’’تو اب تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ سنان شاہ نے بیڈ پر سوئے بےخبر وجود پر ایک نگاہ ڈالے فون کی دوسری جانب موجود معتصیم سے سوال کیا تھا۔
’’بدلا!‘‘ ایک حرفی جواب
’’کس سے؟‘‘ گہری سانس خارج کیے سوال ہوا اور ساتھ ہی وہ بیڈ پر سوئی اپنی مانو بلی کے پاس بیٹھ گیا تھا۔
’’ان سب سے جو میری تکلیفوں کا سبب بنے۔‘‘ معتصیم آفندی نے دوبارہ جواب دیا تھا۔
’’اور شروعات کہاں سے ہوگی؟‘‘ ہالانکہ وہ جواب جانتا تھا مگر پھر بھی پوچھ بیٹھا۔
’’ماورا عباسی۔‘‘ نام لیتے ہی اس نے گلاس وال سے باہر لان میں کھیلتی ماورا کو دیکھا اور کال کاٹ دی۔
دونوں آنکھیں بڑی کیے وہ باغ کے پیچ و بیچ کھڑی اپنے ارد گرد اڑتی رنگ برنگی تتلیوں کو غور سے دیکھتی انہیں دونوں ہاتھوں سے پکڑنے میں کوشاں تھی۔
کانوں میں آج سے آٹھ سال پہلے کے صوفیہ رحمان کے الفاظ گونجے تھے۔
’’اس نے تمہیں کہا تھا کہ وہ تمہیں برباد کردے گی۔۔۔ تم اسے پاکر بھی نہ پاسکو گے۔۔۔۔ وہ نفرت کرتی ہے تم سے اور بدلہ ضرور لے گی!!!!۔۔۔۔۔دیکھو بدلا لے لیا اس نے۔۔۔۔کردیا برباد تمہیں۔۔۔۔اس کی نفرت تمہاری خوشیاں, تمہارا سب کچھ کھا گئی۔۔۔۔۔۔تم برباد ہوگئے معتصیم برباد!!!‘‘
’’اب وقت آگیا ہے کہ تم اپنے کیے کی قیمت چکاؤ ماورا عباسی۔۔۔۔ تمہیں قیمت چکانی ہوگی۔۔۔۔۔‘‘ سرخ آنکھیں اس پر گاڑھے اس نے تنفر سے سوچا تھا
خود پر نظریں محسوس کرتے ماورا نے اس کی جانب دیکھتے مسکرا کر اپنا ہاتھ ہلایا تھا جس پر معتصیم بھی مسکرایا تھا مگر آنکھوں میں چلتی چنگھاریاں ہنوز موجود تھی۔
آج صبح جب ماورا کی آنکھ کھلی تو وہ ایک بار پھر سے سب کچھ بھول چکی تھی۔۔۔ اسے تو یہ تک بھی یاد نہ تھا کہ وہ معتصیم کے گھر سے گئی تھی۔۔ معتصیم سنان کو کال کرکے ہر بات سے پہلے ہی آگاہ کرچکا تھا۔۔۔ مگر بدلا کیسے لے گا یہ اسے بھی نہیں بتایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“یہ سب؟” ہاتھ میں موجود پاسپورٹ اور ویزہ دیکھ کر وہ حیران ہوئی۔
“کیا ہم کہہ جارہے ہیں؟” پاسپوٹ پر موجود اپنی تصویر پر انگلی پھیرتے اس نے سوال کیا
“ہوں! ہن پاکستان جا رہے ہیں” کافی کا سپ لیے سنان نے اسے جواب دیا تھا
“پاکستان؟” چونک کر سوال کیا گیا۔
“تو کیا آپ یہاں نہیں رہتے؟”
“نہیں۔۔۔ یہاں صرف کام کے سلسلے میں آیا تھا!”
