دوپہر کا وقت تھا شہریار آفس گیا ہوا تھا وہ گھر میں حسب معمول اکیلی تھی ساری صفائی کر کے کھانا پکا کر فارغ ہو چکی تھی اور اب بور ہوتی ہوئی چینل پر چینل بدل رہی تھی۔ اس کے پاس فون بھی نہیں تھا کہ رخسار آپی یا شاہ بی بی کو کال کر لیتی ۔۔۔
دروازے پر بزر کی آواز سن کر وہ اٹھی اور اینٹرنس کی طرف بڑھی جہاں جینز اور ٹاپ میں ملبوس مسکراتی ہوئی اینا اس کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔
“اینا !! آپ ۔۔۔” وہ دروازہ کھول کر اینا کو سامنے پا کر خوشی سے کھل اٹھی۔
” بس بس رہنے دو یہ منھ دیکھے کی محبت۔ تم نے تو ایک بار بھی مجھے یاد نہیں کیا ورنہ ایک فون تو کرتیں ۔۔۔” اینا نے اندر داخل ہوتے ہوئے شکوہ کیا۔
” آئی ایم ویری سوری اینا! وہ ایکچوئلی میرے پاس فون نہیں ہے بس اسی لیے میں آپ کو کال نہیں کر سکی ۔۔۔۔” وہ شرمندگی سے بولی۔
” کم آن سویرا !! تم کس صدی کی بھٹکی ہوئی روح ہو ؟؟ تمہارے پاس سیل فون تک نہیں ہے۔ او گاڈ جب فون ہی نہیں ہے تو فیس بک یا انسٹا کس چڑیا کا نام ہے تمہیں تو یہ بھی نہیں پتا ہوگا ۔۔۔”
” وہ بس ۔۔۔۔” سویرا کا چہرہ خفت سے سرخ ہوا۔
اینا نے ایک نظر اس پیاری سی شرمندہ کھڑی لڑکی کو دیکھا۔
” دفع کرو اس فون کو !! کل سے تمہاری یونیورسٹی شروع ہو رہی ہے میں نے اسپیشل ہالف ڈے آف لیا ہے تمہیں گڈ لک کہنے اور ایک بار پھر راستہ دکھانے کو تاکہ کل تمہیں کوئی پریشانی نا ہو ۔۔۔۔” اینا نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔
” تھینک یو اینا ۔۔۔۔”
” اے خبردار !! دوستی میں یہ تھینک یو وینکیوں نہیں ہوتا چلو جلدی کرو باہر کا چکر لگا کر آتے ہیں ۔۔۔”
” پر اینا میں ایسے کیسے جا سکتی ہوں ۔۔۔” وہ پریشان ہوئی
” کیا مطلب ارے بھی اٹھو شوز پہنو اور چلو ۔۔۔”
” میرا مطلب میں نے ان سے آئی مین سر شہریار سے اجازت تو لی نہیں ۔۔۔” وہ ہچکچاتے ہوئے بولی
” او گاڈ !! تم اپنے کزن کو سر بولتی ہو ۔۔۔۔چلو کوئی بات نہیں ہم ادھر ہی رہ کر گپیں مار لیتے ہیں میں تمہیں گوگل پر راستہ دکھا دیتی ہوں ۔۔۔”
اینا اس سے باتیں کررہی تھی اتنے دنوں سے اکیلے اور چپ چاپ رہنے کے بعد اب اینا کی چہکتی آواز اسے اچھی لگ رہی تھی اپنائیت کا احساس دلا رہی تھی اینا کے آنے سے وہ جو کل یونیورسٹی جاتے ہوئے گھبرا رہی تھی اب پرسکون سی ہو گئی تھی۔
******************
شہریار آفس کے لیے تیار ہو کر باہر نکلا تو حسب معمول ٹیبل پر ناشتہ تیار تھا وہ خاموشی سے ناشتہ کرنے لگا جب نکھری نکھری سی سویرا سر پر دوپٹہ لیے کافی لیکر اس کے پاس آئی۔۔
“آپ کی بلیک کافی ۔۔۔” اس نے کافی کا مگ میز پر رکھا
“سنیے وہ آج سے میری کلاسز شروع ہو رہی ہیں ۔۔۔۔” سویرا نے ہمت کر کے اسے متوجہ کیا۔
شہریار نے کافی کا مگ اٹھاتے ہوئے سویرا کو دیکھا۔ جس کے گیلے بال پشت پر بکھرے ہوئے تھے۔ اس نے اپنا سر دوپٹہ سے ڈھانپ رکھا تھا چہرے پر بلا کی معصومیت تھی ۔۔
