تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند
اس دنیا میں ہر روز کروڑوں لوگ آتے ہیں اور کروڑوں اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ لیکن ہمیشہ کے لئے یاد انہیں رکھا جاتا ہے جو اندیشہ نقصان سے بالاتر سوچ کے مالک ہوتے ہیں۔ جو حالات کے تابع نہیں رہتے بلکہ حالات ان کے تابع ہوا کرتے ہیں۔ وہ کسی تبدیلی یا رہنما کے انتظار میں اپنی زندگی ضائع نہیں کرتے بلکہ وہ خود رہنما بن کر وہ تبدیلی لاتے ہیں جس کا دوسروں کو انتظار ہوتا ہے۔ دنیا میں ایسی ہزاروں شخصیات ایسی گزری ہیں کہ جن کو ہم آج بھی یاد کرتے ہیں تو ان کے احترام میں ہماری نظریں خود بہ خود جھک جاتی ہیں۔ اور ہمارے دلوں سے اُن کے لئے دعائیں جاری ہو جاتی ہیں۔
آج ہمارے معاشرے میں مولانا روم، علامہ اقبالؒ اور قائد اعظم جیسی عظیم ہستیوں کی کمی کی وجہ ہمارے دل میں موجود لالچ، طمع اور دوسروں سے مقابلہ کرنے جیسی بے وقوفانہ خواہشیں ہیں۔ دولت و شہرت کی محبت نے ہمیں خود ہی سے بیگانہ کر دیا ہے۔ ہم اپنی نفسانی لذّتوں کی خاطر اپنے ہی بھائیوں اور دوستوں کے گلے کاٹنے تک کو تیار ہو جاتے ہیں۔ ہم اپنے آباء و اجداد کے بتائے ہوئے راستوں کو چھوڑ کر نہ جانے کس جانب گامزن ہو چکے ہیں۔ ہم” اھدنا صراط المستقیم“ تو کہتے ہیں لیکن اس سیدھے راستے سے کوسوں دور جانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ اور یہاں میں قاسِم علی شاہ صاحب کا ایک قول آپ کی خدمت میں پیش کرتا چلوں:
آپ فرماتے ہیں، “فائدہ تو فائدہ، لوگ لاشعوری طور پر اپنے نقصان کے لئے بڑی محنت کر رہے ہوتے ہیں۔ “
بظاہر تو ہم اپنا بھَلا کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ دولت آئے گی تو ہم کامیاب ہو جائیں گے۔ میرے پاس شہرت ہو گی تو لوگ میری عزت کریں گے۔ اور ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ارد گرد موجود لوگ بھی ہمیں ایسے ہی مشورے دیتے ہیں کہ دنیا میں عزت دار وہی ہیں کہ جن کے پاس دولت اور شہرت ہے۔ اور یہ نظریہ بچپن ہی سے ہمارے ذہن میں چسپاں ہوتے ہوتے اس قدر مضبوط ہو جاتا ہے کہ ایک خاص عمر میں ہم اس قدر اس نظریے کے غلام ہو جاتے ہیں کہ ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم مسلمان بھی ہیں۔ پھر ہم ہر جائز و ناجائز طریقہ اپناتے ہیں ان تمام خواہشات کو پورا کرنے کا۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں:
“دولت، شہرت اور لذّتِ وجودِ نفس ___ اِن تینوں میں اگر احتیاط کی جائے اور ان تینوں کو اگر کلمہ پڑھا دیا جائے تو آپ کا راستہ آسان ہو گیا۔ “
اگر آپ ان خواہشات پر غور کریں تو آپ کو یہ معلوم پڑے گا کہ یہ خواہشیں ہیں ہی نہیں بلکہ یہ تو By-Products ہیں۔ ہوتا کیا ہے؟ آپ بغیر سوچے سمجھے، بِنا غور و فِکر کے چلتے جا رہے ہوتے ہیں۔ اور آپ کو پتا بھی نہیں کہ آپ کے چلتے چلے جانے کی اصل وجہ کیا ہے؟ آپ لوگوں کی دیکھا دیکھی چل رہے ہوتے ہیں، اور یہ ہی آپ کی زندگی کی سب سے بڑی بھول ہوتی ہے۔ آپ جس ہدف کو اپنی زندگی کا مقصد مان کر چل رہے ہوتے ہیں، حقیقت میں وہ ہدف تو بے معنی ہے۔ وہ تو Output ہے اور جب تک کوئی Input ہی نہیں ہو گا تو Output کیا خاک ملے گا۔ اگر آپ کو وہ سب چاہئے جس کے آپ خواہش مند ہیں۔ تو آپ کو اپنی زندگی کا حقیقی مقصد تلاش کرنا ہو گا۔ اور وہ حقیقی مقصد آپ کو تب ملے گا جب آپ خود شناس ہوں گے۔ جب آپ خود کو پہچان لیں گے۔ جب آپ کو اپنی کمزوریاں، اپنی طاقت، اپنی صلاحیت اور اپنی وقعت کا ادراک ہو گا۔ بغیر مقصد کے چلنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی ایسی گاڑی میں سوار ہیں جس کی کوئی منزل ہی نہیں، اس کو بس چلنا ہے چلتے ہی جانا، اتنا چلنا ہے کہ جب تک یا تو اس کا پیٹرول ختم نہ ہو جائے یا پھر اس کو حادثہ درپیش نہ آئے۔
کیا کبھی آپ نے یہ سوچا کہ جب دنیا میں پہلے ہی سے لاکھوں کروڑوں لوگ موجود تھے۔ اُن میں علماء بھی تھے، طلباء بھی تھے، فقہاء بھی تھے، فقراء بھی تھے غرباء بھی تھے نیز ہر شعبے اور ہر طرز کے لوگ موجود تھے۔ اور جب اتنے مختلف اقسام کے لوگ موجود تھے دنیا کا نظام چل رہا تھا۔ تو پھر آپ کو بھیج کر دنیا میں کیا تبدیلی مقصود تھی؟ کیا آپ کو بلا وجہ دنیا میں بھیجا گیا۔ قرآن مجید میں سورة ص میں خدائے واحد و یکتا ارشاد فرماتا ہے کہ:
