‘انابہ فیشنز’ پوری شان سے اپنا سر اونچا کئے کھڑا تھا ،گلاس وال سے چھن کر آتی سفید روشنیاں اسے مزید خوبصورت بنا رہی تھیں ۔شیشوں سے دکھائی دیتے ڈمیز ایک بار رک کر دیکھنے کو مجبور کر دیتے تھے ۔ٹخنوں سے کچھ اونچی پیبٹس پر نیلی شرٹ پہنے انابہ سلمان سیڑھیاں چڑھتی دروازے تک پہنچی ،بارودی گارڈز نے اسے دیکھ کر اپنا ہاتھ ماتھے تک لے جا کر اسے سلام کیا جسکا جواب اسنے ایک خفیف سے خم سے دیا تھا۔اپنی بائیں کلائی میں پہنی قیمتی گھڑی کو دائیں ہاتھ سے سیدھا کرتی وہ اندر داخل ہو گئی۔اسکی باریک ہیل فرش سے ٹکرائی۔وہ سیلز گرلز کو نظر انداز کرتی ڈیزائنر کرتیوں کے حصے میں آ گئی۔اسکے چہرے پر بے نیازی تھی۔ایسی بے نیازی جو نہ کسی کو ارِٹیٹ کرتی تھی اور نا ہی اس سے خواہ مخواہ کی چڑھ ہوتی تھی۔بے نیازی کا وہ تاثر اسکے چہرے پر بھلا لگتا تھا، اسکی شخصیت پر وہ سوٹ کرتا تھا ۔دو تین کرتیوں کو ہینگر سمیت بازوؤں پر ڈالتی وہ ایک آفس کیبن کے سمت گئی۔کیبن کے دروازے پر جلی حروف میں ‘سلمان یزدانی’ کے نام کا بورڈ لگا تھا۔اسنے انگلی کی پشت سے دروازے کو ہلکی دستک دی اور اجازت کا انتظار کئے بغیر اندر داخل ہو گئی تھی ۔آفس کے اندر سب کچھ نارمل نہیں تھا۔سلمان یزدانی ایک کمپیوٹر کے سامنے جھکے کھڑے تھے اور کمپیوٹر کے سامنے بیٹھا آپریٹر بار بار پریشانی سے اسکی چند کیز دبا رہا تھا ۔اسنے اپنے بازو پر موجود کرتیاں صوفے پر ڈالی اور آگے آئی۔
“ڈیڈ! یہ کرتیاں پیک کرا دیں ۔میں یہ سب لے رہی ہوں ۔” اسنے انہیں مخاطب کیا ۔وہ اسکی طرف چونک کر مڑے ۔انہیں اسکی آمد کا احساس ہی نہیں ہوا تھا ۔
“تم احمد کو کال کر لو۔وہ پیک کرا دیگا۔میں ابھی زرا مصروف ہوں ۔” وہ اسے کہتے ہوئے واپس کمپیوٹر کی جانب متوجہ ہو گئے ۔
” سر! لگ بھگ ہمارے سارے ڈیزائن چوری ہو گئے ہیں ۔”آپریٹر نے بے بسی سے کہا۔
انابہ آگے آتی سلمان کے ساتھ کھڑی ہو گئی ۔
“اور کون چوری کر رہا ہے ہمارے ڈیزائن؟ “اسنے سینے پر بازو لپیٹے سنجیدگی سے سوال کیا ۔
” ‘اسٹائلز’ والے ہمارے سارے ڈیزائن چوری کر کے خود استعمال کر رہے ہیں ۔کڈز کلوتھنگ کی انکی نئی رینج پوری طرح ہمارے آئیڈئیے پر مبنی ہے ۔” انہوں نے اسکی جانب دیکھتے ہوئے بتایا ۔
” آئی سی۔”اسنے اپنے لب سکوڑے۔” میں آپکی کوئی مدد کروں؟”
“تم کیا کر لوگی؟” انہوں نے اسی انداز میں کہا جیسے انہیں اس پر رتی برابر بھروسہ نہیں تھا۔
” ایک موقع تو دیں ڈیڈ۔”اسے خود کو انڈر اسٹیمیٹ کیا جانا پسند نہیں آیا۔
“فیض بار بار سیکیورٹی لاکس لگا کر تھک چکا ہے اور پھر بھی ہمارا سسٹم ہیک ہو جا رہا ہے ۔”
” فیض! آپ ایک دفعہ سسٹم سے ہٹوگے؟” اسنے آپریٹر کو نرمی سے مخاطب کیا۔