“تو کام ہوگیا؟” زویا کے سوال پر وہ بھرپور مسکرایا تھا
“ہاں ہوگیا اور اب بس مزید کوئی سوال نہیں۔۔۔۔ کل کی فلائیٹ ہے ہماری تیار رہنا!” اسے منہ کھولتے دیکھ سنان نے اسے خاموش کروایا تھا۔
“مگر تیاری کروں تو کیا ؟ میرے پاس تو کپڑے بھی نہیں” دونوں ہاتھ میز پر ٹکائے ان پر چہرہ رکھے وہ اداس لہجے میں بولی تھی۔
“اداس مت ہو۔۔۔۔پاکستان جاکر جتنی چاہے شاپنگ ہو کرلینا۔۔۔۔ مگر ابھی تمہیں باہر نہیں نکال سکتا میں, وہ لوگ ڈھونڈ رہے ہیں تمہیں” سنان کی بات پر اس کے چہرے کا رنگ فق ہوا تھا
“سس۔۔۔۔۔سر؟” تھوک نگلتے اس نے سوال کیا تھا,ماتھے پر اپنے آپ پسینے کے ننھے قطرے نمودار ہوئے تھے,جب کہ خوف سے آنکھیں پھیل گئیں تھی۔
“ہے زویا۔۔۔مانو بلی۔۔۔ کچھ نہیں ہوا۔۔۔۔ ششش” اسے یوں خوفزدہ دیکھ سنان نے اسے اپنے ساتھ لگایا تھا۔
“مجھے اس سے بچالو”
“وہ تمہیں کچھ نہیں کرسکتا۔۔۔۔ آئی پرامس” سر پر بوسہ دیتے سنان شاہ اس سے زیادہ خود سے وعدہ کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“افففف حماد بس بھی کرو میں تھک گئی ہوں۔۔۔” دونوں ہاتھ گھٹنوں پر ٹکائے وہ پھولے سانس سمیت بولی تھی۔
“یار شزا کیسی لڑکی ہو تم؟ لڑکیوں کو تو اتنا شوق ہوتا ہے شاپنگ کا اور خاص کر تب جب ان کی لائف میں اتنا اہم دن آنے والا ہو”
“نہیں جی,ایسی کوئی بات نہیں مجھے بھی شوق ہے مگر ہک صبح سے تقریبا پورا مال گھوم چکے ہے, مگر مجال ہے جو آپ صاحب کو کچھ پسند آجائے” شزا کے منہ بنانے پر حماد ہنسا تھا۔
“کیوں تم پسند آگئی یہ کافی نہیں؟”
“حماد!!!” اس کے شرارت بھرے لہجے پر وہ چڑ کی چیخی تھی
“اوکے سوری۔۔۔ اچھا چلو گھر چلے” اس کا ہاتھ تھامے بنا بولنے کا موقع دیے وہ اسے اپنا ساتھ ایگزیٹ کی جانب لے آیا تھا
“ارے مگر میری ڈریس؟” وہ پیچھے مال کو دیکھتے بولی
“میں خود لے لوں گا۔۔۔۔ ویسے بھی میرا سوٹ تم نے ہی سیلیکٹ کیا ہے نا۔۔۔ تو تمہارا میں کروں گا” گاڑی میں اسے بٹھائے,سامان بیک سیٹ پر رکھے وہ بولا تھا۔
“اچھا کچھ کھلا ہی دو۔۔۔ صبح سے بھوکی ہوں میں” گاڑی کی سیٹ سے سر ٹکائے وہ زرا سست لہجے میں بولی تھی۔
“اوکے مادام!” سر کو زرا سا جھکائے وہ شوخی سے بولا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“سر۔۔۔ مسٹر شبیر آئے ہیں آپ سے ملنے” دروازہ ناک کیے مس زونا نے اسے اطلاع دی تھی جس پر اس نے سر جھٹ سے اٹھایا تھا
“شبیر زبیری کب؟” اس نے جلدی سے اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے سوال کیا تھا۔
“ابھی”
“ماورا کہاں ہے؟”
“میم اپنے روم میں ہے سر”
