حیدر قریشی
خواہش تھی کہ اک بار کبھی خود سے بھی ملتے
فرصت کبھی اے گردشِ حالات عطا کر
جرمنی کی مصروف ترین زندگی میں معمولاتِ زندگی مشینی انداز سے گزر رہے ہیں ۔مجھے نہ صرف بہت سارے عزیز وں اور دوستوں سے ملاقات نہ ہو سکنے کی حسرت رہتی ہے بلکہ کبھی کبھار تو خود سے ملنے کی بھی شدید خواہش ہوتی ہے۔لیکن یہاں مکروہاتِ دنیا سے یا معمولاتِ زندگی سے مہلت ہی نہیں مل رہی۔مجھے اتنا اندازہ ہے کہ میرے اندرمیرے باہر سے زیادہ بہتر، کچھ ہے۔لیکن جہاں بدن کے تقاضوں سے ہی جان نہ چھوٹ رہی ہو وہاں اندر کی طرف دھیان کہاں جاسکتا ہے۔ڈیوٹی پر آنے جانے سمیت دس گھنٹوں کی مشقت کے بعد ساڑھے نو بجے شب کو گھر پہنچتے ہی پہلے لباس تبدیل کرتا ہوں،باتھ روم سے فارغ ہوتا ہوں۔پھر انٹرنیٹ پر آئی ہوئی ای میلز دیکھتا ہوں اور ان کے جواب لکھتا ہوں۔دس بجے شب ٹیلی کاسٹ ہونے والے جیو ٹی وی کے خبر نامہ کے پہلے پندرہ بیس منٹ کی خبریں دیکھنا میرا معمول ہے اور اسی دوران ہی رات کا کھانا کھاتا ہوں۔کھانا کھا کر تھوڑی دیر کے لئے باہر سیر کرنے کے لئے نکل جاتا ہوں۔ دس منٹ کی سیر کے بعد واپس آکر مغرب اور عشا کی نمازیں جمع کرکے پڑھتا ہوں۔گیارہ بجے کسی اہم ٹاک شو کو دیکھتا ہوں اور دیکھتے دیکھتے ہی صوفے پر سو جاتا ہوں۔صبح فجر کی نماز کے وقت پر جاگ جاتا ہوں۔ حوائجاتِ ضروریہ کے بعد نماز، قرآن کی بچپن کی پڑی ہوئی عادت پور ی کرتا ہوں۔ اس دوران بیوی بچے بھی جاگ جاتے ہیں۔سب اپنے اپنے کام پر جانے کی تیاریوں میں مشغول ہوتے ہیں۔ بیوی ناشتہ تیار کرتی ہے تو ہم دونوں مل کر ناشتہ کرتے ہیں۔پھر میں کچھ دیر کے لئے سوجاتا ہوں۔
دس بجے کے لگ بھگ جاگ کر تازہ دَم ہوتا ہوں۔کچھ وقت انٹرنیٹ پر گزارتا ہوں۔پھر ملازمت پر جانے کی تیاری کرتا ہوں۔سوا بارہ بجے والی بس مجھے میرے گھر کے پاس سے مل جاتی ہے۔بس پر بیٹھ کر اپنے شہر ہیٹرس ہائم کے ریلوے اسٹیشن تک پہنچتا ہوں ۔وہاں سے مجھے فرینکفرٹ شہر تک جانا ہوتا ہے۔پلیٹ فارم نمبر ۱پر فرینکفرٹ جانے والی ٹرین آتی ہے جبکہ پلیٹ فارم نمبر ۲پر فرینکفرٹ سے آنے والی ٹرین آتی ہے۔ میں سیڑھیوں کے قریب اپنی ٹرین کا انتظار کرتا ہوں۔میری ٹرین سے تین منٹ پہلے فرینکفرٹ سے ٹرین آجاتی ہے اور اس کے آگے جانے تک میری اپنی ٹرین پہنچ جاتی ہے۔ میں اپنی ٹرین کے آگے والے ڈبے میں بیٹھا کرتا ہوں کہ وہاں سے مجھے اپنی اگلی منزل کی طرف جانے میں چند قدموں کے چلنے کی بچت ہوجاتی ہے۔اس حساب سے چونکہ میں فرینکفرٹ جانے والی ٹرین کے پہلے ڈبے کے مقام پر کھڑا ہوتا ہوں،اس لئے فرینکفرٹ سے آنے والی ٹرین کا آخری ڈبہ میرے قریب آکر رُکتا ہے۔یوں میں تین منٹ کے عرصہ میں اس ٹرین سے اترنے والی سواریوں کو سرسری سا دیکھ لیا کرتا ہوں۔ہم سب آنے اور جانے والے مزدور اور دفتر پیشہ لوگ ہوتے ہیں۔