ہماری امی مبارکہ حیدرکو شعیب حید رنے مرتب کیا ہے۔شعیب حیدر معروف ادیب حیدر قریشی کے فرزند ہیں۔لکھتے ہیں:
’’کیا یہ ضروری ہے کہ پہلے ماں کے مرنے کا انتظار کیا جائے اور پھر ماں کو یاد کرتے ہوئے کوئی کتاب ترتیب دی جائے‘‘)۱)
زندہ ماں پر کتاب مرتب کر کے اس نوجوان نے واقعی اردو میں ایک انوکھی روایت کا آغاز کیا ہے۔ کتاب کا مواد حیدر قریشی کی کتب سے اخذ کیا گیا ہے۔کتاب کا نام ہے تو ہماری امی مبارکہ حیدر لیکن یہ کتاب حیدر قریشی کے لامتناہی عشق کا اظہار ہے جس کا آغاز اس عمر میں ہوا جب انسان جھوٹ نہیں بولتا ۔
حیدر قریشی لکھتے ہیں:میں غالبا چھے سال تھا ۔۔۔بڑی ممانی نے لاڈ سے پوچھا:فلاںسے شادی کرو گے؟۔میں نے صاف انکار کردیا۔پھر پوچھا گیا:کس سے کرو گے؟میں نے بڑے اعتماد کے ساتھ مبارکہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:اس سے کروں گا۔۔۔اگر آپ مبارکہ سے شادی نہیں کرو گے تو جب یہ روٹیاں پکا رہی ہو گی،جیپ لے کر آئوں گا اور اس کو بٹھا کر لے جائوں گا۔(۲)
۔میں نے اس عشق کی جڑیں تلاش کرنے کی کوشش کی تو وہ مجھے اس روایت میں ملی جو حیدر قریشی نے بیان کی ہے۔لکھتے ہیں: ماموں ناصر کے ساتھ میری محبت در اصل بچپن کی محبت ہے۔(۳)
ماموں ناصر کی محبت حیدر قریشی کے دل و دماغ میں رچی بسی ہوئی تھی۔اسی محبت کی روشنی نے اسے مبارکہ کے قریب توکر دیا لیکن ابھی محبت کی تکمیل باقی تھی۔محبت کی تکمیل کا دوسرا مرحلہ ہمیں ایک اور جگہ دکھائی دیتا ہے۔حیدر قریشی لکھتے ہیں:۔میری پہلی محبت بھی میری امی جی ہیں اور آخری محبت بھی امی جی ہیں۔(۴)
ماموں ناصر اور حیدر قریشی کی والدہ کے مابین بھی بہت پیار تھا۔یہی پیار حیدر قریشی کے مزاج کا حصہ بنتا گیا ۔آخر کار تین مقدس ہستیوں والدہ ،ماموں ،مبارکہ کی محبت کا مرکب حیدر قریشی کی محبت کی تکمیل کا سبب بنا۔جب محبت کی جڑیں اتنی گہری ہوں تو حیدر قریشی کی مبارکہ مرحومہ سے شدید محبت قدرتی امر تھا۔
جیسا کہ پہلے کہ چکا ہوں کہ زیرِ تبصرہ کتاب کا مواد حیدر قریشی کی مختلف اصناف کی کتب سے لے کر یک جا کیا گیا ہے؛ان کتب میں خاکہ ہے،انشائیہ ہے،سفر نامہ ہے،انٹرویو ہیں،ان سب کے مطالعے سے یہ دل چسپ انکشاف بھی رونما ہوتا ہے کہ حیدر قریشی کہیں بھی مبارکہ کی تعریف سے غافل نہیں ہوئے بلکہ نہ صرف حیلے بہانے سے انھیں یاد کرتے ہیں بلکہ انھیں یاد کرنے کا جواز پیش کرتے نظر آتے ہیں۔مثلا
لڑکپن کے دو سال ہم نے اکٹھے گزارے تھے۔۔۔ہم دونوں ایک دوسرے کے مزاج شناس بن گئے۔پھر بات مزاج شناسی سے بڑھ کر محبت اور دوستی تک جا پہنچی۔اور وہاں سے بھی آگے بڑھی تو اس مقام کے بیان کے لیے کوئی لفظ نہ ملا۔بیوی،دوستی اور محبت۔یہ سارے رشتے مبارکہ کے سامنے چھوٹے پڑگئے ہیں۔(۵)
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ میاں بیوی میں محبت زیادہ ہو تو دونوں کی شباہت یک ساںہو جاتی ہیں۔۔۔میرا خیال ہے میری اور مبارکہ کی شکلوں میں کچھ ایسا تغیر رونما ہوا ہے۔(۶)
۔میری پہلی محبت بھی میری امی جی ہیں اور آخری محبت بھی امی جی ہیں۔۔۔اپنی بیوی سے میری گہری دوستی کی وجہ شاید یہی ہے کہ ۔۔۔امی جی سے کافی مشابہت بھی رکھتی ہے۔(۷)
مبارکہ سے حیدر قریشی کا عشق جذباتی ہے ،وہ جذبات میں اسے کبھی بالواسطہ پیاری دیوی،کبھی بلا واسطہ سبز پری اور کبوتری کہتے ہیںلیکن ایک مقام پر پہنچ کر انھوں نے اپنے عشق کو ایسا پاکیزہ ٹچ دیا کہ مبارکہ جنت کی حور نظر آنے لگتی ہے۔اس منظر کو آپ بھی دیکھیے:ایک بار حضرت عائشہ نے حضورﷺکی خدمت میں خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ خانہ کعبہ کے اندر نماز پڑھنا چاہتی ہیں،تب حضورﷺ نے حضرت عائشہ کا ہاتھ پکڑا اور انھیں حطیم میں لاتے ہوئے ارشادفرمایا،یہاں نماز پڑھ لیں۔۔۔میں نے سنت رسول کی پیروی میںمبارکہ کا ہاتھ پکڑا اور اسی طرح اسے لے کرحطیم میں داخل ہوا۔(۸)
آخر میں ایک تجویز پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوںایک اس کتاب میں بچوں کے انٹرویو شامل کرنا بہت ضروری تھا،تاہم اب جوان سارے بچوں کی طرف سے اپنی امی کی یادوں پر مشتمل مضامین سامنے آ رہے ہیں تو ان سے اس کمی کی تلافی ہو رہی ہے۔غالباََ یہ سارے مضامین حیدرقریشی کی کتاب ’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘میں شامل کیے جا رہے ہیں جو اچھی بات ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
(۱)ہماری امی مبارکہ حیدر،مرتب شعیب حیدر،عکاس انٹرنیشنل ، پبلی کیشنز،اسلام آباد،،ص ۔۸
(۲)ایضاََ،ص۔ ۱۱
(۳)ایضاََ،ص۔۱۸
(۴) ایضاََ ص۔ ۱۹
(۵) ایضاََ ص۔۱۲
(۶) ایضاََ ص۔۱۳
(۷) ایضاََ ص۔۱۹
(۸) ایضاََ ص۔۵۴