ہیلو مسٹر گوپال ٹھکر؟
جی انسپکٹر معاذ میں ہی بات کر رہا ہوں
اروند گرفتار کر لیا گیا ہے اور بہت جلد عدالت اسے سزا بھی سنا دی جائے گی
لیکن اس طرح تو یہ بات پھیل جائے گی اور میرے بیٹے کی زندگی تباہ ہو کر رہ جائے گی
گوپال پریشان ہو گئے تھے
نہیں مسٹر گوپال ایسا نہیں ہوگا اروند کو سزا ضرور ملے گی پر آپکے بیٹے کا نام لیک آوٹ نہیں ہوگا یہ میری گارنٹی ہے۔ انسپکٹر معاذ کے لہجے کی مضبوتی نے گوپال ٹھکر کو مطمئین کر دیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بسنتی کی زندگی ختم ہو چکی تھی اور اب وہ فرشتے کی گود میں سر رکھے ابدی نیند سو رہی تھی
فرشتے کے آنسو ماتا کے گال بھگو رہے تھے وہ ابھی بھی ماتا کے بالوں میں انگلیاں چلا رہی تھی۔ ماں کا لمس وہ انگلیوں کی پوروں سے اپنی روح میں اتار رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قبر یا شمشان گھاٹ ؟ بہت بڑا مئسلہ کھڑا ہوا تھا
فرشتے مسلمان تھی لیکن گوپال اور اجمیر ہندو اور اس پاگل پن میں بسنتی کچھ بھی نہیں تھی۔
فرشتے کے لئے اپنی ماں کو جلتے دیکھنا مشکل تھا اسے پتہ ہوتا ماتا مر جائے گی تو وہ اسے کلمہ پڑھا دیتی تاکہ وہ جلائی نا جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ گوپال ٹھکر کے کمرے میں آئی تھی
آپ سے کچھ بات کرنی ہے
کہو؟
گوپال ٹھکر نے بنا اس کی طرف دیکھے اسے بولنے کی اجازت دی تھی
فرشتے حیران تھی اسکا باپ اس سے آج بھی اتنی نفرت کرتا ہے کہ اسکی طرف دیکھنے تک کو تیار نہیں
میں اپنی ماتا کو جلا نہیں سکتی مجھ میں ہمت نہیں انہیں جلتا دیکھنے کی۔ ماتا نے ساری زندگی صرف آپکی وجہ سے عذاب سہا ہے اولاد کھونے کی آگ میں جلی ہیں اب اور نہیں۔ میں انہیں مٹی میں اتارنا چاہتی ہوں ٹھنڈی پرسکون مٹی میں
اسنے تقریر کے انداز میں بات مکمل کی تھی اور اب اپنے باپ کے کسی جاہلانہ رویے کی منتظر تھی
پر گوپال نے نظریں ہنوز جھکائے اسے کہا تھا
جیسا تم چاہتی ہو ویسا ہی ہوگا۔ تمہاری ماتا اگر حواس نہ کھوتی تو شائد مسلمان ہی ہوتی پر اس سب کے لئے میری ایک شرط ہے
اور فرشتے مسکرا دی تھی
ایسا نرم رویہ بنا کسی مقصد کے تو حیوان صفت انسان پر جچتا بھی نہیں تھا
مجھے آپکی ہر شرط منظور ہے اور وہ پلٹ گئی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔
ماتا کی تدفین کے بعد وہ سب سے پہلے گوپال کے پاس آئی تھی تاکہ اسکی شرط پوری کرکے ہمیشہ کے لئے اس سے لاتعلق ہو جائے پر اس کی شرط سن کر وہ کچھ بولنے لائق ہی نہیں رہی تھی
میں جانتا ہوں فرشتے میرا گناہ معاف کئے جانے قابل نہیں ہے پر پھر بھی میں تم سے معافی کی بھیک مانگ رہا ہوں مجھے معاف کردو بیٹی پلیز مجھے معاف کردو
وہ فرشتے کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے تھے ندامت کے آنسو بہ کر انکے گناہوں کی سیاہی دھو چکے تھے اور فرشتے نے انکے بندھے ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں چھپا لئے تھے وہ ماتا کو کھو چکی تھی باپ کو کھونے کا حوصلہ اس میں نہیں تھا۔