“میری بات غور سے سنے مس زونا۔۔۔۔ کچھ بھی ہوجائے, میرا مطلب کچھ بھی, ماورا کو روم سے نہیں نکلنے دے گی آپ” اس کے پیچھے چلتے چلتے مس زونا نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
“جو سامان آرڈر کیا تھا وہ آگیا؟” اچانک اس نے پلٹ کر سوال کیا تھا۔
“جی سر اور میں نے سامان میم کے روم میں بھجوا بھی دیا ہے”
“ویری گڈ مس زونا۔۔۔ آپ جانتی ہے آپ کو اب کیا کرنا ہے۔۔ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں؟” معتصیم نے مسکرا کر پوچھا تھا
“ناٹ ایٹ آل سر”
“گڈ!” جواب دیے لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ ڈائنگ روم کی جانب چلا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
“میں اندر آسکتی ہوں؟” دروازہ ناک کیے مس زونا نے اجازت چاہی تھی۔
“ہوں” بنا دروازے کی جانب دیکھے,نظریں اپنے سامنے موجود سامان پر ڈالے اس نے سر اثبات میں ہلایا تھا
“یہ کس لیے؟” سامان کی جانب اشارہ کیے اس نے سوال کیا تھا اور ایک پسندیدہ نظر ریڈ کلر کے لانگ کاٹ پر ڈالی تھی۔
“یہ آپ کے لیے” مس زونا مسکرائی
“میرے لیے؟” اس کی آنکھیں پھیلی تھی۔
“ہاں”
“مگر میں نے تو کپڑے پہنے ہوئے ہیں” اس نے حیرانگی سے اپنے کپڑوں کی جانب اشارہ کیا تھا۔
مس زونا نے ناپسندیدہ نگاہ اس کے ان بوسیدہ اور پھٹے کپڑوں پر ڈالی تھی۔
“ہاں مگر کپڑے ہر دن یا دو دن بعد بدلنے چاہیے” مس زونا نے مسکرا کر جواب دیا
“تو پھر میں نے پہلے کیوں نہیں بدلے, چھوٹا شیطان بھی نہیں بدلتا اور تم نے بھی نہیں بدلے” ناک سکیڑے اس نے مس زونا کے یونیفارم کی جانب اشارہ کیا تھا۔
مس زونا نے گہری سانس خارج کی تھی, اس سے پہلے وہ مزید بےتکے سوال کرتی انہیں کسی بھی طرح اسے شاور دلوانا تھا جو شاید اس نے کئی برسوں سے نہیں لیا تھا۔
“میم آپ میرے ساتھ آئے مجھے آپ کو کچھ دکھانا ہے”
“کیا؟” اس نے فورا سے اشتیاق سے سوال کیا تھا۔
“آئے تو سہی نا” اسے بازو سے تھامے اپنی سانس روکے مس زونا اسے واشروم کی جانب لیکر گئی تھی۔ اس کے پاس سے آتی سمیل میں ان کا سانس لینا محال ہوگیا تھا
“نجانے سر کیسے برداشت کرتے ہے اسے” انہوں نے حیرت سے سوچا تھا۔
دو دن پہلے ہی معتصیم نے انہیں کال کر کے ڈیوٹی پر بلوایا تھا۔۔۔ وہ اس گھر کی ہیڈ میڈ تھی اور ایک انجان لڑکی کو اس گھر میں دیکھ انہیں پہلے حیرانگی ہوئی اور بعد میں اس کا حلیہ دیکھ کر کراہیت محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔ اس گھر کا گارڈ بھی ان سے زیادہ صاف ستھرا تھا۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ ماورا کو شاور دلوانے میں 50 فیصد کامیاب ہوگئی تھی۔
