پروفیسر آفاق صدیقی(کراچی)
نصف صدی پہلے کا ذکر ہے ماہنامہ ادب لطیف لاہور کا سال نامہ ۴۸ء شائع ہوا تو اس میں گیت پر مختار صدیقی کا مقالہ دیکھا اور اس بات پر بڑا دکھ ہوا کہ اردو میں گیتوں کے حوالے سے عظمت اللہ خاں ،حفیظ جالندھری اور میرا جیؔپر صاحبِ مضمون نے بہت کچھ لکھا مگر آرزو لکھنوی کا نام تک نہ لیا ۔اس کوتاہی کی تھوڑی سی تلافی میں نے اپنے طور پر علامہ آرزو لکھنوی کے گیتوں پر ایک مضمون لکھ کر کی ۔وہ مضمون ادبِ لطیف ہی کو بھیجا مگر اس کی اشاعت نہ ہوئی ۔کچھ عرصے بعد خیر پور میرس کے ایک کل پاکستان مشاعرے میں شرکت فرمانے آرزو صاحب تشریف لائے اور میں نے اپنے مضمون کا ذکر کرتے ہوئے ان کے سریلے گیتوں کی تعریف میں کچھ کہنا چاہا تو میری بات سنے بغیر وہ چہک اٹھے ’’پہلے یہ غزل سنو‘‘
آج بے آپ ہوگئے ہم بھی
آپ کو پاکے کھوگئے ہم بھی
دانے کم تھے دکھوں کی سمرن میں
تھوڑے موتی پروگئے ہم بھی
روئیں بھی گر تو جگ ہنسائی ہو
کرتے کیا چپ سے ہوگئے ہم بھی
میں نے پورے دھیان سے غزل سنی اور چپ رہ گیا ۔اب ایسی ہی چپ نگار صہبائی کی گیتوں کی تیسری کتاب ’’انت سے آگے‘‘ نے لگائی ہے۔یہ کتاب کسی شاعر کا ایسا مجموعہ کلام نہیں کہ آسانی سے لب کشائی کا حوصلہ دے اس کی لفظیات اور لفظ لفظ کی تہہ داریوں میں اتری ہوئی گہری معنویت گیان ،دھیان اور ماورائے امکان کی سوچوں میں گم کردینے والی معنویت ہے ۔اس لیے بار بار سوچا اور محسوس کیا کہ نگار صہبائی کی نواہائے راز کا محرم کیسے بنا جائے ۔خیر سے ہندی تو میں نے اپنے زمانہ طالب علمی میں خوب پڑھی اور طرح طرح کے گیتوں سے بھی لطف اندوز ہوتا رہااس لیے ’’انت سے آگے‘‘کا مطالعہ کرنے اور الفاظ کی ظاہری سج دھج کو سمجھنے میں دشواری نہ ہوئی مگر مشکل یہ کہ ان محسوسات کو بیان کیسے کریں ۔
گوئٹے نے کہا تھا ’’بہترین اور اعلیٰ شعری تخلیق محیطِ امواج ہوتی ہے تم جس طرح چاہومطالعہ کرو‘‘ٹھیک ہے مطالعہ تو کرلیا اب اس’’محیط امواج‘‘ کو اپنے الفاظ کی گرفت میں لانا چاہتا ہوں تو سلیم احمد ،انجم عظمی اور ڈاکٹر ذکاء الدین شایان کی نثری تحریریں بھی گنو پکڑنے کا حوصلہ تو دیتی ہیں جگنو پکڑ کر میری مٹھی میں دینے سے گریز کررہی ہیں ۔
یہ بھی غنیمت ہے کہ ان ممتاز اہل قلم اورنگار صہبائی کے گیتوں سے شناسائی رکھنے والوں نے دھیر بندھائی تو آئیے سب سے پہلے سرورق پر جمیل نقش کے رنگوں کی شاعری کو دیکھتے ہیں جو تجریدی فنِ مصوری کا نقشِ جمیل ہے ۔بڑے صوفیانہ رنگ جو زمانی ومکانی حدود سے بالا تر اور محدود فکر وخیال سے الگ تھلگ بصارت وبصیرت کو یہ درس دے رہے ہیں کہ ’’صدجلوہ روبرو ہے جو مژگاں اٹھائیے‘‘کوئی سداسہانا گیت آنکھوں سے سنایا جائے یا کوئی سندر ناری گائے اس میں جو روحانی انبساط محسوس ہوتا ہے کچھ ویسی ہی غیر مادی نشاط آفرینی اپنے جمالیاتی رکھ رکھاؤکے ساتھ سرورق کی مصوری میں موجود ہے جس کی داد نگار صہبائی نے بہت ہی من موہنے الفاظ میں دی ہے۔
