ماہیا نگار انور مینائی سے میرا پہلا تعارف ستمبر ۱۹۹۴ءمیں ہوا۔ اس ماہ کے رسالہ ”صریر“کراچی میں ان کا ایک خط چھپا تھا اور ”صریر“ کے مخصوص انداز کے مطابق خط کے ساتھ ہی ایڈیٹر ”صریر“ڈاکٹر فہیم اعظمی کا جواب بھی چھپا تھا۔ اس خط اور اس کے جواب کا ماہیے سے متعلق قابل ذکر حصہ یہاں پیش کر رہا ہوں:
انور مینائی کے خط کا اقتباس :گزشتہ مرتبہ پندرہ ماہیے بروزن مفعول مفاعیلن/ فعل مفاعیلن یعنی آپ کے تائید کردہ وزن پر اشاعت کے لیے روانہ کیے تھے۔ اپریل کے شمارہ میں شائع نہیں ہوئے۔ غالباً اگلی اشاعت کے لیے آپ نے محفوظ کر لیے ہوں گے۔
ادارہ صریر: انور مینائی صاحب! آپ کے ماہیے ہمارے پاس محفوظ ہیں اور شائع ہوں گے۔ ویسے انور مینائی صاحب دوہے کی طرح ماہیا بھی گیت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جن کا تعلق اس مٹی سے نہیں ہے جہاں ماہیا پیدا ہوا، ان کی کوشش ارادی ہو جاتی ہے۔ ان کے ماہیے میں Rustictouchکم اورSophisticationزیادہ آجاتاہے ۔ آپ کا ایک ماہیا ہے ۔
ہر موج میںبہتا ہوں/پنجابی دھن میں/ میں ماہیے کہتا ہوں/
تو بھائی دھن تو ٹھیک ہے لیکن موضوع، احساس ، جذبات ، وارفتگی تمثال تو وہ نہیں ہوتے۔
ڈاکٹر فہیم اعظمی کی بات اصولی طور پر درست تھی ،اگرچہ اس میں یہ استشنائی گنجائش بھی ہے کہ پنجابی اور اردو کے درمیان گہری لسانی قربت ہے اور جغرافیائی لحاظ سے بھی پنجاب سے ملتے ہوئے اردو کے علاقے دونوں زبانوں کو مزید قریب لے آتے ہیں۔ اس لحاظ سے کہہ سکتے ہیں کہ برصغیر کی زبانوں میں پنجابی اور اردو ایک دوسرے سے کافی قریب ہیں تاہم ڈاکٹر فہیم اعظمی کی بات بھی یکسر غلط نہیں ہے۔ البتہ انہوںنے اپنا موقف جس ماہیے کی مثال کے ساتھ بیان کیا ہے وہ مثال درست نہیں ہے کیونکہ انور مینائی کا مذکورہ بالا ماہیا ایک خوبصورت ماہیا ہے جو پنجابی کے ماہیے کے وزن کے مطابق اور مزاج سے کافی قریب ہے۔ انور مینائی کرناٹک، بنگلور سے تعلق رکھتے ہیں جو جغرافیائی لحاظ سے پنجاب سے قریب نہیں ہے۔ اس کے باوجود ان کا یہی ماہیا پڑھ کر میں نے محسوس کر لیا تھا کہ ان کے اندر ایک اچھا ماہیا نگار چھپا ہوا ہے۔ پھر میں نے دو ماہی گلبن احمد آباد کے شمارہ نومبر، دسمبر ۱۹۹۴ءمیں ان کے چند ماہیے پڑھے:
کیا میت نہیں کوئی
ہونٹوں پہ مہنی کے
اب گیت نہیں کوئی
دھن پیار کا ٹھکرا کر
افسوس اب ساجن
پردیس بسے جا کر
ہے آج ہوا پاگل
تجھ کو بلاتاہے
پیڑوں کا ہرا آنچل
شہروں کی زمیں تر سے
لیکن سمندر پر
ساون کی گھٹا برسے
یہ سارے ماہیے درست وزن میں تھے۔تب میں نے ان سے رابطہ کیا اور انہیں لکھا کہ آخری ماہیے کا دوسرا مصرعہ وزن کے لحاظ سے یوں بھی چل سکتا ہے لیکن اگر وہ دوسرے مصرعہ میں لفظ”لیکن “ کی جگہ ”اور “ کر لیں توماہیا زیادہ خوبصورت ہو جائے گا۔ یعنی:
شہروں کی زمیں تر سے
اور سمندر پر
ساون کی گھٹا برسے
انور مینائی علم عروض میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کی کتاب ”شہکار عروض و بلاغت“ چھپ چکی ہے۔پی۔ایچ۔ڈی کا تحقیقی مقالہ مکمل کر چکے ہیں۔ ان کی عالی ظرفی ہے کہ انہوںنے نہ صرف میری تجویز کو قبول کیا بلکہ پنجابی ماہیے کے وزن کے ساتھ اس کے مزاج کو سمجھنے کے لیے میرے ساتھ مسلسل خط و کتابت کی۔ بھار ت میںرشید اعجاز اور نذیر فتح پوری کے بعد کسی شاعر نے ماہیے کو سب سے زیادہ فروغ دینے کی کوشش کی ہے تو وہ انور مینائی ہیں۔ ان کے بہت سارے ماہیے اردو کے خوبصورت ماہیے کہے جا سکتے ہیں۔
