ایمل نے خود کو نارمل کرتے ہوۓ کہا
کل رات کو۔ماما نے مجھے بھیجا ہے کہ آپ کو لے آؤں۔
مزمل نے اپنے آنے کی وجہ بھی بتا دی۔
میں نہیں جا رہی۔
ایمل نے دوٹوک انداز میں کہا
مگر کیوں، کہیں آپ دونوں میں کوئی ناراضگی تو نہیں چل رہی وہ بھی کچھ پریشان سے ہیں اور آپ بھی ان کا نام سن کر ۔۔۔
مزمل نے ادھوری بات چھوڑ دی
ایسا کچھ نہیں ہے مزمل۔
ایمل نے نرمی سے کہا
پھر چلیں میرے ساتھ۔
مزمل اسے اپنے ساتھ لے جانے پر بضد تھا۔
میں نہیں جاؤں گی تم کہہ دینا میں گھر پر نہیں ہوں۔ زیادہ اسمارٹ بننے کی کوشش مت کرنا ہاں۔ ایمل نے اسے انگلی اٹھا کر وارن کیا۔
اوکے آپی جا رہا ہوں۔ مزمل اٹھ کر ہاتھ ہلاتا باہر نکل گیا۔
مزمل نے گھر جا کر احد اور نشاء کو بتا دیا کہ وہ گھر پر نہیں ہے مگر زیان کو بتایا کہ
“وہ آنا نہیں چاہتی آپ منا لیں جا کر۔ ”
زیان کو سخت صدمہ ہوا تھا
“میرے یہاں آنے سے اسے کوئی خوشی نہیں ہوئی۔”
“میں کیوں منا کر لاؤں اسے اگر اسے اپنی غلطی کا احساس ہوتا تو خود یہاں آتی۔”
زیان کے دل میں بدگمانیاں جگہ لے رہی تھی اور دوسری طرف ایمل اس سے بھی زیادہ شاکڈ تھی۔
“کسی نے بھی مجھے اس کے آنے کی خبر نہیں کی”
شاید وہ یہاں مجھ سے ملنے آۓ
“آنکھوں میں امید کے دیپ جلنے لگے تھے” اس نے جلدی سے گھر کی صفائی کی اور شاور لے کر لیمن کلر کا لان کا سوٹ پہنا اور لائٹ میک اپ کر کے لاؤنج میں اس کے انتظار میں بیٹھ گئی۔
ظہر سے عصر ہوئی عصر سے مغرب۔ مگر زیان نہ آیا وہ نماز پڑھ کر بھی اس کے آنے کی دُعا مانگنے لگی مگر اس نے نہیں آنا تھا وہ نہ آیا۔
اس کی تمام امیدیں اس کے اپنی طرف لوٹنے کی ٹوٹ گئی تھی وہ عشاء کی نماز پڑھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی آج نہ جانے کتنے دنوں بعد پھر اسکا ضبط ٹوٹ گیا تھا وہ روتے روتے جاۓ نماز پر ہی سو گئی۔کتنا سکون دیتا ہے نا جاۓ نماز پر سونا ایسا لگتا ہے یہ انسانوں کی نہیں کسی اور مخلوق کی دنیا ہے جہاں غم اور دکھ نہیں ہیں بس سکون ہی سکون ہے۔
۞۞
زیان کے واپس پاکستان جانے کی خبر سن کر اس نے پاکستان کال کی۔ شاہزیب سے سرسری سے بات کر کے اس نے کریم یزدانی سے بات کی
“دادا جان کیسے ہیں؟”
وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی اسکا دل چاہ رہا تھا وہ کریم یزدانی کی مہربان آغوش میں پناہ لے لے
“ٹھیک ہوں، لگتا ہے دل لگ گیا ہے وہاں پر ہماری تو یاد آتی ہی نہیں تمہیں۔”
کریم یزدانی نے پیار بھرا شکوہ کیا
“وہ کونسا پل ہے دادا جان جب آپ لوگ نہ یاد آۓ ہوں بس دن کو جاب پر جاتی ہوں اور رات کو نیند جلدی آجاتی ہے۔”
اس نے وضاحت کی
“تم جاب کرتی ہو؟”
کریم یزدانی حیران ہوۓ
