ایک دن صبح سویرے جب لوگ انتریامی کے کمرے میں داخل ہوئے تو دیکھا وہ موت کی آغوش میں پرسکون لیٹا ہوا ہے۔ اس کے دائیں جانب سوکھے پیپل کے پتوں کا ایک ڈھیر ہے جن کے بیچ ایک کاغذ پر مختصر سی وصیت لکھی پڑی ہے۔ ’’ان پتوں کو بھی میری قبر میں دفنا دیا جائے‘‘ اور بائیں جانب زہر کی شیشی سر کے بل کھڑی ہوئی ہے۔ درمیان میں ہنستا مسکراتا انتریامی چین کی نیند سو رہا ہے۔ موت بھی انتریامی سے اس کی ہنسی نہیں چھین پائی تھی۔
مرنے والے نے تو خیراسے ہنسی خوشی گلے لگا لیا تھا لیکن موت بہرحال موت تھی۔ انتریامی کے پسماندگان اور مریدوں کواس نے غمگین و سوگوار کر دیا تھا۔ انتریامی نے چونکہ از خود برضا اور رغبت ملک الموت کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا تھا اس لئے فرشتۂ اجل کو اس کے ساتھ کسی زور زبردستی کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی وہ بھی اپنے والد چنا سوامی کی مانند شاداں و فرحاں آخری سفر پر چل پڑا تھا۔
لوگ انتریامی کے فوت ہو جانے کے بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں کرنے لگے تھے لیکن خود اس نے کبھی موت کا کوئی قیاس یا گمان نہیں کیا تھا۔ وہ تو زندگی کا پیغامبر تھا۔ وہ زندگی کے حوالے سے سوچتا تھا اور بہت سوچتا تھا۔ اپنے فکر و تدبر کے انوکھے سفر میں اس نے کیف و نشاط کے مختلف مدارج طے کئے تھے اور ان سے خوب لطف اندوز ہوا تھا۔
ابتدا میں وہ ہر کس و ناکس کے بارے میں سوچا کرتا تھا۔
فلاں شخص کیا کر رہا ہے؟
اسے وہ کام کرنا چاہئے یا نہیں؟
اگر ہاں تو کیوں؟ اور نہیں تو کیوں نہیں کرنا چاہئے؟
وہ کر گذرے گا تو کیا ہو گا؟ اور اگر نہیں تواس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
اس نے وہ کام اس طرح کیوں کیا؟
ایسے کرنے کے بجائے کسی اور طریقے سے کیوں نہیں کیا؟
ایسا کرنے کے بجائے ویسا کرنے سے کیا فرق پڑتا؟ وغیرہ وغیرہ
اس طرح کے لایعنی سوالات میں ایک طویل عرصے تک انتریامی نے اپنے آپ کو الجھائے رکھا۔ ایک دن جب وہ عالم مشاہدات سے باہر آیا تو اچانک اس مرحلہ نے دم توڑ دیا۔ ماضی کی لاش کے سرہانے بیٹھا انتریامی اپنے آپ سے سوال کر رہا تھا۔ اے احمق انسان! یہ تو کس بکھیڑے میں پڑا ہوا ہے۔ آخراس سوچ بچار کا حاصل کیا ہے؟ تو ان لوگوں کے بارے میں اس قدر کیوں سوچتا ہے کہ جن سے تیرا نہ کوئی تعلق ہے اور نہ لین دین ہے۔
انتریامی نے اپنی فکر مندی کے دائرے کو قدرے محدود کرنے کا فیصلہ کیا۔ غیروں کو اپنی فہرست میں سے خارج کرنے کے بعد صرف ان لواحقین پر اپنی توجہ مرکوز کر دی جو کسی نہ کسی درجہ میں اس پر انحصار کرتے ہیں یا جن کا وہ سہارا لیتا ہے۔ ایسے لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں تھی اور پھر ان لوگوں میں سے ہر ایک کے بارے میں سوچنے کیلئے بہت کچھ تھا۔
انتریامی نے آگے چل کر محسوس کیا کہ یک گونہ اپنائیت کے باوجود ان پر اس کا اختیار بالکل نہیں ہے۔ وہ عقیدتاً یا احتراماً انتریامی سے مشورہ تو کرتے ہیں لیکن اس کی ہر رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ جب عمل درآمد کا موقع آتا ہے تو ان احکامات کو بجا لاتے ہیں جو اپنی مرضی کے مطابق ہوتے ہیں مگر جو مشورہ ان کی پسند کے خلاف ہوتا ہے اس سے انحراف کرجاتے ہیں۔ گویا عملاً وہ اس کی نہیں بلکہ اپنے نفس کی پیروی کرتے ہیں۔
اس طرح انتریامی کی یہ خوش فہمی بھی دور ہو گئی کہ لوگ اس کو بہت مانتے ہیں۔ اسی کے ساتھ وہ اس کڑھن سے بھی نجات پا گیا کہ لوگ اس کی ہر بات کیوں نہیں مانتے۔ وہ اس آفاقی حقیقت کا قائل ہو چکا تھا کہ اس کار گہ ہستی میں کوئی کسی کی نہیں مانتا۔ سب کے سب اپنی من مانی کرتے ہیں۔
اس چونکا دینے والے انکشاف نے انتریامی کو ان تمام لوگوں سے بھی بے نیاز کر دیا جن کو وہ اپنا شمار کرتا تھا۔ رشتے ناطوں کی معرفت سے وہ ہمکنار ہو چکا تھا۔ اسے پتہ چل گیا کہ دنیا کے اس مایا جال میں کوئی کسی کا نہیں ہے۔ ہر کوئی صرف اور صرف اپنے نفس کا بندہ ہے۔ رشتہ و پیوند محض وہم و گمان کا گورکھ دھندہ ہے۔ اس نے دوسروں کے بارے سوچ سوچ کر اپنی جان ہلکان کرنے کے کرب سے دائمی نجات کی خاطر ایک ضربِ کاری سے اس بت کو بھی مسمار کر دیا۔
انتریامی کی تمام تر توجہات کا مرکز اب اس کی اپنی ذات تھی جو اس سے قبل پر ہجوم دنیا میں نہ جانے کہاں کھو گئی تھی۔ وہ اوروں کی جستجو میں اپنے آپ سے بیگانہ ہو گیا تھا۔ اپنے نفس کی باز یافت سے انتریامی پھولا نہیں سمارہا تھا۔ اپنے آپ میں مست، مسرت و شادمانی کے جذبات سے سرشار انتریامی ایک نئے جہان کے سفر پر نکل پڑا تھا۔ اب اس کی زندگی کا واحد مقصد معرفت ذات کی عظیم بلندیوں کو سر کرنا تھا۔ وہ اپنے اندر گہرائی تک اتر جانا چاہتا تھا۔
اس کی اپنی ذات و صفات کے بھی بے شمار گوشے تھے۔ وقت کے ساتھ اس نئے مشغلے سے وہ لطف اندوز ہونے لگا۔ اب وہ اپنے آپ کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنے لگا تھا۔ خود میں کھو کر دوبارہ اپنے آپ کو پا لینے کی جستجواس کا مقصدِ حیات بن گئی تھی۔ خود اپنی تلاش میں سر گرداں انتریامی ایک نئی دنیا کی سیر کر رہا تھا۔
آغازِ سفر اس سوال سے ہوا کہ اے انتریامی آخر توہے کون؟
بظاہراس آسان سے سوال کا بھی کوئی معقول جواب اسے سجھائی نہیں دیا۔ جو جوابات اس کے ذہن میں آئے وہ اسے مطمئن نہیں کر سکے۔
انتریامی نے سوچا چلو آگے بڑھتے ہیں اس سوال پر پھر لوٹ کر آئیں گے۔ اب دوسرا سوال یہ تھا کہ تیرے پاس تیرا اپنا کیا ہے؟ وہ کون سے وسائل و ذرائع تیرے پاس ہیں جن کی مدد سے تو پہلے سوال کا جواب حاصل کر سکتا ہے؟
انتریامی کے دل سے آواز آئی تیرا ماضی تیرا اپنا ہے انتر یامی۔ تیرا اپنا ماضی۔ یہی وہ سرمایۂ حیات ہے جسے تو اپنی کمائی کہہ سکتا ہے۔ اس جواب میں امید کی ایک کرن تھی۔ وہ کسی قدر مطمئن ہو گیا۔ اسے یقین ہو گیا کہ اپنے ماضی کی مدد سے وہ عرفانِ ذات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