” سنو لڑکی !! اسکول میں بلاوجہ کے دوست بنانے سے پرہیز کرنا بلکہ کسی سے بھی دوستی کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔”
” جی ۔۔۔۔” وہ اثبات میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔
” میں نہیں چاہتا کوئی بلاوجہ تم سے فرینک ہو۔ تم حویلی اور خاندان کی روایات اچھی طرح سے جانتی ہو۔ اس لیے اپنی توجہ صرف اور صرف پڑھائی پر رکھنا ۔۔۔۔” وہ کہہ رہا تھا اور سویرا سر جھکائے اس کی باتیں سن رہی تھی۔ شہریار نے اسے اس زندان سے نکالا تھا پڑھنے کا کیرئیر بنانے کا موقع دیا تھا وہ کسی بھی صورت اپنے محسن کی کسی بھی بات کی نفی نہیں کر سکتی تھی۔ وہ تو اس احسان کے بدلے اپنی ساری زندگی اس کے قدموں میں گزار سکتی تھی۔
“سنو اس طرح دیسی لک میں مت جانا اینا نے تمہیں شاپنگ کروائی تھی اسے استعمال کرنا اور کانفیڈینس سے سب کو فیس کرنا ۔۔۔” اس نے مزید ہدایات دیں۔
**********************
بلیو جینز پر آسمانی کلر کی گھٹنوں تک آتی کرتی پہنے سر پر عربک اسٹائل میں اسکارف کاندھے پر بیگ ہاتھ میں کتابیں لیے وہ گھر سے باہر نکلی واک کرکے بس اسٹاپ تک گئی اور پھر سب وے لیکر یونیورسٹی پہنچ چکی تھی۔۔۔
بلند و بالا پرشکوہ عالیشان عمارت بڑے فخر سے کھڑی تھی۔ چاروں جانب سبزہ ہی سبزہ اور رنگ برنگے پھولوں کی بہار تھی عمارت کے سامنے بڑا بڑا
Queen Mary University of London (QMUL)
لکھا ہوا تھا ۔۔۔۔
کل تک اس کی پڑھائی کے لالے تھے اور آج وہ پاکستان چھوڑ لندن کی سب سے بڑی یونیورسٹی کے دروازے پر کھڑی تھی بسم اللہ پڑھ کر اس نے اندر قدم بڑھائے ۔۔۔
اسے ہلکی ہلکی سی گھبراہٹ ہو رہی تھی جگہ اجنبی تھی لوگ اجنبی تھے اسے اپنا آپ مس فٹ سا لگ رہا تھا یونیورسٹی میں رنگوں کی بہار تھی ایک سے ایک فیشن ایبل بیباک لباس میں لڑکیاں تیزی سے آجا رہی تھیں پارکنگ میں ایک سے ایک نئے ماڈل کی گاڑیوں میں اسٹوڈنٹ آرہے تھے برانڈڈ کپڑے اسکرٹ اسکنی جینز کارڈیگن کو گردن پر لپیٹے ہنستے بولتے ہر رنگ و نسل کے اسٹوڈنٹ ہر جگہ تھے یونیورسٹی کم اور فیشن شو زیادہ لگ رہا تھا سویرا کو اپنا آپ عجیب سا لگ رہا تھا وہ بورڈز پڑھتی ہوئی لائف اینڈ سائنس (میڈیکل ) ڈپارٹمنٹ کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ڈپارٹمنٹ پہنچ کر اس نے ہاتھ میں پکڑی ایک کتاب میں سے اپنی رجسٹریشن سلپ نکالی جس پر کلاسز کے روم نمبر اور ٹائمنگ لکھے ہوئے تھے وہ غور سے سلپ کو پڑھتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی جب اس کا پیر غلط طریقے سے سیڑھی پر پڑا اس سے پہلے وہ لڑھک کر نیچے گرتی جب سامنے سے ایک ینگ گڈ لکنگ سا بمشکل بیس سال کا بندہ تیزی سے تین تین سیڑھیاں ایک ساتھ پھلانگتا ہوا اس کی طرف بڑھا اور اس کا بازو تھام کر اسے گرنے سے روکا ۔۔۔
