انوتھی مارسٹن کی لاش کو کمرے میں رکھنے کے بعد جرنل میکر تھور اپنے کمرے میں آگیا۔ وہ کافی دیر سے سونے کی کوشش کررہا تھا لیکن جیسے ہی آنکھیں موند تا اس کے ذہن کے پردے پر آرتھر رچمنڈ کی تصویر ابھر آتی۔
’’افوہ!‘‘ آخر تنگ آکر جرنل بستر پر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس نے اپنا سر ہاتھوں میں گرالیا۔ وہ جتنا رچمنڈ کو اپنے ذہن سے نکالنے کی کو شش کرتا اتنا ہی رچمنڈ کا خیال اس پر حاوی ہوتا۔
’’آرتھر رچمنڈ!‘‘ جرنل بڑ بڑایا۔ ’’خدارا میرا پیچھا چھوڑ دو۔‘‘
رچمنڈجرنل کا جوانی کا دوست تھا۔ دوست !! نہیں نہیں وہ میرا دوست نہیں تھا۔ جرنل نے تلخی سے سوچا۔ جہا ں وہ دونوں ساتھ ہوتے وہاں کوئی بھی رچمنڈ کے سوا کسی کو نہ دیکھتا۔ جرنل کی شخصیت ہمیشہ پس منظر میں چلی جاتی۔ جرنل کا دل بغض سے بھرتا جارہا تھا۔ رچمنڈ جب بھی کسی کو بتاتا کہ جرنل اس کا سب سے گہرا دوست ہے۔ تو جرنل طنز سے مسکرا دیتا۔ پہلی دفعہ جب رچمنڈ سے بر تری ملی تو جرنل کی خوشی کا ٹھکانا نہ تھا۔ اب رچمنڈ اس کا ما تحت تھااورجرنل اس کا افسر۔ اتنے سالوں کے انتظا ر کے بعد اسے رچمنڈ کو راستے سے ہٹا نے کا موقع مل گیا۔ اس نے بہت پلاننگ سے کام لیا۔ رچمنڈ کو ایسی جگہ بھیجا جہا ں سے کسی کا واپس آنا مشکل ہی تھا۔ جرنل کو آج تک یاد ہے کہ رچمنڈ نے اسے کس حیرانی سے دیکھا تھا جب میکر تھور نے اسے تبادلہ کا آرڈر سنایا لیکن وہ خاموش رہا اور پھر آرتھر رچمنڈ کے سب سے گہرے دوست نے ہی اسے موت کے منہ میں دھکیل دیا۔
ویرا کلیتھورن اپنے بستر پر لیٹی چھت کو گھور رہی تھی۔ اس نے لائٹ بند نہیں کی تھی۔ اسے اندھیرے سے خوف آرہا تھا۔ سمندر کی لہروں کی کھڑکی سے صاف آواز آرہی تھی۔
سمندر۔۔۔ سمندر۔۔۔ سمندر۔۔۔ ایک ڈوبتا ابھرتا چھوٹا سا سر۔ اس گھر میں سائیرل کی آیا کے طور پر کام کرتے ہوئے اسے ۹ مہینے سے زیادہ نہیں ہوا تھا۔ اگر پیسوں کا مسئلہ نہ ہوتا تو وہ کبھی بھی سائیرل کی ماں جیسی نک چڑھی عورت کے ساتھ کام نہ کر تی جس کا پسندیدہ مشغلہ ہی ڈانٹنا تھا۔
سائیرل جیسے بد تمیز اور شرارتی بچے کو سنبھالنا کوئی آسان کام تو نہ تھا۔ اس دن تو حد ہوگئی۔ اگر اس بد تمیز بچے کو بارش میں لاکھ منع کرنے کے باوجود نہانے کا شوق تھا تو اس میں ویرا کا کیا قصور اور پھر جب وہ بیمار پڑا تو اس کی ماں نے ویرا کوکتنا برا بھلا کہا تھا۔ اب بھلا ویرا جیسی انا پرست لڑکی یہ کیسے برداشت کر سکتی تھی۔ چند دن بعد پھر سائیرل کی ضد شروع ہوگئی۔ وہ سمندر میں دور تک تیرنے کی اجازت مانگ رہا تھا۔ ویرا نے بھی تنگ آکر اجازت دے دی۔ وہ اس کی ضدوں سے تنگ آگئی تھی۔
