ستیہ پال آنند(کینڈا)
جب بھی آنکھیں کھولتا ہوں
جانی پہچانی یہی دنیا نظر آتی ہے مجھ کو
جب بھی آنکھیں بند کر کے اپنے اندر جھانکتا ہوں
اور ہی دنیا کا نقشہ دیکھتا ہوں!
کچھ عجب منظر ہے اندر
گندگی اک عمر کی ۔۔ اک لاکھ صدیوں کی غلاظت!
جانتا ہوں، آدمی کی نسل کا ماضی یہی تھا
اجتماعی، لاشعوری ذہن کی ’’diskettمیں رکھی
ایک chipسا
جس کے کمپیوٹر میں چلنے پر میں اپنی
بند آنکھوں سے برابر دیکھتا ہوں
لڑتے بھڑتے جنگلی، وحشی قبیلے
ارتقا کی دوسری منزل پہ تہذیب و تمدن کا ابھرنا
نیست و نابود ہونا
مذہبوں کے نام پر لشکر کشی، خلقت کا قتل عام، شہروں کی تباہی
حملہ آور فوجیوں کی بربریت
آمروں کی، بادشاہوں کی ہوس ملک گیری
دوں یا بند رکھوں ؟
نوجوانوں، عورتوں، بچوں کو جیسے ریوڑوں سا ہانک کر
نیلام گھر میں ان کی بولی!
تیز رو میں آگے بڑھتے chipکے ان سارے مناظر پر لہو بکھرا ہوا ہے!
آدمی کی نسل کا ماضی بہت مکروہ ہے، اب آنکھیں کھولوں
chipکو diskettمیں مقفل چھوڑ دوں ۔۔
یہ سوچ کر جب اپنی آنکھیں کھولتا ہوں
چونک کر کیا دیکھتا ہوں
chipتو چلتی جا رہی ہے، آج کی دنیا کی تصویریں دکھاتی!
سب طرف وحشت وہی ہے
بربریت، جارحیت کا وہی نقشہ ہے ہر سو
کچھ بھی تو بدلا نہیں ہے!
اپنی آنکھیں کھول دوں یا بند رکھوں؟