ماضی کے صحرا میں جب انتریامی نے قدم رکھا تو کیا دیکھتا ہے کہ یہاں پر بہت سارے نشانات پہلے ہی مٹ چکے ہیں اور جو موجود ہیں وہ بھی روبہ زوال ہیں۔ اگر ان سے استفادہ کرنے میں اس نے تاخیر کر دی تو مبادہ تختی صاف ہو جائے گی اور یہ خزانہ خالی ہو جائے گا۔ پھر اس کے پاس گنوانے کیلئے بھی کچھ نہ ہو گا۔
چشمِ تصور میں ماضی کے نقوش پر وہ قدم بہ قدم آگے بڑھ رہا تھا۔ ان پر پیچ پگڈنڈیوں پر اس کو کبھی اپنے اعزہ و اقارب نظر آتے تو کبھی دوست و احباب سے ملاقات ہو جاتی۔ وقتاً فوقتاً اساتذہ کرام بھی دکھائی دے جاتے تھے۔ وہ ان سب سے اپنے بارے میں مختلف سوالات کرتا۔ ہر ممکن معلومات کو دامن میں سمیٹتا اور ان کا تجزیہ کر کے تصدیق کے مختلف درجات میں انہیں محفوظ کر دیتا۔
خود آگہی کے جنون میں عرصۂ حیات کا طویل دورانیہ مختلف لوگوں کے ذریعہ حاصل کردہ بے مصرف معلومات کے حصول میں صرف ہو گیا۔ رفتہ رفتہ ابتدائی مسرت کا جھرنا برف کی سِل میں تبدیل گیا۔ ا س مرحلے میں انتریامی خود کلامی میں مبتلا ہو گیا اس نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ آخر اس ماضی کی زنبیل میں رکھا ہی کیا ہے؟ یہ تو محض خالی خولی احساسات و جذبات کا کباڑ خانہ ہے۔ اس کے سوا یادِ رفتگان میں کچھ بھی تو نہیں ہے۔
دور سے خوشنما نظر آنے والے یادوں کے حسین آبگینوں کو جب چھونے کی لغزش کی جاتی تو وہ چھوئی موئی کی مانند مرجھا جاتے تھے۔ وہ سوچنے لگا کہ آخر وہ کون سی ہستی ہے جس نے اس کے ماضی کا وجود چھین کر اسے خیالِ محض میں بدل دیا ہے۔ بے وزن وہم و گمان کا ایک خیالی جہان جس کی کوئی وقعت و حیثیت نہیں ہے۔ ماضی کی یادوں میں غیر مرئی کیفیت تو تھی مگر حقیقی کمیت ندارد تھی۔
گردش زمانہ گھڑی کے کانٹوں کو بڑی تیزی سے گھما رہا تھا اور انتریامی ان کانٹوں کی صلیب پر لٹکا اپنے زمانۂ حال کو ماضی میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اب اس کو اپنا ماضی ایک بے روح جسم کی مانند لگنے لگا تھا۔ وقت کا دھارا دریا کی مانند پلٹ کر بہنا نہیں جانتا تھا۔ یہ عجب تیر تھا کہ خطا بھی ہو جائے تب بھی ترکش میں دوبارہ لوٹ کر نہیں آتا تھا۔ ایک ایسی آتما کہ جب آسمان کی جانب محوِ پرواز ہو جاتی تو زمین کی جانب مڑ کر دیکھنا پسند نہ کرتی تھی۔
اپنے ماضی کی بے ثباتی سے انتریامی گھبرا گیا اس نے اپنے آپ سے ایک اور سوال کیا کہ تو آخر اس ماضی کا گرویدہ کیوں ہے جو محض ایک خواب ہے؟ اور خواب تو پھر خواب ہی ہوتا ہے۔ خوشگوار ہو یا بھیانک، وہ حقیقت نہیں ہوتا۔ اسے اپنی ایک اور غلطی کا ادراک ہو گیا۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ اب ماضی کے الاؤ میں اپنے حال کو نہیں جھونکے گا اس لئے کہ حقیقتِ حال کے سوا سب کچھ مجازی ہے۔
انتریامی نے جب اپنے حال پر غور کیا تو عجیب و غریب انکشافات سے دوچار ہوا۔ در اصل اس باب میں پہلے ہی سوال نے اسے چونکا دیا۔ حال اگر ایک مدتِ کار ہے تو اس کی ابتدا اور انتہا کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں انتریامی پر کائناتِ ہستی کا یہ راز کھلا کہ مبتدا اور منتہا ایک دوسرے سے بغلگیر ہیں۔ آپس میں اس طرح مدغم کہ ان کے درمیان بال برابر کا فاصلہ بھی نہیں ہے۔
مستقبل کی آنکھ سے ایک لمحہ گرتا ہے اور یکلخت ماضی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ سکون و اطمینان سے خالی اس سیماب صفت جوہر کے مرکز میں اضطراب و بے چینی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ماضی اور حال کے درمیان اسے بس اس قدر فرق نظر آیا کہ ماضی کا تالاب بے حس و حرکت ہے جبکہ حال کی گھڑی کے کانٹے اپنی منزل سے بیگانہ اپنے ہی محور کے ارد گرد بے تکان دوڑتے رہتے ہیں۔ انتریامی اب اپنے حال کی بے یقینی و بے ثباتی پر خندہ زن تھا۔
وہ جب حال کے جنجال سے نکلا تواس کی نظر مستقبل پر جا کر ٹک گئی۔ اب وہ پیچھے مڑ کر دیکھنے کے بجائے آگے دیکھ رہا تھا بلکہ دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس سعی و جہد میں انتریامی کو تمام تر کوشش کے باوجود آگے کچھ بھی نظر نہیں آیا۔ سب کچھ عالمِ غیب میں پوشیدہ تھا۔ انتریامی کو اپنے ہی مستقبل کے تاریک سمندر سے خوف محسوس ہونے لگا تھا۔ اپنی بے علمی کے سبب وہ اس بحر زخار میں اِدھر اُدھر ہاتھ پیر مار رہا تھا۔
علامۂ دہر کہلانے والے انتریامی پر جب یہ عقدہ کھلا کہ وہ اپنے مستقبل سے پوری طرح لاعلم ہے تو وہ اپنی کوتاہ بینی پر شرمسار ہو گیا۔ جو شخص خود اپنے مستقبل کے بارے میں کوئی بات یقین کے ساتھ نہ کہہ سکتا ہو اسے دوسروں کے بارے میں بلند بانگ دعووں کا اور پیش گوئی کا کیا حق ہے؟ اس سوال کا کوئی جواب انتریامی کے پاس نہیں تھا۔ انسان اس جہان رنگ و بو میں اس قدر بے یار و مدد گار بھی ہو سکتا یہ انتریامی نے سوچا تک نہیں تھا۔
انتریامی کو یوں محسوس ہوا کہ گویا وہ کسی تاریک غار میں بگ ٹٹ دوڑا چلا جا رہا ہے۔ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے کو دور کرنے کیلئے اسے روشنی درکار تھی۰۰۰۰۰ علم کی روشنی۰۰۰۰۰ اپنے مستقبل کا علم ۰۰۰۰۰ جو عالمِ غیب میں پوشیدہ تھا۔ اپنے مستقبل کی تاریکی کو دور کر کے اسے پر نور کرنے کی خاطر غیب کے علم کا حصول انتریامی کا تازہ ترین ہدفِ حیات بن گیا۔
مستقبل بینی کی غرض سے انتریامی نے پہلے تو روایتی ذرائع کو ٹٹولا۔ کبھی کسی جنم کنڈلی بتانے والے پنڈت تو کبھی طوطے کی مدد سے مستقبل کا راز کھولنے والے بازیگر سے رجوع کیا۔ ان پاکھنڈیوں سے مایوس ہو کر اس نے ایسے ماہر دست شناس نجومیوں سے رابطہ کیا جن کے اخبارات میں چرچے تھے۔ جو آئے دن سیاسی و سماجی پیشگوئیاں کیا کرتے تھے۔ ویب سائٹس اور ٹیلی ویژن پر لوگ ان سے رجوع کر کے پلک جھپکتے مستقبل میں پیش آنے والے مسائل کا نہ صرف عرفان حاصل کرتے بلکہ حل سے بھی مستفید ہوتے تھے۔