باپ بیٹی خود ہی مل مل کر رو رہے ہیں کوئی مجھے بھی کمپنی دے دے
اجمیر وہیل چئیر پہ براجمان دروازے پہ موجود مسکین سی شکل بنائے بھیگی آنکھوں سے انہیں دیکھ رہا تھا
بس دی دی اب آپ جلدی سے اپنا سامان پیک کرو اور یہاں آ جاو اپنے گھر
ہاں بیٹا اپنے گھر آجائو واپس۔ یہ گھر تمہارے بغیر ادھورا ہے پلیز اسے مکمل کردو اور اسنے ہامی بھر لی تھی
فرشتے اپنے کمرے میں بیٹھی سوچ رہی تھی کہ پاپا ماما سے کیسے بات کرے جب شاہ میر نے اندر آنے کی اجازت مانگی تھی
فرشتے نے جتاتی نظروں سے شاہ میر کی طرف دیکھا تھا جو اسکے سر پر کھڑا اجازت مانگ رہا تھا
کمرے میں آ تو چکے ہو پھر اجازت مانگنے کی وجہ؟
وہ اسے شرمندہ کر رہی تھی
ہاہاہا عادت پڑ گئی ہے یار برداشت کرو
مطلب موصوف کے کن پر تو جوں بھی نہیں رینگی
یہ کیا تم نے اپنا سامان پیک نہیں کیا ایسے ہی جانا ہے کیا؟ بنا سر و سامان؟
وہ اسے دیکھ رہا تھا اور وہ سوچ رہی تھی اس شخص کو ہر بات کیسے پتہ چل جاتی ہے
ابے یار اب کن سوچوں میں گم گئی؟
اجمیر سے بات ہوئی تھی اس نے بتایا تھا تمہارا پلان
اب پیکنگ کرو پاپا نے انہیں شام کے کھانے پہ انوائیٹ کر لیا ہے تاکہ اچھے سے تم وداع ہو سکو
پاپا کو پتا ہے میرے جانے کا؟
جی میں نے ہی بتایا تھا آپ کو تو زحمت نہیں ہوئی کہ پاپا سے پوچھنا تو دور انہیں بتا ہی دو but don’t worry انکا دل بہت بڑا ہے معاف کر چکے ہونگے تمہیں
اس بار شاہ میر تھوڑا خفا ہوا تھا
مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا پاپا کو کیا کہوں اور کیسے کہوں۔۔ اسی لئے میں نے پیکنگ نہیں کی۔ پاپا کی اجازت کے بغیر پیکنگ کا سوچ بھی نہیں سکتی میں
فرشتے نے اپنی صفائی پیش کی تھی اور یہ سچ بھی تھی good فلحال مل چکی ہے تمہیں اجازت سو پیکنگ کرو اور باقی رہی تمہاری صفائی تو دیدونگا وہ بھی پاپا کو
شاہ میر واپس موڈ میں آ گیا تھا اور ہاں ایک اہم بات تو میں تم سے پوچھنا بھول ہی گیا محبت کرتی ہو مجھ سے؟ شادی کے لئے رشتہ بھیج دو؟ وہ ایک دم سٹپٹا گئی تھی اس اچانک سوال پر۔ اسکا دل بہت تیز دھڑکا تھا اور پلکیں حیا کے بوجھ سے جھک گئی تھیں
ایکسیوز می میڈم سٹار پلس کی ہیروئن کی طرح جواب مت دیجئے غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ سیدھے سے جواب دیں محبت کرتی ہیں یا نہیں کرتیں
شاہ میر ہنسی دبائے سنجیدگی کے ساتھ اسے کر رہا تھا جب فرشتے کی آواز اس کے کانوں میں پڑی تھی
نہیں شاہ میر سوری پر میں تم سے محبت نہیں کرتی محبت میں کسی اور سے کرتی ہوں
شاہ میر کو لگا تھا اس کا دل کسی نے مٹھی میں لے لیا ہو۔ وہ وہاں سے فوری جانا چاہتا تھا پر فرشتے کی بات ابھی جاری تھی
ہاں اگر تم یہ پوچھو کہ میں تم پر اعتبار کرتی ہوں تو سچ میں میں تم پر خود سے زیادہ اعتبار کرتی ہوں
اگر تم یہ پوچھو میں کہ میں تمہیں پسند کرتی ہوں تو تمہارے لئے میری پسند تمہاری سوچ کی حد سے بھی زیادہ ہے