بے مثل جوانی ہے
خوشبو فدا تجھ پر
تو پھولوں کی رانی ہے
یہ دکھ کے جھمیلے ہیں
ہم دونوں اب تک
مل کر بھی اکیلے ہیں
بے رنگ سی کلیاں ہیں
سجنی کہاں ہے تو
اجڑی ہوئی گلیاں ہیں
ہے رنگ بہت گہرا
سرخی اناروں کی
تکتی ہے ترا چہرہ
پھر لوٹ کے بچپن میں
آﺅ ذرا کھیلیں
برسات کے آنگن میں
شاداب فضائیں ہیں
جنگل میں ہر سو
برگد کی جٹائیں ہیں
سفاک ہواﺅں میں
بھسم نہ ہوجاﺅں
رشتوں کی چتاﺅں میں
گرمی میںجھلستی ہیں
پانی کی خاطر
فصلیں بھی ترستی ہیں
پھر کیسے پرائے ہیں
ہم تو تمہاری ہی
آواز کے سائے ہیں
ریت آنکھوں میں چبھتی ہے
اب مری نظروں میں
ساحل ہے نہ سیپی ہے
انور مینائی کے ماہیوں میں ظلم اور نا انصافی کے ، انسانی المناکی کے مضامین بھی آئے ہیں۔ بظاہر ایسے مضامین ماہیے میں نہیں جچتے لیکن ان ماہیوں کو ادبی لحاظ سے ترقی پسند تحریک کے حوالے سے دیکھا جائے تو اردو میں نہ صرف قابل قبول لگتے ہیں بلکہ ماہیے کے مضامین میں اضافے کا موجب بھی لگتے ہیں۔ البتہ اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا کہ ایسے ماہیوں کو ماہیا اپنے اندر بساتا ہے یا نہیں؟انور مینائی کے ایسے چند ماہیے دیکھیں۔
زخموں کے نوادر ہیں
میری نگاہوں میں
خوںرنگ مناظر ہیں
کانٹوں پہ نوازش ہے
پھولوں سے کہہ دو
موسم کی یہ سازش ہے
پھل توڑو تو خطر ہ ہے
سبز درختوں پر
سانپوں کا بسیرا ہے
رُت آئی ہے پت جھڑ کی
مجھ سے نہیں ہو گی
گیتوں کی پذیرائی
یہ سچ کی تباہی ہے
اب کے عدالت میں
جھوٹوں کی گواہی ہے
ہوتا نہیں میں غارت
لمحوں سے لڑتا ہوں
جیون ہے مہا بھارت
انور مینائی کے ماہیوں میں درختوں اورجنگلوں کا ذکر کچھ اس انداز میں ملتا ہے:
ہر شاخ لچکتی ہے
تیز ہواﺅں سے
جامن بھی ٹپکتی ہے
برسے ہیں یونہی پتھر
خوشبو تھرکتی ہے
اب آم کے پیڑوں پر
موسم کا بلاوا ہے
مستی لٹاتی ہے
پیپل کی جو چھایا ہے
سناٹوں کے جنگل میں
بستی دھنس جاتی
ہے رات کی دلدل میں
پنجابی ماہیے میں فکر کے مقابلہ میں جذبہ غالب رہتا ہے جب کہ انور مینائی کے ہاں فکر کا غلبہ زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ ویسے اردو میں جذبے اور فکر کے فطری توازن سے ماہیے کے ارتقاءمیں اہم کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔ انور مینائی یہی کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جوگی کا بسیرا ہے
جیون کا ہے کا
اک دھوپ کا صحرا ہے
پھر چاہے بکھر جاﺅ
پہلے مرے اندر
چپ چاپ اتر جاﺅ
حرکت سی ہے ساکن میں
معنی کی دنیا ہے
الفاظ کے باطن میں
پڑ جاﺅ گے الجھن میں
چہرہ ذرا دیکھو
حالات کے درپن میں
اک زخم لگا گہرا
آنکھوں کے آگے
خوابوں کانگر اجڑا
کیا آب ہے چہروں میں
ہم تم بہہ نکلے
جذبات کی لہروں میں
انور مینائی کے اس انداز کے ماہیوں میںان کا جذبہ اور فکر دونوں متوازی ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔انور مینائی اردو ماہیے کے ان اہم ابتدائی شعرا میں سے ہیں جنہوںنے ماہیے کے وزن اور مزاج کو برقرار رکھنے میںبنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اور اس کے ارتقاءکے امکانات کو اجاگر کیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ انور مینائی اردو ماہیے سے اپنی محبت کو قائم رکھیں گے۔ اس نوخیز شعری صنف کو تخلیقی لگن کے ساتھ اپنے جذبوں اور فکر کے رچاﺅ سے مزید خوبصورت ماہیے عطا کریں گے اور اس کے دامن کو اپنے ماہیوں سے مالا مال کردیں گے۔
٭٭٭٭