اس لئے تقریباَ سارے چہرے عام طور پر جانے پہچانے سے ہوتے ہیں۔ایک دن میں نے معمول کے مطابق فرینکفرٹ کی طرف سے آنے والی سواریوں کو دیکھنے کی بجائے ویسے ہی اپنے پلیٹ فارم پر اپنی ٹرین کی آمد کا انتظار شروع کر دیا۔اچانک کسی نے پیچھے سے میرے کندھوں کو تھپتھپایا۔میں نے مُڑ کر دیکھا تو میرا چھوٹا بیٹا تھاجو طبیعت تھوڑی سی خراب ہونے کی وجہ سے دفتر سے جلدی آگیاتھا۔اس کو ڈاکٹر سے فوری رجوع کرنے کی ہدایت کرنے کے باوجود مجھے اپنے بیٹے سے اس طرح کی اچانک ملاقات خوشگوار سی لگی۔اور پھر عجیب سا معاملہ ہوا۔تب سے جب بھی میں فرینکفرٹ کی طرف جانے والی ٹرین کے لئے جاتا ہوں، فرینکفرٹ سے آنے والی ٹرین کو صرف اس وجہ سے دیکھتا ہوں کہ شاید میرا چھوٹا بیٹا پھر اس ٹرین سے اترے۔ایک بار سنیچر کا دن تھا۔ آفس میں چھٹی کے باعث بیٹا گھر پر ہی تھا لیکن مجھے اپنے اولڈہوم میں معمول کے مطابق کام پر جاناتھا۔میں گھر کے دوسرے افراد کی طرح بیٹے سے بھی ہاتھ ملا کر اور خدا حافظ کہہ کر گھر سے نکلا۔لیکن شہر ہیٹرس ہائم کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچ کر جیسے ہی فرینکفرٹ سے آنے والی ٹرین آئی ،میں اس طرح اسے دیکھنے لگا جیسے ابھی اس میں سے میرا بیٹا اُترے گا۔پھر مجھے خیال آیا کہ بیٹا تو گھر پر ہے،میں کس کا انتظار کر رہا ہوں!اب بیٹے نے اپنی کار لے لی ہے اور وہ کار پر ہی آفس آتا جاتا ہے لیکن میں پھر بھی ہر بار فرینکفرٹ سے آنے والی ٹرین کو ایسے دیکھتا ہوں جیسے میرا چھوٹا بیٹا اس میں سے اترے گا اور میں اس سے ہونے والی ہلکی سی ملاقات کی خوشگواری کو محسوس کروں گا۔جاب پر جا کر سب سے پہلا کام یہ کرتا ہوں کہ ظہر اور عصر کی نمازیں جمع کرکے پڑھ لیتا ہوں۔
پچھلے دنوں جرمنی کی سب سے زیادہ مالیت ۳۵ملین یوروکی لاٹری کے بخار نے پورے جرمنی کو اپنے گھیرے میں لے لیا تھا۔ لاٹریوں کے چکر میں نہ پڑنے کے باوجود ۳۵ملین اتنی بڑی رقم تھی کہ میں نے بھی اسے کھیلنے کا ارادہ کر لیا۔کچھ خاص دعائیں پڑھ کر حصہ لے لیا۔۳۵ملین یورو کا مطلب ہے ساڑھے تین کروڑ یورو۔اور اس رقم کو پاکستانی مالیت میں تبدیل کیا جائے تو پونے تین ارب روپے بنتے ہیں ۔
لاٹری کھیلنے کے بعد میں نے اس کا فیصلہ ہونے سے پہلے بہت سارے منصوبے بنا لئے تھے۔ جرمنی میں ہی ایک بڑا رہائشی منصوبہ ، جس میں میرے سارے بچے اپنے اپنے گھروں میں ایک ساتھ ہوں گے۔جرمنی میں ایک کمپنی کا قیام اور پاکستان اور انڈیا میں اس کمپنی کی طرف سے انویسٹمنٹ کے پروجیکٹس۔ بچوں کے لئے ان کے ذہنی میلانات کے مطابق جرمنی میں مناسب کاروبار۔ پاکستان میں اپنے پرانے گاؤں کے آس پاس ایک بڑی حویلی کی تعمیر۔پھر بہت سارے قریبی عزیزوں اور دوستوں کے لئے بعض منصوبے،جن کے مطابق انہیں مالی امداددینے کی بجائے اپنے پیروں پر مضبوطی سے کھڑا کرنے کے منصوبے شامل تھے ۔