سویرا گھبرا گئی تھی اس کے ہاتھ سے کتابیں چھوٹ کر نیچے جا گری تھیں ۔۔
“سوری !! ” وہ نم آنکھوں سے بولتے بوئے پیچھے ہٹی
” اٹس آل رائٹ !! ” وہ اسے تسلی دیتا تیزی سے نیچے اترا اور اس کی کتابیں اٹھا کر اس کے پاس آیا ۔۔
“یہ لو اپنی کتابیں !! ویسے کسی لڑکی سے ملنے کی یہ تکنیک کتنی پرانی ہے نا مگر پھر بھی ہر بار کام کر جاتی ہے ۔۔۔” وہ مسکراتے ہوئے اسے کتابیں تھماتے ہوئے بولا
“ویسے میرا نام بریڈلی کوپر ہے تم بتاؤ اتنی جلدی میں کدھر جا رہی تھی ؟؟ ” وہ بے تکلفی سے پوچھ رہا تھا
سویرا نے خاموشی سے اپنی رجسٹریشن سلپ اس کی طرف بڑھائی جو اپنی نیلی چمکتی شرارتی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا
بریڈلی نے ایک نظر اس کی رجسٹریشن سلپ پر ڈالی ۔۔
” ویل مس سویرا !! ” وہ اس کا نام پڑھتے ہوئے آنکھ مارتے ہوئے بولا
” تمہاری قسمت اچھی ہے !! مجھے فالو کرو ۔۔۔” وہ بڑے مزے سے اس کا بازو پکڑ کر آگے بڑھنے لگا
” پلیز میرا بازو چھوڑیں ۔۔۔۔” سویرا نے مزاحمت کی ۔۔۔
“او گاڈ تم بول سکتی مجھے تو لگا تم گونگی ہو ۔۔۔۔” وہ اس کا بازو چھوڑتے ہوئے بولا
” خیر سویرا اب تو ہم دوست ہیں اور میں تمہارا کلاس فیلو بھی ہوں اس لئیے ڈونٹ وری میں تمہیں کلاس میں لے جارہا ہوں کلاس کے بعد میں تمہیں پورا کیمپس گھماؤ گا ۔۔۔۔”
سویرا نے حیرت سے اس ڈھیٹ انسان کو دیکھا جو زبردستی اس کا دوست بن رہا تھا
_____________________________________
وہ اس کو فالو نہیں کررہی تھی بلکہ وہ اسے اپنے ساتھ گھسیٹ رہا تھا تنگ آکر اس نے مزاحمت کی
پلیز میرا بازو چھوڑیں ۔۔۔۔”
“او گاڈ تم بول سکتی مجھے تو لگا تم گونگی ہو ۔۔۔۔” وہ اس کا بازو چھوڑتے ہوئے بولا
” آپ مجھے راستہ بتا دیں میں خود چلی جاؤنگی ۔۔۔” وہ پیچھے ہٹتے ہوئے بولی
” آج سمسٹر اسٹارٹ ہے اور تم جیسی سیدھی لڑکی کو تو کوئی بھی اپنی ریگنگ کا نشانہ بنا سکتا ہے ، خیر ایز یو وش میں جا رہا ہوں آنا چاہو تو آجانا ۔۔۔” وہ بڑے آرام سے اسے ڈراتا ہوا آگے بڑھ گیا
سویرا نے اسے جاتا دیکھا تو تیزی سے اس کے ساتھ چلنے لگی
” کیوں کیا ہوا ؟؟ بےبی کو ریگنگ سے ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔” بریڈلی شرارت سے بولا
سویرا کی آنکھیں سیکنڈ میں نم ہوئی تھی
” او گاڈ !! سیریسلی تم رو رہی ہو ؟؟پاگل ہو کیا ؟؟ ” بریڈلی اس کی آنکھوں میں چمکتے آنسو دیکھ کر حیران رہ گیا
” سنو ڈرپوک سویرا !! میری دوست بنو گی ؟ میں تو تمہیں دوست بنا ہی چکا ہوں اب تم بھی یہ عظیم کام کرلو ۔۔۔” وہ اس کی سمت جھکتا ہو بولا
سویرا نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا
” فرینڈز ۔۔۔۔” بریڈلی نے ہاتھ بڑھایا
“جی فرینڈز پر میں ہاتھ نہیں ملا سکتی ۔۔۔” وہ ہچکچاتے ہوئے بولی
” اوکے اوکے ٹیپیکل مسلم گرل چلو کلاس میں چلیں ۔۔۔” وہ سویرا کے ساتھ چلتا ہوا آگے بڑھا