دست شناسوں کی ہاتھ کی صفائی بہت جلد انتریامی پر عیاں ہو گئی۔ نجومیوں کی ڈرامہ بازی نے اسے ان کے چنگل سے تو آزاد کر دیا لیکن علمِ نجوم کے دام میں گرفتار ہونے سے وہ اپنے آپ کو نہیں بچا سکا۔ انتریامی نے اب دوسروں پر انحصار کرنے کے بجائے بذاتِ خود ستاروں کی گردش کا مطالعہ شروع کر دیا تھا۔ یہ نیا مشغلہ خاصہ دلچسپ تھا۔ رات بھر ستاروں کی گردش پر نظر رکھنا اور دن بھر اس کا حساب کتاب کرنا۔ اس مشق کے بعد اپنے مستقبل کے بارے میں اندازے قائم کرنے کے بعد وہ تصدیق یا تردید کیلئے انتظار کے کرب میں مبتلا ہو جایا کرتا تھا۔
مشاہدات و تجربات کی بھٹی میں عرصۂ دراز تک تپنے کے بعد انتریامی نہایت دلچسپ نتیجہ پر پہنچا۔ اس کو پتہ چلا کہ سارے حساب و کتاب کے بعد بھی بیشتر پیشن گوئیاں غلط ثابت ہوتی ہیں۔ اس نے سوچا اگر وہ حالات و کوائف سامنے رکھ کر یونہی اندازے قائم کر لیتا تو ان کے درست نکلنے کے امکانات نسبتاً زیادہ قوی ہوتے۔ انتریامی کو اپنی اس جہد مسلسل میں یکے بعد دیگر ناکامیوں سے سابقہ پیش آ رہا تھا۔
وہ ایک ایسی پل صراط پر چل رہا تھا جس کے آخری سرے پر امید کا ایک ننھا سا دیا ضرور تھا لیکن دونوں جانب مایوسی کی گہری کھائی تھی۔ بار بار اس کا توازن بگڑتا اور بڑی مشکل سے وہ اپنے آپ کو سنبھال پاتا۔ پے درپے ناکامیوں سے دل برداشتہ انتریامی حزن و یاس کی کھائی میں تو ابھی نہیں گرا تھا لیکن خود اپنی نظروں سے گر چکا تھا۔ وہ اپنے آپ میں کھویا، کھویا، گم سم، گم سم رہنے لگا تھا۔
لوگوں سے اس کا ملنا جلنا بے حد کم ہو گیا تھا۔ لوگ بھی اس کی بے رخی کے باعث کنارہ کش ہونے لگے تھے۔ انتریامی کو تلاشِ ذات کی جستجو نے سارے عالم سے بیگانہ کر دیا تھا۔ عوام کی بے رخی سے بے نیاز وہ اپنے آپ میں مست تھا۔ ویسے وہ بالکل تنہا بھی نہیں تھا۔ اس کا شاگردِ رشید اویناش سائے کی طرح اس کے پیچھے لگا ہوا تھا۔ وہ ہمیشہ انتریامی کی خدمت میں حاضر رہتا بڑی تندہی کے ساتھ اپنے گرو کی سیوا کرتا اور ان کی تمام ضروریات کا خیال رکھتا۔ اس دوران انتریامی کے لب سے گرنے والے علم و حکمت کے لعل و گہر چن چن کر دامن میں سمیٹتا رہتا۔
انتریامی کی خاموشی سے اویناش غمگین ضرور تھا مگر اپنے غم کا مداوا کرنے کی خاطر وہ بھی اپنے استاد کا ہم مزاج بن گیا تھا۔ وہ خود بھی خاموشی سے مطالعہ میں غرق رہنے لگا تھا۔ رفتہ رفتہ انتریامی کا گھر ایک قبرستان بن گیا جس میں دو لاشیں سانس لیتی تھیں۔ دو دل دھڑکتے تھے۔ چار آنکھیں دیکھتی تھیں۔ لیکن زبانوں پر گویا تالے پڑے ہوئے تھے۔ اس عالمِ تنہائی میں ایک دن انتریامی نے اپنا قدم صدر دروازے کی جانب بڑھایا۔
اویناش اس تبدیلی کو نیک شگون سمجھ کر انتریامی کے پیچھے چل پڑا۔ گرو اور چیلا کسی نا معلوم منزل کی جانب نکل کھڑے ہوئے۔ اویناش کیلئے کو ئی مسئلہ نہیں تھا اسے تو بس اپنے استاد کے نقشِ قدم پر چلنا تھا۔ وہ اس طرح اپنے گرو کی اتباع کر رہا تھا گویا اس کی منزل اس کے آگے آگے چل رہی ہے۔ اس نے یہ جاننے اور پوچھنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی تھی کہ رختِ سفر کس سمت ہے۔
یقین و اعتماد کی کیفیت نے اویناش کو خدشات اور سوالات سے بے نیاز کر دیا تھا لیکن انتریامی کیلئے یقیناً مسئلہ تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ مستقبل کی تلاش اسے کہاں لئے جا رہی ہے۔ وہ تو بس بے تکان چلتا ہی چلا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ فاصلوں کی مسافت نے بستیوں کو نگل لیا اور وہ وسیع و عریض جنگل کے گھنے درختوں کے درمیان پہنچ گئے۔
اس طویل سفر میں پہلی بار انتریامی نے پیچھے کی جانب مڑ کر دیکھا تو اویناش کو موجود پایا۔ پلکیں جھپکیں۔ ہونٹ ہلے۔ جیتے رہو۔ پھولو پھلو۔ دیکھو بیٹا تم نے ساتھ نبھانے کا حق ادا کر دیا اور کیا خوب ادا کیا لیکن اب ہمارا ساتھ ختم ہوتا ہے۔ اب آبادی سے دور جنگل میں یہ انتریامی تنہا رہنا چاہتا ہے صرف اپنے آپ کے ساتھ۔ اب میں اور میری تنہائی یہاں رہیں گے اور ان کے درمیان خلل اندازی کرنے والا کوئی تیسرا نہ ہو گا۔ شاید مستقبل کا سفر انسان کو اسی طرح طے کرنا ہوتا ہے۔ تم لوٹ جاؤ۔ اس گراں بار تلقین کیلئے معذرت چاہتا ہوں۔ شب بخیر ہمارا تمہارا ساتھ ختم! ! !
اویناش کوایسامحسوس ہوا گویا کوئی نامعلوم ہاتھ اس کے جسم سے روح کو جدا کر رہا ہے۔ اس کی نمناک پلکوں نے کہا گرو دیو! آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔ میں صرف آپ کا ٹھکانہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ آپ کا تکیہ دیکھ کر لوٹ جاؤں گا۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپکی عبادت و ریاضت میں کبھی بھی دخل اندازی کی گستاخی نہیں کروں گا۔ انتریامی نے آنکھوں سے اجازت دی اور پلٹ کر چل پڑا۔
جنگل بیابان کا سفر طویل سے طویل تر ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ ایک جھرنے کے کنارے انتریامی نے آسن سنبھال لیا اور پھر کنکھیوں کے اشارے سے کہا یہی ہے میرا مسکن۔ اویناش نے بھی زبان کو جنبش دیئے بغیر شکریہ ادا کیا اور بے آواز پلٹ کر واپس ہولیا۔ واپسی میں اویناش راستے کے نشیب و فراز کو بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ ایک ایک نشانی کو ذہن نشین کرتا جا رہا تھا تاکہ دوبارہ اپنے استاد تک رسائی میں مشکل نہ ہو۔
اویناش نہیں جانتا تھا کہ اسے خود اپنے مستقبل کا سفر استاد کی رہنمائی کے بغیر تنہا کرنا ہے۔ بوجھل قدموں کے ساتھ جب اویناش گھر آیا تو سارے لوگ بے حد خوش ہوئے لیکن اویناش کو اپنے استاد کی فرقت کا غم کھائے جا رہا تھا وہ اپنے آپ کو اپنے ماں باپ کی خوشی میں شریک نہیں کر پا رہا تھا۔ ویسے اویناش کے دل میں کسی گوشے سے یہ صدا برابر آ رہی تھی کہ جس دن اس کا گرو انتریامی لوٹ آئے گا وہ دن اس کیلئے یوم عید ہو گا۔