اسی طرح بعض فلاحی پروگرام شروع کرنے کے خاکے ۔ بہت ساری باتیں میرے ذہن میں آگئی تھیں اور میں نے خود کو ذہنی طور پر ان ساری ذمہ داریوں کے لئے تیار کر لیا تھا۔جس دن شام کو قرعہ اندازی ہونا تھی اس دن میری معمول کی تلاوت کے دوران سورۃانفال کی آیت انما اموالکم واولاد کم فتنۃنے مجھے ہلکا سا جھٹکا لگایا۔یہ آیت آج کے دن ہی کیوں پڑھنے میں آئی اور پڑھتے وقت اتنی توجہ کیوں کھینچ گئی؟۔لیکن پھر میں نے اسے ایک اتفاق سمجھ کر ذہن سے جھٹک دیا۔
قرعہ اندازی کا شفاف عمل ٹی وی پر میں نے اور میرے بیٹے نے براہِ راست ایک ساتھ دیکھا۔میرا بیٹا کافی جذباتی ہو رہا تھا۔تب میں نے اسے سمجھایا کہ اگر انعام نکل آئے تو تب بھی اپنی حیثیت سے باہر نہیں ہونا۔انعام نہیں نکلتا تو غمزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ دونوں صورتوں میں خود کو نارمل رکھنا ہے۔قرعہ اندازی ہوئی تو ہمارا انعام نہیں نکلا۔۳۵ملین کا انعام کسی اور کو مل گیا۔بیٹا میرے سمجھانے کے باوجود کافی افسردہ ہوا۔میں اسے تسلی دیتا رہا۔مجھے لاٹری کا بڑا انعام حاصل نہ کر پانے کا افسوس نہیں تھا لیکن اپنے کئی منصوبوں کے ادھورے رہ جانے کی تھوڑی سی حسرت دل میں ضرور ہونے لگی تھی۔ انعام نکل آنے کی صورت میں اگلے دن میں نے اپنی مزدوری والی جاب پر نہ جانے کا طے کر لیا تھا۔انعام نہیں نکلا تو اگلے دن میں معمول کے مطابق اپنی جاب پر چلا گیا ۔جاب سے واپسی پر روز کے معمولات سے گزرتا ہوا،رات کا کھانا کھا کر چند منٹ کی سیر کے لئے نکلا۔
اپنے گھر کے قریب کی گلیوں سے گزرتے ہوئے اچانک مجھے عجیب سی روشنی محسوس ہوئی،سٹریٹ لائٹس سے بالکل مختلف،جیسے مستقبل کے کسی دَور کی کوئی روشنی ہو۔اسی روشنی میں یکایک ایک نوجوان دوڑتا ہوا میرے پاس آیا۔اس نے ایک بریف کیس مجھے تھماتے ہوئے کہااس میں ۳۵ملین یورو مالیت کے قیمتی ہیرے اور سونے کے بسکٹ ہیں۔پولیس میرے پیچھے لگی ہوئی ہے۔آپ اسے لے لیں،میری طرف سے آپ کے لئے تحفہ ہوا۔اور پھر وہ نوجوان آناَ فاناَ غائب ہو گیا۔مجھے لگا جیسے میرے سارے منصوبے پورے کرنے کے لئے خدا نے کوئی آسمانی مدد بھیج دی ہے لیکن اس خیال کے ساتھ ہی پولیس کی گاڑیوں کے سائرن کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔میرے دل کی دھڑکن ایک دَم تیز ہو گئی۔میں اپنی سیر کو ادھورا چھوڑ کر گھر کی طرف واپس پلٹا لیکن ابھی میں اپنی بلڈنگ کے قریب ہی پہنچا تھاکہ سائرن بجاتی ایک پولیس کار میرے قریب آکر رُک گئی۔پولیس والے مجھ سے اُسی نوجوان کی بابت پوچھ رہے تھے لیکن میرے جواب دینے سے پہلے ہی اُن کی نظر میرے ہاتھ میں پکڑے ہوئے بریف کیس پر پڑ گئی۔تب مجھے بائبل کی ایک آیت یاد آئی: ’’ہم سونے کو آگ سے اور انسان کو سونے سے آزماتے ہیں‘‘