وہ سر ہلاتا اٹھ گیا تھا ۔وہ اپنی رسٹ واچ اتار کر میز پر رکھتی کرسی پر بیٹھ گئی۔اسنے کی بورڈ اپنی جانب کھینچا ۔اسکرین مزید اپنے قریب کی اور کھٹ کھٹ اسکی انگلیاں کی بورڈ پر دوڑنے لگیں ۔فیض اسکے قریب جھکا بغور اسکرین کو دیکھ رہا تھا اور سلمان چہرے پر بیزاری لئے دوسری طرف دیکھ رہے تھے ۔
“تم چیزوں کو اور نہ بگاڑ دینا۔” انہوں نے اسے تنبیہ کی ۔
انابہ نے گویا ناک سے مکھی اڑائی اور تین چار کیز دبائیں ۔اسکرین پر چمکتے الفاظ میں ‘ایریا ریسٹرکٹڈ’ لکھا آیا۔فیض کے چہرے پر گہری حیرت آئی اور وہ متاثر کن انداز میں انابہ کو دیکھنے لگا۔
“یہ لیں ڈیڈ!” ساری چیزیں ٹھیک کر دی میں نے ۔” وہ کرسی کھسکاتی کھڑی ہو گئی ۔
سلمان نے فیض کو دیکھا۔اسنے تائیدی انداز میں اپنا سر ہلایا۔
” تم اگر کمپیوٹر میں اتنی اچھی تھیں تو تم نے سبجیکٹ میں انگلش کیوں لے لیا؟ “وہ اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولے۔
انابہ نے پہلے میز سے اپنی گھڑی اٹھائی۔پھر اسے کلائی پر باندھتی انکے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھ گئی۔
“کیونکہ لٹریچر مجھے پسند تھا۔”
“اور کمپیوٹر پسند نہیں ہے کیا؟ ”
” وہ تو میرا ٹیلنٹ ہے۔”
” اور ماڈلنگ کیا ہے؟ ”
” ماڈلنگ میری ہابی ہے۔”
“اور کیریئر کس فیلڈ میں بنانا ہے؟” وہ اسکی باتوں میں بہت دلچسپی لے رہے تھے ۔
“آف کورس وہ کسی تیسری چیز میں ہوگا۔کیونکہ ہابی اور ٹیلنٹ کو کیریئر بنانا ایک غلط فیصلہ ہوگا۔”اپنے ماتھے پر کٹے بالوں کو اسنے ہاتھ سے اوپر کرتے ہوئے کہا ۔
“خیر.. جو بھی کرنا سوچ سمجھ کر کرنا۔”انہوں نے بات ختم کی۔
” چلیں ڈیڈ! آج میں نے آپکا اتنا بڑا کام کیا ہے ۔فٹافٹ میرے لئے وہ لہنگا پیک کرائیں جو آپ نے کچھ دنوں پہلے ڈیزائن کروایا ہے ۔”اسنے فرمائش کی ۔
“تمہاری فرمائشیں مہنگی ہوتی جا رہی ہیں ۔”
“اگر آپ نے مزید ایک منٹ بھی دیر کی تو میں آپکے سارے ڈیزائن اچھی قیمت پر کسی بھی بوتیک کو دے دونگی اور آپ تو جانتے ہیں کہ آپکی بیٹی ایسا کر سکتی ہے ۔”اسنے کہتے ہوئے معصومیت سے پلکیں جھپکائیں۔
سلمان نے مصنوعی خفگی سے اسے دیکھا اور انٹرکام پر اسکی پسند کے کپڑے پیک کرنے کی ہدایت دینے لگے۔
– – – – – – – –
وہ گھٹنوں پر اپنا سر رکھے بہت دیر سے روئے جا رہی تھی مگر آنسو تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ۔آنکھوں میں لگا کاجل پھیل کر رخسار تک آ گیا تھا ۔
“پھپو!” اسے اپنے پیچھے وکی کی آواز سنائی دی ۔
وہ اسے نظر انداز کئے ہنوز روتی رہی۔
“جویریہ پھپو پلیز!” وہ اسکے سامنے آیا اور اسکا سر اوپر کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
