واصق کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد صبح صبح گھر پہنچا تھا ۔ کھانے پینے کے بعد وہ غافل ہو کر ایسا بے خبر سویا کہ سارا دن سوتا ہی رہا تھا۔ شام کے بعد رات کے کھانے سے پہلے امی کے بار بار پکارنے پر وہ بمشکل بستر سے اٹھا تھا۔ بغیر حلیہ سنوارے کپڑے بدلے منہ ہاتھ دھوئے وہ باہر نکل آیا۔
’’کیا ہے امی …..ـ؟ کیوں آوازیں دے رہی ہیں۔ سونے تو دیتیں۔ اتنے دنوں بعد سویا تھا وہ بھی نیند خراب کر دی ۔‘‘ آنکھیں ملتے وہ دادی اماں کے تخت پر ہی دراز ہو گیا۔ کچن سے باہر نکلتی ونیزے نے انتہائی نا پسندیدگی سے اسے دیکھا۔ اس کے حلئے پر نظر پڑی تو شدید ناگواری کی لہرنے اس کے وجود پر بسیرا کیا ۔ وہ واپس کچن میں چلی گئی۔
واصق جہانگیر احمد اسے پہلی نظر میں ہی انتہائی مشکوک لگا تھا ۔ اس کے روّیے نے بھی اس پر بہت بڑا اثر ڈالا تھا۔ پہلی نظر سے لے کر وہ بعد میں کافی دیر تک یہی سوچتی رہی کہ اس نے اسے کہیں دیکھا ہے۔ پہلی بار کب اور کہاں ملی تھی۔ ملنے کی وجہ کیا تھی ، وہ یہی سوچتی اور کڑھتی رہی۔
اسے اچھی طرح یاد تھا کہ وہ ان لوگوں سے پہلی دفعہ ڈیرھ ماہ پہلے ملی تھی۔ جب بھابی اور بھیا اور اسے یہاں چھوڑنے آئے تھے ۔ بعد میں یہاں رہنے کے دروران بھی اس واصق نامی کسی شخص کے وجود کا علم تک نہیں تھا۔ بہت زیادہ کڑھنے ، سوچنے اور تفکر کے بعد اسے سب یاد آتا گیا کہ وہ اسے پہلی دفعہ کب کہاں اور کیوں ملی تھی؟
پچھلے سال جب وہ بی کام کے دوسرے سال میں تھی تو ان کے سیکشن میں اسلام آباد سے ایک روشا نامی لڑکی مائیگریٹ ہو کر آئی تھی۔بہت ہی ملنسار اور باتونی لڑکی تھی۔ دنوں میں ہی وہ اساتذہ اور لڑکیوں کی منظور نظر بن گئی۔ شروع میں ونیزے کی اس سے واجبی سی سلام دعا تھی ، بعد میں اچھی خاصی علیک سلیک بھی ہو گئی۔ دو تین ماہ بعد اسے اس لڑکی سے تعلق ختم کرنا پڑا تھا۔ وجہ اس لڑکی کی بہت ہی مشکوک حرکات تھیں اور لڑکیوں اور اساتذہ نے غور کیا ہو یا نہ ہو اس نے بہت جلد جان لیا تھا کہ وہ کوئی سیدھی سادی لڑکی نہیں ہے۔ اس کو روزانہ ایک لڑکا اپنی بائیک پر کالج چھوڑنے بھی آتا تھا اور لے جانے بھی۔ ایک دن روشا نے ہی اس کا اس لڑکے سے سر سری تعارف کروایا تھا یہ کہہ کر کہ وہ اس کا فیانسی ہے اور وہ لڑکا کوئی اورنہیں واصق جہانگیر احمد تھا۔ آج جب اسے پہلی نظر دیکھا تو بالکل نہیں پہچان پائی تھی مگر جب سارا دن سوچتے رہنے کے بعد یاد آیا تو اسے واصق جہانگیر سے کافی ناگواری محسوس ہوئی۔ وجہ وہ روشا نے تھی۔ وہ اچھی لڑکی نہیں تھی اس کی مشکوک حرکات کی بدولت اس نے بہت ہی جلد اس سے دوستی ختم کر لی تھی اور تقریباً دہ ماہ بعد ہی ایک دن اس نے صبح کے اخبار میں خبر پڑھی کہ ایک لڑکی جو معصوم اور بھولی بھالی لڑکیوں کو ورغلا کر اغوا کر لیتی تھی ۔ اپنے پورے گروپ سمیت گرفتار ہو گئی۔ نیچے روشانے کی تصویر تھی ۔ اخبار میں اس کے متعلق اور بھی بہت کچھ لکھاہوا تھا مگر اس نے پڑھنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ اپنے ذہن سے روشانے کا خیال تک جھٹک ڈالا تھا کہ اب دوبارہ وہ واصق جہانگیر کی صورت میں اس کی سوچوں میں در آئی تھی۔
وہ تو شروع سے ہی سیدھی سادی تھی۔ بقول سب کے معصوم احمق ، پاگل اور بیوقوف ونیزے کو ان سب القابات سے چڑ نہیں تھی۔ بس وہ بچپن سے ہی ایسی تھی۔ بزدل اور کم ہمت سی۔ آج جو کچھ بھی ہوا تھا وہ شاید بزدلی کی وجہ سے ہی ہوا تھا۔ ابھی وہ کچھ اور بھی سوچ رہی تھی کہ بڑی امی کی پکار نے اسے حواسوں میںلاپٹخا۔ وہ واصق سے مخاطب تھیں۔
’’کہاں لیٹ گئے ہو تم ۔ یہ وقت ہے سونے کا ۔ اٹھو یہاں سے کم از کم اپنا حلیہ ہی درست کر کے کمرے سے نکلتے ۔ اب بچے تو نہیں ہو کہ تمہیں بات بے بات سمجھانا پڑے۔‘‘ امی جب کچن سے نکلیں تو نظر سیدھی تخت پر آڑھے ترچھے لیٹے واصق پر جا پڑی۔ ٹرائوزر اور بنیان میں اس کا سڈول جسم بہت نمایاں ہو رہا تھا۔ بنیان میں سے سینے کے ساتھ ساتھ ورزشی بازو اور کندھے صاف عیاں تھے۔ ان کے ہونٹوں سے بے اختیار ’’ماشا ء اللہ ‘‘نکلا۔ ان کا واصق لاکھوں میں ایک تھا ۔ ہیرا صفت شکل و صورت کا مالک۔ حسن ، جوانی ، نیک کرداری ، نیک سیرتی ، خوش اخلاقی و خوش گفتاری جیسی سنہری صفات بدرجہ اتم اس میں موجود تھیں۔
امی کا سر فخر سے بلند ہوا تو ’’الحمدللہ‘‘ کہتے ہوئے انہوں نے بے اختیار نظریں پھیر لیں، اس ڈر سے کہ کہیں ان کے لاڈلے کو ان کی اپنی ہی نظر نہ لگ جائے۔
’’واصق ! سنا نہیں …..کیا کہہ رہی ہوں میں؟‘‘ اسی طرح غافل پڑے واصق کو انہوں نے پھر ٹوکا ۔ واصق کے وجود میں ہلکی سی حرکت ہوئی۔ آنکھیں کھول کر وہ ادھر ہی دیکھنے لگا جدھر سے آواز آئی تھی۔ امی کچن سے باہر دیوار کے ساتھ رکھی کرسی پر بیٹھے پلیٹ میں موجود زیرہ صاف کر رہی تھیں۔ واصق نے دوبارہ سستی سے آنکھیں بند کر لیں۔
’’واصق…..بلاتی ہوں میں تمہاری دادی اماں کو ، ورنہ …..اٹھ جائو …..‘‘ کچن میں چچی بیگم کے ساتھ بیٹھی ونیزے نے اٹھ کر بڑی امی کی آواز پر ذرا اور دروازے سے سر باہر نکال کر باہر جھانکا۔ سیدھی نظر واصق پر جا پڑی۔