“ہاں دادا جان بوریت سے بچنے کے لیے اور اذیت سے بچنے کے لیے مصروف رکھنا پڑتا ہے خود کو۔ بابا جانی کو معلوم ہے میری جاب کا۔”
ایمل نے تفصیل سے بتایا
“کیا بیٹا اپنی جوانی پردیس میں برباد کر رہی ہو اپنے ملک آجاؤ خوش رہو خوشیاں بانٹو۔ تمہارے باپ نے بھی ساری جوانی پردیس میں گزاری۔اب تم اس کے نقشِ قدم پر چل رہی ہو۔ میری مانو تو آجاؤ دادا جان کے پاس۔تمہارے جانے کے بعد گھر ویران لگتا ہے”
کریم یزدانی کی آنکھیں بھیگ گئی۔
“دادا جان آپ تو میری مجبوریاں سمجھتے ہیں نا”
اس کی گھگھی بھی بند ہو رہی تھی وہ اپنوں میں جانا چاہتی تھی مگر یہ بے رُخی اس تنہائی سے کہیں زیادہ جان لیوا تھی۔
“میں سمجھاؤں گا ان سب کو۔ میری طبیعت بھی ٹھیک نہیں رہتی کیا پتہ کب۔۔۔”
“اس سے آگے ایک لفظ بھی مت کہنا دادا جان”
ایمل ان کی بات کاٹ کر بولی
“آجاؤں گی واپس بس کچھ ماہ کی بات ہے”
ایمل نے واپسی کی ہامی بھری تھی
“خوش رہو بیٹا میری نصیحتوں پر عمل کرنا اللہ حافظ”
اس نے بھی دھیمی آواز میں اللہ حافظ کہہ کر کال بند کر دی۔
دن ہفتوں میں بدلتے رہے اور ہفتے مہینوں میں وہ نہیں جانتی تھی دادا جان نے اسکے ماں باپ سے بات کی یا نہیں مگر اسے کسی نے واپس نہیں بلایا تھا اب اس نے واپسی کی اُمیدیں چھوڑ دی تھی یہاں پر ہی دل لگا لیا تھا۔
۞۞
بابا جان کی طبیعت کل سے بہت خراب ہے آپ آج آفس جانے کو چھوڑیں۔
شاہ زیب آفس جانے کے کیے تیار ہو رہا تھا۔جب رابی نے کہا
ڈاکٹر دو دن بعد چیک اپ کرتا ہے کچھ افاقہ نہیں ہوا کیا۔
شاہ زیب کو حیرت ہوئی
نہیں ان کی کھانسی شدید سے شدید ہوتی جا رہی ہے۔
رابی نے پریشانی سے کہا
“زیان کدھر ہے؟ ” شاہزیب نے آفس کا ارادہ ترک کر دیا
“کل اسلام آباد چلا گیا تھا۔”
“اوہ سوری اس نے مجھے بتایا تھا مگر یاد نہیں رہا۔چلو بابا جانی کے پاس”
وہ دونوں کریم یزدانی کے کمرے کی طرف بڑھے
کریم یزدانی بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاۓ آنکھیں موندھے بیٹھے تھے بڑھاپا اب ان ہر حاوی ہو رہا تھا وہ اب ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گئے تھے سائڈ ٹیبل پر ادویات کا ڈھیر تھا اور پانی کا جگ رکھا تھا۔
“بابا جانی سو رہے ہیں”
شاہ زیب نے ان کے پاس بیڈ کے کنارے بیٹھتے ہوۓ کہا
“نہیں بیٹا۔”
کریم یزدانی نے آنکھیں وا کر کے واپس بند کر دی۔
بیٹا میری زندگی کا کچھ بھروسہ نہیں بڑھاپا اب لگتا ہے جان لے کر چھوڑے گا۔۔۔
انہیں پھر کھانسی کا دورہ پڑا تھا شاہ زیب نے سائڈ ٹیبل سے پانی کا گلاس لے کر انکے منہ سے لگایا۔
“میں آپ سب کو خوش دیکھنا چاہتا ہوں وہ پھول جیسی بچی پردیس کاٹ رہی ہے زیان اسلام آباد میں جا بسا ہے۔سچ پوچھو تو گھر کی ویرانیوں نے میرا دل زندگی ست کھٹا کر دیا ہے۔تم دونوں سمجھتے نہیں ہو”