اویناش نے اپنے تئیں یہ فیصلہ کیا کہ وہ ہر روز ایک مرتبہ گرو درشن کی غرض سے جنگل میں جائے گا اور ان کے ضرورت کا سامان رکھ کر چپ چاپ لوٹ آئے گا۔ اسے امید تھی کہ بہت جلد اس کے استاد اپنا ارادہ بدل دیں گے۔ اپنی خاموشی توڑ کر گھر لوٹ آئیں گے۔ اویناش نے اس دن کا بڑا انتظار کیا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ساری امیدوں پر اوس پڑ گ ئی۔ وہ جب بھی جاتا انتریامی کو دھیان گیان میں مگن پاتا۔ انہیں پتہ بھی نہیں چلتا کہ کب کون آیا اور واپس چلا گیا۔
انتریامی کے کٹھور رویہ کا اثر اویناش پر بھی پڑنے لگا تھا۔ اب وہ روزانہ کے بجائے ہفتے میں ایک بار آنے جانے لگا تھا۔ جب آنا جانا محض بار برداری کی غرض سے ہو تو روز روز کی مشقت سے کیا فائدہ۔ وہ ہفتے بھر کا سامان ڈھو کر ایک ساتھ لے جاتا۔ لیکن جب وہ دیکھتا کہ پچھلے ہفتے کا سامان جوں کاتوں پڑا ہے تو اسے بہت کوفت ہوتی۔ خاموش رہنا اس کا دھرم تھا اویناش کے ہونٹوں پر اس کے وچن نے مہر لگا دی تھی۔
اب وہ مہینے میں ایک آدھ بار اپنے گرو کے درشن کی خاطر حاضر ہونے لگا تھا۔ اویناش کے رویہ کی تبدیلی انتریامی پر مطلق اثرانداز نہیں ہوئی تھی۔ وہ لوگوں سے توقعات کے سارے سلسلے منقطع کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ وہ خود بھی چاہتا تھا کہ اویناش بلاوجہ اس قدر دور آنے جانے کی زحمت گوارہ نہ کرے۔
انتریامی کا معمول تھا کہ وہ دن میں دو مرتبہ جھرنے پر جا کرپانی پیتا۔ ضروریات سے فارغ ہونے کے بعد کچھ جنگلی پھل چن لیتا۔ اس کے علاوہ انتریامی کے پاس صرف ایک کام تھا۔ اپنے مالکِ حقیقی کی یاد میں گم رہنا۔ اس کی زبان پر صرف ایک دعا ہوتی۔ ایک ہی مناجات و فریاد۔ اے میرے خالق و مالک تو نے مجھے زندگی عطا کی اب اس کی معرفت عطا کیوں نہیں کرتا؟ اے پاک پروردگار مجھے ماضی کے ظلمات سے نکال کر مستقبل کی نورانی منزل میں داخل فرما۔ وہ گویا اپنے مالک کے دروازے پر دھرنا دے کر بیٹھ گیا تھا اور انداز تو کچھ ایسا تھا کہ جب تک اپنی مراد نہ پا جاؤں میں لوٹ کر جانے والا نہیں ہوں۔
انتر یامی کواس عزمِ محکم کے باوجود سفر کی طوالت کا اندازہ تھا۔ چونکہ دنوں اور سالوں کا حساب کتاب بے معنیٰ ہو چکا تھا۔ اس کو اختتام کی نہ پراہ تھی اور نہ عجلت۔ سود و زیاں سے بے نیاز انتریامی تصور خیال میں شب و روز مختلف حیرت انگیز روحانی تجربات سے فیضیاب ہو رہا تھا۔
اس نے دیکھا کہ جنگل میں ایک پگڈنڈی اچانک نمودار ہو گئی ہے۔ اس راستے پر نہ کوئی چراغ ہے نہ قمقمہ اس کے باوجود تاریکی کا نام و نشان نہیں تھا۔ گھٹا ٹوپ تاریکی میں ایک روشن راستہ پہاڑ کی بلندیوں کی جانب نکلا چلا جاتا ہے۔ نور کی لکیر پر جیسے ہی انتریامی نے قدم رکھا راستہ آپ سے آپ چلنے لگا۔ انتریامی پھر ایک بار کسی نا معلوم منزل کی جانب رواں دواں ہو گیا تھا۔ وہ حیرت سے اپنے آس پاس کے مناظر کو تیزی کیساتھ پیچھے کی جانب دوڑتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ جیسے جیسے پہاڑی راستہ مشکل سے مشکل تر ہوتا جاتا اس کی رفتار میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
چوٹی پر پہنچ کر انتریامی نے ایک عجیب و غریب منظر دیکھا۔ اس کے سامنے ایک وسیع و عریض میدان بچھا ہوا ہے جس میں کوئی اونچ نیچ نہیں ہے۔ ایسا لگتا تھا گویا اسے کسی آسمان محل کی تعمیر کیلئے ہموار کیا گیا ہے۔ دائرہ نما میدان کے درمیان میں ایک بہت بڑی جھیل اس طرح پھیلی ہوئی ہے گویا سمندر، تا حدِ نظر پانی ہی پانی لیکن نہ موجیں اور نہ اضطراب مکمل سکون اور خاموشی۔ روشنی میں نہائے ہوئے تالاب کو دیکھ کر انتر یامی کی نظر یں نور کے منبع کو تلاش کرنے لگیں اور داہنی جانب وہ بھی نظر آ گیا۔
وہ ایک ہرا بھرا روشنی کا شجر کہ جس کی ٹہنیاں آسمان سے باتیں کرتی تھیں اور داڑھی زمین کا بوسہ لیتی تھی۔ اس پیڑ کے ہر پتہ سے روشنی کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں۔ انتریامی اس دلفریب منظر میں کھویا ہوا تھا کہ کیا دیکھتا ہے اچانک تیزی کے ساتھ ہوا کے جھکڑ چلنے لگے ہیں اور زبردست و طاقتور درخت کو ہوا نے جھولے کی مانند ہلانا شروع کر دیا ہے۔ انتر یامی نے سوچا یہ آج ہوا کو کیا ہو گیا؟ اس قدر تند و تیز؟ اور پھر اس کو نور کے شجر سے کیسا بیر ہے کہ جو اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر تلی ہوئی ہے؟ اس پیڑ نے اس کا کیا بگاڑا ہے؟
شجرِ نور کسی نہ کسی طرح ہوا کا مقابلہ کر رہا تھا۔ اس نے اپنی جڑوں کو زمین میں مضبوطی سے گاڑ دیا تھا۔ وہ اپنی شاخوں کو اِدھر ادھر ہٹا کر ہوا کو راستہ دیتا تھا کہ کسی درجہ اس کا زور کم ہو لیکن ہوا کے ارادے ٹھیک نہیں تھے اس کے رفتار کی شدت بڑھتی ہی چلی جاتی تھی۔ اس بیچ انتریامی نے دیکھا ہوا پیڑ کے ایک پتے کو شاخ سے الگ کرنے میں کامیاب ہو گئی اور اسے اڑا کر دور تک لے گئی۔ پتہ کی کوشش یہ تھی کہ زمین سے نہ چھوئے اور ہوا اسے نیچے لانے پر تلی ہوئی تھی، پھر ایک بار ہوا کو کامیابی ہوئی۔ روشنی کا پتہ جیسے ہی زمین بوس ہوا ایکدم سے بجھ گیا گویا زمین نے اس کا نور نگل لیا ہو۔ اس میں سے پھوٹنے والی روشنی غائب ہو گئی اور وہ خاک نشین ہو گیا۔
ہوا کے حوصلے بلند ہو چکے تھے۔ پت جھڑ کا آغاز ہو چکا تھا۔ وقتاً فوقتاً پیڑ کی شاخ سے پتے ٹوٹتے کچھ دور ہوا میں لہرانے کے بعد زمین کو چھوتے ہی بے نور ہو جاتے۔ دھیرے دھیرے پیڑ تھا کہ برہنہ ہوتا جاتا تھا اور اندھیرا تھا کہ پھیلتا جاتا تھا۔ انتریامی دعا کر رہا تھا کہ ہوا کا زور ٹوٹے پت جھڑ کا سلسلہ بند ہو۔ بہار کا موسم لوٹ آئے۔ پیڑ پھر سے لہلہائے اور اپنی روشنی پھیلائے لیکن اس کی دعا مستجاب نہیں ہو رہی تھی۔ روشنی مدھم سے مدھم تر ہوتی جا رہی تھی اور اندھیرا پر پھیلائے چلا جا رہا تھا کہ اچانک انتریامی کی آنکھ کھل گئی اس کے سامنے پگڈنڈی مسکرا رہی تھی۔