سندرتا کیا ہے
من میں تن کے پھول کھلے
کس نے دیکھا
میں گنگنا رہا تھا کہ دور سے آواز آئی میں نے دیکھا ہے۔
میں نے اس آواز کی طرف گھوم کر دیکھا تو خوشی سے پاگل ہوگیا ۔میرے عہد کے مہاچتر کار جمیل نقش میرے گیتوں کے اپنے دل کے رنگ سے گل بوٹے بنا رہے تھے اورپھر انہوں نے یہ گل بوٹے مجھ پر نچھاور کردئیے ۔میرا دل بھر آیا اور پھر میں نے اپنے لفظوں سے بنائی ہوئی تصویر ان کے سواگت کے لیے جمیل نقش کے چرنوں میں رکھ دی۔جمیل نقش مہا چتر کار اور نگار صہبائی مہاکوی ۔حساب برابر ہوگیا اور اب سلیم احمد کے یہ الفاظ میرے سامنے ہیں
’’اردو گیت کی روایت میں نگار صہبائی پہلا شاعر ہے جس نے اس صنف کو اردو کی سنجیدہ تخلیقی صنف بنا دیا ۔نگار صہبائی گیتوں میں اتنی تازہ اور نادر امیجزسے اپنے نگار خانہ فن کو سجاتا ہے کہ گویائی کی حدود اس فضائے سکوت کو چھونے لگتی ہیں جو ماورائے سخن وجود رکھتی ہے ۔ ‘‘
اس میں شک نہیں کہ اب نگار صہبائی کی پہچان ان کے گیت ہیں اور یہ گیت سطحی سوجھ بوجھ سے قابو آنے والے نہیں کیونکہ ان کا سفر انت سے آگے کا سفر ہے۔سوال یہ کہ سورج ہمیں سمجھانے والا کون ہوتا ہے؟اور میری دانست میں جواب یہ ہے کہ خدائے نادیدہ نے سورج کے ذریعے ہمیں روشنی دی ہے کہ تاحدِ نظر بلکہ افق تا افق ہم اس دنیا کو دیکھ سکیں جس میں رہتے بستے ہیں ۔سورج کا سفر بھی ہماری طبعی عمر رواں کی طرح محدود ہے مگر اسے یہ برتری حاصل ہے کہ وہ ۲۴گھنٹے میں ساری دنیا میں گھوم لیتا ہے ۔اس لیے جہاں دیدہ کہلانے کا مستحق اور اس کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ انت سے آگے بھی اک سفر ہے ۔وہ کیسا ہے ،کیوں ہے اور کب تک ہے؟اس کا حال کون بتائے ؟
آئیے اب پیڑ کے نیچے شام کا ڈھلنا دیکھتے ہیں ۔عوامی کلچر سے نابلد لوگوں کو بھلا کیا معلوم کہ پیڑ صرف کسی درخت یا شجر کا نام نہیں بلکہ پیار ،محبت ،بھائی چارے ،مشفقانہ سرپرستی،بزرگی اور سکون وعافیت کی علامت ہے ۔بچپن میں جب ہم بیل گاڑی میں اپنے گھر والوں اور عزیزو اقارب کے ساتھ دور کسی گاؤں میں جاتے تھے تو تپتی دھوپ میں سفر کرتے کرتے شام ہوجاتی تھی۔شام ڈھلنے کا منظر اور وہ بھی پیڑ کے نیچے تھکے ماندے گاڑی بان کو کیسا لگتا ہوگا۔اس احساس کو نگار صہبائی نے بڑے سجل لفظ ’’بھایا ‘‘میں سمو دیا ہے۔غور کیجئے کہ جیون کے سفر میں ایسے پڑاؤ ہمیں کیسے لگتے ہیں ۔