عین اسی لمحے ماں کی پکارپر اس نے بھی آنکھیں کھولی تھیں۔ نظروں کا سیدھا رخ ونیزے کی ہی طرف تھا۔ چونکہ تخت اور کچن کا درمیانی فاصلہ باقی کمروں کی نسبت بہت کم تھا اسی لیے ہر منظر بہت واضح تھا ۔ سرخ ڈوروں والی موٹی موٹی خمار آلود نیند سے بھر ی آنکھیں جب ونیزے کی جانب اٹھیں تو کچھ بے باکی و تجسس سے مزید پھیلیں۔ پھر وہ کہنی کے بل تھوڑا سا اٹھ کر تکیہ کے سہارے ٹیک لگا کر نیم دراز ہوا تھا۔ اس سارے عمل کے درمیان بھی اس نے اپنی نظریں بد ستور ونیزے پر گاڑھے رکھیں۔ ونیزے پہلے تو اس کے یوں بے دھڑک بغیر پلکیں جھپکائے انتہائی بے باکی سے دیکھنے پر کچھ جھنجلائی پھر کچھ اس کے حلیے پر کوفت کا شکار ہوئی واپس کچن میں گم ہو گئی۔ واصق کے متعلق دل میں موجود ناپسندیدگی و ناگواری میں مزید اضافہ ہوا۔
’’واصق بیٹا ! شاباش اٹھو ، کمرے میں جا کر کپڑے چینج کر و۔ یوں مت لیٹو۔‘‘
ونیزے کے سر اندر کر لینے کے بعد واصق نے بھی آنکھیں بند کر لی تھیں۔ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں گھنے بالوں میں پھنسا کر اس نے اپنے بالوں کو مٹھیوں میں قید کیا اور پھر ایک جھٹکا دیا۔ امی کی آواز تو جیسے سنائی ہی نہیں دے رہی تھی ۔ ذہن کہیں اور الجھا ہوا تھا۔
’’کیا بات ہے ؟ طبیعت تو ٹھیک ہے تمہاری ؟ اتنے سست کیوں ہو رہے ہو؟‘‘ واصق پر اپنی کسی بھی پکار کا اثر نہ دیکھ کر امی اس کے پاس تخت پر آ بیٹھیں۔ دونوں ہاتھوں سے اس کا چہرہ تھاما تو اس نے دھیرے سے مسکراتے آنکھیں وا کر دیں۔
’’بالکل ٹھیک ہوں۔ بہت دنوں بعد آپ کی آواز سن رہا ہوں ۔ ایمان سے بہت اچھی لگ رہی ہے آپ کی یہ آواز ، بار بار میرا نام پکارتی ہوئی۔ ‘‘ واصق نے اپنا سر ان کی گود میں رکھ دیا تھا۔ امی بے اختیار مسکرا دیں ۔ جھک کر اس کی پیشانی پر محبت بھری کارروائی کی۔ لاڈ سے سارے بال بکھرا دئیے۔
’’جیتے رہو۔‘‘ آنکھوں میں ہزاروں ستاروں کی چمک لیے دعا دی۔ محبت سے چُور چُور لہجہ تھا ۔ ونیزے جو کچن سے نکل کر اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی۔ راستے میں ماں بیٹے کو یوں لاڈ کرتے کرواتے دیکھ کر رک گئی۔
’’میں روز آپ کو یاد کرتا تھا۔ بہت یاد آتی تھی سب گھر والوں کی۔‘‘
ونیزے کو یوں لگا جیسے وہ کوئی چھوٹا سا بچہ ہو اور اپنی ماں سے دوری پر بیتنے والی بے قراری اسے بتا رہا ہو۔
’’جبھی تو اتنے ماہ گھر سے باہر رہ لیا۔‘‘ نہ چاہتے ہوئے بھی شکوہ ان کے لبوں سے ادا ہو گیا۔ واصق نے مسکراتے ہوئے آنکھیں کھول کر انہیں دیکھا پھر ہاتھ تھام کر ہونٹوں سے لگا لیا۔
’’اللہ کی قسم! میں اس محبت بھری آغوش کو ترس گیا تھا۔ ‘‘ کتنا سچا لہجہ تھا امی نہال ہو گئیں۔ ونیزے کے لیے یہ محبت بھرے جملے ، اپنائیت بھرے شکوے ، اور مان والفت سے لبریز مظاہرے سب نئے تھے۔ اس کی آنکھوں میں آن واحد میں اتنی حسرت آسمائی کہ وہ بغیر پلکیں جھپکائے دونوں کو دیکھ گئی۔
سچ سچ بتائیں آپ نے بھی مجھے یاد کیا تھا۔ مجھ سے زیادہ ؟‘‘ کچھ شریر انداز تھا۔ خاصا چھیڑنے والا، وہ ہنس دیں۔ ونیزے بس دیکھتی رہی۔
’’ماں کی محبت کو تولا نہیں جاتا۔ اگر کہیں دنیا میں کوئی ایسا میزان ہے، جو ماں کی محبتوں ، اس کی شدتوں اور بے قراریوں اور بے چینیوں کو تولتا ہے تو تم پھر بھی میری محبت ، بے قراری اور شدت کو نہیں تول سکو گے۔میری ایک رات ہی تمہاری سب شدتوں پر حاوی ہے ۔ جو ان چند ماہ میں میرے دل میں تمہارے لیے شدتیں بے چینیاں بے قراریاں موجود رہی تھیں۔ راتوں کو اٹھ اٹھ کر تمہاری سلامتی و کامیابی کے لیے دعا کرتی رہی تھی۔ ‘‘ آخر میں ان کی شدتوںکی گواہ محبت سے لبریز آواز آنسوئوں سے رندھ گئی تھی۔
’’مجھے آپ کی بے قراری کا اندازہ ہے۔ میں جانتا ہوں آپ کتنی دعائیں مانگتی ہیں ۔ یہ آپ کی دعائوں کا ہی تو خزینہ ہے کہ کامیابی و کامرانی کے ساتھ واپس لوٹ آیا ہوں ۔ بحفاظت ۔ اگر مجھے فرض کی ادائیگی کا احساس نہ ہو تو ساری عمر یونہی آپ کے قدموں تلے محبت بھری اس آغوش میں سر رکھے گزار دوں۔‘‘ بہت سنجیدگی و مضبوطی سے کہتے اس نے یونہی نظر اٹھائی تو ماں کے دائیں طرف کچھ قدموں کے فاصلے پر کھڑی ونیزے پر پڑ گئی۔ وہ بت بنی دونوں کو نہایت انہماک سے دیکھ رہی تھی۔ اس کے دیکھ لینے پر بھی اس نے پہلے کی طرح ناگواری سے نہ ہی رخ موڑا تھا اور نہ ہی پلکیں جھپکی تھیں۔
’’امی ! مجھے تو یہ لڑکی ہوش و حواس سے بیگانہ ، کچھ پاگل پاگل سی لگتی ہے۔ بائی داوے یہ ہیں کون…..؟‘‘ بہت سر گوشیانہ انداز تھا۔ امی نے فوراً ونیزے کو دیکھا ۔ وہ یونہی ایستادہ تھی۔ وہ مسکرا دیں ۔ وہ اچھی طرح جانتی تھیں۔
ونیزے کی حسرتیں !اس کی محبتیں! حساس طبیعت، اور مجبوریاں۔
وقت اسے ان کے گھر پر لے آیا تھا اور ان سب نے اسی کھلے دل سے قبول کیا تھا ۔ بے پناہ محبت دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ کانچ سی لڑکی نگینے کی طرح شفاف ، نازک اور حساس تھی۔ اسی لیے سب مل کر اسے سنبھال رہے تھے، ایک قیمتی زیور کی طرح ، اس ڈر سے کہ کوئی چھین کر نہ لے جائے۔
