انوار احمد:مختصر تعارف
انوار احمد ۳اپریل ۱۹۵۴ء کو ربوہ میں پیدا ہوئے۔
ہم مزاج شعراء کا وہ حلقہ جو محمد خالد،ابرار احمداور ان کے دوسرے ساتھیوں پر مشتمل تھا،ان میں انوار احمد ایک عمدہ شاعر کے طور پر ابھر رہے تھے۔انوار احمدربوہ کے قریب لالیاں اڈہ پر یو بی ایل میں ملازم تھے۔وہ اپنی تعلیمی قابلیت کی بنا پر اس ملازمت کے اہل تھے۔ لیکن چونکہ ہمارے معاشرہ میں رشوت اور سفارش کے بغیر جائز کام نہیں ہوتے،چنانچہ انہیں بھی ملازمت کے حصول کے لیے وزیر آغا اور احمد ندیم قاسمی سے سفارشی خطوط لکھوا کر مشتاق احمد یوسفی تک رسائی حاصل کرنا پڑی۔قاسمی صاحب نے ۲۹ستمبر۱۹۷۵ء کو ابنِ انشاء کے نام خط میں مشتاق احمد یوسفی سے کام بنوانے کا لکھا،جبکہ آغا جی نے ۱۱اکتوبر۱۹۷۵ء کو اپنے
خط میں مشتاق احمد یوسفی صاحب کو انوار احمد کی ملازمت کے لیے سفارش کی۔مشتاق احمد یوسفی کی توجہ سے انہیں یہ ملازمت مل گئی۔ ان سفارشی خطوط کو لکھنے والوں اور مکتوب الیہان کے ناموں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انوار احمد ۲۱ برس کی عمر میں ہی اپنی تخلیقی
صلاحیتوں کے باعث اپنے عہد کے ممتاز ترین سینیئرز کی توجہ حاصل کر چکے تھے۔ تاہم افسوس کہ ۵اپریل ۱۹۸۴ء کو اپنی ڈیوٹی پر جاتے ہوئے وہ ایک ٹریفک حادثہ میں جاں بحق ہو گئے۔ ان کی وفات پر منو بھائی نے جنگ اخبار میں ایک اثرانگیز کالم بھی لکھا تھا۔کسی دوست کی دسترس میں وہ کالم ہو توجدید ادب میں اشاعت کے لیے مجھے فراہم کر دیں شکر گزار ہوں گا۔
مجھے انوار احمد کے بڑے بھائی جناب عمر حیات صاحب اور اپنے چھوٹے بھائی عزیزم نوید انجم کے ذریعے انوار احمد کی یہ کُل ۱۳غزلیں اور چندنظمیں مل سکی ہیں،اس بار غزلیں شائع کی جا رہی ہیں۔اگلے شمارہ میں ساری دستیاب نظمیں شائع کی جائیں گی۔اس دوران ان کے کسی عزیز یا دوست کے پاس ان کوئی اور کلام موجود ہو تو وہ جدید ادب کے لیے بھیج سکتے ہیں۔
حیدر قریشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انوار احمد
وہ ایک عکس ہے پیدا ہر آئینے میں ہے
جو فرق ہے تو فقط تیرے دیکھنے میں ہے
نظر فریب ہیں منظر جہانِ امکاں کے
فصیلِ جسم مگر میرے راستے میں ہے
میں اپنے آپ سے باہر نہ خود کو دیکھ سکا
مری مثال کہاں تیرے آئینے میں ہے
جو سو گیا ہے اسے کیا کہ کیا ہے سایہ و نور
دیارِ شب کی سیاہی تو جاگنے میں ہے
اسی نگاہ سے روشن ہیں آئینے دل کے
وہ کم نگاہ نہیں،تیرے دیکھنے میں ہے
ہیں جس کو دیکھ کے صحرا کے بام و در لرزاں
وہ سورجوں سا بدن اپنے قافلے میں ہے
ہے وقت ، دیکھ لے جی بھر کے روئے زیبا کو
ابھی تو دیر بہت اُس کے جاگنے میں ہے
تمہارے حصے بھی آئی متاعِ درد بہت
مرا خیال تھا انوارؔ فائدے میں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوچتا ہوں کہ تعلق میرا کیا ہے مجھ سے
مجھ میں گُم ہے کہ مری ذات جدا ہے مجھ سے
سنگ زن آج خدا جانے گریزاں کیوں ہے
