کہانی نہ نئی ہوتی ہے اور نہ پرانی۔ کہانی سدا بہار ہوتی ہے۔ وہ کبھی اپنا آہنگ و انداز بدلتی ہے تو کبھی لب و لہجہ۔ ماحول و کردار اور اسلوبِ بیان میں تبدیلی بھی اس کے کسی کام نہیں آتی اس لئے کہ اپنے ہر بہروپ میں جب وہ قاری کے روبرو ہوتی ہے تو وہ بے ساختہ کہہ دیتا ہے کیا کہانی ہے صاحب مزہ آ گیا۔
قاری اور افسانے کے درمیان آقا اور غلام کا سارشتہ ہوتا ہے۔ ایسے آقا اور غلام جو ایک صف میں کھڑے ہوتے ہیں۔ ان میں نہ کوئی اعلیٰ ہوتا اور نہ کوئی ادنیٰ۔ وہ ایک دوسرے سے بے حد محبت اور باہم اعتمادو احترام کرتے ہیں۔ اگر یقین نہ آتا ہواس کتاب کی کہانی محمود و ایاز دیکھ لیں۔
بفضلِ تعالیٰ میرا پہلا افسانوی مجموعہ حصار ۲۰۰۶ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد میں کہانیوں کے حصار سے نکل کر ناول کی جانب نکل گیا۔ اس بیچ حصار کے سارے نسخے ختم ہو گئے لیکن تقاضہ باقی رہا۔ دوسری طباعت کے بجائے کچھ نئے افسانوں کے ساتھ چند پرانی کہانیاں یکجا کر کے پیش کر رہا ہوں۔ آٹھ نئی اور سات پرانی کہانیوں کے درمیان محمود و ایازکاسا تعلق ہے۔ اس میں ہر محمود کے ساتھ ایک ایاز یعنی ہر نئی کہانی کے ساتھ ایک پرانی اور پھر اس کے بعد نئی کہانی ہے۔ اس وضاحت کے بعد میں محمود و ایاز کے درمیان سے نکل کر کتاب کا رخ کرتا ہوں تاکہ کسی کردار کی حیثیت سے ملاقات کی سعادت حاصل کر سکوں۔ فی امان اللہ۔
٭٭٭