امی نے واصق کے سر کے نیچے دھرا اپنا ہاتھ نکال کر وا کر دیا ۔ وہ بھی چونک گئی۔ پہلے تو جھجکی ، پھر آہستہ آہستہ چلتی ان کے کھلے بازوئوں میں آسمائی۔ تخت پر یوں بیٹھی کہ اب اس کی گھنے سیاہ ریشمی بالوں والی چٹیا واصق کے سینے سے لپٹنے لگی تھی۔ وہ اس کے بہت قریب تھی۔ شاید دل کی دھڑکنوں کو چھیڑ رہی تھی۔ وہ مبہوت سا اس کانچ کے پیکر کو دیکھے گیا۔ کسی پرفیوم کی خوشبو تھی، اس کے وجود سے اٹھتی دلگداز مہک تھی یا پھر اچانک بیدار ہونے والے احساس کی ڈور سے لپٹا خوبصورت معطر ہوا کا تیز ایک جھونکا تھا جو واصق کے اندر اترتا ، اس کا تن من بھگوتا چلا گیا۔ اپنے سر کو بے خیالی میں جبنش دیتے ایک گہری سانس لیتے وہ اٹھ بیٹھا۔
’’یہ ونیزے ہے۔ تمہاری دادی اماں کی بھانجی کی نند۔‘‘ امی نے بہت محبت بھری نظروں سے اسے دیکھتے بتایا۔’’یہ پہلی دفعہ ہمارے گھر آئی ہے ڈیڑھ ماہ سے یہیں رہ رہی ہے اور کچھ عرصہ مزید یہاں رہے گی۔ تمہیں جانتی نہیں تھی نا اس لیے صبح تمہیں مشکوک سمجھتے ہوئے بے ہوش ہو گئی تھی ۔ بہت کمزور دل کی مالک ہے ہے میری یہ بیٹی۔ بالکل بھولی بھالی، سیدھی سادی۔‘‘ کتنے خلوص سے وہ اسے بتا رہی تھیں۔
واصق اس ’’سیدھی سادی‘‘ بیٹی کا رخ روشن دیکھنا چاہتا تھا جو ابھی ابھی اس کے دل کے تاروں کو چھیڑ گئی تھی۔ بے خیالی میں ، بے دھیانی میں وہ کبھی نہ تسخیر ہونے والا مضبوط ڈیل ڈول کا مالک تسخیر ہو گیا تھا ۔ اسے صرف ہوا کے ایک جھونکے نے فتح کر لیا تھا اور وہ جھونکا ونیزے ہی تھی۔ مگر افسوس وہ امی کے سینے میں اسی طرح منہ دئیے ہوئے تھی کہ امی کا دوپٹہ اس کا چہرہ ڈھانپے دے رہا تھا۔
واصق نے ایک گہرا سانس کھینچتے ہوئے ، اپنی مٹھی میں بند اس کی چٹیا چھوڑی اور اٹھ کھڑا ہوا۔
’’میرا خیال ہے اب مجھے اپنے کمرے کی طرف چلنا چاہیے ۔ لگتا ہے اب میرے حصے کا پیار امی اب انہیں دیا کریں گی۔‘‘ سینے پر بازو لپیٹے اس نے صرف اس کا چہرہ دیکھنے کے لیے امی کو متوجہ کیا تھا۔ ردعمل اس کی توقع کے عین مطابق تھا۔ نہ صرف امی نے خفگی سے اسے دیکھا بلکہ ونیزے بھی ان کے سینے سے سر اٹھا کر قدرے حیرانگی سے اسے دیکھنے لگی۔
’’بری بات بیٹا! یوں نہیں کہتے۔ ہر انسان اپنے حصے کی ہی محبتیں وصولتا ہے۔ یہ میری بیٹی ہے، پیاری سی ، اور ماں کے لیے اپنے سب بچے ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔‘‘
’’آئندہ ایسی بات مت کہنا…..ورنہ ……‘‘بہت سنجیدہ انداز میں کہتے انہوںنے بات ادھوری چھوڑ دی۔ وہ مسکراتے ان کی طرف بڑھا۔ امی کے کندھوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر ونیزے کی آنکھوں میں دیکھتے کہنے لگا۔
’’امی جان ! مذاق کر رہا تھا ۔ اگر یہ آپ کی بیٹی ہیں تو اسی ناتے ہماری بھی کچھ لگتی ہیں۔ جب ہماری ماں کا دل محبتیں بانٹنے میں اتنا وسیع ہے تو ہم تو دل و جان سے ان کے ہوئے۔ کیوں سچ کہہ رہا ہوں میں ؟‘‘
بظاہر مذاق کے رنگ میں کہتے وہ امی کو مطمئن کر رہا تھا جبکہ نظریں معنی خیز انداز میں اس کی طرف بے باکی سے دیکھتی ونیزے کے اندر خطرے کی گھنٹی بجا گئی تھیں۔ وہ ان نظروں کی تاب نہ لا سکی تھی ایکدم نروس ہوتے ہوئے پلکیں جھکا گئی تھی۔ واصق اس کی اس ادا پر بے اختیار کھلکھلا کر ہنس پڑا تھا۔ وہ مزید سر جھکا گئی۔
’’امی آپ کی بیٹی تو اچھی خاصی ڈرپوک ہیں۔ چڑیا جتنا دل ہے ان کا ۔ صبح خوا مخواہ مجھے چور سمجھ کر بے ہوش ہوتے ہی میرے …..‘‘ وہ بات ، ادھوری چھوڑ کر پھر ہنس پڑا تھا۔ ونیزے نے تڑپ کر سر اٹھا کر اسے تنبیہی انداز میں دیکھا تو وہ محظوظ ہوتا مسکرا رہا تھا۔
واصق کے ہونٹوں پر رقصاں دلآویز ، معنی خیز مسکراہٹ کا مفہوم وہ بخوبی سمجھ سکتی تھی ۔ ہاتھ پسینے سے تر ہو گئے۔ سینے کی دیواروں میں مقید دل اتنی زور سے دھڑکا کہ وہ گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی، ’’واصق مت تنگ کرو میری بیٹی کو‘‘۔ اس کے یوں گھبرا اٹھنے پر امی نے واصق کو ٹوکا۔
’’بخدا امی حضور! میں تنگ تو نہیں کر رہا ۔ اتنی بھولی بھالی، سیدھی سادی ، معصوم ، صورت والے لوگوں کو کون کافر ہے تنگ کر ے گا۔ جو بھی ایسا کرے گا گناہ گار ٹھہرے گا۔ ‘‘و ہ اسے چھیڑنے سے اب بھی باز نہیں آیا تھا۔
’’واصق ……‘‘ امی نے دم بدم سرخ ہوتے ونیزے کے چہرے کو دیکھتے اسے پھر ٹوکا تو وہ ہنستا ہوا اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔
’’برا مت ماننا ونیزے! وہ جو کچھ بھی کہتا ہے صرف مذاقاً کہتا ہے۔ دل کا بہت اچھا اور نرم ہے۔ بہت محبت کرنے والا ہے میرا بیٹا۔ دیکھنا بہت جلد تم دونوں آپس میں گھل مل جائو گے۔‘‘
’’اللہ نہ کرے۔‘‘ امی بہت اپنائیت سے اپنے بیٹے کی خوبیاں گنوا رہی تھیں اس نے دہل کر سوچا۔ ’’میں کیوں اس مشکوک کردار والے بندے سے گھلنے ملنے لگی۔ بہت اچھی طرح میں اسے سمجھ گئی ہوں۔ نظر باز اور فلرٹ انسان۔‘‘ کسی کے متعلق رائے قائم کرنے میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ اب بھی دل ہی دل میں کہہ رہی تھی مگر بظاہر مسکراتی رہی۔