باہر سے قدیم نظر آنے والی بلڈنگ اندر سے بہت جدید اسٹرکچر کی حامل تھی بڑے بڑے ہال سامنے سرسبز گارڈنز تیز رفتاری سے چلتے ہوئے ہر رنگ و نسل کے اسٹوڈنٹس ۔۔۔
” یہ رہا کلاس روم تم اندر چلو میں ابھی آیا ۔۔۔”وہ اسے کلاس روم دکھا کر چلتا بنا
سویرا کلاس روم میں داخل ہوئی یہ کلاس روم بہت بڑا تھا اندر ڈیسک نہیں تھیں بلکہ کمپیوٹر اسکرین اور ٹرمنلز ٹیبلز پر ترتیب سے لگے ہوئے تھے سامنے ڈائس پر کوئی بلیک بورڈ نہیں تھا ایک بڑی دیوار گیر وڈیو اسکرین لگی ہوئی تھی پورا کمرہ طالب علموں سے بھرا ہوا تھا سب اپنی اپنی میز پر رکھے کمپیوٹرز کو سیٹ کرنے میں مصروف تھے سویرا کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میڈیکل سائنس کی کلاس میں اتنے کمپیوٹرز کیوں ہیں ۔۔
” ہو سکتا ہے ادھر سب کچھ کمپیوٹر پر پڑھایا جاتا ہو ۔۔۔” وہ ہچکچاتے ہوئے ایک میز کے قریب جا کر کھڑی ہو گئی اور اپنے سامنے رکھے کی بورڈ کو دیکھنے لگی
” گڈ مارننگ اسٹوڈنٹس !! ” ایک ادھیڑ عمر دبلا پتلا سرخ بالوں والا پروفیسر اندر داخل ہوا
” میں ہوں آپ کا پروفیسر راتھ بورن آپ سب اپنے اپنے ٹرمنلز آن کریں ۔۔۔”
سویرا کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اس کی چھٹی حس اسے کچھ غلط ہونے کا احساس دلا رہی تھی جب پروفیسر باری باری سب اسٹوڈنٹس کو چیک کرتا ہوا اس کے پاس آکر رکا
” آپ اپنا ٹرمنل اسٹارٹ کیوں نہیں کررہی ہیں ؟؟” پروفیسر نے ساکت کھڑی سویرا سے پوچھا
” سر مجھے اسٹارٹ کرنا نہیں آتا ۔۔۔” وہ نروس ہو گئی
” واٹ ؟؟” پروفیسر چلا اٹھا
“تمہیں کمپیوٹر کی بیسک نہیں آتی تو کمپیوٹر پروگرامنگ کی کلاس میں کیا کررہی ہو ؟؟ کس نے داخلہ دیا ؟؟ حد ہے ” پروفیسر کو غصہ آگیا
“سوری سر !! وہ مجھے لگا میڈیکل سائنس کی کلاس ہے ویری سوری ۔۔۔” وہ بڑی مشکل سے آنسو پیتے ہوئے بولی
“آؤٹ !! ” پروفیسر نے اسے باہر جانے کا اشارہ کیا
پوری کلاس کے چہروں پر دبی دبی مسکراہٹ تھی
وہ خاموشی سے چہرہ جھکائے کتابیں اٹھا کر کلاس سے باہر نکل گئی ۔
سامنے ہی ستون سے ٹیک لگائے ہاتھ میں کوک کا کین لئیے بریڈلی کھڑا تھا وہ چپ چاپ اسے نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھنے لگی
” کیا ہوا ؟؟ مزا آیا نا ؟؟ دیکھنا اب تم یونیورسٹی میں اپنا پہلا دن کبھی بھی نہیں بھول پاؤ گئی ۔۔۔کم از کم میرا شکریہ تو ادا کردو ۔۔۔”
سویرا نے اپنی نم آنکھوں سے اس شیطان کو گھورا
” دیکھو سویرا مجھے رونے والی لڑکیاں بہت اٹریکٹ کرتی ہیں اب سوچ لو کہیں تم یہ تو نہیں چاہتی کہ میں تم پر اٹریکٹ ہو جاؤں ؟ !! ”
سویرا نے تیزی سے اپنی آنکھیں صاف کیں
” آپ پلیز میرا پیچھا چھوڑ دیں ۔۔۔” سویرا نے زچ آکر کہا