کوئی بتلاؤ کہ کیا جرم ہُوا ہے مجھ سے
میں نے تو اپنی انا کا بھی اڑایا ہے مذاق
کیوں خوشامد کا طلبگار خدا ہے مجھ سے
تُو نے جانکاہیِ پیہم سے سمیٹا تھا مجھے
آج کیوں خود ہی بکھرنے کو کہا ہے مجھ سے
اجنبی لب مرے نغموں کے سزاوار ہوئے
بہت آگے میرا نقشِ کفِ پا ہے مجھ سے
شدتِ تشنگیِ خونِ شہیداں تجھ سے
رونقِ رزم گہِ کرب و بلا ہے مجھ سے
میں نے آواز نہ دی پاسِ ادب سے تجھ کو
اور تُو ہے کہ تجھے وہمِ جفا ہے مجھ سے
ہے یہی خوف کہ مر جائے نہ گھُٹ کر تُو بھی
ترے محبوس مکانوں میں ہوا ہے مجھ سے
گمرہی کچھ بھی سمجھ کیوں نہیں آتا آخر
میں ہوں بیزار خدا سے کہ خدا ہے مجھ سے
کبھی دیمک کی طرح چاٹ گیا لفظ کا بیج
کبھی خورشیدِ معانی بھی اُگا ہے مجھ سے
شائد انوارؔ مجھے اجنبی جانا اُس نے
آج تو اُس نے سلوک اچھا کیا ہے مجھ سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریک راستوں میں ضیا میرے ساتھ تھی
اندھے سفر میں ماں کی دعا میرے ساتھ تھی
بارش تھمی تو سرد ہوا میرے ساتھ تھی
آنسو رکے تو آہ و بکا میرے ساتھ تھی
کچھ اِس طرح وہ لغزشِ پا میرے ساتھ تھی
میں مر گیا تو پھر بھی سزا میرے ساتھ تھی
کیا کیا گماں تھے مجھ کو کہ کیا میرے ساتھ تھا
چھُونے لگا تو دیکھا ہوا میرے ساتھ تھی
چلتا تھا دشت دشت میں پرچھائیں اوڑھ کر
ہر دھوپ کے سفر میں رِدا میرے ساتھ تھی
درپے تھے اہلِ شہر کہ لے جائیں تیری یاد
لیکن وہ ایک مردِ خدا میرے ساتھ تھی
کیسے بکھرتا میں کہ کِھلا ہی نہ تھا کبھی
صر صر چلی نہ بادِ صبا میرے ساتھ تھی
میں نے بھی تھام رکھی تھی موسم کی باگ ڈور
چلتا تھا جِس طرف بھی ہوا میرے ساتھ تھی
مجھ سے ہی پوچھتی تھی مرے گھر کا راستہ
میری ہی جستجو میں قضا میرے ساتھ تھی
میں دشتِ یادِ یار سے کیسے گُذر گیا
انوارؔ شائد اُس کی دعا میرے ساتھ تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
در و دیوار یوں اُداس نہ تھے
تم تو پہلے بھی میرے پاس نہ تھے
تیرے آنے سے کھِل اٹھا سبزہ
ورنہ اِس گھر کو گل بھی راس نہ تھے
آج دیکھا ہے تجھ کو مُدت بعد
پہلے یہ پھول تیرے پاس نہ تھے
گُل بھی عریانیاں پہنتے تھے
پر تری طرح خوش لباس نہ تھے
تھے ورق تو کتابِ گُل کا مگر
ہم پہ اوروں سے اقتباس نہ تھے
سُوکھتے ابر کی جدائی میں
ہم وہ کنجِ چمن کی گھاس نہ تھے
مرمٹے تیری انتہاؤں پہ بھی
ہم فقط کُشتہِ لباس نہ تھے
وقت کیسے ہمیں کھنڈر کرتا
ہم کسی شہر کی اساس نہ تھے
ساحلِ بحرِ بے خودی کی طرح
ہم کبھی اپنے آس پاس نہ تھے
خار پِھرتے تھے بھیس میں گُل کے
ہم ہی انوارؔ غم شناس نہ تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترے مزاج سے اے دوست بدگماں بھی نہیں
مگر یہ بات کہ یہ طرزِ دوستاں بھی نہیں
ہے جستجو تری دل میں تو ڈھونڈ لیں گے تجھے
نقوشِ پا تو اگرچہ ترے یہاں بھی نہیں
پڑا وہ قحط کہ نایاب آفتیں بھی ہوئیں
گرے گا کیا کہ سروں پر تو آسماں بھی نہیں
