زاور شاہ نے سائن کرتے ہوئے ۔۔۔پل بھر کو نیچے لکھے نام کو دیکھا۔۔۔۔جو اسکے ساتھ جڑ چکا تھا۔۔۔۔اب وہ دونوں ایک دوسرے کے جینے کی وجہ بننے والے تھے۔۔۔۔دستخط مکمل ہوتے ہی ہال میں مبارکباد کا شور گونجا۔۔۔۔
خاور شاہ کی خوشی اور چہرے کی مسکراہٹ دیدنی تھی۔۔۔۔”عزت والے ہی عزتوں کی قدر کیا کرتے ہیں’اور عزتوں کو نبھا جانا بھی جانتے ہیں”
اب عروہ کو وہ گھر کی عزت تو بنا چکے تھے۔۔۔پر عروہ بھی کسی کی بیٹی تھی۔۔۔جس کے ماں باپ تھے۔۔۔اور بیٹیاں ماں باپ کی دعائیں لے کر رخصت ہو انکے سایے تلے نئی زندگی میں قدم رکھیں ۔۔۔تو ہی جچتی ہیں۔۔۔۔۔”بدقسمت ہوتی ہیں وہ بیٹیاں جو ان سایوں کی چھاوں کہیں اور ڈھونڈتی ہیں۔۔۔۔جو ان دعاوں والے وجود کو ۔۔۔۔بے جان کرجاتی ہیں”
—————————————
وانیہ ضیا کے لیے یہ ایک اندھیری رات تھی۔۔۔۔ایسا لگتا تھا جیسے کالے سیاہ بادل گھٹاؤں کی طرح زندگی میں پھیل چکے تھے۔۔۔۔وانیہ ضیا کو اندھا کرنے کے لیے۔۔۔۔ہر رشتے کے احساس سے۔۔۔۔۔اپنوں کی اپنایت سے ۔۔۔۔۔!
جو زاور شاہ کے حصول کے لیے سب کر گزرنے والی تھی۔۔۔۔سب ۔۔۔۔جو نام وانیہ ضیا کے ساتھ نہیں جڑ سکا۔۔۔۔جڑا کسی اور کے ساتھ بھی نہیں رہے گا۔۔۔۔!
—————————————-
عروہ نے جیسے ہی گھر کی دہلیز پر قدم رکھا۔۔۔۔آنکھیں آنسوؤں سے لب لبا بھر گئیں کہ۔۔۔۔ہر چیز دھندلا گئ تھی۔۔۔۔ جسم پر کپکپاہٹ جاری ہوگئ۔۔۔۔کیسا بدقسمت دن تھا وہ جب اس نے اس گھر سے باہر جانے کا سوچا۔۔۔۔۔اب اسکی پہچان بدل چکی تھی۔۔۔۔ساتھ جڑے رشتوں کا تعلق بدل چکا تھا۔۔۔۔اس کے نام کے ساتھ جڑا نام بدل چکا تھا ۔۔۔۔۔شاید وہ خود بھی بدل چکی تھی۔۔۔۔۔
——————————————–
گھر میں داخل ہوتے ہی فریال کی نظر سب سے پہلے عروہ پر پڑی۔۔۔۔جس کو اپنی آنکھوں کی بصیرت پر شک ہونے لگا تھا۔۔۔۔اس نے اس خوابی کیفیت سے باہر آنا چاہا۔۔۔۔۔پر یہ حقیقت تھی۔۔۔وہ چیختی ہوئی عروہ کی جانب بھاگی۔۔۔۔عروہ میری جان اسکے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں لیے ہوئے۔۔۔۔۔بھیگی پلکوں سے تک رہی تھی۔۔۔۔۔امی ‘امی دیکھیں کون آیا ہے۔۔۔
زہرا بیگم ہاتھ میں تسبیح لیے باہر آئیں ۔۔۔۔کون آیا ہے فریال ایک دم انکے قدم بھی سکت ہوگئے۔۔۔عروہ میری بچی۔۔عروہ بھاگتی ہوئی ماں کی جنت نماں باہوں کی جانب بھاگی جس سے دور رہنا اسکے بس میں نہیں تھا اب۔۔۔۔دور جانے کی بہت بڑی قیمت چکا چکی تھی عروہ اب فرار ممکن نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچانک تینوں ماں بیٹیوں کو کسی اور وجود کا بھی احساس ہوا۔۔۔جسے وہ اپنے دکھ اور خوشی کے ملے جلے جذبات میں دھیان میں نہ لا سکیں۔۔۔۔۔۔
خاور شاہ اپنی رعب دار شخصیت کے ساتھ ماں کی مامتا کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔تھوڑے ہی قدم پیچھے دلاور کھڑا تھا۔۔۔انکا بااعتماد ہر قدم کا ساتھی تھا۔۔۔!