ماما پاپا اپر کلاس سے تعلق رکھتے تھے۔ ونیزے اور امجد صرف دو ہی بہن بھائی تھے ۔ چھ سال قبل ماما کی ڈیتھ ہو گئی تو خود کو بہت اکیلا محسوس کرنے لگے۔رفتہ رفتہ ان کی صحت بھی گرنے لگی۔ اس کے باوجود انہیں اپنے بچوں کی فکر تھی۔ امجد بھائی جب ایم بی اے کے بعد وطن واپس لوٹے تو پاپا نے ان کی شادی اپنے دوست کی بیٹی صبیحہ سے کر دی۔ صبیحہ بھابی بہت ہی اچھی بیوی اور بہو تھیں ۔ امجد بھائی اور پاپا جواد حسن ملکر بزنس چلا رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ان کا بزنس دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتا جا رہا تھا کہ اچانک نہ صرف ان کے گھر بلکہ بزنس کو بھی کسی کی نظر لگ گئی۔ محبوب رحمانی جو کہ بزنس کی دنیا کی اہم شخصیت تھا ، نہایت مکّار چالباز اور عیار شخص واقع ہوا تھا ۔ اس کی اچانک جواد حسن سے دوستی ہو گئی اور پھر وہ ان کے بزنس میں پارٹنر بننے کے لیے اصرار کرنے لگا۔ پاپا کو مزید ترقی کے سہانے خواب دکھا کر آخر کار اس نے پاپا کو شراکت داری پر آمادہ کر ہی لیا۔
پاپا جو بہت سلجھے ہوئے ، متین طبیعت کے مالک ، بردبار انسان تھے ، وہ محبوب رحمانی کی چالبازیوں کو سمجھ نہ سکے۔ پہلے اسے بزنس میں شامل کیا بعد میں گھریلو سطح پر تعلقات استوار ہونے لگے۔ محبوب رحمانی نے دو شادیاں کر رکھی تھیں ایک بیوی کا انتقال ہو چکا تھا اور دوسری کو اس نے خود طلاق دے دی تھی ۔ کل چار بچے تھے۔ سب سے بڑا بیٹا ونیزے سے صرف ایک سال ہی چھوٹا تھا۔ نجانے اس مکار شخص نے پاپا پر کونسا ایسا سحر پڑھ کر پھونکا تھا کہ پاپا کو اس کے علاوہ دنیا میں کوئی اور دکھائی ہی نہیں دیتا تھا ۔ امجد بھائی اکثر انہیں سمجھانے کی کوشش کرتے تو وہ ہر بار انہیں ’’نا تجربہ کار‘‘ کہہ کر ٹال جاتے تھے۔
اصل طوفان تو تب آیا تھا جب اس نے ونیزے کو دیکھا اور دل ہار گیا۔ ونیزے جو اس کے بیٹے سے صرف ایک سال ہی بڑی تھی۔ نہایت معصوم ، سیدھی سادی ، لڑکی اسے کہاں سے کہاں تک پہنچا سکتی تھی، اس نے پاپا سے ونیزے کے لیے بات کی۔ شروع میں تو پاپا نے صاف انکار کر دیا پھر اس کی چالاکیوں اور سمجھانے سے شش و پنج میں پڑ گئے۔ سوچنے کے لیے کچھ وقت مانگا۔ اس دوران تک محبوب رحمانی ان کی اس قدر برین واشنگ کر چکا تھا کہ پاپا اس مکار شخص کی عیار باتوں میں پھنس کر اسے ہاں کر بیٹھے۔
ونیزے کی تو حالت ہی بری تھی یہ جان کر کہ یہ پاپا کا اپنا ذاتی فیصلہ ہے۔ امجد بھائی نے بہت سمجھایا ، ہر طرح سے پاپا کو قائل کرنیکی کوشش کی۔ دونوں کے مینٹل لیول اور عمروں کے ڈفرینس کو واضح کیا مگر سب بے سود تھا۔ پاپا کی آنکھوں پر محبوب رحمانی کے نام کی جو پٹی چڑھی ہوئی تھی اس کی موجودگی میں انہیں اپنی معصوم و بھولی بھالی بیٹی اور فرمانبردار سا بیٹا بھی نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ اگر انہیں کسی کی پرواتھی تووہ محبوب رحمانی تھا۔ بزنس کو ڈبل کرنے کی فکر تھی۔ اس کے پاپا اتنے مادہ پرست انسان نہیں تھے مگر محبوب رحمانی کی صحبت نے انہیں ایسا بنا دیا تھا۔
پاپا نے ونیزے کی شادی کی بی کام کر لینے تک مہلت مانگی تو محبوب رحمانی نے بخوشی دے دی اور اس دوران تک وہ نہ صرف بزنس پر بلکہ ونیزے کے حوالے سے بھی پاپا کے گرد بھی اچھا خاصا جال کس چکا تھا، یوں کہ فرار کسی بھی طور پر ممکن نہ تھی۔ ونیزے کے بی کام کے بعد جیسے پاپا نے شادی کی بات کی۔ امجد بھائی ٹال گئے اور چند ماہ کی مہلت مانگی۔ امجد بھائی جوان چند ماہ میں ونیزے کے بچائو کے لیے کوئی نہ کوئی مضبوط پناہ گاہ تلاش کر لینا چاہتے تھے، مگر محبوب رحمانی پاپا کے ذریعے ان پر دبائو ڈالنے لگا اور یوں امجد بھائی کو ونیزے کے بچائو کی تمام راہیں تاریکی کی گہری لپیٹ میں لپٹی دکھائی دیں۔ جب حالات ان کے کنٹرول سے باہر ہو گئے ، محبوب رحمانی کا دبائو مزید بڑھا تو انہوں نے رشتے سے صاف انکار کر دیا۔ جہاں پاپا امجد بھائی سے ناراض ہوئے وہیں محبوب رحمانی نے کمال ہوشیاری و چالاکی سے ان کے بزنس کے ۵۰ فیصد شیئرز اپنے نام منتقل کروا لئے۔ یہ سب کچھ اس قدر صفائی اور ہوشیاری سے ہوا کہ پاپا جیسے ذہین شخص اس کھلی دھوکہ دہی پر صرف ہاتھ ملتے رہ گئے۔
محبوب رحمانی نے شیئرز نام کروانے سے پہلے پاپا سے کچھ سادہ کاغذات پر دستخط کروا لئے تھے اور پھر ان کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا تھا۔ آدھا بزنس محبوب رحمانی کے قبضے میں چلا گیا تھا پاپا نے بھی اب محبوب رحمانی سے ونیزے کی شادی سے انکار کر دیا تو اس نے پاپا کا دستخط شدہ ایک اسٹام پیپر پاپا کے سامنے لا رکھا۔
جس کے مطابق جواد حسن ونیزے کی شادی اس سے کرنے پر راضی تھے، بلکہ اگر خدانخواستہ انہیں کچھ ہو جاتا تو ان کے بعد ونیزے سے کبھی بھی شادی کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور ونیزے کی شادی کے سلسلے میں امجد جواد حسن کو کوئی بھی اعتراض کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہو گا۔ پاپا کے لئے محبوب رحمانی کا یہ نیا روپ بہت دلبرداشتہ اور غیر متوقع تھا ۔ ان کی اپنی کم عقلی اور غلطیوں کی وجہ سے نہ صرف آدھا بزنس ان کے ہاتھ سے نکل گیا تھا بلکہ اب بیٹی کا مستقبل بھی خطرے میں تھا ۔ انہوں نے قانونی چارہ جوئی کر کے محبوب رحمانی پر غبن اور دھوکہ دہی کا الزام عائد کر کے مقدمہ دائر کر دیا۔