بار بار کھانسی کی وجہ سے ان سے بولنا محال تھا
“بیٹا اسے معاف کر دو جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔اسلام میں تو کزن سے نکاح جائز اور حلال ہے اور ہم کون ہوتے ہی اس کے قانون توڑنے والے۔ نامحرم رشتوں کو محرم سے تشبیہ دینے والے۔ایمل نے سوچ بدلی ہے ہماری اور اسکے لیے اسے تکالیف کا سامنا کرنا تھا ہر بُری چیز کو ختم کرنے کے لیے دکھوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے نفرتوں کو جھیلنا کرنا پڑتا ہے مگر یہ نہ ہو وہ بچی کہیں بکھر جاۓ سنبھال لو اس کو بلا لو واپس۔ وہ تم دونوں اور زیان کے بلانے کی منتظر ہے۔”
وہ کچھ توقف کے بعد گویا ہوۓ
“آپ کی بات تو ٹھیک ہے بابا جانی مگر ۔۔۔۔
“میں جانتا ہوں جو تم کہنا چاہتے ہو بیٹا مگر معاف کر دو اسے، معاف کرنے والا خدا کو پسند ہے۔”
بلا لوں گا اسے میری بیٹی ہے مجھے بھی بہت پیاری ہے۔ شاہ زیب نے سر جھکا کر کہا۔
کریم یزدانی ہولے سے مسکرادیے۔
“آپ رو رہے ہیں؟”
ان کی آنکھوں پر چمکتے آنسو دیکھ کر شاہ زیب بولا
“سینے میں جلن سی محسوس ہو رہی ہے” وہ بمشکل بولے۔
شاہ زیب نے جلدی سے ڈاکٹر کو کال کر کے بلایا۔ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد دوائیاں لکھ دی تھی جو لینے سے طبیعت ٹھیک تو نہیں ہوئی البتہ اور زیادہ بگڑ گئی تھی۔
“ایمل کو بُلا لو واپس”
وہ بار بار یہی بات دوہرا رہے تھے شاید انہیں اپنی زندگی کا اعتبار نہیں تھا۔
__________
شاہزیب نے احد کو کال کر کے ایمل کی واپسی کی سیٹ کنفرم کرنے کا کہا تھا۔ایمل کریم یزدانی کی خراب طبیعت کا سن کر ان کے پاس جانے کے لیے تڑپ رہی تھی رو رو رو کر اسکا برا حال تھا۔۔
واپسی کی سیٹ کنفرم ہو گئی تھی یہ اس کی بدقسمتی تھی کہ اس کے پاکستان آنے سے دو دن قبل ہی کریم یزدانی اس جہاں سے دوسرے جہاں میں منتقل ہو گئے۔
ایمل پاکستان آکر شاہ زیب کے ساتھ مل کر بلک بلک کر روئی تھی۔اس کی زندگی میں ایک اور کاش کا اضافہ ہو گیا تھا۔
“کاش دادا جان کی زندگی میں ان سے ایک بار مل لیتی، ان سے باتیں کر لیتی یا ان کے سینے سے لگ جاتی”
وہ ان کے کمرے میں جا کر ان کی چیزوں کو دیکھ کر رونے لگتی۔ماضی کی ہر بات اسے رُلا رہی تھی ان کی باتیں ان کی یادیں اور آخری بار کی گئی ان کی نصیحتیں۔
کسی نے اسے چپ کروانے کی کوشش نہیں کی تھی سب اسے دل کھول کر رونے کا موقع دے رہے تھے۔
وہ اپنی باتوں اور پچھتاوؤں پر رو رہی تھی کوئی کسی کے لیے نہیں روتا بس کسی کا دکھ اور تڑپ دیکھ کر اپنا ماضی سامنے آجاتا ہے گزرے وقتوں کی تلخیاں سامنے آجاتی ہیں اور آنسو آنکھوں سے پھسلتے جاتے ہیں۔