“ہم نے اس آسمان کو اور زمین کو اور اس دنیا کو (اور) جو اِن کے درمیان ہے، فضول پیدا نہیں کیا۔ “
اور پھر بار بار کئی جگہ ارشاد فرماتا ہے کہ “عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں “۔ اللہ تعالیٰ بھی یہ چاہتا ہے کہ ہم خود کو پہچانیں۔ اور یہ سب اسی وقت ممکن ہے، جب ہم خود کو سمجھنے کا ارادہ کریں گے۔ ہر عمل کا آغاز نیت سے ہوتا ہے، ایک ارادے اور عزم سے ہوتا ہے۔ اگر آپ کسی کام کا عزم نہیں کرتے تو کبھی بھی وہ کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچتا۔ عزم مصمم کے بعد اہم اور نہایت ضروری عمل یہ ہے کہ ہم اپنے مقصدِ زندگی کا تعین کریں۔
دنیا میں ہر روز کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی جگہ، کوئی نہ کوئی شخص کسی نا ممکن کام کو ممکن بنا کر دنیا کے عظیم اذہان کو حیران و پریشان کرتا ہے۔ ایسی تمام شخصیات کے پاس ایسی کون سی خوبی ہوتی ہے جو وہ کوئی ایسا کام کر جاتے ہیں جسے دیکھ کر دنیا کے بڑے بڑے سائنسدان، مفکر اور محقق ششدر رہ جاتے ہیں۔ عموماًاس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ دوسروں کی نسبت سخت محنت کرتے ہیں، پریشانیوں اور تکلیفوں کا سامنا کرتے ہیں، ہار نہیں مانتے اور اپنے راستے کی رکاوٹوں کو دیدہ دلیری سے برداشت کرتے ہیں۔
لیکن یہ ایک بالکل نامکمل اور ادھورا جواب ہے۔ در اصل سچ یہ ہے کہ ان تمام لوگوں کی زندگی کا محور ایک خواب ہوتا ہے، ایک ایسا خواب جس کی تکمیل کو وہ اپنا فرضِ اولین سمجھتے ہیں۔ وہ ہر وقت اس خواب کو حقیقت کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہی خواب ان کا مقصدِ زندگی ہوتا ہے۔ اُن کی زندگی کا کوئی دِن ایسا نہیں ہوتا کہ جس میں وہ اس بات سے غافِل ہوں کہ ان کا مقصد کیا ہے؟ وہ اپنے اس خواب کے راستے میں آنے والی کسی بھی رکاوٹ کو برداشت نہیں کرتے، وہ کام باقی سب لوگوں جتنا ہی کرتے ہیں لیکن ان کا ہر قدم فہم و ادراک سے خالی نہیں ہوتا۔ وہ اپنے راستے میں آنے والی ہر مصیبت کو اس یقین سے برداشت کرتے ہیں کہ ہر رات کے بعد سورج طلوع ہوتا ہے۔ ہر تاریکی اپنے اندر اجالے کا پیغام لئے ہوتی ہے۔ وہ اس مصیبت میں مخفی کامیابی کے راستے کو تلاش کرتے ہیں۔ جسے عام شخص رونے دھونے میں کھو دیتا ہے۔ اسی کامیابی کے راستے پر چلتے چلتے جب وہ اس تاریکی سے باہر آتے ہیں تو منزل کو اپنے قدم چومنے کو تیار پاتے ہیں۔
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب کئی اشخاص نے اپنی زندگی کے لئے کچھ اصول وضع کرنے کے بعد، اپنی زندگی کے مقاصد حاصل کر لئے اور دنیا میں وہ سب کچھ پا لیا جس کے وہ خواہشمند تھے تو ہم کیوں ایسا کوئی خواب نہیں دیکھتے جو ہمیں کامیاب لوگوں کی فہرست میں شامل کر دے۔
یاد رکھئے گا خواب وہ نہیں ہوتا جو سوتے میں دیکھا جائے، خواب وہ ہوتا ہے جو ہم جاگتے ہوئے دیکھتے ہیں اورایسا خواب کبھی مقصد نہیں کہلا سکتا جس کو سن کر لوگ حیران نہ ہوں بلکہ مقصد وہ ہوتا ہے جسے سننے کے بعد لوگ آپ کو پاگل قرار دے دیں۔ تھامس ایڈیسن، نیوٹن، علامہ اقبال، قائد اعظم، بِل گیٹس، مارک زگربرگ، قیصر عباس اور نہ جانے کتنے ہی کامیاب لوگوں کی اگر آپ زندگی کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ان میں سے کوئی بھی شخص ایسا نہیں جس کو لوگوں نے پاگل، بیوقوف یا دیوانہ نہ کہا ہو۔ لیکن تاریخ نے ثابت کیا، کہ وہی دیوانے تھے جنہوں نے دنیا کو اپنی دیوانگی سے دنیا میں وہ سب کر دیا جس کے بارے میں کبھی ان سیانوں نے (جو انہیں پاگل قرار دیتے تھے) کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
’آج ہم اپنے اردگرد جو کچھ بھی دیکھ رہے ہیں یہ چند بیوقوفوں، کچھ پاگلوں اور کئی دیوانوں کی دین ہے اور یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی کہانی خود اپنے قلم سے لکھتے ہیں ‘
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...