زمیں کی سمت شُعاعوں کے تیر کیا آئیں
اُفق کے ہاتھ میں سورج کی اب کماں بھی نہیں
نشاط کے بھی جزیرے ہیں بحرِ غم بھی بہت
یہ بے کراں ہے مگر ایسا بے کراں بھی نہیں
متاعِ غم ہے غنیمت سمیٹ لے تو بھی
جو فائدہ ہے بہت کم تو یہ زیاں بھی نہیں
کچھ ایسا رویا میں کھُل کر کہ بُجھ گئے الفاظ
سناؤں کیا کہ مرے پاس داستاں بھی نہیں
فقط نگاہ کی دستک سے کھول دے جو کواڑ
دیارِ دل میں تو ایسا کوئی مکاں بھی نہیں
ہیں اُس کے شہر میں سب دل کے چور دروازے
وہ ایک شخص کہ جو اپنا رازداں بھی نہیں
ہر ایک بات پہ انکار مت کرو انوارؔ
کہو گے کس کو کہ منہ میں مرے زباں بھی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کنجِ زنداں سے ہے صبا نکلی
جسم سے اپنے جان کیا نکلی
ہو گیا بند سب پہ بابِ قبول
میرے ہونٹوں سے جب دعا نکلی
موت سے تو میں بچ ہی نکلا تھا
رات جانے کہاں سے آ نکلی
اک ستارہ سا بازووئں میں لئے
گھر سے وہ چاندنی نما نکلی
آج اُسکو بھی مل کے دیکھ لیا
یہ حقیقت بھی واہمہ نکلی
اجنبی کیسی کیسی چیزیں ہیں
شاعری ہی بس آشنا نکلی
میں گزر ہی گیا تھا بس انوارؔ
وہ اچانک گلی میں آ نکلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس کے سِوا ہے شہر میں مجھ سا اُداس کون
آیا نہ دل کو وہ بھی تو آئے گا راس کون
روتا ہوں میں نہ جانے یہ کس کی جدائی میں
مجھ کو خبر کرو کہ نہیں میرے پاس کون
میں قریہءِ ملال سے آیا ہوں دوستو!!
مجھ کو بتاؤ شہر میں ہے غم شناس کون
لپٹا ہوا ہے دھند میں دن کو بھی سارا شہر
پھرتا رہا ہے رات نہ جانے اداس کون
روتی تھیں جو مرے لیئے آنکھیں نہیں رہیں
اب کے بجھائے گا مرے ہونٹوں کی پیاس کون
پہلے سے اب وہ سرد رواں یاں نہیں رہے
روندے گا اب کے پاؤں تلے سبز گھاس کون
کس نے ڈرا دیا ہے ہمیں اسمِ زرد سے
پھیلا گیا ہے شہر میں خوف و ہراس کون
اُس سے کہو کہ دیکھ ہمیں بھولنا نہیں
دیکھو بکھیرتا ہے ہواؤں میں باس کون
اپنے سوا کسی کو نہیں مَیں سمجھ سکا
پھرتے ہیں کیا خبر یہ مرے آس پاس کون
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو چٹانوں میں چھپا ہے وہ نظر کب آئے گا
منتظر بیٹھا ہوں کوئی نقش گر کب آئے گا
ختم ہونے میں یہ صدیوں کا سفر کب آئے گا
اے تھکے ہارے مسافر اپنے گھر کب آئے گا
اب تو تنہائی بھی اپنے آپ سے ڈرنے لگی
تجھ کو اپنے گھر کی دیرانی سے ڈر کب آئے گا
صبح کی اہٹ کی صورت گو نجتی ہے ترے چاپ
چاند بھی سونے لگا تُو بام پر کب آئے گا
وہ ابھی آیا نہیں اور دل میں آتے ہیں خیال
آج آئے گا تو پھر بارِ دگر کب آئے گا
اجنبی لہجے میں ان ناآشنا چہروں سے پوچھ
پھر اُنہی مانوس لفظوں کا نگر کب آئے گا
دل گرفتوں کیلیئے رونا بھی گو آساں نہیں
اُس کو لیکن اعتبارِ چشمِ تر کب آئے گا
رات کو انوارؔ گر تُو دن بھی کہ سکتا نہیں
زندگی کرنے کا پھر تجھکو ہنر کب آئے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں خستہ تن سمیٹے تری رہ گزار میں