اچھا ہے۔۔۔ ایک دفعہ ڈوبتے ڈوبتے بچے تو خود عقل آجائی گی۔۔۔ وہ یہ سوچتی ہوئی سائیرل کو دور سمندر میں تیرتا دیکھ رہی تھی۔
لیکن پھر سائیرل واقعی ڈوب گیا۔ ویرا جب تک اس کے پاس پہنچی وہ زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا۔
نہیں مجھے یہ سب نہیں سوچنا چاہیے۔ ویرا نے اپناسر جھٹکا۔ جو ہوا۔ سو ہوا۔ اب کچھ نہیں ہوسکتا ہے۔ ویرا بستر سے اتر کر ٹہلنے لگی۔ اچانک اس کی نظر آتش دان پر لگی فریم ہوئی نظم پر پڑی۔
’’دس نیگرو بچے گھر سے نکلے، کھانے چلے کھانا
ایک کے گلے میں کچھ پھنس گیا باقی رہ گئے نو۔‘‘
ویرا ایک دم کانپ اٹھی۔ واقعی! اس نے سوچا۔ ایسا ہی تو ہمارے ساتھ ہوا ہے آج۔
نیچے کھانے کے کمرے میں راجر حیران وپریشان کھڑا میز پر رکھی چھوٹی چھوٹی کانچ کی گڑیوں کو گھوررہا تھا۔
ایک۔۔۔ دو۔۔۔ تین۔۔۔ چار۔۔۔۔۔۔ نو‘‘ اس نے پھر سے ایک بار انہیں گنا۔ ’’شاید مجھے نیند بہت آرہی ہے۔‘‘ اس نے میز پر جھکتے ہوئے کہا۔ ’’ورنہ شام تک تو مجھے یقین ہے کہ یہ پوری دس تھیں۔‘‘
ڈاکٹر آرم اسٹورنگ گہری نیند سے ہڑبڑا کر اٹھ گیا۔ راجر اس کے بستر کے برابر کھڑا اسے زور زور سے آوازیں دے رہا تھا۔
’’کیا ہوا؟‘‘
’’ڈاکٹر! میں اپنی بیوی کو کب سے اٹھانے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن وہ اٹھ نہیں رہی۔‘‘ راجر نے اپنے کپکپاتے ہاتھوں کو قابو میں کیا۔ مجھے وہ ٹھیک نہیں لگ رہی ہے۔ آپ پلیز آکر اسے چیک کر لیں۔‘‘
ڈاکٹر نے پھرتی سے اپنا میڈیکل بکس اٹھایا اور راجر کی رہنمائی میں اس کے کمرے میں آیا۔ مسز راجر بستر پر چادر اوڑھے لیٹی تھی۔ ڈاکٹر جلدی سے اس کے قریب آیا اور اپنے میڈیکل بکس سے ادویہ نکالنے لگا۔یہ کام کرتے کرتے اس کی نظر مسز راجر کے چہرے پر پڑی تو وہ رُک گیا۔ مسز راجر کا چہرہ سفید اور بے رنگ تھا۔ زندگی کی کوئی رمق باقی نہ تھی۔ ڈاکٹر نے گھبرا کر اس کی نبض دیکھی۔
’’کیا یہ۔۔۔ کیا یہ۔۔۔‘‘ راجر نے ہکلاتے ہوئے بولنے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر آہستہ سے اسکی طرف مڑا: ’’ہاں یہ اب اس دنیا میں نہیں رہی۔‘‘ وہ پورے کمرے کا تیزی سے جائزہ لے رہا تھا۔ ایک دو منٹ بعد اس نے پھر راجر کو مخاطب کیا۔ ’’کیا یہ بیمار تھی؟‘‘ اس نے پوچھا: ’’یا کسی ڈاکٹر کے زیر علاج؟‘‘