“وکی مجھے پریشان نہ کرو۔چلے جاؤ یہاں سے ۔” اسنے اسکا ہاتھ جھٹک کر تیز لہجے میں کہا ۔
“آپ لڑکیوں کے پاس اتنے آنسو کہاں سے آتے ہیں؟” وہ جیسے رونے سے زچ ہوا۔
“کیونکہ ہمیں رونے کے لئے ہی پیدا کیا گیا ہے ۔” اسکے رونے میں مزید تیزی آئی۔
“اچھا ایک بار اپنا سر تو اٹھائیں ۔”اسنے منت کرنے والے انداز میں کہا ۔
اسنے گھٹنوں پر رکھا اپنا چہرہ اوپر کیا۔
وہ اسکی سرخ آنکھیں اور متورم چہرہ دیکھ کر خود بھی اداس ہو گیا۔
“اب بتائیں کہ کیوں رو رہی تھیں؟ ‘وہ اسکے ساتھ ہی بیٹھ گیا اور اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اسکے آنسو صاف کئے۔
اسنے کوئی جواب دئیے بغیر دوپٹے سے اپنی آنکھیں رگڑیں ۔
” اوہ میں سمجھا۔آپ ایک دفعہ پھر فیل ہو گئیں ہیں نا؟ اور اسکے لئے آپکو پپّا سے ڈانٹ پڑی ہوگی؟ “اسنے اندازہ لگایا اور پھر اسکا چہرہ دیکھا جیسے درست اندازے پر داد چاہ رہا ہو۔
“شٹ اپ ! اس دفعہ میں پاس ہو گئی ہوں اور کافی اچھے مارکس آئے ہیں میرے۔” وہ تنک کر بولی۔
“اچھا! آپ پاس بھی ہو گئی ہیں ۔پپّا یا ممی نے آپکو ڈانٹا بھی نہیں ہے تو پھر آپ کیوں رو رہی ہیں؟” اسنے سنجیدگی سے پوچھا ۔
“کیونکہ میری شادی ہونے والی ہے ۔” اسنے اداسی سے اسے بتایا۔
” واؤ پھپو! آپکی شادی ہو رہی ہے ۔”وہ پر جوش ہو گیا ۔پھر اسکا غصے سے سرخ ہوتا چہرہ دیکھ کر فوراً سے پیشتر اپنی خوشی پر قابو پایا ۔” آئی مین سو سیڈ کہ آپکی شادی ہو رہی ہے ۔”
“دیکھو نا وکی! میں ابھی پڑھنا چاہتی ہوں مگر بھائی کو میری شادی کرنی پڑ رہی ہے ۔” اسنے خود سے دس سال چھوٹے وکی کو اپنی پریشانی بتائی۔
“شادی کرنی پڑ رہی ہے کا مطلب ہے کہ پپّا بھی آپکی شادی کر کے خوش نہیں ہیں ۔ہے نا؟ “اسنے جواب طلب نظروں سے اسے دیکھا ۔
” تم نے صحیح سمجھا ہے۔”جویریہ نے اثبات میں اپنا سر ہلایا۔” میں نے بھائی کو بھابھی سے بات کرتے ہوئے سنا تھا کہ کوئی انہیں دھمکی دے رہا ہے اور دھمکی دینے والے شخص نے میرا حوالہ دے کر انہیں اس اسٹوری پر کام کرنے سے روکا ہے جس پر وہ کام کر رہے ہیں ۔”
“مگر پپا کو کون دھمکی دے سکتا ہے پھپو؟” اسنے پرسوچ انداز میں کہا ۔
” مجھے نہیں معلوم وکی! اور تم یہ سب مت سوچو۔تم بہت چھوٹے ہو ۔اپنی پڑھائی پر دھیان دو۔ان معاملات کو بھائی سنبھال لینگے۔آخر پہلے بھی تو انہیں دھمکیاں ملتی رہی ہیں ۔”
” اوکے پھپو تو میں پپا سے ایک دفعہ پات کروں کہ وہ آپکی شادی کرنے کے بجائے کوئی دوسرا حل نکالیں ۔”
” میں بات کر چکی ہوں ۔وہ نہیں مان رہے ۔”اسنے مایوس کن لہجے میں کہا ۔
” تو پھر میں آپکی کس طرح مدد کروں؟ ”
” تم واقعی میری مدد کرنا چاہتے ہو؟ “اسنے گردن موڑ کر اسکی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