انتریامی اپنی جگہ سے اٹھا اور اپنے نروان کے درخت کی جانب چل پڑا۔ راستے کی ایک ایک نشانی ظاہر ہو رہی تھی۔ گو کہ وہ پہاڑ کی بلندیوں کی جانب گامزن تھا اس کے باوجود تھکن کا اتہ پتہ نہیں تھا۔ حوصلہ اور امید کا یہ عالم تھا کہ ہر پل جوش و خروش میں اضافہ ہوتا چلا جاتا تھا بالآخر جیسے ہی اس نے پہاڑ کی چوٹی پر قدم رکھا ہو بہو خواب کا منظراس کا منتظر تھا۔ وہ ایک بڑے سے دائرہ نما چٹیل میدان پر قدم رنجا فرما رہا تھا۔
انتریامی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو گیا۔ اس نے دور نگاہ دوڑائی تو کیا دیکھتا ہے درمیان میں وہی جھیل ہے بالکل وہی جو اس نے اپنے خواب میں دیکھی تھی۔ اب اس کی نگاہوں کو پیڑ کی تلاش تھی جس کی خاطر وہ سالہا سال سے محوسفر تھا اور وہ کیا اس نے قدیم برگد کے درخت کو بھی دیکھ لیا جو صدیوں کے راز سینے میں چھپائے نہ جانے کب سے اپنے انتریامی کا انتظار کر رہا تھا لیکن اس برگد کے درخت سے اس طرح نور نہیں برس رہا تھا جیسا کہ اس نے اپنے خواب میں دیکھا تھا۔
انتریامی جب پیڑ کے قریب پہنچا تو پھر ایک بار پھر خواب کی آندھی نے اپنا سر نکالا اور تیزی سے چلنے لگی۔ ہوا کا رخ سامنے کی جانب سے تھا انتریامی کی نظر پیڑ پر مرکوز تھی اس نے دیکھا کہ اچانک درخت سے ایک پتہ ٹوٹ کر اس کی جانب چلا آ رہا ہے۔ انتریامی نے زمین پر گرنے سے قبل اسے اچک لیا۔ وہ پتہ کو اپنے ہاتھوں میں لے کر بہت خوش تھا وہ محسوس کر رہا تھا گویا اس نے پتہ کو بے نور ہونے سے بچا لیا جبکہ وہ پہلے ہی سے بے نور تھا۔
انتریامی نے جب غور سے پتے کو دیکھا تو اس کے حیرت کی انتہا نہ رہی۔ اس پر ایک خوش خط تحریر درج تھی۔ انتریامی نے جب اس کو پڑھنا شروع کیا تو مزید تعجب ہوا۔ یہ تو اس کی اپنی زندگی ایک واقعہ تھا جسے اس پتے نے اپنی ہتھیلی پر مہندی کی مانند سجا رکھا تھا۔ انتریامی جب آگے بڑھا تو اسے ہوا کے دوش پر ایک اور پتہ اپنی جانب آتا ہوا دکھلائی دیا انتریامی نے لپک کر اسے پکڑ لیا اور بڑے شوق سے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا لیکن اسے مایوسی ہوئی وہ بالکل کورا تھا۔
ہوا کے تیز جھونکوں سے پیڑ کے پتے ٹوٹ ٹوٹ کر ادھر ادھر بکھر رہے تھے انتریامی ان میں سے ہر ایک کو چن لیتا تھا۔ ان میں سے اکثر خالی ہوتے لیکن کسی کسی پر کچھ تحریر بھی ہوتا تھا۔ ہر پتے پر لکھی تحریر اس کی زندگی کا کوئی نہ کوئی واقعہ ہوتی تھی۔ اس آنکھ مچولی نے انتریامی کو بالکل پیڑ کے نیچے پہنچا دیا تھا۔ اسے یقین ہو گیا تھا کہ اس پیڑ کے پتوں پر اس کی سوانح حیات کندہ ہے۔
وہ سوچ رہا تھا اس درخت کے پتوں پر اگر اس کا ماضی لکھا ہوا ہے تو یقیناً مستقبل بھی تحریر ہو گا۔ اس کا اپنا روشن مستقبل جس کی تلاش میں اس نے اپنے ماضی کو تاریک کر دیا تھا۔ انتریامی نے اپنے کندھے پر پڑے اویناش کے چرمی جھولے سے سارا سامان نکال کر پھینک دیا اور خالی تھیلے کو دوبارہ کندھے پر رکھ کر پیڑ پر چڑھ گیا تھا۔ آندھی تھم چکی تھی موسم نہایت خوشگوار ہو گیا تھا۔
اوپر پہنچ کر انتریامی پیڑ کے ہر پتے کو جانچتا۔ جس پر کچھ لکھا ہوتا اسے توڑ کر اپنے جھولے میں رکھ لیتا اور جو خالی ہوتا اسے یونہی چھوڑ دیتا تھا۔ انتریامی اس کام کو جلدی جلدی کر رہا تھا اسے ڈر تھا کہ نہ جانے کب ہوا کا دماغ خراب ہو جائے، وہ آندھی کا روپ دھار کر اس پیڑ اکھاڑ کر جھیل میں الٹ دے۔ اگر ایسا ہو گیا تو اس کے مستقبل کی معرفت بھی جھیل میں غرق ہو جائے گی۔ وہ کسی صورت نہیں چاہتا تھا کہ یہ بھیانک حادثہ رونما ہو جائے اس لئے جلد از جلد فارغ ہو جانا چاہتا تھا۔ اسے فی الحال پتوں کو پڑھنے کی نہ فرصت تھی اور نہ ضرورت۔ وہ اطمینان سے انہیں گھر لے جا کر پڑھنا چاہتا تھا۔
انتریامی بہت خوش تھا کہ اس کی من مراد پوری ہو گئی اس کی برسوں کی تپسیا سپھل ہو گئی۔ انتریامی نے ایک ایک پتے کو کھنگال ڈالا تھا۔ اپنے متعلق لکھی ہر تحریر کو اپنے جھولے میں قید کرنے کے بعد اب وہ نیچے اتر رہا تھا کہ پھر ہو اکے جھکڑ چلنے لگے۔ وہی خواب کی آندھی کا دہانہ پھر سے کھل گیا تھا۔
انتریامی کا رخ اب اپنے گھر کی جانب تھا وہ پیچھے گھوم کر دیکھنے کیلئے بھی تیار نہیں تھا کہ اچانک ایک زوردار آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی جس نے اسے مڑ کر دیکھنے پر مجبور کر دیا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو گھبرا گیا۔ ہوا اس زبردست پیڑ کو جڑ سے اکھاڑنے میں کامیاب ہو چکی تھی۔ اس نے پیڑ کو ایک گیند کی مانند جھیل کی جانب اچھال دیا ہے۔ چھپاک کی آواز کے ساتھ جھیل اسے نگل گئی۔ ایک معمولی سے ارتعاش اور سب کچھ پہلے جیسا ہو گیا۔
انتریامی کے پیروں تلے اب بھی پہاڑ کی چوٹی تھی۔ سامنے میدان اور تالاب تھا لیکن نروان کا وہ درخت اپنی جگہ موجود نہیں تھا۔ قضا اس پیڑ کو نگل چکی تھی۔ انتریامی کو اس کا ذرہ برابر افسوس نہیں ہوا۔ اپنے منزلِ مقصود نروان کے درخت کی غرقابی پر انتریامی نے ایک آنسو بھی نہیں بہایا تھا۔
وہ پیڑ جس پر انتریامی کے داستانِ زندگی حرف بحرف لکھی ہوئی تھی۔ وہ درخت جس کے اوپر سے ابھی ابھی اپنے مستقبل کے لمحات چرا کر انتریامی نیچے اترا تھا وہ شجر تباہ و تاراج ہو چکا تھا۔ لیکن انتریامی شاداں و فرحاں اپنے ڈیرے کی جانب رواں دواں تھا۔ وہ دنیا کا واحد انسان تھا جس کا مستقبل صیغۂ راز میں نہیں تھا وہ اسے اپنے کندھوں پر اٹھائے چل رہا تھا۔ وہ اسے دیکھ سکتا تھا، پڑھ سکتا تھا، اسے جان سکتا تھا، اب وہ کم از کم اپنی حد تک صحیح معنیٰ میں انتریامی ہو گیا تھا۔