———————————–
“مجھے یہ بات گوارہ نہ تھی۔۔کہ ایک معصوم جان اپنے پر اٹھنے والے ایسے سوالوں کے جواب دے۔۔۔۔جو اسکی آنے والی زندگی کو دشوار کردیں۔۔۔۔ایسے گناہ کی سزا کاٹے۔۔۔۔۔۔۔جو گناہ اس نے کیا ہی نہیں۔۔۔”
ملک خاور شاہ دھیمے لہجے میں۔۔۔جمشید صاحب کے سامنے حقیقت کو بیان کر رہے تھے۔۔۔!
جمشید صاحب کا دل اس وقت مختلف کیفیات کا شکار تھا۔۔۔جس کا اظہار مشکل تھا۔۔۔ایک باپ کا دل بیٹیوں کے معاملے میں بہت کمزور ہوا کرتا ہے۔۔۔۔قدم قدم پر انکی قسمت کا ڈر ۔۔۔لوگوں کا خوف۔۔۔معاشرے کی باتیں ۔۔۔۔باپ کی نیندوں کو عذاب کردینے کے لیے کافی ہوتی ہیں۔۔۔۔۔!
وہ خاور شاہ کو کیا کہتے غصہ کرتے ۔۔۔کہ آپکو کس نے حق دیا تھا میری بیٹی کو کسی رشتے میں یوں جوڑ دیں۔۔۔میری بیٹی کے لیے میرے گھر کی چھت بہت بڑی ہے۔۔۔۔” پر ایسا کہنا ‘ کرنا اور سوچنا وقتی طور ہی اچھا ہوتا ہے۔۔۔۔آنے والی زندگی کی دشواریاں ہر چھت کو کمزور کر دیتی ہیں۔۔۔
“میری بیٹی امانت ہے آپکے پاس ۔۔۔۔میں اسکو ماں باپ کی دعاوں سے محروم نہیں کر سکتا تھا۔۔۔اس لیے کہ میکا عورت کا مان ہوتا ہے اور ہر رشتے کی مٹھاس ہوتی ہوتی ہے۔۔۔میں عروہ کو کچھ رشتوں کے ساتھ جوڑ کر اسکی زندگی کی مٹھاس کو ختم نہیں کر سکتا کہ آنے والی زندگی کڑواہٹ سے بھر جائے۔۔۔تین دن ہیں آپکے پاس پھر ہم عزت کے ساتھ گھر کی عزت کو لے جائیں گئیے ۔۔۔۔”
—————————
فریال شاک کی کیفیت میں آگئی یہ سب سن کر۔۔فریال عروہ کو ذہنی طور پر اس رشتے کے لیے تیار کرو ۔۔۔کیونکہ سوالات و جوابات کا وقت نہیں رہا اب۔۔۔” جمشید صاحب نے گوایا گھر والوں کی سماعت پر دھماکا کیا ہو ۔۔۔۔!
—————————–
فریال عروہ کے کمرے میں گی جہاں وہ رونے کا کام بخوبی انجام دے رہی تھی۔۔۔۔
عروہ کی آنکھوں میں کچھ تھا ۔۔۔۔جو فریال کو پریشان کر گیا تھا۔۔۔۔۔
اور وہ تھا عروہ کا ماضی۔۔۔اس رشتے کی محبت جو اب کسی اور رنگ میں سامنے آئی تھی۔۔۔۔!
اور فریال کو ایک پل لگا تھا حقیقت تک پہنچنے میں۔۔۔+
” عروہ اپنے ان بند آنکھوں کے پیچھے دیکھنے والے خوابوں کو انہی بند پردوں میں بند کردو ۔۔۔۔”
کیو نکہ اچھی بیٹیاں اپنے خوابوں میں رنگ بھرنے کی لیے ماں باپ کے خوابوں کا رنگ نہیں اتارتیں –
“اور محبتیں ہمیشہ حلال ہی اچھی ہوتی ہیں”
عروہ کی بے بسی اس وقت اپنے عروج پر تھی۔۔۔کیونکہ محبت سے دستبردار ہونا تکلیف کی انتہا ہوتی ہے۔۔۔اور وہ اس وقت اس تکلیف کے عروج پر تھی۔۔۔!
“اے کاش اسے خواب ہی آجائے ”
میری سچی محبت کا”
محبت میں نہ جانے کیوں انسان کا خود پر اختیار نہیں رہتا۔۔۔۔کیوں انسان کسی ایک کے لیے اتنا بے بس ہوجاتا ہے۔۔۔صرف اس وجود کے لیے۔۔۔!
