اپنے خوابوں کو حقیقت کا لبادہ پہنا
فکر کو ولولے ، خواہش کو ارادہ پہنا
آبلے زخم نہیں پھول ہیں،اکثر جن کو
ہم نے پاپوش کیا جادہ بہ جادہ پہنا
تاکہ ناموس برہنہ کبھی اپنی بھی نہ ہو
سب کو چادر یہ زیادہ سے زیادہ پہنا
میں نے کب اطلس و کمخواب کی فرمائش کی
پیرہن جو بھی ملا خستہ و سادہ پہنا
معتدل وہ بھی تھا سو ہم نے محبت جامہ
نہ اتارا ، نہ ادھیڑا ، نہ زیادہ پہنا
مرشدِ عشق کا فرمان تھا ایمان اٹل
زیرِ خنجر بھی اطاعت کا قلادہ پہنا
جاں خلاصی یوں بھی ممکن تھی ولیکن افسوس
موت کا طوق بھی گردن سے کشادہ پہنا
اور توہینِ بشر اس سے زیادہ کیا ہو
گُرگ شرمندہ کہ انساں کا لبادہ پہنا
یعنی انسان بھی ابلیس سے کچھ کم نہیں ہے
بھیس بدلا تو فرشتوں کا لبادہ پہنا
دوستی یاری اداکاری ملمّع سازی
یعنی بہروپ ”سرِ محفلِ اعدا پہنا
تشنۂ لمس رہیں وصل رُتیں بھی کاشرؔ
اس نے پہنا بھی کبھی مجھ کو تو آدھا پہنا