گہری سانس خارج کرتے انہوں نے باتھ ٹب میں موجود پانی کو دیکھا تھا جو مکمل طور پر کالا ہوگیا تھا۔ اور دوبارہ ماورا کو دیکھا تھا کو باتھ روب پہنے اپنے گیلے بالوں سے کھیلنے میں مصروف تھی۔
“کیا ہمیں روزانہ یہ کرنا ہوگا؟” ناک سکیڑے اس سوال کیا تھا
“ویسے تو نا مگر آپ کے کیس میں ہاں!” گہری سانس خارج کیے وہ سر افسوس سے نفی میں ہلائے بولی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“جی تو کہیے شبیر صاحب کیسے آنا ہوا آپ کا؟” اندر داخل ہوئے معتصیم نے سپاٹ لہجے میں سوال کیا تھا۔
“ارے ارے معتصیم صاحب گھر آئے مہمانوں کی آو بھگت نہیں کرے گے آپ؟” شبیر زبیری نے مسکرا کر سوال کیا تھا۔
“جو پوچھا ہے اس کا جواب دو, فضول کا مت بکو”
“تم۔۔۔۔۔” اس سے پہلے جازل کچھ بول پاتا بشیر صاحب نے سختی سے اس کا ہاتھ تھاما تھا۔
“یہ دینے آیا تھا۔۔ بیٹے کی منگنی کا کارڈ دینے۔۔۔۔ دعوت نامہ ہے یہ, امید ہے ضرور آؤ گے تم” زبردستی مسکراتے انہوں نے کارڈ اس کی جانب بڑھایا تھا جسے تھامے معتصیم نے پاس پڑے ٹیبل پر پھینک دیا تھا۔
“ہوگیا اب جاؤ!” دروازے کی جانب اشارہ کرتے وہ سپاٹ لہجے میں بولا تھا۔
“امید ہے تم ضرور آو گے آخر کو ہمیں ایک اہم معاملے پر بات کرنی ہے” جاتے جاتے بشیر پلٹ کر مسکرائے تھے۔
“یہ کیا تھا چاچا جان آپ نے مجھے اسے کچھ کہنے کیوں نہیں دیا؟” جازل نے کلس کر ان سے سوال کیا تھا جن کی نظریں آس پاس موجود دوڑتے مناظر پر ٹکی تھی۔
“تم نہیں سمجھو گے جازل یہ ضروری تھا”
“مگر دشمن کو خوشیوں میں دعوت دینا کہاں کی عقلمندی ہے؟” اسے ابھی بھی غصہ آرہا تھا
“فہام جونیجو نے ہم سے معاہدہ ختم کردیا ہے جازل, اس کا مطلب سمجھتے ہو؟” اب کی بار انہوں نے جازل کو دیکھا تھا
“نہیں۔۔۔۔ مگر اس نے ایسا کیوں کیا؟” جازل نے حیرانگی سے سوال کیا تھا
“اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لڑکی جس کی ہمیں تلاش ہے وہ معتصیم کو آفندی کو مل چکی ہے اور وہ فہام جونیجو کو بھی اس سے آگاہ کرچکا ہے۔۔۔۔”
“مگر ان سب کا اسے دعوت میں بلانے سے کیا تعلق؟”
“کیا تم ابھی بھی نہیں سمجھے؟ بات سمپل ہے جازل, معتصیم آفندی اس ایوینٹ میں ضرور آئے گا, اور اسی پل ہم اس کی غیر موجودگی میں اس کے گھر پر حملہ کرے گے اور اس لڑکی کو اٹھوا لے گے” بشیر زبیری نے سگار سلگایا تھا
“وہ سب تو ٹھیک ہے چاچا جان مگر آپ کو اتنا یقین کیسے ہے کہ معتصیم آفندی آئے گا؟” جازل نے ابرو اچکائے سوال کیا تھا۔