وکی نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
” تو تم میرے اور اپنے پپا کے لئے دعا کرو۔”
” پھپو! آپ رویا مت کریں نا۔”وہ. اسکی گود میں سر رکھ کر لیٹتا ہوا بولا۔
وہ وکی کے نرم بالوں میں ہاتھ پھیرتی اب اس سے دوسری باتیں کرنے لگی تھی ۔
– – – – – – – – – –
وہ دونوں یونیورسٹی گراؤنڈ میں سبز اور نرم گھاس پر پیڑ کی ٹھنڈی چھاؤں تلے کافی دیر سے بیٹھی تھیں ۔ان کے نزدیک انکی کتابیں اور کاپیاں کھلی رکھی تھیں مگر ان دونوں میں سے کسی کی توجہ کتابوں پر بالکل نہیں تھی۔وہ دونوں جب ساتھ ہوتی تھیں تو انکے پاس باتیں کرنے کے لئے اتنے موضوع ہوتے تھے کہ کسی دوسری جانب دھیان ہی نہیں جاتا تھا ۔سرخ ٹی شرٹ اور جینز میں ملبوس انابہ نے اپنا برگر لگ بھگ ختم کر لیا تھا اور اب بھوکی نظروں سے ریشم کا برگر دیکھ رہی تھی ۔
“یار انابہ! تمہاری فٹنیس کا راز کیا ہے؟ تم نے کبھی ڈائٹنگ نہیں کی اور پھر بھی کتنی سلم سی ہو۔مجھے دیکھو میں کتنا احتیاط کرتی ہوں پھر بھی….” ریشم نے کہا ۔وہ اپنے فربہی مائل جسم سے پریشان تھی ۔
“لاؤ اپنا برگر مجھے پکڑاؤ۔” اسنے اپنا ہاتھ اسکی جانب بڑھایا۔
ریشم نے پہلے اسکے بڑھے ہاتھ پھر اپنے برگر کو دیکھا ۔اسکے چہرے پر کشمکش ابھری۔پندرہ دنوں بعد وہ کوئی جنک فوڈ کھانے والی تھی اور اب…
” ارے تمہیں اپنی دوست پر ہی بھروسہ نہیں ہے ۔کھانے کے لئے نہیں مانگ رہی بس تمہیں وزن کم کرنے کی کچھ ٹرکس بتانی تھی۔خیر تمہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے تو…” اسنے لاپروائی سے کہتے ہوئے اپنا ہاتھ پیچھے کیا۔
“تم ناراض مت ہو۔….لو برگر پکڑو اور مجھے ٹرک بتاؤ۔”
“ہوں… “اسنے برگر بڑے احتیاط سے اپنے دائیں ہاتھ میں لیا۔” چلو اپنے دونوں ہاتھ اوپر کرو… ہاں ٹھیک اسی طرح ۔اب اپنا چہرہ آسمان کی طرف کر کے گہری گہری سانسیں لو۔”
ریشم نے اسکی ہدایت کے مطابق اپنے دونوں ہاتھ اوپر کئے ۔ادھر اسنے اپنا چہرہ اوپر کیا اور اُدھر انابہ نے برگر کا ایک بڑا ٹکڑا دانتوں سے کاٹا۔
“کتنی دیر تک اس طرح کروں؟ “ریشم نے اپنا چہرہ یونہی اوپر کی طرف کئے ہوئے پوچھا۔
” بس پانچ منٹ…. “وہ اپنے منہ میں برگر چباتی بڑی مشکل سے بولی ۔
ریشم نے اپنے ہاتھ نیچے گرائے ۔چہرہ سیدھا کیا اور کھا جانے والی نظروں سے اپنی سدا کی بھوکی دوست کو دیکھا۔
“انابہ! میرا برگر… “اسنے ہاتھ بڑھا کر برگر لینے کی کوشش کی اور انابہ ہنستی ہوئی زرا پیچھے ہوئی اور دوسرا بڑا ٹکڑا منہ میں بھرا۔