۞۞☜☜
اسے پاکستان آۓ ایک ہفتہ ہو گیا تھا شاہ زیب اور رابی کا رویہ اس سے کچھ بہتر تھا مگر زیان سے اس کا سامنا نہیں ہوا تھا۔
“بابا جانی میں واپس جانا چاہتی ہوں۔” وہ ان کے کمرے میں کھڑی تھی
“کیوں؟ شاہ زیب نے حیرت سے اپنی بیٹی کو دیکھا شلوار قمیص میں ملبوس سر پر دوپٹہ اوڑھے وہ بہت پُر سکون تھی۔
“ہم تمہاری غلطی معاف۔۔۔۔۔
“کون سی غلطی ماما” اس نے رابی کی بات کو کاٹ کر کہا
“میری غلطی صرف اتنی ہے کہ میں نے لوگوں کی باتوں کو سنا اس پر تحقیق بھی کی مگر اس کو آپ کے ساتھ ڈسکس نہیں کیا۔ غلطی تو آپ کی ہے ایک حقیقت کو مجھ سے اتنی دیر چھپاۓ رکھا ایک بار بتا دیتی آپ کہ “زیان تمہارا بھائی نہیں ہے مگر اسے بھائی سے کم نہ سمجھنا” تو شاید ان کے بارے میں ایسا ویسا کچھ سوچتی بھی نہ۔۔
(دروازے کے ہینڈل پر رکھا زیان کا ہاتھ رُک گیا)
مگر مجھے آپ لوگوں نے کچھ نہیں بتایا اور جب یہ حقیقت دوسرے لوگوں سے غلط انداز میں پتہ چلی تو میں نے غلط ہی سوچنا تھا”
وہ پھٹ پڑی تھی۔
“کس نے تمہیں یہ حقیقت بتائی تھی اور کیا کہا گیا تھا تم سے؟”
رابی نے اس کے پاس آکر پوچھا۔
ایمل نے سارے واقعہ شاہ زیب اور رابی کے گوش گزار کیا۔ان دونوں نے اپنا ماتھا پیٹ لیا اور باہر کھڑے زیان کی حالت غیر ہو رہی تھی وہ بمشکل خود کو سنبھال کر اپنے کمرے تک لے کر آیا۔
“آپ سب نے مجھے ڈانٹا مگر کبھی یہ نہیں پوچھا کہ یہ غلطی مجھ سے کیوں ہوئی ہے کیا وجہ ہے۔؟ آنسو اسکا چہرہ تر کر رہے تھے۔
“اگر بچی کے ذہن میں یہ بات ڈال دی جاۓ کہ یہ شخص تمہارا جیون ساتھی بنے گا تو وہ اسے ہی چاہے گی اسے ہی سوچے گی اس میں میرا کیا قصور تھا ”
اسکی گھگھی بند ہوگئی تھی۔
رابی نے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگا لیا
وہ تینوں رو رہے تھے۔
“معاف کر دو ہمیں بیٹا ہم تمہیں سمجھ نہ سکے”
شاہ زیب نے ہاتھ جوڑے تھے
ایمل نے جلدی سے شاہزیب کے ہاتھ تھام لیے
“نہیں بابا مجھے آپ سے کوئی گلہ نہیں میرے لیے یہی کافی ہے کہ آپ کے دل میرے لیے جو میل تھا وہ دور ہو گیا۔”
دل کے میل دھل گئے تھے۔وہ شاہ زیب اور رابی کو منانے میں کامیاب ہو گئی تھی اب زیان کو منانے کا پہاڑ اس نے سَر کرنا تھا۔
۞۞
وہ اپنے کمرے میں ٹھہری ہوئی تھی زیان کے کمرے میں جانے کی غلطی اس نے نہیں کی تھی مگر آج وہ زیان سے بات کرنے کے لیے اس کے کمرے میں بالکنی کے پاس کھڑی اسکے کمرے میں آنے کا انتظار کر رہی تھی۔
دروازے کی چڑچڑ کی آواز سے اس نے مڑ کر دیکھا زیان کمرے میں آیا تھا۔
“مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔”
زیان کے پاس آنے پر ایمل نے کہا۔
“مجھے بھی تم سے بات کرنی تھی”