“فہام جونیجو نے ہم سے ڈیل کینسل کردی ہے یہ بات ہمیں معلوم ہے, اسے معلوم ہے مگر معتصیم آفندی یہ بات نہیں جانتا۔۔۔۔ یہ کلب جتنا ہمیں عزیز ہے اتنا ہی معتصیم آفندی کو بھی ہے اور وہ ضرور آئے گا” سگار کا گہرہ کش لیے شبیر زبیری نے تفصیلاً جواب سے اسے آگاہ کیا تھا۔
“سمجھے؟” ان کے پوچھنے پر جازل گہرہ مسکرایا تھا اور سر اثبات میں ہلایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“مس زونا میں نے آپ کو کب سے ماورا کو لانے بھیجا ہے آپ ابھی تک آئی نہیں۔۔۔۔۔” اپنی دھن میں بولتا وہ کمرے میں داخل ہوا تھا جب سامنے موجود ماورا کو دیکھ وہ رکا۔
صاف ستھری سی ماورا کو دیکھ لبوں پر اپنے آپ ایک دھیمی مسکراہٹ در آئی تھی۔
“مس زونا آپ جائے!” دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں ڈالے اس نے حکم جاری کیا تھا۔
“سر” اس کے حکم کو مانتی وہ وہاں سے چلی گئی تھی۔
“یہ میرے لیے؟” اپنے صاف ستھرے کپڑوں کی جانب اشارہ کیے ماورا نے حیرت سے سوال کیا تھا۔
“ہاں”
“کیوں؟” بھنویں اچکائے اس نے سوال کیا تھا۔
“کیوں؟ کیونکہ میں معتصیم ہوں” مسکراتا وہ اس کے پیچھے آکھڑا ہوا تھا۔
“وہ تو تم ہو” شیشے میں نظر آتے اپنے عکس پر انگلی پھیرے اس نے جواب دیا۔
“ہاں مگر میں وہ معتصیم ہوں جس کی تمہیں تلاش تھی۔۔۔۔ تمہارا معتصیم, ماورا کا معتصیم” اس کے بالکل پیچھے کھڑا وہ ایک جذب سے بولا تھا۔
“میرا معتصیم؟” منہ کھولے وہ اس کی جانب مڑی تھی۔
“ہاں تمہارا!”
“جھوٹ” سر نفی میں ہلائے وہ رخ موڑ گئی تھی۔
“جھوٹ کیوں؟” وہ حیران ہوا
“میرے ہوتے تو پہلے بتادیتے, چھپاتے نا!” شیشے پر دوبارہ انگلی پھیرے اس نے شکوہ کیا تھا۔
“مزاق تھا وہ” وہ زرا سا مسکرایا
“مزاق؟” اس کی آواز بہت ہلکی تھی, آنکھوں میں نمی در آئی تھی۔
“یہ,یہ کیسا مزاق تھا؟ تم, تم میرے ساتھ ایسا کیسے کرسکتے ہو۔۔۔۔۔ مزاق؟ تمہیں یہ مزاق لگتا ہے؟ تم کیسے کرسکتے ہو ایسا مزاق” ہذیانی چلاتی وہ اپنے بالوں کو نوچنا شروع ہوگئی تھی۔
“ماورا۔۔۔۔۔ ماورا۔۔۔۔ ہے کیا ہوا؟” اسے یوں دیکھتے وہ ہڑبڑا گیا تھا۔
“مزاق۔۔۔۔ مزاق کیسے کرسکتے ہو تم؟۔۔۔۔۔ یہ مزاق, یہ مزاق۔۔۔۔۔۔میری زندگی برباد کردی اس مزاق نے۔۔۔۔ ایسا کیسے کرسکتے ہو۔۔۔۔ یہ مزاق۔۔۔۔۔” چکراتے سر کو تھامتی وہ سن ہوتے دماغ کے ساتھ بہت جلد ہوش و حواس سے بیگانہ ہوتی زمین پر گرنے کو تھی جب معتصیم نے آگے بڑھ کر بروقت اسے سنبھالا تھا۔
“مزاق۔۔۔۔ مزاق نہیں کرنا تھا۔۔” آنکھ سے نکلے چند قطرے اس کے بالوں میں جذب ہوگئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...