انتریامی کو اس کی کامیابی نے اسے کس قدر سخت گیر، سنگدل، خودغرض اور احسان فراموش بنا دیا کہ اس کے دل میں بوڑھے برگد کی موت پر ایک خلش تک نہ ہوئی۔ اپنے منفرد ہونے کا احساس۔ دنیا میں یکہ و تنہا، بلند ترین مرتبے پر فائز ہونے کی رعونت نے انتریامی کو اپنے خونی پنجے میں جکڑ لیا تھا۔ وہ بلند اقدار و اخلاق جو انتریامی کی ذات و صفات کا تشخص تھے لقمۂ اجل بن جانے والے برگد کی مانند بے نام و نشان ہو چکے تھے۔
نوشتہ تقدیر کے ساتھ برسوں بعد انتریامی اپنے گھر کے اندر داخل ہوا تو دیکھا یہاں پر توسب کچھ ویسا کا ویسا ہی ہے۔ سوائے دھول کی ایک دبیز سی چادر کے جسے ہر شئے نے اپنے اوپر اوڑھ رکھا تھا۔ انتریامی کو اچانک احساس ہوا کہ اس کا اپنا وجود بھی منوں مٹی تلے دبا ہوا ہے۔ اس نے حمام کا رخ کیا اور نلکے کے نیچے بیٹھ گیا۔ نہ جانے کب تک پانی کی پھوار اس کے سر سے پیر تک بہتی رہی۔
پانی کا ہر قطرہ زندگی سے لبریز تھا۔ حیات کی سرسراہٹ اس کے رگ و پئے میں اترتی جا رہی تھی۔ پانی کے قطرات اس کے نس نس کو تازگی سے شرابور کر رہے تھے۔ باہر آنے کے بعد انتریامی نے الماری سے ان کپڑوں کو نکالا جسے برسوں قبل اویناش نے نہ جانے کس امید پر حفاظت سے رکھ چھوڑا تھا۔
تازہ لباس کا لمس انتریامی کو بھلا معلوم ہوا۔ وہ اپنے بستر کے قریب آیا۔ چادر کو جھٹکا۔ تکیہ کو پلٹا اورسرہانے پڑی اپنی قدیم قندیل کو روشن کر دیا۔ کمرے میں روشنی پھیل گئی، انتریامی نے پتوں سے بھرے تھیلے کو اپنی بائیں جانب خالی کر دیا اور انہیں ترتیب دینے میں لگ گیا۔ اسے تعجب تھا کہ ہر پتہ ماضی کا ایک دریچہ کھولتا تھا۔ اس کی حیرت اس وقت بامِ عروج پر پہنچ گئی جب اس نے ایک پتے پر اپنی واپسی کے واقعات ہو بہو لکھے ہوئے دیکھے۔ اسے یقین تھا ان پتوں کے ڈھیر میں اس کا مستقبل کہیں نہ کہیں چھپا ہوا ہے۔ وہ دیر تک پتوں کو ترتیب دیتا رہا اور جب تھک گیا تو بستر پر پیٹھ لگا کر لیٹ گیا۔
انتریامی نے جیسے ہی اپنے پرانے تکیہ پر سر رکھا غور و فکر کا ایک جدید دلکش چراغ روشن ہو گیا۔ انتریامی سوچ رہا تھا کہ جلد ہی وہ اپنے مستقبل کے بارے میں سب کچھ جان جائے گا۔ اس لئے کہ ایک سچا صحیفہ اس کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ اس کے ذہن میں ایک نیاسوال بجلی کی مانند کوند گیا کہ اگر وہ اپنے مستقبل کے بارے میں سب کچھ جان بھی جائے تو کیا ہو گا؟ کیا وہ اسے بدل سکے گا؟ اس کا دل کہہ رہا تھا نہیں ہر گز نہیں۔
اس لئے کہ اگر وہ کوئی ایسا اقدام کر گزرے جو اس کتاب میں لکھا نہیں ہے تو کتاب کی تکذیب ہو جائے گی۔ اور یہ کتاب جھوٹی ہو جائے ایسا تو ہر گز ممکن نہیں ہے گویا اگر وہ اپنے مستقبل کے بارے میں سب کچھ جان بھی جائے تب بھی اسے بدل نہیں سکے گا اور اگر ایسا ہے تو جاننے سے کیا حاصل؟ ایک نیا سوال اپنا سر ابھار رہا تھا۔ یہ نہایت خطرناک سوال تھا جس نے اس کی عمر بھر کی جستجو پر بہت بڑا سا سوالیہ نشان لگا دیا۔
انتریامی کے ذہن میں مزید دریچے کھلنے لگے تھے وہ سوچنے لگا تھا انسان کس قدر بے اختیار مخلوق ہے؟ اس کے اندر اور اس کے آس پاس پائی جانے والی بے جان خس و خاشاک میں آخر فرق ہی کیا ہے؟ جس طرح وہ بے اختیار اسی طرح یہ بھی مجبورِ محض! دونوں اپنی مرضی سے کچھ بھی تو نہیں کر سکتے۔ وہ بھی مجبور یہ بھی مقہور دونوں جبر و قدر کے تانے بانے میں یکساں طور پر محصور۔
کسی زمانے میں انتریامی خیال کیا کرتا تھا چونکہ اس نے یوں کیا اس لئے ایسا ہو گیا۔ وہ اگر فلاں کام نہیں کرتا تو نتیجہ کچھ اور ہوتا۔ وہ اس کائنات میں اپنے آپ کو بہت کچھ کرنے کرانے والی مخلوق سمجھا کرتا تھا لیکن اب اسے لگ رہا تھا کہ وہ سب محض خام خیالی تھی۔ اس نے جو کچھ کیا تھا اور جیسا کچھ کیا تھا اس کے علاوہ کچھ اور کرنا اس کے اختیار میں کب تھا؟ اپنے آپ کو عظیم ترین سمجھنے والا انتریامی اچانک برگد کے درخت کی مانند آسمان دنیاسے اکھڑ کر بیچارگی اور بے بسی کے وسیع و بسیط تالاب میں غرق ہو گیا تھا۔
انتریامی مجبور نگاہوں سے اپنے سرہانے پڑے مستقبل کے پتوں کو دیکھ رہا تھا۔ اور اپنے آپ سے سوال کر رہا تھا۔ ایسے مستقبل کا عرفان حاصل کرنے سے آخر کیا حاصل جس پر اثر انداز ہونے کی قدرت اس کے اندر نہیں ہے؟ جو متعین ہے اوراس کے تعین میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ چونکہ وہ مستقبل کی ناکامی کو کامیابی میں بدل نہیں سکتا اس لئے پیشگی جاننے سے تو بہتر ہے کہ انہیں جانا ہی نہ جائے۔ ایسا کرنے سے کم از کم یاس کی گھڑیاں کم ہو جائیں گی۔ پہلے ہی مرحلے میں مایوسی کو گلے لگا لینے کے بجائے آخری لمحے میں ناکامی سے نظر ملانا بہتر ہے۔
انتریامی نے سوچا لیکن زندگی میں صرف ناکامی ہی تو نہیں ہوتی انسان اپنے مستقبل کی کامیابیوں کا بھی تو پتہ لگا سکتا ہے لیکن اگر کامیابی کا پتہ پہلے ہی چل جائے تو یک گونہ بے یقینی کے بعد حاصل ہونے والی بے پایاں مسرت بے موت مر جائے گی۔ وہ اپنی کسی کامیابی کا جشن نہیں منا سکے گا۔ انتریامی اپنے آپ سے بولا یہ تو سراسر نقصان کا سودا ہے۔ کامیابی اور ناکامی دونوں صورتوں میں خسران ہی خسران۔
انتریامی کو پہلی بار اپنے آپ پر غصہ آ رہا تھا۔ اس نے کس مہمل شئے کی جستجو میں اپنی زندگی کے بہترین ایام کو جھونک دیا تھا؟ اسے چاہئے تھا کہ اس کارِ بے مصرف کے بجائے کسی مفید کام میں اپنا سر کھپاتا۔ اسے کچھ اور کرنا چاہئے تھا، لیکن وہ کیونکر ممکن تھا اس لئے کہ ان پتوں پر تو یہی سب لکھا تھا۔ وہ بھلا اس سے سرِ مو انحراف کیسے کر سکتا تھا؟
زندگی پھر ایک بار اس کے سامنے ایک بے معنیٰ سوال بن کر آن کھڑی ہوئی۔ نروان کا حصول بھی اس کا کلیان کرنے میں ناکام رہا تھا۔ نجات کی خودساختہ منزل بھی اس کیلئے نجات دہندہ ثابت نہیں ہو سکی۔ وہ کامیابی کی بلند ترین چوٹی پر بیٹھا اپنی ناکامی پر آنسو بہا رہا تھا۔ متضاد احساسات یوں ایک ساتھ جمع ہو گئے تھے گویا زندگی موت سے گلے مل رہی ہو۔