اور اگر تم مجھ سے یہ پوچھو کہ میں اپنی ساری زندگی تمہارے ساتھ گزارنا چاہوں گی تو سچ میں میرا جواب ہاں ہی ہوگا کیونکہ یہی تو ایک واحد راستہ ہے جس کے ذریعے میں اس شخص کے ساتھ رہ سکوں گی جس سے میں محبت کرتی ہوں
اور وہ جو اپنے رقیب کا نام سننے کی ہمت اکٹھا کر رہا تھا ایک دم چونکا تھا
مسٹر سٹوپڈ پاپا میں پاپا کی بات کر رہی ہوں
کمرے سے باہر کھڑے جہانزیب اپنے بچوں کا خوشیوں بھرا قہقہہ سن کر وہیں الله کے سامنے سجدہ میں جھک گئے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کے سائے ڈھل چکے تھے جب وہ اپنے ببا اور اجمیر کے ساتھ گھر آئی تھی
اجمیر اب گوپال کے ساتھ اسکے روم میں ہی رہتا تھا اپنے کمرے سے اسے خوف آتا تھا
فرشتے کو الگ کمرہ دیا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بات پوچھوں پاپا؟ اجمیر نے اپنے باپ کے پاس لیٹے ان سے اجازت طلب کی تھی
گوپال کروٹ لے کر اجمیر کی طرف متوجہ ہوئے
ہاں پوچھو
ہنومان جی نے مجھے بچایا کیوں نہیں؟
آپ نے کہا تھا جن کے پاس وہ مورتی ہو ان پر کوئی مصیبت نہیں آتی پر میرے تو وہ بلکل پاس تھی پر اس نے مجھے نہیں بچایا وہ تو خود بھی ٹوٹ گئی
کیوں بابا؟
پتہ نہیں میں خود نہیں جانتا میں خود نہیں سمجھ پا رہا
گوپال نے بے بسی سے اپنی لا علمی ظاہر کی تھی
پاپا کیا آپکو نہیں لگتا ہم غلط راستے پہ ہیں؟ بھلا اس پوری کائنات کی خالق یہ مورتیاں کیسے ہو سکتی ہیں جو خود تخلیق کی گئی ہوں؟
اچھا پاپا کیا آپ نے ہنومان جی یا دیوی ماتا کو اصلی روپ میں دیکھا؟
گوپال نے نہیں کہ کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تھا کہ وہ ایسا کیوں پوچھ رہا ہے
اجمیر نے انکی نظروں کو نظر انداز کرتے پوچھا تھا
آپ کے پاپا نے دیکھا؟
گوپال کا جواب پھر نفی میں تھا
انکے پاپا نے؟
نہیں کسی نے بھی نہیں دیکھا بس ہمارے بڑوں نے جو ہمیں بتایا ہم وہیں مانتے آ رہے ہیں۔
گوپال کافی الجھ سے گئے تھے
پاپا آپکو نہیں لگتا یہ سب بس قصے کہانیاں ہیں کچھ وہمی یا نفسیاتی طور پر بیمار لوگوں کیں جو نسل در نسل چلتی ہم تک آ پہنچی ہیں؟
کیا کریں پھر اب؟ یہ دنیا کسی نے تو بنائی ہے نہ کون ہے پھر وہ کہاں ہے ملتا کیوں نہیں؟
گوپال کے اس سوال پر اجمیر سوچ میں پڑ گیا تھا پھر بولا
پاپا کوئی تو ہے جس نے یہ سب بنایا ہے اور یقینن بے وجہ تو نہیں بنایا شائد ہم ہی نے اسے تلاش نہیں کیا
شائد پر اب سو جاو میں تھک گیا ہوں
گوپال نے کھردرے لہجے میں یہ کہ کر کمرے کی لائٹ آف کردی تھی پر نیند ان آنکھوں سے روٹھ چکی تھی۔
وہ اندھیرے میں بےسمت دوڑ رہی تھی۔ اسے نہیں پتہ تھا وہ کہاں ہے اور یہاں کیسے آئی وہ بس بھاگ رہی تھی کہ اچانک اس کا پائوں پھسلا اور وہ گہرے گڑھے میں گر گئی۔ وہ گھڑا مٹی سے بھرنے لگا۔ وہ خوفزدہ چیخ رہی تھی جب اس کی آنکھوں کے سامنے مٹی کے بنائے ہوئے کچھ مجسمے اسی مٹی میں ظاہر ہوئے تھے
یہ سب مجسمے اسی کے بنائے ہوئے تھے وہ شوق سے انہیں دیکھنے لگی
وہ ایک ہاتھی کا مجسمہ تھا جسے اسنے مارگلا زو میں جھومتے دیکھا تھا وہ اسکے بلند اور پروقار وجود سے بہت متاثر ہوی تھی