’’نہیں سر !یہ تو بیمار نہیں تھی نہ کسی ڈاکٹر سے علاج کر وا رہی تھی۔‘‘
’’دل کی مریضہ بھی نہیں تھی؟‘‘
’’نہیں سر!‘‘
’’اوہ!‘‘ ڈاکٹر ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھا۔ ’’نیند کی گولیاں لیتی تھی؟‘‘
’’نہیں سر کبھی نہیں۔‘‘ ڈاکٹر اب ڈریسنگ ٹیبل کی درازوں کو کھنگال رہا تھا۔ اس کے بعد وہ بستر کے برابر والی میز کی طرف بڑھا۔ کافی دیر کے بعد بھی اسے اپنی مطلوبہ چیز نہیں ملی۔
’’یہاں تو کوئی ایسی گولیاں یا دوا نہیں جسے زیادہ مقدار میں کھانے کی وجہ سے اس کی موت ہوجائے۔‘‘ اس نے مسز راجر کی طرف اشارہ کیا۔ ’’رات میں اس نے سب سے آخر ی چیز کیا کھائی یا پی تھی؟‘‘
’’جو دوا آپ نے دی تھی سر۔‘‘ راجر نے ہچکچا کر ڈاکٹر کی طرف دیکھا۔
لمبورڈ اور بلور ساحل پر کھڑے سمندر کی طرف دیکھ رہے تھے۔
’’کشتی اب تک نہیں آئی۔‘‘ بلور نے بے چینی سے کہا۔
’’ہاں! شاید آنے والی ہو۔‘‘ لمبورڈ نے سر ہلایا۔ ’’موسم کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
’’مطلع صاف ہے سمندر پر سکون ہے۔ ہوا بھی زیادہ تیز نہیں۔ میرے خیال میں تو موسم بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔‘‘ بلور نے چاروں طرف دیکھا۔
’’چلو! اندر چلتے ہیں۔ راجر نے ناشتہ تیار کرلیا ہوگا۔‘‘
لمبورڈ نے بنگلے کی طرف قدم اٹھائے۔
’’کیپٹن! میں ساری رات سو نہیں سکا۔ یہ بات مجھے بار بار پر یشان کر رہی ہے۔ انوتھی مارسٹن کوئی ذہنی مریض تو نہیں لگتا تھا۔ پھر اس نے خودکشی کیوں کی؟‘‘
’’تمہارے پاس کوئی متبادل حل ہے، اس کی موت کا؟‘‘ لمبورڈ نے الٹا سوال کردیا۔
’’نہیں۔ یہی تو سمجھ نہی آرہا ہے۔‘‘ بلور نے کندھے اُچکائے۔۔۔ جیسے ہی وہ دونوں گھر کے اندر داخل ہوئے مس ایملی برنٹ نے ان سے سوال کیا۔
’’کیا کشتی آرہی ہے؟‘‘
’’نہیں ابھی تک تو کوئی آثا ر نہیں ہیں۔‘‘ بلور نے ناشتہ کے میز پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
راجر ناشتہ کاسامان اٹھائے کمرے میں داخل ہوا تو ویرا اسے دیکھ کر چونک گئی۔
’’کیا ہوا راجر؟ تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟‘‘ اس نے راجر کے چہرے کو غور سے دیکھا۔
’’او۔۔۔ میرے خیال میں یہ بہتر ہے کہ ہم پہلے ناشتہ کرلیں۔ پھر اس موضوع پر بات کریں گے۔‘‘ ڈاکٹر نے ان سب کو مخاطب کیا۔
’’مسز راجر کہاں ہیں؟‘‘ ویرا نے پھر سوال کیا۔
’’میں نے کہا نا۔ پہلے ناشتہ کرلیں۔ پھر کچھ بات کریں گے۔‘‘ ڈاکٹر نے حتمی انداز میں کہا اور اپنے سلائس پر مکھن لگانے لگا۔
