کعبے میں جا کے یا کہیں پتھر تراش کر
ممکن ہو جس طرح بھی خدا کو تلاش کر
۔۔۔۔دُنیا میں ہر گروہ اور ہر شخص اپنی اپنی جگہ خود کو سچا سمجھتا ہے۔ ایساسمجھنے میںکوئی حرج نہیں۔ خرابی وہاں پیدا ہوتی ہے جب اپنی سچائی کا اعلان کرنے والا ساتھ ہی دوسروں کو جھوٹا بھی قراردے دیتا ہے۔ ہر شعبۂ حیات میں ہرگروہ اپنے حق بجانب ہونے کے دلائل بھی رکھتا ہے اور دوسروں کے جھوٹا ہونے کے ثبوت بھی پیش کرتا ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے کہ ہم کسے جھوٹاکہیں اور کسے سچا سمجھیں۔ شاید یہ معاملہ کچھ ایسے ہی ہے کہ جب کوئی خود کو سچا کہتا ہے تو گویا اپنے خوبصورت ہونے کا اعلان کرتا ہے لیکن پھر ساتھ ہی دوسروں کو بدصورت بھی قرار دیتا ہے۔ اصولاً کسی کو اپنی خوبصورتی کے ثبوت کے لئے دوسروں کی بدصورتی کو نمایاں کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔ اگر آپ خوبصورت ہیں تو کسی کی بدصورتی کی نشاندہی کئے بغیر بھی آپ خوبصورت ہیں، لیکن اگر آپ بدصورت ہیں تو بے شک سارے جہان کی بدصورتی ثابت کردیجئے اس سے آپ کا خوبصورت ہونا ثابت نہیں ہوسکے گا۔ چونکہ ہم اصلاًسچائی کی بات کر رہے ہیں اس لئے مختلف گروہوں اور افراد کی سچائیوں کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ ہر کسی کا اپنا اپنا سچ ہے اور ہر کسی کو اپنے اپنے سچ کی حفاظت کرنی چاہئے۔ نظریاتی سچ کی حفاظت نظریات پر عمل پیرا ہونے سے ہوتی ہے۔
۔۔۔۔آئینے کو ہمارے ہاں سچ کی بڑی علامت بنالیاگیا ہے اسی لئے ہر کوئی خود آئنہ دیکھنے کی بجائے دوسروں کو آئنہ دکھانے میں لگا ہوا ہے۔ بے شک عام طور پر آئینہ جو کچھ دیکھتا ہے وہی ہمیں دکھادیتا ہے۔ اس لحاظ سے آئنہ سچا بھی ہے لیکن کچھ اتنا زیادہ بھی سچا نہیں ہے۔ مثلاً کبھی کوئی تحریر آئینے کو دکھائیے، اچھی بھلی اُردو کو عبرانی تحریر بنا کر دکھادے گااور عبرانی بھی ایسی جو عبرانی کے استادوں کے پلّے بھی نہ پڑے۔ پھر ایسے آئینے بھی ہیں جو اچھی بھلی صورت کو بگاڑ کر دکھاتے ہیں۔ گورے چٹے رنگ کو کالا کرکے پیش کردیتے ہیں۔
۔۔۔۔آئینے کی طرح پانی کی سچائی میں بھی زمین و آسمان کے قلابے ملادیئے گئے ہیں۔ حالانکہ مختلف رنگوں کے گلاسوں میں پانی ڈال کردیکھ لیں۔ ہرر نگ کے گلاس کا پانی اسی رنگ کے مطابق نظر آئے گا۔ اس کا شفّاف پن کہیں بھی نظرنہ آئے گا۔ اس کے باوجود پانی کی سچائی پر کبھی انگلی نہیں اٹھائی گئی۔ اس کے برعکس گرگٹ بیچارے کو ہر کوئی لعن طعن کرتا ہے جبکہ اس کا گناہ اس سے زیادہ نہیں ہے کہ آئینے اور پانی کی طرح یہ بھی جو کچھ دیکھتا ہے یا جہاں سے گزرتا ہے اسی رنگ میں رنگین نظر آنے لگتا ہے۔ آئینہ، پانی اور گرگٹ تینوں اپنی اپنی جگہ سچے ہیں اور کسی ایک کی تعریف کرکے دوسرے کو مطعون کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ کسی شے یا عمل کا جواز پیش کرنے والے ناجائز کو جائز اور جائز کو ناجائز بنانے کاہنر دکھاتے ہیں۔
۔۔۔۔اس دنیا میں اربوں کی تعداد میں انسان موجود ہیں۔ سب کے تمام اعضا ایک جیسے ہیں۔ اتنی گہری یکسانیت کے باوجود ہر انسان دوسرے سے کچھ نہ کچھ مختلف ضرور ہے۔اس کا دوسروں سے کچھ مختلف ہونا اس کی ذاتی شناخت ہے اور یہی اس کا ذاتی سچ ہے۔ پھولوں کو دیکھیں ہزار ہااقسام کے اور رنگا رنگ پھول ہیں۔ اس کے باوجود ہر پھول ایک قدرِ مشترک رکھنے کے باوجود ہر دوسرے پھول سے مختلف ہے۔ پھولوں، پودوں کو چھوڑیں، پتھروں کو دیکھ لیں۔ پتھروں کو جمع کرنے کا شوق رکھنے والے حضرات اور پتھروں سے سر پھوڑنے والے عشّاق بخوبی جانتے ہیں کہ دنیا میں ایک جیسے دو پتھر بھی نہیں ملتے۔ گویا اصل سچائی بیک وقت یکسانیت اور اختلاف کے امتزاج سے اُبھرتی ہے۔ ان انفرادی مثالوں سے گروہی اور نظریاتی سچائیوں کی حقیقت کو بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ ہر گروہ کی اپنی اپنی سچائی ہے۔ اپنی اپنی سچائی کو ایک اورر نگ میں اپنی اپنی بیوی سے بھی مشابہت دے سکتے ہیں۔کسی کی خوبصورت بیوی کو دیکھ کر بعض لوگ بدنیت ہو کر اس پر ڈورے ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کوشش میں کامیابی نہ ہو تو پھر محرومی اور حسد کے باعث اس کی بدکرداری کی فرضی داستانیں گھڑ کر پھیلانے لگتے ہیں چاہے اس انہماک کے دوران اپنی بیوی کہیں اور مصرف عمل ہوچکی ہو ۔ ایک اچھے مرد کے لئے مناسب ہے کہ وہ اپنی بیوی پر قناعت کرے۔ دوسروں کی بیویوں کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے کی بجائے اپنے اور اپنی بیوی کے مشترکہ تخلیقی عمل میں مگن رہے اور اسی طرح زندگی میں اضافہ کرکے زندگی کی جنت کا نظارہ کرتا رہے۔ اسی طرح مختلف نظریاتی گروہوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی اپنی سچائی کے ذریعے اپنی تعداد بڑھائیں، بلاوجہ دوسروں کی سچائیوں کو بدنیتی سے نہ دیکھیں اور نہ ہی حسد کے ساتھ ان پر الزام تراشی کریں۔ میں ان سارے نظریات کے ماننے والوں کو سلام کرتاہوں جو دوسروں کی عیب چینی کرنے کی بجائے صرف اپنی خوبیوں کے بیان پر اکتفا کرتے ہیں۔
۔۔۔ ۔جس جگہ میرا گھر ہے، ایک پولٹری فارم اور ایک ڈیری فارم وہاں سے قریب پڑتے ہیں۔ ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر پولٹری فارم کے حوالے سے اپنی بات آگے بڑھانا مشکل ہے کہ اس سے تحریر میں فحاشیت پیدا ہوجانے کا ڈر ہے اس لئے ڈیری فارم کے حوالے سے ہی کچھ عرض کئے دیتا ہوں۔ ہر نظریہ اپنی جگہ خالص دودھ کی طرح ہے۔ مختلف بنیادی نظریات میںاس دودھ کی مقدار میں کمی بیشی مانی جاسکتی ہے۔مثلاًایک نظریہ بنیادی طور پر پانچ من دودھ کا سچ ہے اور دوسرا دَس من کا۔ سو دونوں میں خالص دودھ کی یکسانیت اور مقدار کافرق واضح ہے۔ اب قصہ کچھ یوں ہوتا ہے کہ کوئی بھی بنیادی نظریہ مختلف تشریحات کے باعث، بعض رہنماؤں کی خواہشات کے باعث اور بعض اوقات زمانے کے تبدیل شدہ تقاضوں کے باعث تھوڑے وقفے کے بعد گروہ در گروہ ہونے لگتا ہے۔ پانچ من والے کے اگر ۵۰گروہ بن گئے تو مجموعی طور پر ہر گروہ کے حصے میں چار کلو دودھ آئے گا۔ لیکن چونکہ ہر گروہ کا دعویٰ ہوتا ہے کہ اس نظریے کا پورا اور خالص دودھ صرف ہمارے پاس ہے اس لئے انہیں بنیادی مقدار پوری کرنے کے لئے اس میں چار من ۳۶کلو پانی ملانا پڑتا ہے اور اتنی ملاوٹ کے باوجود (”بانگ دہل“ کے مصنف سے معذرت کے ساتھ) ببانگ دہل دعویٰ کریں گے کہ خالص اورپورا پانچ من دودھ صرف ہمارے پاس موجود ہے باقی سب جھوٹ بولتے ہیں۔ ایسے دعویداروں میں جو سادہ قسم کے لوگ ہوتے ہیں وہ تو کثیر پانی ملادودھ ہی لئے بیٹھے ہوتے ہیں جس میں چار کلو دودھ موجود ہونے کے باوجود اپنے ”نہ ہونے“ کا اعلان کررہا ہوتا ہے۔ جبکہ بعض کاری گر قسم کے لوگ رنگ بازی سے کام لے کر پانی کو دودھیا کرلیتے ہیں چاہے اس میں مصنوعی دودھ پاؤڈر ملائیں چاہے چونا۔ مقصد صرف یہی ہوتا ہے کہ دیکھنے والا دھوکہ کھاجائے اور انہیں کو اس نظریے کا اصل محافظ مان لے۔
۔۔۔۔سچی بات یہ ہے کہ ہر نظریہ ایک جزوی سچائی ہے۔ کامل سچائی صرف اور صرف وہ حقیقتِ عظمیٰ ہے جو خالقِ کائنات ہے۔ جو اس کائنات میں جاری و ساری بھی ہے اور اس سے باہر بھی ہے جو ہر شے پر محیط ہے۔ اس کامل سچائی کا اپنی اپنی بساط کے مطابق صرف اندازہ کیا جاسکتا ہے، احاطہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ لامحدود ہے۔ جب ایک بوند روشنی کامالک جگنو سورج کی اصل تپش کا اندازہ نہیں کرسکتا اور ایک قطرہ سمندر کی وسعت اور گہرائی کا ادارک نہیں کرسکتا تو ہم سارے انسان اس عظیم ہستی، اس لامحدود سچائی کا ادراک کیسے کرسکتے ہیں جس کے لئے کامل سچائی کا لفظ بھی نامکمل لگتا ہے۔
٭٭٭