دوسرا مجسمہ شیر کا تھا جس کی آنکھوں کو اسنے خاص ابھارا تھا جن میں شدید حیوانیت تھی
تیسرا مجسمہ خود اسکا اپنا تھا
اسے یاد تھا اسنے ایک آدمی کو سانپ کا تماشا کرتے دیکھا تھا
سانپ کا وجود بہت پراسرار سا لگا تھا اسے
بہت شان اور وقار کے ساتھ وہ اسی کو دیکھ رہا تھا
اور اس نے اپنا مجسمہ بنایا تھا اس پراسرار مخلوق کے ساتھ
مجسمہ سازی اسکا شوق تھا جبکہ جہانزیب کو اس آرٹ سے نفرت تھی اسی لئے وہ چھپ کر مجسمے بناتی ان پہ دنگ کرتی اور جی بھر کر خود کو سراہنے کے بعد انہیں لاکر میں رکھ دیتی
مٹی اسکے ناک سے اوپر جا چکی تھی پر اسے گھٹن نہیں ہوئی تھی
اسکی آنکھیں بند ہو چکی تھیں اور اب وہ
بند آنکھوں سے کاغذ پہ بنائے اپنے خاکے دیکھ رہی تھی
ان میں ایک خاکہ اسنے اپنا اور شاہ میر کا بھی بنایا تھا۔
چاندنی رات میں شاہ میر کسی پتھر پر بیٹھا تھا
اس کا ایک ہاتھ زمین سے ٹیک لگائے تھا اور دوسرا اسکی گود میں۔ وہ دور سمندر کی لہروں کے اتار چڑھاؤ میں کھویا ہوا تھا اور فرشتے اسکے کندھے پہ تھوڈی (chin) ٹکائے اس کی طرف دیکھ رہی تھی
پانی سے منعکس ہو کر چاندنی کا عکس لہروں کی صورت ان دونوں کے چہرے پہ پڑھ رہا تھا
ایک خاکہ اسکے پاپا کا بھی تھا جو اسنے تب بنایا تھا جب وہ آٹھویں کلاس میں تھی پر یہ خاکہ ٹکڑوں میں تقسیم تھا
جب اسنے یہ خاکہ بنا کر پاپا کو دکھایا تھا تو وہ سخت برہم ہوئے تھے۔ انہوں نے اسی وقت وہ خاکہ پھاڑ دیا تھا اور کچھ نہیں کہا تھا بس انکا چہرہ تھا جس پہ خوف رقم تھا
فرشتے نے کاغذ کے ٹکڑے اٹھائے تھے اور خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی گئی تھی
یہ ایک فن ہے اس میں کیا برائی ہے۔ رنگوں کا کھیل ہے اور مجھے پسند ہے مجھ میں تخلیق کی صلاحیت ہے میں اسے کیوں نہ انجوائے کروں وہ خود سے باتیں کر رہی تھی جب جہانزیب حمدانی کمرے میں آئے تھے
میری بیٹی ناراض ہے اپنے پاپا سے؟ اور فرشتے کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے تھے۔
فرشتے سوری بیٹا اصل میں تصویر بنانا گناہ ہے الله کو نہیں پسند۔ تصویر کسی بھی طرح سے بنائی گئی ہو چاہے ہاتھ سے چاہے کیمرہ سے یا چاہے مٹی یا پلاسٹک سے۔۔ہر صورت یہ گناہ ہے۔ تخلیق صرف خالق یعنی الله ہی کے شایان شان ہے
ایسی بےبنیاد تخلیق سے ہم وقتی خوشی کے بدلے قیامت کا بدترین عذاب خرید لیتے ہیں
آپکو پتا ہے بیٹا قیامت والے دن الله تعالى ہم سے کہیں گے کہ ان تصویروں میں روح ڈالو اور جب ہم نہیں ڈال پائیں گے اور یقینن ہم ڈال ہی نہیں سکتے تو یہ تصویریں ہم پر مسلط کردی جائیں گی اور بیٹا آپ ہی بتائو کوئی باپ کیسے اپنی اولاد کو عذاب کا خریدار بنا سکتا ہے؟
اپنے پاپا کی بات اسنے غور سے سنی تھی۔ ماننے کا ارادہ بھی کیا تھا پر پھر۔۔۔
شوق کے آگے صرف اتنا سمجھ آیا تھا کہ کسی کو بتائے ہی نہ اور بس اسنے کسی کو کبھی نہیں بتایا تھا۔۔
مجسموں سے محبت تو مجھے وراثت میں ملی ہے میں ان کو کیسے چھوڑ سکتی ہوں؟