” تم بالکل میری مدر کی طرح ہو روتی دھوتی خیر پیچھا تو میں نہیں چھوڑنے والا چلو اب رئیل کلاس میں چلیں ویسے بھی تمہاری وجہ سے میں بھی لیٹ ہو گیا ہوں ۔۔۔” وہ بڑے مزے سے سارا ملبہ اس پر گراتے ہوئے کلاس روم کی جانب بڑھا ۔۔
***********************
عروہ نے ناشتے کی بھری پلیٹ ایک طرف کھسکائی اور کافی کا کپ اٹھا لیا اس کی پرسوچ نگاہیں گرما گرم کافی کے کپ سے اٹھتی بھاپ پر جمی ہوئی تھیں ۔جب سے وہ شہریار کے گھر سے واپس آئی تھی دل کی عجیب سی حالت تھی ایک اداسی سی چھائی ہوئی تھی سویرا کا وجود شیری کے گھر میں اسے برداشت نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔
” کتنے بے مروت ہو تم شیری سنگدل کٹھور تمہیں میری ذرا برابر پرواہ نہیں ہے میں اتنے عرصے سے تمہارے ساتھ کی امید کے دئیے جلائے بیٹھی ہوں اور تم ؟؟ صرف اپنے بزنس سے اپنی ذات سے جڑے ہوئے ہو لیکن میں اتنی آسانی سے تمہیں اپنا دل توڑنے کی اجازت نہیں دونگی تمہاری اس کزن کو جانا ہوگا تمہارے گھر سے ، تمہاری زندگی سے ، اگر میری محبت سچی ہے تو تمہیں مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا سارا لندن جانتا ہے کہ انگلینڈ کے موسٹ وانٹڈ بیچلر کی میں گرل فرینڈ ہوں تم مجھے ایسے ہی نہیں چھوڑ سکتے ۔۔۔”
عروہ کے دماغ میں منفی خیالات کی بھرمار ہو رہی تھی جب فون کی بیل نے اس کی سوچوں کا ارتکاز توڑ دیا ۔۔
” جونس کالنگ ۔۔۔۔”
” ہیلو سویٹ ہارٹ کدھر ہو ؟؟ ” جونس کی فریش آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی
” میں تمہاری سویٹ ہارٹ نہیں ہوں ۔۔۔” عروہ چٹخ کر بولی
” ڈئیر میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تمہاری کمٹمنٹ شہریار کے ساتھ ہے بیفکر رہو میں خود کو تمہارے اوپر مسلط نہیں کرونگا ۔۔۔” وہ سنجیدہ ہوا
” ہم دوست ہیں جونس اور دوست ہی رہیں تو بہتر ہے ۔۔۔”
” چھوڑوں عروہ تم نہیں سمجھو گی ابھی تو اٹھو اور شہریار کے آفس پہنچو میں بھی ادھر ہی جا رہا ہوں نئی ڈیل پر گرینڈ پارٹی کی پلاننگ کرنے تاکہ پورے انگلینڈ کو ہمارے مرجر کا پتا چل جائے ۔۔۔”
” پارٹی واؤ !! میڈیا والوں کو بھی انوائیٹ کروگے ؟؟ ”
” آف کورس !!! یہی ساری ڈیٹیلز تو طے کرنی ہیں اب شہریار کی گرل فرینڈ ہو تم تو ظاہر ہے میزبان بھی تم ہی ہو گی ۔۔۔”
عروہ نے فون بند کیا اور مسکراتے ہوئے کیبنٹ کی طرف ڈریس سلیکٹ کرنے کے لیے بڑھی یہ تصور ہی خوش کن تھا کہ اس پارٹی میں وہ شہریار کی گرل فرینڈ کے طور پر سامنے آئیگی اور اگر کوشش کی گئی تو سرپرائز انگیجمنٹ بھی پلان کی جا سکتی ہے ۔۔
**********************
شہریار صبح سے مصروف تھا ابھی ایک گھنٹہ میں جونس بھی پہچنے والا تھا وہ اپنی سیکرٹری اینا کو ڈکٹیشن دے رہا تھا جب اسے عروہ کی آمد کی اطلاع ملی
” مس اینا دو کپ کافی بھجوائیے ۔۔۔” عروہ اسے حکم دیتی شہریار کے سامنے کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی
اینا نے شہریار کی جانب دیکھا اور اس کے اثبات میں سر ہلانے پر باہر نکل گئی
” کیسے ہو شیری !! ” عروہ نے توصیفی نگاہوں سے اسے دیکھا گلے میں ٹائی لگائے جیل سے گھنے بالوں کو سیٹ کئیے آستین کے کف موڑے ہوئے مضبوط مردانہ ہاتھ میں بندھی رولیکس وہ سچ میں دلوں پر چھا جانے والی پرسنیلٹی رکھتا تھا
“تم ادھر کیسے ؟ ” وہ آرام سے چئیر سے ٹیک لگاتے ہوئے بولا
“جونس نے انوائیٹ کیا ہے پارٹی پلاننگ کیلیئے ۔۔۔”
” پارٹی ؟؟ لیکن میں ابھی کسی پارٹی کے موڈ میں نہیں ہوں ۔۔۔”
” وہ تو تم جانو یا جونس اچھا یہ بتاؤ یہ تمہاری کزن کا کیا سین ہے ؟؟ ” اس نے سوال کیا
“کیا مطلب ؟ تم کہنا کیا چاہتی ہوں ۔۔۔” وہ الجھا
” مطلب تم اس کو لیکر اتنے سینسیٹیو کیوں ہو رہے ہوں ؟ میں اگر تمہارے گھر رکوں تو تمہیں بغیر رشتے کے اس طرح رکنا پسند نہیں آتا اور اب اپنی جوان کزن کو گھر میں رکھا ہوا ہے ۔۔۔”
” واٹ ؟؟ تمہارا دماغ تو درست ہے وہ میرے چچا کی بیٹی ہے بمشکل سولہ سترہ برس کی بچی ہے اور تم !!! تف ہے تمہاری ذہنیت پر ۔۔۔”
” شیری اس معاشرے میں سولہ برس کی بچی ماں بن جاتی ہے اور وہ تو خوبصورت بھی بہت ہے اگر کچھ ۔۔۔۔۔”
” اسٹاپ اٹ عروہ !!! ” وہ تیزی سے اس کی بات کاٹ کر چلایا
” اچھا چھوڑو ۔۔۔”وہ اس کا غصہ دیکھ کر سنبھل گئی
” تم ایسا کرو میری اس سے دوستی کروا دو ۔۔۔۔”
” نہیں ہرگز نہیں، تم اس سے کبھی بھی بات نہیں کروگی دوستی وغیرہ تو بہت دور کی بات ہے۔۔۔” وہ دو ٹوک لہجے میں بولا
” تم مجھ پر عروہ حسین پر پابندی لگا رہے ہوں ؟؟ ” وہ تحیر سے دیکھ رہی تھی
“لسن عروہ !! وہ ایک سیدھی سادھی بیک ورڈ سی لڑکی ہے پتہ نہیں تمہیں کیا سمجھے اور پاکستان میں گھر میں تمہارے بارے کیا کیا کہہ دے کہیں میرے گھر والے تمہارے خلاف نا ہو جائیں ۔۔۔”
” مگر شیری میں اس لڑکی کے ذریعے تمہاری فیملی کو جان سکتی ہوں ۔۔۔”
” کہہ دیا نا ؟ دور رہو تو بس دور رہو ۔۔۔۔” وہ سختی سے بولا
“یہ تمہارا فائنل فیصلہ ہے ؟؟ ” وہ اسے تیکھی نظروں سے دیکھ رہی تھی
اسی وقت سیکرٹری نے جونس کے آنے کی اطلاع دی
*********************
سویرا یونیورسٹی سے گھر آچکی تھی آج کا دن بہت مصروف گزرا تھا اسے بریڈلی جیسا زبردستی کا دوست ملا تھا یونیورسٹی کا ماحول اس کیلیئے انجان تھا لیکن جب اوکھلی میں سر دیا موصولوں کا کیا ڈر !! اب پڑھائی تو کرنی ہی تھی ۔۔۔
وہ اپنی کتابیں سمیٹ کر کچن میں آئی اور بہت دل لگا کر دال چاول اور کباب بنانے کی تیاری شروع کی ابھی وہ کچن میں مصروف تھی جب ایک ہاتھ میں بریف کیس اور دوسرے میں کوٹ لئیے شہریار اندر داخل ہوا سویرا کے سلام کا جواب دیتے ہوئے چابی بریف کیس ریک پر رکھتے غ اپنے کمرے میں چلا گیا
سویرا نے جلدی سے گلاس میں پانی نکالا اور اس کے کمرے کی جانب بڑھی دروازہ ناک کرکے اندر آئی ۔۔
” یہ آپ کیلئے پانی ۔۔۔۔” اس نے پانی سائیڈ میز پر رکھا اور جانے کیلئے مڑی