اے خوش نما ہوں ایسے ترے انتظار میں
جیسے برہنہ شاخ نے پھیلا رکھے ہوں ہاتھ
اُمیدِ پیرہن کہ چھپے برگ و بار میں
یہ بے حسی کی برف پگھل جائے گی کبھی
اور تُو سُنائی دیگا ہر اک آبشار میں
تُو نقشِ پائے اہلِ طلب کی تلاش میں
پھیلے گا جنگلوں میں کبھی لالہ زار میں
خوشخط! میں آہٹوں کو اُجالوں تو کس طرح
خورشید کی نگاہ کے تُو اختیار میں
میں ریگ زارِ جسم سمیٹے رہا اک عمر
اس سے طویل جبر کہاں اختیار میں
جب صر صرِ شمال سے بکھریں گے خستہ تن
پھر منتظر نہ ہو گا کوئی ریگزار میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاید اس رنگ میں تُو چاہے گا
ہم ہر اک بھیس بدل کر آئے
اجنبی شہر میں دستک کیسی
جانے کیوں گھر سے نکل کر آئے
ّآگ کچھ ایسی لگی تھی دل میں
آنکھ میں آنسو بھی جل کر آئے
یوں وہ ہر بات کا دیتا ہے جواب
جسطرح گیند اُچھل کر آئے
ہم اسی واسطے پھسلے ہیں یہاں
کوئی آئے تو سنبھل کر آئے
مل گیا تُو تو تھکاوٹ کیسی
گو بڑی دور سے چل کر آئے
سوچ کر بھی جسے ڈرتے تھے بہیت
اُس سے وہ بات بھی کل کر آئے
اپنی تعریف تو ہو گی لیکن
کوئی اِس راہ سے چل کر آئے
میں تو انوارؔ نہیں تھا گھر میں
دوست کیوں راہ بدل کر آئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر ایک لفظ سے یوں ہی گذر گیا کوئی
پر اس کا نام جب آیا ٹھہر گیا کوئی
یہ اور بات کہ جاں سے گذر گیا کوئی
دیارِ شب کو چراغاں تو کر گیا کوئی
اب اُس بگولہ صفت کی تلاش کیا یارو
نقوشِ پا بھی نہ ہوں گے اگر گیا کوئی
کرے گی دشتِ وفا میں سموم و صرصر کیا
ہوا چلی بھی نہیں اور بکھر گیا کوئی
نہیں ہے شہر میں کوئی بھی دوسرا مجھ سا
یہ جاننے کیلیئے دربدر گیا کوئی
ہمیں خبر نہ ہوئی نیم وا دریچوں کی
نہ اپنے ذہن میں جب تک اتر گیا کوئی
کسی کے خوف سے لرزاں صدائے اسرافیل
اور اپنے پاؤں کی آہٹ سے ڈر گیا کوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُترا خدا کا نام مرے سرد جسم پر
چھلکا وہ نیلگوں سا مرے زرد جسم پر
اُڑتا رہا وہ شانِ گنہ کے جوار میں
اُترا پسِ صلیب مرے درد جسم پر
ان دیکھی بارشوں سے دُھلا دل کا رخِ سیب
خواہش کے پانیوں سے جمی گرد جسم پر
کھِلنے لگا سینہء مہک پھول دل کے بیچ
اُگنے لگا کریہ سیہ درد جسم پر
تن کے اُجاڑ خیمے پہ سُلگی دبیز دھوپ
مہکے خزاں کے پھول مرے زرد جسم پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بجھتے نہیں خورشید کبھی موجِ ہوا سے
اے درد نہ رکھ کوئی سروکار دوا سے
جب قرب تھا حاصل ہمیں اُس آفتِ جاں کا
تب ہم ہی گریزاں تھے رہ و رسمِ وفا سے
کیا کم نگہی تیری ہمیں سیر کرے گی
ہم لوگ کہ رہتے ہیں سمندر میں بھی پیاسے
یوں خار صفت راہ کے سینے میں اُتر جا
منزل بھی عیاں ہو تیرے نقشِ کفِ پا سے
اب تیری وفاؤں کے طلبگار ہیں ہم بھی
ہاں دیکھ تیرے عشق میں کیا ہو گئے کیا سے
غمخواریِ دل کی بھی کسے تاب ہے انوارؔ
زندانیِ وحشت کو بھلا کیسے دلاسے