“ہماری ذات آدھی رہ گئی۔۔۔۔
کسی کا کھیل پورا ہوگیا۔۔۔!
آنسوؤں نے اس کے چہرے کو بھگو ڈالا تھا۔۔۔
تین دن کیسے گزر گئے پتا ہی نہیں چلا ۔۔۔۔۔تیاری کرتے نہیں بلکہ۔۔۔۔خود کو تیار کرتے ہوئے ۔۔۔جمشید صاحب نے کسی کو بلاوا نا بھیجا شرکت کا ۔۔۔ایک ہی بھائی تھا۔۔۔اس نے بھی معذرت کرلی کہ گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی سے ہم کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے۔۔۔۔اس بات سے ان کے رویے سے وہ ٹوٹ چکے تھے۔۔۔۔
اور دوسرے لوگوں کو جواب دینے کی ہمت نہ تھی۔۔!
کیونکہ ہر ذہن سوالوں سے بھرپور تھا ۔۔۔۔عروہ کہاں گئ۔۔؟کس ساتھ رہی۔۔کون تھا اتنا رحمدل جو اسکو عزت بنا رہا تھا۔۔۔یہ ایسی باتیں تھیں جسکا جواب ہر شخص چاہتا تھا۔۔۔پر جمشید صاحب پہلے ہی ہمت ہار چکے تھے۔۔۔۔۔!
———————————–
بڑی حویلی میں معمول کی گہما گہمی تھی ۔۔۔۔کوئی بھی کسی خاص تاثر کو چہرے میں نمایاں نہیں کررہا تھا۔۔۔۔کیونکہ سب کے ذہنوں میں صرف وانیہ ضیا زاور شاہ کا عکس تھا جو ایک دوسرے کو مکمل کرتا تھا۔۔۔!
وانیہ ضیا بلیو جینز کے اوپر سفید رنگ کے امتزاج والے کرتے میں ملبوس تھی۔۔۔گھنگریالے بالوں کو کھولے روشن آنکھیں ۔۔۔مخروطی ہونٹ اور اوپر کو اٹھی ہوئی ناک۔۔۔مرمریں پاوں کو سفید جوتوں میں قید کیے کسی بھی تاثر کے بغیر اپنے بابا کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔۔پھر اچانک سب کی نظروں نے وانیہ ضیا کی نظروں کے تعاقب میں دیکھنا شروع کیا ۔۔۔زاور شاہ مخصوص انداز شخصیت کے ساتھ سیڑھیوں کے زینے اتر رہا تھا ۔۔۔۔۔گرے رنگ کے کرتے اور سفید رنگ کی شلوار میں ملبوس مخصوص سلور رنگ کی گھڑی پہنے ۔۔۔بالوں کو ترتیب سے سنوارے ۔۔۔۔خوشبوئیں بکھیرتا سیڑھیوں سے اتر رہا تھا۔۔۔۔وانیہ ضیا کو اپنی دھڑکنوں میں انتشار محسوس ہوا۔۔۔کتنا چاہا تھا اس نے اس شخص کو روح کی گہرائیوں سے ۔۔۔جس کی سانسیں اس وجود کو دیکھ کر چلا کرتی تھیں ۔۔۔۔۔پر ہائے رے قسمت۔۔۔؟
لیکن وانیہ ضیا قسمت کے آگے ہارنے والوں میں سے نہیں تھی۔۔۔۔اس نے واقعی صرف ہرانا سیکھا تھا۔۔”
———————————-
عروہ کے گھر کے چھوٹے سے ڈرائنگ روم میں بڑی حویلی کے بڑے بڑے نام بیٹھے تھے۔۔۔۔
عروہ عروسی لباس میں ملبوس تھی۔۔۔۔سرخ اور سبز رنگ کے کمبینیشن کے لہنگے ۔۔۔جس کا بھاری کامدار والا دوپٹا طریقے سے سر پر دیا گیا تھا۔۔۔۔گلے میں نفیس سا گولڈن براؤن سیٹ پہنے ۔۔۔کانوں میں ہلکے سے جھمکے۔۔۔۔دونوں ہاتھوں میں چوڑیاں ڈالے۔۔۔۔دودھیا چہرہ ہلکے سے میک اپ سے نظر لگ جانے کی حد تک کا خوبصورت لگ رہا تھا۔۔۔۔
———-
کوئی بھی رسم کو نبھانے بغیر عروہ کو زاور شاہ کے ہاتھ میں سونپ دیا گیا تھا۔۔۔۔واقعی جب بیٹیاں لوگوں کے منہ میں آجائیں تو۔۔۔انکی رخصتی نہیں ۔۔۔بلکہ سوگ ہو کرتے ہیں۔۔۔یہی حال آج عروہ کے ساتھ تھا۔۔۔!