’’ایک بری خبر ہے۔‘‘ آدھے گھنٹے بعد جب وہ سب ناشتہ کر چکے تو ڈاکٹرنے سنجیدگی سے انھیں بتایا۔ ’’مسز راجر کا سو تے میں انتقال ہو گیا ہے۔‘‘
’’اف میرے خدا۔‘‘ ویرا کی آواز پھٹ گئی۔
’’کل شام سے اب تک دو اموات۔۔۔ یہاں کیا ہورہا ہے آخر۔۔۔‘‘ بلور حیرت سے ڈاکٹر کو دیکھ رہا تھا۔
’’عجیب بات ہے۔ خیر موت کی وجہ کیا تھی؟’’ جج وار گریونے دریافت کیا۔
’’بغیر پوسٹ مارٹم کے کوئی وجہ یقینی طور پر بتانا ناممکن ہے۔‘‘
’’اس عورت نے کل رات اوپر جانے کے بعد کیا کھایا تھا؟‘‘ بلور کی تفتیش پھر سے شروع ہوگئی۔
’’راجر نے بتایا ہے کہ کچھ بھی نہیں۔‘‘
راجر نے تو ظاہر ہے یہی کہنا ہے۔‘‘ بلور نے طنز یہ انداز میں کہا۔
’’تمہارے خیال میں مسز راجر کو اس کے شوہر نے مارا ہے؟‘‘ لمبورڈ نے بلور کی طرف دیکھا۔
’’ہاں! اور ایسا کیوں نہیں ہوسکتا۔ یاد ہے کہ کل رات کیا انکشاف ہوا ہے۔ راجر اور اس کی بیوی نے کسی بوڑھی عورت کو مارا ہے، ہوسکتا ہے یہ سچ ہو۔ راجر کو ڈر ہوکہ اس کی بیوی یہ راز نہ کھول دے۔ اس کو خطرہ محسوس ہو ا تو اس نے چائے، کافی یا پانی میں اسے کچھ گھول کر پلادیا اور ہمیشہ کے لیے اس کا منہ بند کردیا۔‘‘
’’کوئی آدمی اتنا نہیں گر سکتا۔‘‘ جرنل میکر تھور نے پہلی دفعہ گفتگو میں حصہ لیا۔
بلور طنز یہ انداز میں مسکرایا اور جرنل کی طرف دیکھا۔ ’’محترم آپ کس دنیا میں رہتے ہیں۔ جب انسان کی گردن خطرے میں ہو تو وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔‘‘
خاموشی چھاگئی۔ تھوڑی دیر تک کوئی کچھ نہ بولا۔ پھر جج وار گریو نے راجر کو آواز دے کر کمرے میں آنے کو کہا۔ ’’جی سر؟‘‘ وہ فوراََ آگیا۔
’’کشتی عام طور پر کتنے بجے تک آجاتی ہے؟‘‘
’’ساڑھے سات۔۔۔ آٹھ بجے تک سر۔‘‘
’’ابھی کیا ٹائم ہورہا ہے؟‘‘ لمبورڈ نے چونک کر کہا۔
’’کافی دیر ہوگئی ہے۔ دس بج گئے ہیں۔‘‘
’’اوہ!‘‘ لمبورڈ کی بھنویں اوپر کی طرف اٹھی۔ ’’کشتی کو دو گھنٹے پہلے تک آجانا چاہیے تھا۔ اب تک کیوں نہیں آئی؟‘‘
’’طے شدہ پلان!‘‘ بلور آہستگی سے بولا۔
’’کیا کشتی نہیں آئی گی؟‘‘ ویرا گھبر ااٹھی۔
’’ہاں! کشتی نہیں آئے گی۔‘‘ جرنل میکر تھور نے عجیب سی بھاری آواز میں کہا: ’’تم سب ابھی تک نہیں سمجھے؟
کشتی کو نہ آنا تھا، نہ آئے گی۔ ہم اس جزیرے پر قید ہیں۔ اس پورے چکر کا مقصد ہی یہی ہے۔ اس جزیرے سے کوئی واپس نہ جاسکے گا اور سب یہیں ختم ہوجائیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر جرنل تیزی سے اٹھا اور باہر کی طرف بڑھ گیا۔ وہ سب کھڑکی سے اسے ساحل کی طرف جاتا دیکھ رہے تھے۔ جرنل ایسے چل رہا تھا جیسے نیند میں ہو۔