یہ ونیزے اور امجد بھائی پر خدا کی طرف سے شاید ایک آزمائش ہی تھی جو پہلی پیشی کے بعد ہی پاپا ہارٹ اٹیک ہونے کی وجہ سے انتقال کر گئے تھے۔ ان کی اس قدر اچانک موت پر دونوں تقریباً ایک ماہ تک سنبھل ہی نہیں سکے تھے اور محبوب رحمانی نے اس ایک سانحہ کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے حالات اپنے حق میں اس طرح موافق کئے کہ امجد بھائی دیکھتے ہی رہ گئے۔ بزنس کے بعد اب اس کا اگلا ٹارگٹ ونیزے تھی۔ محبوب رحمانی نے بھیا کو ایک ماہ کے اندر اس سے ونیزے کی شادی کر دینے کی پر زور دھمکی دی اور ساتھ میں یہ بھی کہہ دیا کہ اگر امجد بھیا نہ مانے تو وہ کسی اور طریقے سے ونیزے کو حاصل کر لے گا۔
جہانگیر انکل صبیحہ بھابی کے کزن تھے ۔ یہ لوگ اسی شہر میں رہتے تھے ۔ صبیحہ بھابی اکثر اپنی خالہ کے ہاں جاتی رہتی تھیں البتہ وہ خود ان لوگوں سے کبھی بھی نہیں ملی تھی۔ صبیحہ بھابی کو زبانی انہیں جب حالات کا علم ہوا تو انہوں نے ہی بھیا کو آفر کی کہ وہ کچھ عرصہ ونیزے کو ان کے ہاں چھپا دیں اس دوران امجد بھیا یا وہ خود کوئی اچھا سا رشتہ دیکھ کر ونیزے کی شادی کر دیں گے اور محبوب رحمانی اور باقی سب لوگوں کو یہی بتایا جائے کہ ونیزے اس شادی پر راضی نہیں تھی اسی لئے جپ چاپ کہیں چلی گئی ہے اور کہاں گئی ہے انہیں بالکل بھی علم نہیں۔ جب ونیزے کی شادی ہو جائے گی تو حالات کافی ساز گار ہو جائیں گے بعد میں محبوب رحمانی کچھ بھی نہیں کر سکے گا۔
بھیا اور بھابی کو ان کی تجویز اچھی لگی تھی اگلے ہی دن وہ ونیزے کو ان کے ہاں چھوڑ گئے تھے ۔ اب اسے ڈیڑھ ماہ ہو گیا تھا کہ وہ ان لوگوں کے گھر رہ رہی تھی اور اسے تب تک یہیں رہنا تھا جب تک اس کے لئے کسی معقول لڑکے کا بندوبست نہیں ہو جاتا۔
بڑی امی کی تو یہی خواہش تھی کہ وہ ونیزے کو اپنے واصق کے لئے مانگ لیں۔ اس خواہش کا اظہار انہوں نے اپنی ساس اور دیورانی سے بھی کر دیا تھا مگر زبان سے کچھ کہتے وہ لوگ ڈرتے تھے۔ پہلی بات توواصق کی تھی۔ امی کا خیال تھا کہ وہ شاید نہ مانے اور دوسری وجہ امجد جواد حسن کا اسٹیٹس تھا۔ وہ امجد جواد حسن کے اسٹیٹس سے بہت کم تھے۔ پھر ونیزے خود بھی کوئی معمولی لڑکی نہ تھی۔ چاند کا ٹکڑاتھی۔ شہزادیوں کی طرح پلی بڑھی تھی۔ عیش و عشرت میں اس نے زندگی گزاری تھی۔ اب بھی اس کے نام کروڑوں کی جائیداد تھی ۔ وہ ونیزے اور امجد جواد حسن کے لیول کے تو نہیں تھے مگر خلوص و چاہت اور محبتیں بانٹنے میں ان سے کم نہیں تھے۔ اسی لئے ان سب لوگوں کے دل کی خواہش فی الحال دل ہی میں تھی۔ صبیحہ امجد بھائی اکثر رات کو ونیزے سے ملنے آتے رہتے تھے ۔ جبکہ ونیزے اس ڈیڑھ ماہ کے عرصے میں ایک دفعہ بھی ان سے ملنے اپنے گھر نہیں گئی تھی۔
یہاں آ کر ونیزے نے بالکل وہی انداز اختیار کر لئے تھے جو اس گھر کے مکینوںکے تھے۔ نہ کسی بات پر ناک بھوں چڑھائی، نہ کوئی تنقید نہ تردید ۔ البتہ اسے کوئی کام کرنا نہیں آتا تھا۔ بچپن سے لے کر اب تک وہ نوکروں کی فوج کے درمیان جوان ہوئی تھی۔ پانی پینے تک کے لئے اسے نوکر کو آواز دینا پڑتی تھی مگر یہاں آ کر وہ بصداصرار سب کے منع کرنے کے باوجود ضد کر کے کسی نہ کسی کام میں ہاتھ الجھا لیتی تھی۔ خاص طور پر جب چچی یا بڑی امی میں سے کوئی کچن کا کام کر رہا ہوتا تھا تو کبھی سلاد بنا دیتی تھی کبھی دال چاول صاف کر دیتی تھی ۔ اس خوشحال کھاتے پیتے گھرانے میں جہاں عام فیملیوں کی طرح پیسہ کی کوئی کمی نہیں تھی وہ بخوشی رہ رہی تھی صرف اس لئے کہ یہاں اسے ہر کسی سے بھرپورمحبت اور غیر معمولی عزت ملی تھی۔
ماما ، پاپا ان دونوں بہن بھائیوں سے بہت محبت کرتے تھے ۔ کبھی کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی تھی۔ کبھی آنکھ میں آنسو نہیں آنے دیا تھا۔ بن کہے ہر چیز حاضر ہوتی تھی مگر ان کی وہ محبت توجہ اور نگہداشت بہت فارمل ہوتی تھی۔ تکلف میں لپٹی ہوئی۔ اس کے اندر شروع سے ہی یہ تشنگی رہی تھی کہ وہ اپنی ماما کو عام مائوں کی طرح لاڈ پیار کرتے دیکھنے کی خواہش رکھتی تھی۔ ماما پاپا کی محبت دادی اماں ، بڑی امی اور چچی جان کی محبت جیسی نہیں ہوتی تھی۔ کھڑے کھڑے پوچھ لینا۔ کسی چیز کی کمی تو نہیں کہہ کر دریافت کر لینا، اسے اب لگ رہا تھا وہ احساس نہیں تھا، احساس کیا ہوتا ہے؟ وہ اسے اس گھر میں قدم قدم پر محسوس ہوا تھا۔ خالص محبت ، اپنائیت اور خلوص و توجہ کسے کہتے ہیں اس چھت تلے ڈیڑھ ماہ گزارنے پر وہ جانی تھی۔
بڑے ابو یعنی جہانگیر احمد کی ایک بیٹی اور تین بیٹے تھے ۔ واصق سب سے بڑا بیٹا تھا۔ اس کے بعد جویریہ تھی، جس کی شادی پشاور اپنے ماموں زاد کے ساتھ ہو چکی تھی۔ جویریہ کے بعد مہران اور خرم تھے۔ چھوٹے چچا جان کے پانچ بچے تھے، بڑے شہروز احمد تھے اس کے بعد بالترتیب وجیہ اور سمعیہ تھیں۔ سمعیہ کے بعد دو بھائی ، ہارون اور زارون تھے۔