اس عالم میں انتریامی نے بے معنیٰ زندگی کا لباس اپنے تن سے اتار پھینکنے کا انتہائی فیصلہ کر لیا۔ میز کی دراز سے زہر کی شیشی کو لے کر وہ اپنے بستر پر آ کر لیٹ گیا۔ ایک جملے میں اس نے اپنی وصیت لکھی اور ایک گھونٹ میں سارا زہر نگل کر چپ چاپ ابدی نیند سو گیا۔ انتریامی کا مستقبل ماضی کی ایک کربناک داستان بن گیا۔
اویناش کو اپنی بستی سے کوسوں دور اپنے گرو کے گھر میں لوٹ آنے کی اور دنیا کو خیرباد کہہ کر پرلوک سدھار جانے کی خبریں ایک ساتھ موصول ہوئیں۔ وہ جس وقت واپس اپنے شہر پہنچا تو تجہیز و تکفین کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ اپنے پیرو مرشد کی لاش کے سرہانے کھڑا ہو کر اویناش دیر تک آنسو بہاتا رہا۔ لوگوں کے سمجھانے بجھانے پر طبیعت سنبھلی تو اس نے آس پاس نظر دوڑائی۔ اسے اپنے چرمی جھولے میں بھرا ہوا پتوں کا ڈھیر دکھائی دیا۔ وہ ان پتوں کو الٹنے پلٹنے لگا تو کیا دیکھتا ہے ان پر انتریامی کی زندگی کے احوال درج ہیں۔ جو پتہ اس کے ہاتھ میں تھا اس پر انتریامی کی خودکشی کا واقعہ اور اس کے بعد کی عوامی چہ مے گوئیاں درج تھیں۔
اویناش اپنے گرو کی پتوں پر لکھی سوانح حیات کو آنکھوں سے لگا کر سوچنے لگا انتریامی اپنے موت سے قبل پیش آنے والے واقعات کو لکھنے پر تو قدرت رکھتا تھا لیکن موت کے بعد کیا کچھ ہو گا وہ کیسے جان گیا؟ پتوں پر لکھی اس قدر خوشخط تحریر اویناش سے کہہ رہی تھی کہ یہ انسانی نہیں بلکہ الہامی قلم کی کرشمہ سازی ہے۔ اویناش کی توجہ اب اپنے گرو سے ہٹ کر پتوں کی جانب مرکوز ہو چکی تھی اور وہ انہیں دیوانہ وار الٹ پلٹ رہا تھا۔ اویناش نے سوچا کہ کاش انتریامی نے یہ سب پڑھ لیا ہوتا اور وہ اپنے آپ کو خودکشی کرنے سے باز رکھ پاتا؟ لیکن اویناش کی غور و فکر کے تانے بانے عقب سے آنے والی آوازوں سے بکھرنے لگے۔
کو ئی کہہ رہا تھا اویناش جنازہ تیار ہے لاؤ یہ جھولا ہمیں دو۔
اویناش بولا جنازہ اٹھاؤ تمہیں کون روک رہا ہے لیکن اس جھولے کو میرے پاس چھوڑ دو۔
یہ نہیں ہو سکتا۔ کئی آوازیں ایک ساتھ ابھریں
کیوں نہیں ہو سکتا؟ اویناش نے بھی چیخ کر کہا
یہ دیکھو انتریامی نے اپنی وصیت میں کیا لکھا ہے۔ اویناش کے سامنے ایک تحریر تھی جس پر لکھا تھا میری قبر میں ان پتوں کو بھی دفن کر دیا جائے۔
اویناش اس تحریر سے اچھی طرح واقف تھا اسے یقین تھا کہ اس کا حرف حرف انتریامی نے لکھا ہے پھر بھی وہ بولا ان پتوں پر انتریامی کی داستانِ حیات درج ہے۔ ان تحریروں کے باعث انتریامی مرنے کے بعد بھی ہمارے درمیان زندہ رہیں گے ان کی یادیں ان کی باتیں زندہ و تابندہ رہیں گی۔ میں انہیں ترتیب دوں گا اور شائع کرواؤں گا۔ دنیا کی مختلف زبانوں میں اس کے تراجم کی اشاعت ہو گی اور اس کی مدد سے سارے عالم کو پتہ چلے گا کہ اپنے مستقبل کو دریافت کرنے والا واحد شخص کیسا تھا؟ کیا کہتا اور کیا سوچتا تھا؟
یہ میری سب سے بڑی سعادت ہو گی کہ میں اپنے گرو دیو کو اس طرح خراجِ عقیدت پیش کروں۔ اس لئے اس جھولے کو آپ لوگ میرے پاس رہنے دیں۔ انتریامی کے افکار و اقوال اور شخصیت و کردار کا احاطہ کرنے والی اس نادر دستاویز کو دفنانے کی اجازت میں کسی کو نہیں دے سکتا۔
اجازت نہیں دے سکتے؟ تم سے اجازت کون طلب کر رہا ہے؟
تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہے؟
تم انتریامی کی آخری وصیت پر عمل درآمد سے منع کرنے والے کون ہوتے ہو؟
ہم انتریامی کے ورثاء ہیں ہم ضرور ان کی وصیت پر عمل کریں گے۔
ایک ساتھ کئی آوازیں بلند ہوئیں
تم وارث ہو؟ تم کیسے وارث ہو جو اپنے بزرگ کی سوانح حیات کو قبر کے اندر دفن کر دینا چاہتے ہو؟ اور یہ نہیں چاہتے کہ دنیا ان کو جانے؟
اور تم! تم کیسے شاگرد ہو جو یہ نہیں چاہتے گرو دیو کی آخری وصیت کو عملی جامہ پہنایا جائے تاکہ ان کی آتما کو کم از کم موت کے بعد شانتی مل جائے۔ کیا تم چاہتے ہو کہ جس طرح زندگی بھر وہ صحرا نوردی کرتے رہے اسی طرح ان کی آتما بھی دنیا میں بھٹکتی رہے۔
اویناش نے سوچا ان جاہلوں سے بحث کرنا فضول ہے یہ جانتے ہی نہیں کہ آتما کو مکتی کیسے ملتی ہے؟ اس لئے مان کر نہیں دیں گے۔ اس نے کہا اچھا تو ٹھیک ہے اس جھولے کو بھی انتریامی کی قبر میں دفنا دو۔
اویناش کی زبان تو یہ کہہ رہی تھی لیکن دل گواہی دے رہا تھا کہ رات ہو جانے دو پھر میں دیکھتا ہوں۔ انتریامی کی قبر کو میں دوبارہ کھو دوں گا اس میں سے پتوں کے اس جھولے کو چپ چاپ نکال لوں گا۔ پہلے میں خود اپنے گرو دیو کی سوانح حیات کو پڑھوں گا اور پھر ساری دنیا کو اس سے روشناس کراؤں گا۔
رات کے آخری پہر اویناش پھر ایک بار قبرستان میں پہنچ گیا۔ اس نے انتریامی کی قبر سے پتوں کا جھولا نکال کر اسے بند کر دیا۔ انتریامی کی لاش بے حس و حرکت مسکراتے ہوئے یہ تماشہ دیکھتی رہی۔ جھولا کندھے پر رکھ کر اویناش اپنے گھر کی جانب چل پڑا مگراس سے صبر نہیں ہو پا رہا تھا۔ دشت تنہائی میں بے چینی و اشتیاق نے اویناش کو مجبور کیا کہ وہ وہیں ٹھہر کر چند صفحات پڑھے۔
جھولے کو زمین پر رکھ کراس نے ایک پتہ باہر نکالا اور اپنی لالٹین کی روشنی میں اسے پڑھنے کی کوشش کرنے لگا لیکن یہ کیا؟ پتہ بالکل صاف و شفاف تھا اس پر لکھی تحریریکسرغائب تھی۔ اویناش نے آنکھیں مل کر پھر ایک بار دیکھا لیکن منظر نہیں بدلا تھا۔ اس کو غصہ آیا۔ اس پتے کو واپس جھولے میں ٹھونسا اور دوسرا نکالادوسرا پتہ بھی صاف تھا اب تیسرا اور چوتھا اس طرح نہ جانے کتنے پتے دیکھ ڈالے سب کا یہی حال تھا۔ حیرت زدہ اویناش نے سوچا گھر چل کر ایک ایک کو اطمینان سے دیکھتے ہیں۔