’’لو! ان کے دماغ نے تو کام کرنا ہی چھوڑ دیا۔‘‘ بلور نے جھنجھلا کر کہا۔ ’’اس طرح تو ہم سب ایک ایک کر کے پاگل ہوجائیں گے۔‘‘
ڈاکٹر آرم اسٹورنگ باہر ٹیرس میں ٹہل رہا تھا۔
’’پلیز سر! کیا آپ تھوڑ ی دیر کے لیے میری بات سن سکتے ہیں؟‘‘ اس کے پیچھے سے گھبرائی ہوئی آواز ابھری۔
’’کیا ہو گیا راجر؟‘‘ ڈاکٹر اسے دیکھ کر بری طرح چونک گیا۔ راجر کے ہاتھ اس بری طرح کانپ رہے تھے کہ اسے دیکھ کر لگ رہا تھا اسے رعشہ ہوگیا ہے۔ چہرے کا رنگ خطرناک حد تک برا ہورہا تھا۔
’’سر! تھوڑی دیر کے لیے اندر آئیے گا۔‘‘ ڈاکٹر حیران وپریشان اس کے پیچھے پیچھے چلتا کھانے کے کمرے میں داخل ہوا۔ راجر کی کنپٹی کی رگ زور زور سے ہل رہی تھی۔ اس نے تھوک نگل کر کہا: ’’سر یہاں کچھ ایسی چیزیں ہورہی ہیں جن کی وضاحت ضروری ہے۔‘‘
’’چیزیں! کیسی چیزیں؟‘‘
’’سر آپ کہہ سکتے ہیں، میں پاگل ہو گیا ہوں لیکن میری سمجھ سے یہ باہر ہے۔‘‘ وہ پھر رک گیا۔
’’وہ چھوٹی چھوٹی کانچ کی گڑیا ئیں جو میز کے بیچ میں رکھی تھیں یا دہیں آپ کو۔۔۔ سر کل شام تک وہ کل دس تھیں۔‘‘
’’ہاں! ہم سب نے گنیں تھیں۔ وہ دس تھیں۔‘‘ ڈاکٹر نے سر اثبات میں ہلادیا۔
’’جی۔۔۔ جی سر۔۔۔ کل رات آپ سب کے اوپر جانے کے بعد میں نے صفائی کی تو دیکھا وہ نو ہیں۔ میں سمجھا کہ آپ میں سے کسی نے ایک غلطی سے اٹھا کر کہیں اور کھ دی ہے لیکن آج صبح۔۔۔‘‘ راجر نے تھوک نگلا: ’’آج صبح بر تن سمیٹتے ہوئے میں نے دیکھا تو وہ صرف آٹھ رہ گئی ہیں۔۔۔ صرف آٹھ!!‘‘
مس ایملی برنٹ اور ویرا کلیتھرون ساحل پر ٹہلتے ہوئے ٹھنڈی اور تازہ ہوا سے لطف اندوز ہو رہیں تھیں۔ سمندر پر سکون تھا۔ دور دور تک کسی بھی چھوٹی یا بڑی کشتی کا نام ونشان نہ تھا۔ جزیرے کے ساحل سے دوسری طرف واقع قصبہ بھی نظر نہیں آتا تھا۔
’’جو آدمی کل ہمیں یہاں چھوڑ کر گیا تھا، لگتا تو ذمہ دار تھا۔ لیکن آج وہ ابھی تک نہیں آیا۔‘‘ مس برنٹ سمندر کی طرف دیکھتے ہوئیں بولیں۔ ایک دو لمحوں تک ویرا خاموش رہی وہ صبح سے اپنی بے چینی کو قابو کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
’’خدا کرے وہ جلد سے جلد آجائے۔ میں فوراً اس جزیرے سے دور جانا چاہتی ہوں۔‘‘
’’ہم سب ہی یہ چاہتے ہیں۔‘‘ مس برنٹ نے خشک لہجے میں جواب دیا۔
’’مس برنٹ۔۔۔ آپ کا خیال ہے کہ واقعی راجر اور اس کی بیوی نے اپنی بوڑھی مالکن کو قتل کیا ہے؟‘‘