میرا خیال ہے کہ نگار صہبائی کے گیتوں کے ساتھ اسی کتاب میں ایک شرح بھی شامل اشاعت ہونی چاہیے کیوں کہ پہلے گیت سے لے کر آخر کے گیتوں تک ایسے بول بہت سے ہیں جو اردو شعر وادب کے رواجی قارئین اور عمومی غزلوں کے شائقین کی سمجھ میں نہیں آسکتے مثال کے طور پر کچھ بول پیش کرتا ہوں ۔
تن سے من تک میں ہی میں تھا
رات نے پردے اٹھادئیے
پل نے پل کو دکھا کے درپن
سمے کے دوجگ بنادئیے
شام ابھی سے گوندھ رہی ہے
گجرے تیری راتوں کے
جنگل میں بازار لگے ہیں
بھولی بسری باتوں کے
پچھلے پہر کوآکر کوئی
میری چوکھٹ سے کہتاہے
کوئی بھی رت ہو سمے کا درپن
پون کے ہاتھوں میں رہتا ہے
اک دیپک کی چھاؤں کے نیچے
سمٹ گئی انگنائی
کتنی سندر ہے جیون کی شام
لکھ دیا میں نے مٹی پہ نام
گھائل من میں لودیتے ہیں
کسی مغربی مفکر کا کہنا ہے We are moving ashes to ashesگویا ہمارے جیون کا یہ سفر خاک کے ڈھیر سے خاک کے ڈھیر تک ہے ۔لیکن شاعر مشرق علامہ اقبال کی یہ بات ہمارے من درپن کو انت سے آگے آگے لے جاتی ہے۔
پریشاں ہو کے میری خاک آکر دل نہ بن جائے
جو مشکل اب ہے یا رب پھر وہی مشکل نہ بن جائی
میں نے گیتوں کی جو چند ٹکڑیا ں پیش کیں ان گیتوں کو مجموعی طور پر نگار صہبائی نے ’’من رچنا ‘‘کہا ہے۔پھر وہ گیت ہیں جو ’’سمے کویتا‘‘کے زیرِ عنوان ہیں پھر ایک گیت کا مکھڑا یہ ہے کہ ’’جانے کیا سپنے دیکھے تھے ‘‘۔اس کے بعد ’’رت سنگیت ‘‘کے گیت ہیں ’’میں سورج کے ساتھ چلا جاتا ‘‘اور پھر ’’گیان گیتا‘‘ کے ۲۵گیت جن میں آتما ‘پرماتما کے گیان دھیان میں ڈوبی ہوئی کہیں ’’اندھیارے کی سونی اٹریا پر ’’رین کوڑے کھولنے والے ‘‘ملن کے لیے بے کل ہے ۔کہیں پل کے جھروکے سے جھانک کر انت سے آگے کی کھوجنا میں بے چین ہے ۔کہیں ’’من ہے آشا انگ تراشا‘‘کے دو بڑے سنسار یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ’’کس رت سے ہے کس کا ناتا۔‘‘
سوچتا ہوں کہ ’’ماورائیت ‘‘کا سفر تو نگار نے ’’جیون درپن ‘‘ہی میں شروع کردیا تھاجس کے لیے سلیم احمد نے کہا تھاکہ ’’وہ بھگتی تحریک میں اسلامی روایت کے ایک ایسے رنگ کا آغاز کر رہا ہے جو صرف نگار ہی کر سکتا ہے۔‘‘
سلیم احمد زندہ ہوتے تو دیکھتے اور محسوس کرتے کہ نگار نے’’انت سے آگے‘‘ کا سفر کس رکھ رکھاؤسے کیا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس سفر کی روداد کو ہمارے اس دیس میں سمجھنے والے کتنے ہیں ؟کتنوں کو یہ معلوم ہے کہ غیر منقسم وشال بھارت اور خصوصاًبالائی ہند میں جو بھگتی تحریک پروان چڑھی تھی اس میں اسلامی فلسفہ توحید کا کیا عمل دخل تھا ؟ہندو مت میں گیت سنگیت ازلی وابدی روحانی سوزو سرور کا سرچشمہ رہے ہیں ۔