واصق کیا کرتا ہے ۔ اس سارے عرصے میں اسے قطعی علم نہ تھا ۔ بلکہ وہ ڈیڑھ ماہ سے یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ بڑی امی کے واصق نامی کوئی صاحبزادے بھی ہیں ۔ البتہ شہروز احمد کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کرتا تھا۔ بڑے ابو اور چچا جان دونوں بھائی مل کر مشترکہ کاروبار کرتے تھے ۔ ریشمی کپڑا تیار کرنے کے پانچ چھ کارخانے تھے ۔ اچھی خاصی آمدنی ہو جاتی تھی۔ بہت خوشحال و خوش اطوار ملنسار گھرانہ تھا۔ ابھی تو سوائے جویریہ کے ،کسی کی بھی شادی نہیں ہوئی تھی۔ یہاں رہتے ہوئے اس نے محسوس کیا تھا کہ مہران کا جھکائو وجیہ کی طرف ہے۔ شاید بڑوں میںبھی کوئی بات طے تھے۔ البتہ شہروز اپنی کسی خالہ زاد میں انٹرسٹڈ تھا یہ بھی اسے جویریہ سے ہی علم ہوا تھا۔ جبکہ باقی سب ابھی پڑھ رہے تھے ۔ ماسوائے واصق کے وہ باقی سب سے اچھی خاصی گھل مل چکی تھی۔ سب اسے بہن کا درجہ دیتے تھے۔ محبت اپنائیت سے پیش آتے تھے ۔ وہ اسی پر شاکر تھی۔
X X X
کافی دن ہو گئے تھے اور بھیا بھابی اس سے ملنے نہیں آئے تھے ۔ اس کا اپنا گھر سے باہر نکلنا کسی خطرے سے کم نہیں تھا۔ کہیں آجا بھی نہیں سکتی تھی۔ بھیا بھابی سے ہی ساری امیدیں وابستہ تھیں ۔ مگر اب اس سارے ہفتے میں وہ بھی نہیں آئے تھے۔ وہ جو ان کی آمد کی شدت سے منتظر تھی اس درجہ تاخیر سے اندر ہی اندر پریشان ہو گئی۔ کسی سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھی۔ ان لوگوں نے اسے اتنی محبت سے اپنے گھر میں جگہ دے رکھی تھی یہ کیا کم تھا کہ وہ مزید انہیں پریشان کرنے بیٹھ جاتی۔ وہ خود ہی اندر ہی اندر کڑھتی رہی۔
سب اپنے اپنے معمول پر جا چکے تھے۔ گھر میں صرف پانچوں خواتین تھیں۔ دادی اماں بشیرن (کام والی ماسی) سے کام کروا کر اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گئی تھیں۔ چھوٹی چچی کی کسی بہن کا اپینڈکس کا آپریشن ہوا تھا۔ وہ اور بڑی امی ان کی عیادت کو جانے کی تیاریوں میں لگی ہوئی تھیں۔ وجیہ کا پرسوں ٹیسٹ تھا آج اس نے کالج سے چھٹی کی تھی۔اور وہ فارغ ادھر سے ادھر چکر لگاتے بور ہورہی تھی۔ اپنے گھر میں بہت زیادہ سوشل نہیں تھی مگر اتنی بھی قدامت پرست نہیں تھی کہ اپنے گھر کی چار دیواری میں مقید ہو کر زندگی گزار دیتی۔
چھوٹی چچی اور امی کے چلے جانے کے بعد وہ وجیہ کے پاس کمرے میں آ کر لیٹ گئی۔
’’کیا بات ہے آپی……کچھ پریشان ہیں؟‘‘ اسے مسلسل ایک ہی نقطے کو گھورتے دیکھ کر وجیہ نے کتاب بند کر دی اور اس کے پاس ہی بیٹھ گئی۔
’’مجھے بھلا کیا پریشان ہونا ہے۔ میں تو خود ایک پریشانی ہوں۔ ‘‘ انتہائی دل گرفتگی ویاسیت سے کہتے اس نے کروٹ بدلی تو وجیہ نے فوراً اس کا ہاتھ تھام لیا۔
’’گھر والے یاد آ رہے ہیں؟‘‘ بہت محبت سے پوچھا تو اس نے بے اختیار سر ہلادیا۔
’’تو فون کر لیں ۔‘‘ اس نے معقول مشورہ دیا۔
’’بھیا نے اب فون کرنے سے بھی منع کر دیا ہے۔‘‘
’’چلیں کوئی بات نہیں۔ ایک دو دن میں وہ دونوں خود آ جائیں گے۔‘‘ اس نے ونیزے کو تسلی دی۔
’’پتا نہیں کب آئیں گے ۔ کہیں یہ انتظار انتظار ہی نہ رہ جائے۔‘‘ دل کی صدا زبان پر آئی تو ساتھ ہی آنکھوں سے آنسو بھی مچل اٹھے۔
’’اللہ نہ کرے۔ انشااللہ وہ ایک دو دن میں چکر لگا لیں گے۔ کہیں بزی ہوں گے ورنہ ضرور آتے ۔ آپ پلیز ریلیکس ہو جائیں۔‘ ‘ محبت سے اس کے سلکی بالوں میں انگلیاں پھیرتے اس نے ہمت دلائی تو وہ سر ہلاتی خاموش ہو گئی۔ دل اندر ہی اندر بھرا جا رہا تھا۔
’’آرام کریں بلکہ سو جائیں۔ میں چھت پر جا کر ٹیسٹ یاد کر لیتی ہوں۔‘‘
ونیزے کا خیال کرتے محبت سے کہتے وہ اپنی کتابیں سمیٹ کر لائٹ آف کر کے دروازہ بھیڑ کر چلی گئی تو اس نے ایک گہری سانس لی۔ وہ تنہائی میں دل کھول کر رونا چاہتی تھی۔ اب یہاں کوئی نہیں تھا۔ اس نے اچھی طرح کمبل میں قلعہ بند ہو کر رونا شروع کر دیا تھا۔
’’وجیہ…..وجیہ …..ارے کہاں ہو؟‘‘ ابھی سے اپنا پروگرام شروع کئے پندرہ منٹ بھی نہیں گزرے تھے جب کمرے کے قریب واصق کی آواز گونجی ۔ وہ شاید دروازہ کھول کر اندر آ گیا تھا۔ وہ کمبل کے اندر ٹھٹک گئی۔ اپنی سانسیں تک روک لیں۔
’’لو یہاں محترمہ استراحت فرما رہی ہیں اور میں سارے گھر میں ڈھونڈتا پھر رہا ہوں۔‘‘ اسے چت بستر پر لیٹے ، سر تک کمبل تانے سوتے دیکھ کر وہ با آواز بلند بڑبڑایا۔ ونیزے کو اپنے وجود میں سنسناہٹ سی ہوتی محسوس ہوئی۔
’’وجیہ ایک منٹ میں اٹھو۔ میرا ایک کام کر دو۔‘‘ وہ اب بستر کے قریب آ گیا تھا۔ ونیزے نے جیسے ہی اتنے قریب سے اس کی آواز سنی تو سختی سے مٹھیوں میں کمبل جکڑ لیا۔
’’وجیہ ! بہری ہو گئی ہو کیا……خدا کی پناہ……جب بھی یہ لڑکی سوتی ہے ، کسی بات کا ہوش نہیں رہتا۔ چاہے کوئی اس کے سر پر کھڑا آوازیں لگاتا جان سے ہی گزر جائے ۔ ‘‘ سخت جھنجلائی ہوئی آواز تھا۔ وہ بے حس و حرکت پڑی رہی۔
’’وجیہ!‘ ‘ اب کے واصق نے آگے بڑھ کر بستر پر گرتے ہوئے اس کے پاس جگہ پکڑی تو ونیزے کو اپنے حواس کی طرح اپنا دل بھی مردہ ہوتا محسوس ہوا۔
’’وجیہ!……اٹھو……‘‘ واصق نے دونوں ہاتھوں سے کمبل پکڑ کر سختی سے کھینچا تھا ۔ اگلا ہی لمحہ اس کے لئے حیرت کا تھا۔ کمبل میں سے وجیہ کے بجائے ونیزے کو برآمد ہوتے دیکھ کر وہ بدک کر کمبل چھوڑتا بستر سے اٹھ کھڑا ہوا۔
’’آپ ۔‘‘ وہ حیران تھا۔
ونیزے واصق سے اس حرکت کی توقع نہیں کر رہی تھی۔ ایک دم اٹھ کر اس نے ایک طرف دھرے اپنے دوپٹے کو گھسیٹا۔ نہایت ناگواری سے اسے دیکھا اور دوپٹہ کندھوں پر لپیٹا۔