پولیس مجھے گرفتار کر رہی تھی،اسی لمحے مستقبل کے کسی دَور جیسی عجیب سی روشنی غائب ہو گئی اور میں نے سٹریٹ لائٹ کی روشنی میں دیکھا کہ سڑک کے دوسری طرف پویس نے ایک نوجوان کو گرفتار کیاہوا ہے ۔ اس کا بریف کیس پولیس کی تحویل میں ہے۔وہ نوجوان بالکل وہی تھا جو کچھ دیر پہلے مجھے اپنا بریف کیس دے گیا تھا۔لیکن اب نہ تو میرے پاس کوئی بریف کیس تھا اور نہ ہی پولیس نے مجھے کوئی ہتھکڑی لگائی ہوئی تھی۔تو پھر جو کچھ مجھ پر گزرا، یا میں نے محسوس کیا وہ سب کیا تھا؟کیا میں نے کوئی کشفی نظارہ سا دیکھا تھا یا کسی روشنی نے مجھے اپنے وقت سے چند منٹ پہلے کا سفر کراکے پھر واپس اپنے مقام پر چھوڑ دیا تھا؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی۔لیکن کچھ سمجھ آبھی رہی تھی۔
کل رات والے نظارے یا تجربے کے بعدساری رات مجھے ٹھیک سے نیند نہیں آسکی تھی اورآج جب میں جاب پر جانے لگا ہوں تو طبیعت کافی بوجھل ہے۔گھر سے باہر نکلا تو گہرے بادل اور دھند ایک دوسرے میں مدغم دکھائی دئیے۔ہیٹرس ہائم ریلوے اسٹیشن پر پہنچا تو ریلوے کے عملہ کی طرف سے اعلان ہو رہا تھا کہ ویزبادن سے فرینکفرٹ جانے والی ٹرین دس منٹ لیٹ آرہی ہے۔دھندلی فضا نے ریلوے اسٹیشن کی روشنیوں کو بھی مدھم کررکھا ہے ۔اس دوران فرینکفرٹ سے آنے والی ٹرین اپنے ٹھیک وقت پر آگئی اور میں اپنی عجیب سی عادت کے مطابق دیکھنے لگتا ہوں کہ شاید میرا بیٹا اس میں سے اُتر کر آرہا ہو۔فضا کی دھندلاہٹ کے باوجود واقعی میرا چھوٹا بیٹا انجن کے ساتھ والے ڈبے سے نیچے اُترا ہے اور میری طرف آرہا ہے ۔ میرے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی ہے۔لیکن جیسے جیسے میرا بیٹا قریب آتا جا رہا ہے،میری مسکراہٹ، حیرت آمیز ہوتی جا رہی ہے۔کیونکہ اب وہ میرا بیٹا نہیں لگ رہا بلکہ صاف طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ میرے ابا جی میری طرف آرہے ہیں۔میں ابا جی کا استقبال کرنے کے لئے ان کی طرف آگے بڑھ کر جاتا ہوں۔لیکن جب ان کے قریب پہنچتا ہوں تومیری حیرت کی انتہا نہیں رہتی۔یہ تو میں خود ہوں!
میں اپنے آپ سے گلے مل رہا ہوں اور ایسے لگ رہا ہے کہ میں خود سے نہیں بلکہ اپنے سارے آباو اجداد اور اپنی ساری موجودہ اور آنے والی نسلوں کو گلے مل رہا ہوں۔ اسی حالت میں دیکھتا ہوں کہ فرینکفرٹ سے آنے والی ٹرین آرہی ہے۔دور سے اس کی ہیڈ لائٹ کی چمک اسٹیشن کی طرف بڑھتی چلی آرہی ہے۔
مجھے رات والا واقعہ یاد آجاتا ہے اور میں مزید کسی حیرت میں پڑے بغیریقین کر لیتا ہوں کہ فرینکفرٹ سے آنے والی جو ٹرین کچھ دیر پہلے آچکی تھی،وہ در اصل اب آرہی ہے،ٹرین اسٹیشن پر رُک رہی ہے اور میں اس کے سب سے اگلے ڈبے میں سے اپنے اترنے کا انتظار کرنے لگتا ہوں!