دیدانتی فلسفہ حیات میں ’’شام وید ‘‘کو سنگیت کے اولین تحفے کی حیثیت حاصل ہے۔اس طرح سنسکرت سے یہ فن مذہبی امانت اور وراثت کے طور پر مختلف علاقوں اور وہاں کی بولیوں میں آیا جہاں آریوں کی آمد سے پہلے بھی لوک گیتوں کا رواج تھااور وہ لوگ گیت اور سنگیت کی روایات سینہ بہ سینہ اس عہد تک آئی تھیں جب آریوں نے شمالی ہند پر قبضہ کرکے آریہ ورت میں جنگ وجدل کی جلالی صفات سے مصلحتاًدست بردار ہوتے ہوئے امن وآشتی ،میل ملاپ اور دین دھرم کے وہ پہلو اپنائے جن میں افقی وعمودی وسعتیں گلے ملنے لگیں۔تاریخی تناظر میں صنم یاتی ،میتھولوجی اور ہندومت کی رنگا رنگ صورتیں دیویوں اور دیوتاؤں کی شکلوں میں نمودار ہوتی رہیں ۔برہمنوں کی بالا دستی اور مذہبی برتری اپنا رنگ جماتی رہی۔مندروں اور تیرتھ گاہوں میں بھجن منڈلیاں عروج پاتی گئیں پھر بودھ مت اور جین مت کے انقلابی دھارے بھی عوامی کلچر کو ایک نیا روپ سروپ دے گئے۔
برصغیرمیں مسلمانوں کی آمد اور فتوحات پیہم نے ایک ایسے کلچر کو جنم دیا جس میں صوفی بزرگوں کی خانقاہوں کے خدا دوست اور انسان دوست جذبے مقامی ثقافتوں میں گھل مل گئے اور اس طرح پریم رس نے باہمی رواداری کی وہ صورتیں پیدا کیں جو سدا بہار جمالیاتی نکھار کے ساتھ حضرت امیر خسرو کے گیتوں نے بہت دور دور تک پہنچائیں ۔پچھلے سات آٹھ سو برسوں سے ہماری دیسی زبانوں اور بولیوں میں گیتوں کا بہت بڑا سرمایہ موجود ہے ان میں وہ لوک گیت بھی ہیں جو ابھی تک تحریری شکلوں میں محفوظ نہیں کیے گئے اور وہ گیت بھی جو بلند پایہ صوفی شعراء کے کلام میں جلوہ گر ہیں مثلاًپاکستانی حدود میں شاہ لطیف‘سچل سر مست ،بلھے شاہ ،خواجہ غلام فرید ،شاہ حسین ،رحمان بابا ،مست توکلی اور کئی دوسرے صوفی بزرگوں کی زبانیں تو مختلف ہیں مگر ان سب کے کلام میں قدرِ مشترک کے طور پر کچھ ایسی ہی روح پرور کیفیات ملتی ہیں جن کا رچاؤ نگار صہبائی کے گیتوں میں ہے۔
پروفیسر انجم اعظمی نے نگار صہبائی کو عہدِ حاضر کی ایک اہم آواز قرار دیا تھا۔یہ اس وقت کا ذکر ہے جب ان کے گیتوں کی پہلی کتاب ’’جیون درپن‘‘کی دھوم مچی تھی اور ان کے گیتوں کا دوسرامجموعہ (من گاگر) شائع ہورہا تھا۔جس کے بارے میں انجم اعظمی نے یہ کہا کہ ’’شاداب امیجز کی بھر پور عنائیت نظر کی گہرائی ،عشق کے مسحور کن انداز ،قلندرانہ روش اور زندگی سے والہانہ لگاؤ کو ’’من گاگر کو سمو کر نگار نے اپنے لہجے کی دھار نمایاں کی ہے اور امر کویتا لکھی ہے ۔تاریخی تسلسل میں امیر خسرو اور آرزو لکھنوی کے بعد اردو گیت لکھنے والوں میں نگار صہبائی تیسرا بڑانام ہے۔‘‘