’’ایم سوری……‘‘ وہ خاصا شرمندہ دو قدم مزید پیچھے ہٹا ۔ ونیزے نے انتہائی بے بسی سے اپنے آنسوئوں سے بھیگے چہرے کو بے دردی خشک کیا۔
’’رئیلی سوری……میں سمجھا وجیہ ہے…..‘‘ ونیزے کے آنسو بہتے ہوئے چہرے کو دیکھتے اس نے پھر ایکسیوز کیا۔ اندر ہی اندر ٹھٹکا۔ ونیزے کی آنکھ سے آنسو روانی سے بہہ رہے تھے۔ چہرے کی سرخی سے یہ واضح محسوس ہو رہا تھا کہ وہ کافی دیر سے یہ شغل فرما رہی ہے۔ وہ اپنی حرکت کو بھولے، اس کی آنسو بھری آنکھوں میں دیکھے گیا۔ مسلسل آنسو بہانے سے جہاں چہرہ سرخ ہو گیا تھا وہاں بے دردی سے دوپٹے سے ناک رگڑتے وہ سرخ انار کی طرح دہک رہی تھی۔ آنکھیں علیحدہ سوج چکی تھیں۔ نجانے وہ کب سے رو رہی تھی ۔ حیرت کے ساتھ ساتھ فکر مندی نے بھی آ گھیرا۔
’’کیا بات ہے ۔ آپ کیوں رو رہی ہیں؟‘‘ اتنا تو اسے یقین تھا کہ یہ آنسو اس کی نادانستگی کے سبب آنکھوں سے نہیں بہے تھے۔ وجہ اور تھی۔ وہ قطعی لا علم تھا۔
ونیزے نے اس کے سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔ دوپٹہ کندھوں پر سیٹ کرتے وہ بستر سے نیچے اتر گئی۔
’’پلیز ونیزے…..ٹیل می ……کیا ہوا …..آئی کین ہیلپ یو۔‘‘اس کے آنسوئوں کے ساتھ ساتھ اپنا دل بھی پانی پانی ہوتا محسوس ہوا۔ وہ بہت خلوص و خاص فکر مندی سے کہہ رہا تھا۔ ونیزے نے مطلق دھیان نہ دیا۔ اسے صاف اگنور کئے وہ دروازے کی طرف لپکی مگر واصق کے ایکدم راستے میں آ جانے سے رک گئی۔ انتہائی ناگواری اور ناپسندیدگی سے اسے دیکھا جو اسے دو دن سے انتہائی نا قابل برداشت اور غیر مہذب لگ رہا تھا۔
’’ونیزے …..واٹ ہیپنڈ……‘‘ فکر مندی بدستور واصق کی آواز میں موجود تھی۔
’’میرا راستہ چھوڑیں۔‘‘ وہ دیوار کی طرح سامنے ایستادہ تھا۔ اس کی بات کے جواب میں وہ ایکدم غرّائی۔ اب واصق کی نظروں میں الجھن بھی سمٹ آئی۔
’’کیا کسی نے کچھ کہا ہے؟‘‘ ایک طرف ہٹنے کے بجائے وہ پوچھ رہا تھا ۔ ونیزے کا دل چاہا کہ وہ یا تو سامنے کھڑے شخص کو شوٹ کر دے یا پھر اپنا سر دیوار پر دے مارے۔ لسوڑا ہی بنتا جا رہا تھا یہ شخص۔
’’پلیز، میں نے کہا نا کہ میرا راستہ چھوڑ یں۔‘‘ وہ سختی سے کہہ گئی۔ واصق فوراً راستے سے ہٹا تھا۔ وہ ایک منٹ ضائع کئے بغیر دروازے کی طرف لپکی۔
’’ایک منٹ ونیزے……اتنا تو بتا دیں……رو کیوں رہی تھیں۔‘‘ اس سے پہلے کہ وہ کمرے سے باہر نکلتی اس نے پھر تیزی سے آگے بڑھ کر اس کا بازو تھاما۔
ونیزے تو پوری جان سے کانپ گئی۔ اب تک کسی کے اندر اتنی جرأت نہیں ہوئی تھی کہ اسے انگلی سے بھی چھو لے اور یہ شخص جب سے آیا تھا اسے مسلسل نا گواریوں اور برداشت کے سمندر میں دھکیلتا جا رہا تھا۔ آنکھیں پھاڑے واصق کو دیکھتے اس نے اپنا بازو اس کی گرفت سے ایک دم کھینچا۔
’’شٹ اپ ……حد میں رہو اپنی……‘‘ غصے سے برا حال ہو گیا تھا ۔ خونخوار نظروں سے اسے گھورا۔
’’مگر ونیزے …..‘‘واصق نے کچھ کہنا چاہا تو اس نے انگلی اٹھا کر اسے روک دیا۔ پھر چبا چبا کر کہا۔
’’میں بہت مختلف لڑکی ہوں۔ آئندہ میرا راستہ روکنے کی کوشش مت کرنا۔ میں کوئی گری پڑی لڑکی نہیں ہوں ، نہ ہی کوئی روشانے ہوں۔ میں ونیزے جواد حسن ہوں سن لیا تم نے۔ اور یہ اپنے دماغ میں بھی فیڈ کرلو۔‘‘ وہ اپنا سارا غصہ ، ساری کوفت ، بے انتہا نا پسندیدگی و ناگواری چند لفظوں میں اس پر انڈیل کر دروازے کی دہلیز پار کر گئی تھی۔ پیچھے تو صرف اس کے جملوں کی باز گشت ہی باقی تھی۔
جو کچھ بھی ہوا تھا وہ لاشعوری و نادانستگی میں ہی سرزد ہوا تھا۔ اس میں واصق کی اپنی کسی شعوری کوشش یا خواہش کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ پہلی ملاقات میں بھی وہ اسے مشکوک سمجھ کر نازیبا حرکت کر بیٹھا تھا۔ پھر جب وہ بے ہوش ہو گئی تو اپنی غلطی پرپشیمان بھی ہوا تھا۔ آج تو اس نے ایسی کوئی غلط حرکت نہیں کی تھی۔ وہ تو اسے ونیزے کے آنسوئوں نے ڈسٹرب کر دیا تھا۔ اسی لیے بہت شائستگی سے سب احتیاطیں فراموش کئے اس سے رونے کی وجہ جاننا چاہتا تھا مگر وہ یوں کہہ جائے گی اندازہ نہ تھا۔ پتا نہیں وہ کیا کہہ گئی تھی کس روشانے کی بات کر گئی تھی اس کے تو فرشتوں کو بھی علم نہ تھا۔ اور وہ نجانے اس کے دماغ میں کیا فیڈ کروانا چاہتی تھی ۔ وہ اس کے جملوں پر جھنجلاتا کمرے سے باہر نکل آیا۔ کچن میں آیا تو وہ ڈائننگ ٹیبل کی کرسی پر بیٹھی اپنے دونوں بازوئوں پر سر رکھے رو رہی تھی۔ وہ پھر ٹھٹک گیااندر بڑھنا چاہا مگر پھر نفی میں سر ہلاتے واپس پلٹ گیا۔ اپنے کمرے میں آ کر اس نے انتہائی بے زاری و کوفت سے بستر پر رکھی شرٹ اٹھا کر گولہ بنا کر دیوار پر دی ماری ۔ خود بھی منہ کے بل بستر پر گرا ۔ اب کہیں بھی جانے کا موڈ نہیں رہا تھا۔ بری طرح ڈسٹرب ہو چکا تھا۔ اندر باہر ونیزے کے نام کی ہلچل مچ گئی تھی۔ بری طرح خود کو لعنت ملامت کر کے اس نے آنکھیں بھی میچ لیں ۔ ہائے ری قسمت ، آنکھوں کی اسکرین پر بھی پلکوں کی باڑ پھلانگتا وہ چاندی ساعکس جھلملاتا جگمگاتا چلا آیا۔
انار کی طرح دہکتی ناک، سرخ رخسار اور سوجی ہوئی آنکھیں، مسلسل روانی سے بہتے موتی ، واصق کو بہت واضح مکمل تصور لگا۔ اس نے گھبرا کر آنکھیں کھو لیں۔