” سنو لڑکی !! ”
وہ جاتے جاتے اس کی آواز سن کر رک گئی
” کیا میں نے تم سے پانی مانگا ؟؟ ” وہ کرختگی سے پوچھ رہا تھا
” نہیں ۔۔۔”سویرا نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا
” ادھر آؤ یہ گلاس اٹھاؤ اور آئندہ میرے معاملات میں دخل اندازی مت کرنا ، مہمان ہو مہمان بن کر رہو میں ان حرکتوں سے متاثر نہیں ہونے والا ویسے بھی میری لائف میں تمہاری کوئی جگہ نہیں ہے انڈر اسٹینڈ ۔۔۔۔”
وہ خاموشی سے اثبات میں سر ہلاتی گلاس اٹھا کر باہر نکل گئی
سویرا نے کچن میں آکر گلاس سنک میں رکھا اور دوپٹہ سے آنکھوں میں بن بلائے آنسوؤں کو صاف کرنے لگی ابھی وہ چولہے کی طرف متوجہ ہوئی تھی کہ شہریار اپنا سیل فون ہاتھ میں لئیے کچن میں آیا
” شاہ بی بی کی کال ہے بات کرو ۔۔۔” وہ اسے فون تھما کر چلا گیا
“کیسی ہو سویرا ؟؟جب سے گئی ہو ایک فون تک نہیں کیا میں ہی کروں تو کروں ۔۔۔” اس کے سلام کا جواب دیکر انہوں نے شکوہ کیا
” وہ شاہ بی بی ۔۔۔” اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا جواب دے اس کے پاس فون کہا تھا
” سویرا بیٹی !! سب ٹھیک تو ہے ؟ اگر کوئی مسئلہ ہے تو مجھے بتاؤ ؟ شیرو تو ٹھیک ہے نا تمہارے ساتھ ؟ ۔۔۔”
” شاہ بی بی سب ٹھیک ہے ۔۔۔۔” وہ دھیمے لہجے میں بولی
” دیکھو سویرا لڑکی ذات کی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ اس کے ہمسفر کے انتخاب کا ہوتا ہے تمہارے باپ نے شہریار کو تمہارے لئیے چنا تھا یہ اس کی سب سے بڑی خواہش تھی اب اس رشتے کو نبھانا تمہارا فرض ہے ۔۔۔۔” وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولیں
” جی شاہ بی بی ۔۔۔۔” سویرا نے دھیمے لہجے میں کہا
” سویرا خود کو بدلو ، اللہ نے تمہیں اتنا اچھا ہمسفر دیا ہے تمہیں تو رشک کرنا چاہئیے اپنی قسمت پر ۔۔۔” وہ اس کے لہجے کی افسردگی محسوس کرتے ہوئے بولیں
چند باتوں کے بعد فون بند ہو گیا ۔۔۔
“شاہ بی بی میں آپ کو کیسے بتاؤں کہ شہریار میرے کچھ بھی نہیں ہیں انہوں نے مجھے اپنے گھر میں جگہ دی ہے دل میں نہیں بس وہ شاید آپ کی نظروں میں سرخرو ہو نا چاہتے ہیں لیکن مجھے ان سے کوئی شکایت نہیں وہ بہت اچھے انسان ہیں ،بابا سائیں کے بعد وہ واحد ہیں جو مجھے منحوس نہیں سمجھتے ، مجھے پڑھا رہے ہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا موقع دے رہے ہیں میں مرتے دم تک آپ کو اس رشتے کی حقیقت نہیں بتاؤں گی انہوں نے مجھے تسلیم نہیں کیا ہے اور نا ہی کرینگے ان کی پسند کوئی اور ہے وہ تو بس آپ کے اور گھر والوں کے ہاتھوں مجبور ہوکر مجھے ادھر لائے ہیں ۔۔۔” سویرا کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے وہ فون سینے سے لگائے بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔
_____________________________