’’من گاگر ‘‘کے گیتوں پر ڈاکٹر ذکاء الدین شایان کا تبصرہ بھی نگار کی اس تیسری تصنیف یعنی ’’انت سے آگے‘‘میں شامل اشاعت ہوا ہے اور تبصرہ نگار کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ ’’من گاگر‘‘میں زندگی کی دیکھی اور ان دیکھی سچائیاں ہمیں روحانی اور حقیقی سطح دونوں پر برابر ملتی ہیں اور ہمارے ذہن واحساس کو ہر لمحہ چونکاتی اور جگمگاتی گزر جاتی ہیں ۔‘‘
میں نے نگار صہبائی کے گیتوں کی تینوں کتابوں کو بغورپڑھا ہے اور میرا تاثر یہ ہے کہ کسی ایک مضمون اور کسی ایک تبصرے میں ان تمام کیفیات اور اچھوتی من ترنگ کو سمویا ہی نہیں جا سکتا جو نگار کی لفظیات سے عبارت ہیں ۔یہ اپنے من میں ڈوب کر سراغِ زندگی پانے کا عمل ہے ۔یہ عالم موجودات کو ظاہری آنکھوں سے نہیں بلکہ آنکھیں موند کے دیکھنے اور محسوس کرنے کی سچی لگن ہے ،یہ گیان دھیان اور وجدان کی ان منزلوں کے نشان ہیں جو منزلیں اپنا مادی وجود اگر رکھتی بھی ہیں تو خود اپنے وجود سے بے نیاز ہیں ۔نگار صہبائی کے گیت لب ولہجے کی غنائیت میں طربیہ ہیں مگر ان گیتوں میں تن اور من کی نبرد آزمائی سرد جنگ کا سماں پیش کرتی ہے ۔عالم آب وگل اور اپنے وجود خاکی سے بالا تر ہوکر الوہیت کا سفر کوئی آسان کام نہیں ۔ میں تو حیرت زدہ ہوں کہ ان گیتوں کی شاعری کو کس کس زاویے سے سمجھوں اور محسوس کروں ۔ڈاکٹر آئی اے رچرڈنے سچ ہی کہا ہے:
”Poetry is not the thing which can be verified.”
یہ تو روح کے پردے میں محسوس کیے جانے والے احساسات کے استعارے ہیں جو گیتوں کے سانچے میں ڈھل گئے ہیں ۔عزیز حامد مدنی نے ایک بہت فکر انگیز بات کہی تھی کہ ’’زندگی کی ہزاروں ضدیں ،ذہن اس کا تخلیقی عمل ،تہذیب اور اس کا نقش ونگار اپنی پیدائی کے لیے ہمیشہ ایک تازہ اسلوب بیان ہمیشہ ایک تازہ فکری افق کی تلاش میں ہوتے ہیں۔‘‘
نگار صہبائی نے تازہ بہ تازہ اسلوبِ بیان اور تازہ فکری افق کی تلاش جاری رکھی اور اس تلاش میں آکاش سے پاتال تک اپنے فکر وخیال اور جذبہ و احساس کو دوڑاتے ہوئے ’’انت سے آگے‘‘ کی خبر لانے کی مہم پر چل نکلے ۔اس مہم جوئی کی کچھ اگلی پچھلی جھلکیاں ملاحظہ ہوں ۔
سپنے تتلی بن کر گھومیں نیتوں کی پھلواری میں
رادھا اپنا آپ نہ سمجھے موہن کو کیا پائے
سونے رستے پاؤں پکڑ کر مجھ سے پوچھیں
جگ بیتا اے میت پرانے
کہاں سے لوٹ کے آئے
مہندی سے لکھ دوری ہاتھوں پہ سکھیو میرے سنوریا کا نام
اپنی اور سے دور بھی جاکر اپنی اور ہی پہنچے ہیں
پھول بن کر جہاں بھی کھلا ہوں
اپنی سانسوں میں تجھ سے ملا ہوں
بوند میں بھی ندی بہہ رہی ہے
کون لکھے کہ مت پھر گئی ہے
میرے اندر جھانک کے دیکھو
آنکھ بہت کچھ پائے گی
کھوج رہا ہوں سات سروں کو
بانسریا میں کون بھرے ہے