میں پیدائشی بت پرست ہوں میری فطرت میں بت پرستی ہے
شرک کی مٹی اب اس کے کانوں تک پہنچ چکی تھی جب اس کے کان میں کسی نے سرگوشی کی تھی
بیٹا ہر انسان فطرت وحدانیت پر ہی پیدا کیا گیا ہے پھر اسکے ماں باپ پہ منحصر ہے وہ اسے کیا بنا دیں
شکر ہے الله کا میرے ذریعے الله نے تم کو اسکی فطرت وحدانیت پہ قائم رکھا ہے
یہ اسکے پاپا کی آواز تھی اسکے جسم میں ایک دم حرکت پیدا ہوئی تھی
شیطان کا کام ہے انسان کے دل میں وسوسے ڈالنا وہ ہر بری چیز کو سجا سنوار کر ایسے پیش کرتا ہے کہ وہ انسان کو اسکی فطرت کا حصہ لگنے لگتی ہے
جہانزیب کی آواز پھر سے اسکے کانوں میں گونجی تھی
پر پاپا ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ چیز اصل میں بری ہے؟
فرشتے نے بہت سوچ کر سوال کیا تھا
چل جاتا ہے پتہ۔۔۔ جہاں شیطان دائو چلتا ہے وہاں یہ جو دل ہے نہ اس میں الله کھٹک پیدا کر دیتا ہے انسان وہ کام لوگوں سے چھپ کر کرتا ہے پھر بھی کبھی مطمئین نہیں ہو پاتا
اور فرشتے واقعی مطمئین نہیں تھی۔ الله کی نافرمان ہونے کا احساس اسے نادم کر رہا تھا
جب شیطان ہمارے دل میں وسوسے ڈالے یا چیزیں خوبصورت کر کے دکھائے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے
اسنے پاپا سے اس سب کا حل پوچھا تھا
تعوذ پڑھا کرو اور اب وہ تعوذ پڑھنے کی کوشش کررہی تھی پر ہونٹوں پہ جمی مٹی اسے پڑھنے نہیں دے رہی تھے تب اس نے دل میں تعوذ پڑھنا شروع کردی تھی
أعوذ بالله من شيطن الرجيم
(میں الله کی پناہ لیتی ہوں شیطان مردود سے)
ایک دم اسے شدید گھٹن کا احاس ہوا تھا اسنے بار بار تعوذ پڑھنا شروع کردی تھی اور شرک کی وہ گندی مٹی ایک دم غائب ہو گئی تھی
اب گڑھے میں سفید روشنی سے بنی سیڑھیاں تھیں گڑھے سے باہر نکلنے کا واحد راستہ پر یہ تو روشنی سے بنی ہیں فرشتے نے اپنا ہاتھ ان سیڑھیوں سے گزارا تھا اور وہ واقعی آر پار ہوگیا تھا۔ بھلا اس پہ کیسے چڑھا جا سکتا ہے؟؟
وہ سوچ میں پڑ گئی تھی اور وہ شرک کی مٹی پھر سے اس کے پیروں سے لپٹنے لگی تھی لیکن پھر اسنے بہت اطمینان سے سیڑھی پر پاوں رکھا تھا۔ اسکے ہونٹ مسکرا رہے تھے اور دل سورة يس کی آیت تلاوت کر رہا تھا@ إنما أمره إذا أراده شيا أن يقول له كن فيكون@
”اور جب وہ کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہتا ہے ہو جا اور پس وہ ہو جاتا ہے”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکی آنکھ کھل چکی تھی نہ گھٹن تھی نہ تھکن۔ دور موذن تہجد کی صدا دے رہا تھا
فجر بھی اکثر چھوڑ دینے والی آج تہجد پڑھ رہی تھی
وہ اپنی رو میں سورة بقره کےآخری رکوع کی تجوید کے ساتھ قرات کر رہی تھی۔( کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی تہجد میں اسی کی قرات کرتے تھے اکثر) اور ساتھ والے کمرے میں موجود دو نفوس نے اپنے سینے کو دین بر حق کے لئے کھلتا محسوس کیا تھا
اور الله جسے چاہے اور جب چاہے ہدایت دے اور بیشک وہ غالب حکمت والا ہے
۔۔۔۔۔ختم
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...