’’یا خدا کیا کروں …..ضرور یہ بے حواس اور پاگل پاگل سی لڑکی مجھے بھی بے حواس اور پاگل کر دے گی۔‘‘ انتہائی بے بسی سے مکاّ بستر پر مارتے ، ہونٹوں کو بے دردی سے کاٹتے ، سخت جھنجلا کر اس نے تکیہ سر کے نیچے سے کھینچ کر بغیر کہیں دیکھے سامنے دے مارا۔
’’ہائے…..ہائے…..اوئی میرے اللہ …..‘‘ نسوانی چیخ پر وہ ہڑ بڑا کر اٹھا تھا ۔ سامنے ہی دادی اماں اپنا سر پکڑے ہول رہی تھیں ۔ وہ فوراً بستر سے اٹھ کر ان کی طرف لپکا۔
’’کیا ہوا دادی اماں؟‘‘ فوراً ان کو کندھوں سے تھاما، مبادا گر نہ جائیں۔
’’کیا مار دیا ہے تو نے لڑکے…..ہائے میرا سر…..‘‘ واصق کو دیکھتے انہوں نے پھر اپنا سر تھاما تو اس نے شرمندہ ہوتے ہوئے جلدی سے انہیں بستر پر بٹھا دیا ۔ اس نے تو بس یونہی کوفت زدہ ہوتے ہوئے تکیہ نکلا کر دے مارا تھا ۔ اسے کیا علم تھا کہ وہ سیدھی اندر داخل ہوتی دادی اماں کے سر کا نشانہ لے گا۔ آج اس سے غلطیوں پر غلطیاں ہو رہی تھیں۔ آج اسے اپنا یہ دن انتہائی منحوس لگا۔
’’ایم سوری اماں ! بس یونہی ہو گیا۔‘‘ دونوں ہاتھوں سے ان کے سر کو دباتے اس نے کہا تو دادی اماں نے اسے اپنا چشمہ درست کرتے دیکھا۔
’’تم وجیہ…..وجیہ چلا رہے تھے۔ میں تو وہی معلوم کرنے آئی تھی کہ کیا کوئی کام تھا تمہیں اس سے مگر دروازے کے اندر قدم رکھتے ہی یہ موا سرہانہ سر پر آلگا۔‘‘
وہ شرمندہ ہوا۔ وہ اتنا غیر مہذب نہیں تھا نجانے پچھلے چند ماہ سے اس سے ایسی کیا غلطیاں سر زد ہوئیں تھیں کہ گھر آتے ہی وہ غلطیوں پر غلطیاں کرتا جا رہا تھا۔
’’وہ بس دادی اماں مجھے دوستوں کے ساتھ لنچ پر جانا تھا۔ ڈھنگ کے کوئی کپڑے نہیں مل رہے تھے۔ سوچا وجیہ سے کہہ دوں وہ کوئی اچھا سا سوٹ استری کر دے مگر وہ ہے کہاں …..وہ تو آج کالج نہیں گئی ، اور کمرے میں بھی نہیں…..‘‘
’’چھت پر بیٹھی کوئی سبق یاد کر رہی ہے۔ تم ونیزے یا مجھ سے کہہ دیتے۔‘‘
’’نہیں…..اب اس کی ضرورت نہیں ۔ میں کہیں نہیں جا رہا ۔‘‘ اس نے صاف انکار کر دیا تو دادی اماں دیکھنے لگیں۔
’’دادی اماں ، یہ ونیزے ہمارے گھر کیوں رہ رہی ہے۔ کوئی مسئلہ ہے اس کے ساتھ؟‘‘ اچانک خیال آیا تو ان سے پوچھ لیا۔ وہ ابھی تک اس کی اپنے ہاں آمد کی وجہ سے بے خبر تھا۔
’’کیا بتائوں واصق ! اللہ نے جیسی موہنی صورت دی ہے مقدر اتنے ہی…..‘‘ وہ افسوس سے ہاتھ ملتے خاموش ہو گئیں۔ وہ بے قراری سے دیکھے گیا۔
پھر دادی اماں نے اسے ساری بات کہہ سنائی وہ تاسف و بے یقینی سے سر ہلاتا رہا۔ اسے ونیزے سے دلی ہمدردی بھی ہوئی۔
’’ہمیں تو بڑی فکر ہے اس بچی کی طرف سے ۔ مانو کہ ایک بوجھ ہے کندھوں پر ۔ ہمیں تو ایک ہی فکر ہے۔ اللہ بچی کے مقدروں کو سنوارے ، اسے سکھ دے۔ کم عمری میں ہی ماں باپ کا دکھ دیکھ لیا۔ ادھر وہ نحوست مارا لالچی شخص آسیب بن کر پیچھے لگا ہوا ہے۔ گھر سے بے گھر ہو گئی ہے۔ اسے دیکھتی ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ اللہ ہدایت دے اس شخص کو بھی کہ وہ بچی کا پیچھا چھوڑ دے۔ اتنی فرشتہ صفت لڑکی ہے۔ زندگی میں کوئی پہلی دفعہ اتنی بھولی بھالی معصوم صورت لڑکی دیکھی ہے ۔ آنکھوں میں ٹھنڈ سی پڑ جاتی ہے۔‘‘ وہ ان کی آواز سے اندازہ لگا سکتا تھا خاموشی سے سنتا رہا۔
’’واصق ! تو ہی کچھ کر اس بچی کے لئے ۔ یونہی تو وہ شخص پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ اس کے بھائی نے مقدمہ تو کر رکھا ہے، اس شخص پر مگر کچھ بن نہیں رہا اور ہاں تمارے جاننے والے خاصے امیر، خوشحال سلجھے ہوئے شریف لوگ ہیں کوئی بات تو چلائو۔‘‘ وہ نا سمجھی میں انہیںدیکھنے لگا۔’ ’بہت بڑی ذمہ داری ہے جو اس کے بھائی بھاوج نے ہم پر لا رکھی ہے۔ شادی ہو جائے گی، اپنے گھر بار والی ہو سر پر شوہر کے نام کی چادر ہو گی تو مجال ہے وہ شخص اس کا نام بھی لے لے۔‘‘ دادی اماں کہہ رہی تھیں۔ وہ سر جھکائے سنتا رہا جبکہ ذہن کہیں اور تھا۔
’’واصق !‘‘ دادی اماں نے اسے پُر سوچ انداز میں سوچتے دیکھا تو کہا۔ ’’سن رہا ہے نا تو؟‘‘ انہوں نے پوچھا تو وہ مسکرا دیا۔
’’آپ فکر مت کریں ۔ انشااللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ اس نے تسلی دی۔
’’خدا کرے۔ بڑی پریشان ہے صبیحہ تو۔ بہت تنگ کر رہا ہے وہ ان دونوں کو ۔ کاروبار پر تو موا سانپ بن کر بیٹھا ہی ہے بچی کو بھی کھانے کا سوچ رہا ہے۔ روز دھمکیاں دینے پہنچ جاتا ہے، دو تیں بندے پیچھے لگا رکھے ہیں۔ صبیحہ اور امجد تو ڈر کے مارے ادھر بھی نہیں آ رہے۔ ادھر سے یہ بچی فون کر کے خیر خیریت بھی معلوم نہیں کر سکتی۔ تیرے ابو نے ایک دورشتے تو دکھائے تھے مگر وہ دونوں کو پسند نہیں آئے۔ ہماری خواہش ہے کہ ……‘‘ وہ واصق کو دیکھتے فوراً چپ ہو گئیں۔ واصق یونہی مسکرا دیا۔
’’کچھ نہیں ہو گا ۔ آپ دل چھوٹا مت کریں۔ میں کچھ کرتا ہوں۔ اللہ نے چاہا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ وہ بہت جلد اپنے گھر جائے گی۔‘‘ اس نے تسلی دی تو دادی اماں اٹھ کھڑی ہوئیں۔
’’خدا تمہاری زبان مبارک کرے۔ بڑی حساس ہے یہ بچی، ہر وقت کڑھتی رہتی ہے۔ خدا وہ دن جلدی لائے جب وہ ساتھ خیریت کے اپنے گھر جائے۔‘‘ وہ کہتے کہتے کمرے سے نکل گئی تھیں۔ کچھ سوچتے ہوئے وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...