جھولے کو کندھے پر رکھ کروہ پھر چل پڑا لیکن اس کے ذہن میں ایک سوال نے سر ابھارا کہ اگر یہ پتے کورے ہیں اور ان پر کچھ بھی نہیں لکھا تو انہیں ڈھو کر گھر تک لے جانے سے کیا حاصل؟ اس سے پہلے کہ اویناش اپنے آپ کو مطمئن کر پاتا ایک اور اندیشہ پیدا ہو گیا۔ اگر لوگوں کو پتہ چل جائے کہ اس نے انتریامی کی قبر میں اتر کر چوری کی ہے تو کیا ہو گا؟ یہ تو بہت بڑی بد نامی کی بات ہو گی، لوگ نہ صرف جھولا چھین لیں گے بلکہ اس کا حقہ پانی بند کر دیں گے اور اس صورت میں اس کیلئے اپنے مشن کو پورا کرنا نا ممکن ہو جائے گا۔
اویناش کا ذہن اس طرح کے اندیشوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ ان سب سے نجات پانے کی خاطر اس نے گھر کے بجائے جنگل کی طرف نکل جانے کا فیصلہ کیا سوچا بستی سے دور ویرانے میں چلو جہاں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ ہو۔ اویناش کے قدم اسی راستے پر چل پڑے تھے جن پر سے کبھی انتریامی گزرا تھا۔ وہ اپنے گرو دیو کے نقشِ قدم پر رہبانیت کی راہوں پر رواں دواں ہو گیا تھا اور دنیا سے کٹنے لگا تھا۔
گھنے جنگل میں پہنچنے کے بعد بے خوف و خطر اویناش نے ایک درخت کے نیچے اپنا جھولا رکھا اور پھر ایک بار پتوں کو ٹٹولنے لگا۔ اب اس کا گمان یقین میں بدل چکا تھا۔ کسی بھی پتے پر کچھ بھی نہیں لکھا تھا۔ حروف کے خزانے کو نہ جانے کون سی آندھی اپنے ساتھ اڑا کر لے گئی تھی اور کس جھیل میں غرق کر دیا تھا۔
تنہائی کے اس عالم میں اویناش کے کانوں سے ہلکے ہلکے قہقہوں کی آواز ٹکرائی۔ اس نے اِدھر اُدھر مڑ کر دیکھا کوئی آدم نہ آدم زاد وہاں کسی فرد بشر کا نشان موجود نہیں تھا مگر آواز موجود تھی۔ اور پھر اسے اپنے کندھوں پر اک جانا پہچانالمس محسوس ہوا۔ اس نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ انتریامی ہے جو وہاں موجود نہیں ہے۔ یہ اس انتریامی کی آواز ہے جو اس دنیا سے کوچ کر چکے ہیں۔ قہقہے تھم گئے اور جملے بن گئے۔
کیا سوچ رہے ہو اویناش؟ بولو! بولو کس سوچ بچار میں ڈوبے ہوئے ہو تم؟ یہ انتریامی کی الفاظ فضا میں گونج رہے تھے۔ اویناش کی زبان گنگ ہو چکی تھی۔
آواز پھر آئی یہی نا کہ پتوں پر لکھی تحریر کہاں چلی گئیں؟ اس کا جواب تو نہایت آسان ہے۔ وہ حروف وہیں چلے گئے جہاں میری آتما کوچ کر گئی۔ اب تمہارے پاس صرف پتے ہیں بلکہ پتوں کا بے جان جسد۔ ویسی ہی لاش جیسی کہ تم قبر میں کچھ دیر قبل چھوڑ کر آئے ہو۔ بغیر آتما کے بے جان جسم اور بنا تحریر کے پتے یکساں ہیں۔
ایک لمحے کے توقف کے بعد وہی مانوس آواز پھر سے ابھری اویناش تم میری بات سمجھے یا نہیں حروف غائب! کہانی ختم! ختم! ! ختم! ! ! آہا ہا ہا
دیکھو اویناش ہم تقدیر سے لڑ تو سکتے ہیں جیت نہیں سکتے
ہم وہ سب جاننا چاہتے ہیں جسے جان نہیں سکتے اور وہ جاننا نہیں چاہتے جو جان سکتے ہیں۔ ہم ہر اس شئے کو حاصل کرنا چاہتے ہیں جسے پا نہیں سکتے اور جو حاصل ہو سکتی ہے اسے پانا نہیں چاہتے۔
ایسا کیوں ہے گرو دیو؟ کیوں ہے ایسا؟ اویناش نے دریافت کیا
میں اس گتھی کو سلجھانے میں ناکام رہا لیکن تم! تم اسے سلجھا سکتے ہو
میں؟؟؟ گرو دیو میں تو آپ کا ادنیٰ شاگرد ہوں۔ اویناش بولا
میں جانتا ہوں پھر بھی کوشش کر کے دیکھنے میں کیا حرج ہے؟ جی ہاں کوشش یہی تو وہ چیز ہے جو ہمارے قبضۂ قدرت میں ہے۔ جسے ہم کر سکتے ہیں۔ ہم یعنی تم۔ میں اس میں شامل نہیں ہوں۔ اس لئے کہ میں موجود نہیں ہوں۔، میرا وجود فنا ہو چکا ہے۔ میرے لئے مہلتِ عمل کا خاتمہ ہو چکا ہے۔
اویناش تمہارے پاس زندگی کی نعمت ہنوز باقی ہے۔
اور زندگی؟ یہ زندگی کیا ہے؟ اس کا خلاصہ تو یہ پتے بیان کر رہے ہیں
زندگی پانی پر لکھی ہوئی تحریر ہے۔ انمٹ تحریر۰۰۰۰ پتھر کی لکیر ۰۰۰۰جسے ایک دن مٹ جانا ہے موت کی جھیل میں غرق ہو جانا ہے۔
اس سے پہلے کہ یہ تحریر مٹ جائے۔ الفاظ فنا کی گھاٹ اتر جائیں اور بے جان پتے اپنے پیچھے چھوڑ جائیں تم انہیں پڑھ لو۔
میں نے اپنی زندگی کی کتاب از خود پڑھنے کی کوشش کی تھی لیکن نہیں پڑھ سکا تھا یہاں تک کے قبر کی آغوش میں اسے میرے ساتھ دفنا دیا گیا۔
تم اس کتاب کو میری قبر سے نکال لائے اور میری زندگی کی کتاب کو پڑھنے کی کوشش کر رہے ہو لیکن نہیں پڑھ سکتے۔
انسان کیا کر سکتا ہے اور کیا نہیں کر سکتا اس بارے میں وہ جس قدر جانتا ہے۔ اسی قدر نہیں بھی جانتا۔ اسی خود آگہی اور عدم آگہی کا دوسرا نام زندگی ہے۔ انہیں سیاہ و سپید دھاگوں سے زندگی کا جال کو بُنا گیا ہے۔ اس جال میں پھنسا ہوا انسان ان تاروں سے نت نئے نغمہ ہائے حیات چھیڑتا ہے۔
جب تک انسان ان تاروں سے کھیلتا رہتا ہے خوش رہتا ہے لیکن جب وہ انہیں کسنے یا ڈھیلا کرنے کی کوشش کرتا ہے پریشان ہو جاتا ہے۔ ان کی ہیئت و ماہیت میں تبدیلی کی جسارت اس کا اپنا حلیہ بدل کر رکھ دیتی ہے۔
تم یہ جاننا چاہتے تھے کہ میں نے خودکشی کیوں کی؟ یہ سوال تمہیں میری قبر کے اندر لے گیا لیکن جواب تک رسائی نہیں ہوئی۔ اس ناکامی و نامرادی کے بعد سنو اویناش اپنے سوال کا جواب سن لو۔ اویناش! میں زندگی کے انہیں تاروں میں الجھ گیا تھا اور دیر تک ان کے درمیان ہاتھ پیر مارتا رہا یہاں تک کہ اس چھٹپٹاہٹ نے میرا گلا گھونٹ دیا اور میں خودکشی پر مجبور ہو گیا۔
اویناش کے کانوں میں گرو دیو کی آواز دیر تک گونجتی رہی۔ بالآخر خود کلامی کا اختتام ایک نئے سفر کا آغاز بن گیا۔ اویناش کے قدم چل پڑے تھے وہ پھر ایک بار اپنے استاد کے نقشِ قدم پر بیابان کی خاک چھان رہا تھا۔ اویناش کو اس پیڑ کی تلاش تھی جس پر خود اس کا ماضی، حال اور مستقبل لکھا ہوا تھا۔ اویناش محسوس کر رہا تھا گویا اس کے قدم زمین پر نہیں خلاؤں میں پڑ رہے ہیں وہ ہوا کے دوش پر محوِ پرواز ہے۔ وہ بھی اپنے گرو کی طرح مرض خود کلامی کا شکار ہو گیا ہے؟ وہ خود اپنے آپ سے سوال کر رہا ہے اور خود ہی ان کا جواب دے رہا ہے۔ وہ غور و فکر کے میدان میں اپنے استاد انتر یامی سے آگے نکل گیا ہے۔ اس انتریامی سے آگے جو اپنے مستقبل کو مسخر کرنے کی کوشش میں ماضی کا حصہ بن چکا تھا!
٭٭٭