نگار صہبائی کی مت واقعی پھری ہوئی ہے جو ہفت خواں طے کرکے انت سے آگے کی خبر لانے میں منہمک ہیں ۔لیکن یہ مقدس دیوانگی بھی ہرکس وناکس کو کہاں ملتی ہے جو سنجیدگی سے ایسے سوال اٹھائے جو دنیا کے مہا پرشوں اور عظیم شاعروں کے ذہنوں کو خدا جانے کس جہانِ معنی میں لے جا تے ہیں ۔اور وہی کیفیت ہوتی ہے جو میر کے اس شعر میں ہے۔
بے خودی لے گئی کہاں ہم کو دیر سے انتظار ہے اپنا
کچھ عرصے پہلے کی بات ہے ،محترمہ اویلین انڈریل (Evelyn Underhill)کی ضخیم کتاب مسٹیسزم(Mysticism)کا مطالعہ کررہا تھا جس میں وہ ماورائیت کے بارے میں لکھتی ہیں :”Its appeal will not
be to the clever brain ,but to the desirous heart,the intuitive sense of man.”
موصوفہ کا کہنا یہ ہے کہ روحانی تجربات کو بیان کرنے کے لیے علامتوں کا سہارا لینا پڑتا ہے کیوں کہ ان کا براہ راست اظہار ممکن نہیں ۔ان کے نزدیک علامتوں کے تین بڑے درجات ہیں ۔پہلا درجہ تلاش و تجسس سے عبارت ہے ۔دوسرا درجہ اپنے من میں ڈوب کر اس قوتِ روحانی کو پانے کا ہے جو دلوں کو فتح کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو اور وہ محبت کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے۔تیسرا درجہ باطنی تطہیر و تکمیل کا ہے۔
نگار صہبائی کی تین کتابوں میں یہ تینوں درجات علامتی سطح پر موجود ہیں ۔ویسے تو ہر شاعر اپنی وارداتِ قلبہ کا اظہار کچھ علامتوں کے سہارے کرتا ہے اور غزلیہ شاعری میں بہت سی علامتیں ایسی ہیں جن کے اظہار وابلاغ سے اردو شاعری کے سمجھ دار قارئین کافی حد تک آشنا ہوچکے ہیں ۔مگر نگار صہبائی کے گیتوں میں علامتوں کا جو سندر بن اپنی بہار دکھاتاہے اس کی تفہیم آسان کام نہیں اور عام فہم نہ ہونے کا ایک خاص سبب یہ ہے کہ اردو کی شہرت ومقبولیت یافتہ شاعری میں بھی جو ثقافت جھلکتی ہے وہ ثقافت گیتوں میں اگر کسی قدر ہے بھی تو اس کا ابلاغ ایسے گیتوں کے ذریعے ہوا ہے جوفلم‘ریڈیو ‘اور ٹی وی کے لیے لکھے گئے ۔
نگار صہبائی کے یہ گیت تو بار بار پڑھنے اور گیان دھیان میں ڈوب کر سمجھنے کی چیزیں ہیں اور ان کو سمجھنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جو علامات ،اصطلاحات ،اشارات ،استعارات اور تلمیحات وغیرہ ان گیتوں میں برتی گئی ہیں انہیں صدیوں کے ثقافتی دھاروں میں تلاش کرکے سمجھا جائے۔
٭٭٭٭٭٭٭
’’گیت غنائی شاعری کی ایک ہئیت تو ہے مگر ہر غنائی شاعری کو گیت نہیں کہا جا سکتا۔گیت کی ہیئت کی تکمیل
اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک کہ اس میں ٹیک کا مصرعہ نہ پرو دیا جائے۔گیت نما نظموں اور خالص گیتوں
میں یہ ٹیک کا مصرعہ خطِ امتیاز قائم کرتا ہے‘‘(بیکل اتساہی۔ بحوالہ’’آنسو آنسو برکھا‘‘۔ص ۱۳)