——————————————-
بڑی حویلی میں بڑی بہو کا کوئی شاندار استقبال نہیں ہوا۔۔۔۔معمول کی لائیٹس جل رہی تھیں ۔۔۔امرینہ بیگم نے چند ملازموں کو آواز دی اور انکو ہدایت کی کہ عروہ کو زاور کے کمرے میں چھوڑ آو۔۔۔خود اپنی ساڑھی کا پلو سنبھلتی اپنے کمرے کی جانب چل دیں۔۔۔خاور شاہ نے عروہ کے سر پر ہاتھ رکھا اور اچھی دعاوں کے ساتھ کمرے کی جانب جانے کی تقیید کی۔۔۔۔!
————
——————
عروہ بیڈ پر بیٹھے ہر چیز کا بخوبی جائزہ لے رہی۔۔۔۔بڑا سا یہ کمرہ جس کے بیڈ کے گرد نیٹ لگی ہوئی تھی۔۔۔پر اب انکو طریقے سے سائڈوں سے باندھا ہوا تھا۔۔۔سائیڈ ٹیبل پر کرسٹل کے گلدان پڑے ہوئے تھے۔۔۔۔بڑی سی کھڑکی جس پر شاندار پردے گرے ہوئے تھے۔۔۔۔ہر چیز ترتیب کے ساتھ پڑی تھی۔۔۔کمرے میں اے سی کی مخصوص سی ٹھنڈک تھی۔۔۔۔اور خاص سی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔۔۔!
اچانک دروازے کے لاک کھولنے کی آواز آئی۔۔۔۔زاور شاہ مخصوص انداز میں اندار آیا۔۔۔۔اور آئینے کے سامنے کھڑا ہوگیا ۔۔۔دائیں ہاتھ سے گھڑی اتار کر سامنے رکھی۔۔۔۔پھر شیشے میں اپنے پیچھے اس وجود کو دیکھا جو اسکے ساتھ زبردستی سہی پر جڑ چکا تھا۔۔۔۔۔وہ آرام سے بیڈ پر آکر بیٹھ گیا۔۔۔۔
“میں تمہیں یہ کہنے نہیں آیا کہ یہ رشتہ میرے لیے صرف بوجھ اور زبردستی کا تعلق ہے ۔۔۔۔بلکہ تم اب زاور شاہ کی عزت ہو تمہیں تمہارا ہر جائز حق ملے گا۔۔۔۔پر ایک بات یاد رکھنا۔۔۔ہمیشہ مجھ سے دو قدم پیچھے ہوکر چلنا میرے تعاقب میں نہ سہی۔۔۔۔کیونکہ وہ عورت جو مرد کو نیچا دکھانے کے لیے آگے بڑھتی ۔۔۔۔تو وہ دل سے اتر جاتی ہے ۔۔۔اور میں نہیں چاہتا تم کبھی میرے آگے چلو۔۔۔بلکہ پیچھے رہنا تاکہ میں تمہیں تحفظ دے سکوں۔۔۔اور تم مجھے رہنمائی دے سکو۔۔۔”
کیسا شخص تھا یہ ۔۔۔ہر بات ہر کام میں لاجواب سا۔۔
اور ایک بات۔۔۔۔۔
“مجھے میں ایک بڑائی ہے۔۔۔۔کہ مجھ میں کوئی خوبی نہیں ہے۔۔۔۔”
خوبیوں کو دیکھنا مت ۔۔۔۔بلکہ انکو ڈھونڈنا مجھ میں۔۔۔”
عروہ کے دو آنسوؤں پلکوں کا بند توڑ کر باہر آگے۔۔۔۔اس نے ایسا تصور بھی نہیں کیا تھا کہ زاور شاہ ایسا دل بھی رکھتا ہے۔۔۔!
عروہ کے لیے ہر چیز اور ہر رشتہ نیا تھا۔۔۔خواہ چیزیں ہو ۔۔۔یا انسان سمجھنے میں وقت لگتا ہے۔۔۔۔!
وانیہ ضیا کے لیے وہ رات تکلیف سے بھرپور تھی۔۔۔دکھ۔۔۔آنکھوں میں محبت کی جگہ نفرت کے جذبات آچکے تھے۔۔۔۔وہ کچھ بھی نہ کرسکی اور زاور شاہ کو کسی اور کو سونپ دیا وہ ہار ماننے والوں میں سے تو نہ تھی۔۔۔اور وہ ہار مانے گی بھی نہیں۔۔۔۔اس کا ذہن آنے والے وقت کے لیے بہت جان لیوا سوچ بھن رہا تھا۔۔۔!
————————————-
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...