زیان نے سر کھجایا
“آپ کہیں کیا کہنا ہے۔”
وہ سنجیدہ تھی۔وہ جانتا تھا ایمل اس سے معافی مانگے گی اس سے پیشتر ہی زیان نے ہاتھ جوڑ کر کہا
“سوری ایمی”
ایمل نے مڑ کر اسے دیکھا تھا وہ سوچ رہی تھی شاید وہ مذاق کر رہا ہے مگر اسکے چہرے پر ایسے کوئی تاثرات نہیں تھے۔
“میں نے تمہیں ڈانٹا غلط باتیں کہی طنز کیے مجھے معاف کر دو پلیز۔”
زیان نے مجرم کی طرح سر جھکا کر کہا۔
ایمل کی آنکھوں میں آنسو آگئے اس کی دعائیں خدا نے سن لی تھی وہ آج کامیاب ہو گئی تھی۔
پلیز آج جی بھر کر رو لو پھر کبھی تمہاری آنکھوں میں آنسو نہ آئیں۔
زیان نے اسکے آنسو صاف کیے
یہ تو خوشی کے آنسو ہیں۔ وہ مسکرائی
“تم نے مجھے معاف کر دیا نا۔” زیان تصدیق چاہی
ایمل نے اثبات میں سر ہلایا۔
“آپ سب کی بے رُخی اور ناراضگی سے مجھ پر بہت سی حقیقتیں آشکار ہوئی ہیں۔”
زیان نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے بیڈ پر بٹھایا اور خود بھی اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔
کون سی حقیقتیں؟
“یہی کہ خدا اپنے بندوں سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے بہت ہی زیادہ جس کا اندازہ ہم کر ہی نہیں سکتے۔پتہ ہے میں ماما بابا اور آپ کی بہت زیادہ لاڈلی تھی مگر میری ایک غلطی پر آپ اپنا دل بڑا کر کے مجھے معاف نہ کر سکے بلکہ سزا دی مجھے مگر اس خدا سے میں نے ایک بار گڑگڑا کر معافی مانگی اور اس نے مجھے معاف کر دیا وہ گناہ جن کا کوئی حساب نہیں۔ ہر روز مجھے پانچ بار اپنی بارگاہ میں بُلاتا۔”
اس کی آنکھیں پھر بھیگنے لگی تھی۔
“مگر یہ آپ کی دی گئی سزا میرے لیے مصیبت نہیں تھی جو مصیبت آپکو اللہ کی طرف رجوع کر دے وہ مصیبت نہیں رحمت ہے۔”
ایمل مسکرائی تھی زیان بغور اسکا چہرہ تَک رہا تھا کتنی بدل گئی تھی وہ۔ دوپٹہ جو ہر وقت شانوں پر جھولتا وہ آج سَر پر جم گیا تھا چہرے پر شرارت کی جگہ سکون تھا۔
“بہت مہربانیاں ہیں مجھ پر خدا کی۔جنکا کبھی شکر ادا نہیں کر سکتی۔”
وہ دھیمے لہجے میں بولی۔
“اور مجھ پر بھی بہت بڑی مہربانی خدا نے کی ہے۔” زیان نے شریر لہجے میں کہا ایمل نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
“میری بیوی خود چل کر میرے کمرے میں آئی ہے یہ مہربانی کیا کم ہے
زیان کی بات پر ایمل جھینپ گئی جس پر زیان کا بلند قہقہہ کمرے میں گونجا۔۔
بے شک اس کے صبر اور استقامت نے اسے پھر سے محبتوں سے نوازا تھا۔ آنے والا سال جس میں چند دن باقی تھی ان کے لیے بہت سی خوشیوں اور مسکراہٹوں کا پیمان تھا۔
آؤ مل کر کریں یہ دُعا دونوں
اب کہ یہ سال، تیرا میرا ہو۔
______ختم شد______
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...