’’ہاں! مجھے پکا یقین ہے۔ کل رات جب راجر اور اس کی بیوی نے اپنا نام ٹیپ میں سنا تھا تو یاد ہے ان کا کیا ردعمل تھا۔ راجر کے ہاتھ سے ٹرے گرگئی تھی اور مسز راجر بے ہوش ہوگئی تھی۔ یہ رد عمل تو کسی مجرم کا ہی ہوسکتا ہے نا۔‘‘ مس برنٹ پر یقین لہجے میں بولی۔
’’اور باقی سب۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ باقی لوگوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ ویرا نے مدھم لہجے میں پوچھا۔
’’ہوں!‘‘ مس برنٹ نے بھنویں اُچکائیں۔ ’’کیپٹن لمبورڈ نے تو اپنے جرم کا اقرار کر لیا ہے۔ لیکن کچھ الزامات توبہت دور کی کڑی لگتے ہیں۔ جیسے میرے نزدیک جج وار گریو اور انسپکٹر بلور پر عائد الزام کوئی حقیقی نہیں۔ انہوں نے جو کچھ بھی کیا قانون پر عمل کرتے ہوئے کیا۔‘‘
’’مس برنٹ! آپ اپنے بارے میں کچھ نہیں کہیں گی؟‘‘ ویرا نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
’’دیکھو بھئی! میں ہر کام سوچ سمجھ کر کر تی ہوں۔ میرے ضمیر میں کوئی خلش نہیں۔ بیکڑائس ٹیلر میرے گھر میں ملازمہ تھی۔ اس کے ماں باپ شریف لوگ تھے یہی دیکھ کر میں نے اسے کام پر رکھ لیا۔ اپنے اچھے عادات واطوار کی وجہ سے اس نے مجھے قائل کر لیا کہ وہ ایک اچھی لڑکی ہے لیکن یہ سب دھو کہ اور کھلی منافقت تھی۔ اس کے آنے کے ایک دو مہینے بعد میرے گھر سے چیزیں غائب ہونا شروع ہوگئیں۔ آخر میں نے چور کا سراغ لگا ہی لیا۔ وہ بیکڑائس تھی۔ مجھے بری طرح دھچکا لگا۔ وہ بہت چیخی چلائی اور معصوم بننے کی کوشش کی لیکن میں اسے اپنے گھر میں ایک منٹ اور برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ میں نے اسے نکال باہر کیا۔‘‘ ویرا ہلکا سا منہ کھولے مس برنٹ کی بات سن رہی تھی۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
’’پھر کیا ہونا تھا۔ اس بے وقوف لڑکی نے بجائے اپنی شخصیت کو صحیح کرنے کے، ندی میں کود کر اپنی جان لے لی۔‘‘ مس برنٹ نے بے پرواہی سے کہا۔
’’کیا!‘‘ ویرا اچھل پڑی۔ ’’لیکن کیا آپ کو کبھی پچھتا وا نہیں ہوا۔ آپ کی سختی کی وجہ سے ایک لڑکی کی جان چلی گئی۔‘‘
’’مجھے؟‘‘ مس برنٹ نے غصیلی آواز میں گردن اکڑا کرکہا۔ ’’میں کیو ں پچھتاؤں گی۔ اس احمق لڑکی نے اگر غلط کام کیے تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟ میرا ضمیر میرے اس عمل سے بالکل مطمئن ہے۔‘
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...