“ارے! یہ حسن مجتبٰی یہاں کیسے؟” یکدم ریشم نے انابہ کے عقب میں دیکھتے ہوئے کہا ۔اور انابہ کے کانوں نے حسن مجتبٰی کا نام سنا۔دل کو تیزی سے پیغام بھیجا۔دل نے دماغ کو الرٹ کیا اور اسکے ہاتھوں سے برگر چھوٹ کر نیچے گرا۔منہ میں موجود آدھ چبائے نوالے کو نگلتے ہوئے وہ ہونٹ صاف کرتی کھڑی ہو گئی ۔
“کہاں؟ حسن مجتبٰی ہماری یونی میں؟ کدھر ہے؟” وہ اپنے عقب میں مڑتی بے تابی سے بولی۔دور دور تک دیکھنے کے باوجود اسے وہ کہیں نظر نہیں آیا تھا ۔
وہ مایوسی سے پلٹی۔اور ریشم کے ہاتھ میں برگر نے اسے سارا. معاملہ سمجھا دیا۔
“ریشم یہ بہت غلط بات ہے ۔” وہ واپس گھاس پر بیٹھ گئی۔
” اسے جیسے کو تیسا کہتے ہیں ۔ویسے حسن مجتبٰی کے نام پر تمہیں بیوقوف بنانا کتنا آسان ہے نا؟” وہ محفوظ مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔
“شٹ اپ!” اسنے ناراضی سے کہا۔
ریشم کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔اسے جیسے اسکی ناراضگی سے مزہ آ رہا تھا ۔
پھر وہ یونہی منہ پھلائے بیٹھی رہی اور ریشم نے پورا برگر اطمینان سے ختم کر لیا تھا۔تھوڑی دیر کے بعد وہ دونوں اپنی کتابیں کاپیاں بیگ میں ڈالتی کھڑی ہو گئیں ۔
” انابہ! تم نے اس دن اپنی جو پروفائل پکچر لگائی تھی۔قسم سے وہ لہنگا تم پر سوٹ کر رہا تھا ۔” وہ دونوں اب سیڑھیاں چڑھ رہی تھیں ۔
“میری حق و حلال کی کمائی کا لہنگا تھا تو سوٹ کیوں نہیں کرتا؟” اسنے اپنے ماتھے پر کٹے بالوں کو انگلی سے پرے کیا اور انگلی ہٹاتے ہی وہ واپس گر گیا تھا ۔
” وہ کس طرح…. “وہ حیرت سے بولی ۔
” میرے ڈیڈ بالکل دوسری طرح کے ڈیڈ ہیں ۔میں چاہے انکے سامنے اپنی ناک رگڑ لیتی مگر وہ مجھے اتنا قیمتی لہنگا کبھی نہیں دیتے۔اسلئے میں نے انکے ساتھ ایک چھوٹا سا پرینک کیا۔”
“توبہ انابہ! اور تم نے کیا پرینک کیا؟” وہ اب پہلے فلور پر پہنچ گئی تھیں ۔
“میں نے ڈیڈ کے اسسٹنٹ فیض کو اپنی طرف کیا۔اسنے انکے سامنے سسٹم ہیک ہونے کا ڈرامہ کیا اور میں نے بالکل صحیح وقت پر انٹری کی ۔پھر کیا تھا اپنی ہیکنگ اسکل کا ڈیڈ کے سامنے مظاہرہ کیا اور وہ مجھ سے اتنے متاثر ہو گئے کہ کیا بتاؤں؟” اسے اس لمحے کا سوچ کر بھی مزہ آیا ۔
” اور وہ اسسٹنٹ اتنا بے ایمان تھا کہ تم نے اسے خرید لیا؟ “ریشم کو جیسے یہ بات ہضم نہیں ہوئی۔
” خریدا نہیں ہے جان! اسے بلیک میل کیا ہے ۔اصل میں میں نے ایک دفعہ سگریٹ پیتے ہوئے اسکی ایک تصویر لے لی تھی، اور اگر ڈیڈ کو معلوم ہو جاتا تو وہ اسے جاب سے فوراً فارغ کر دیتے۔”
” تو اپنا کام ہو جانے کے بعد تم نے اس تصویر کا کیا کیا؟” انابہ کہ کلاس آ گئی تھی۔ وہ دونوں رک گئیں ۔
” بھئی اسکے بعد اس تصویر کا میں کیا کرتی؟ ڈلیٹ کر دی اور کیا؟ “وہ معصومیت سے بولی اور اپنی کلاس میں چلی گئی تھی ۔
ریشم سر جھٹک کر آگے بڑھ گئی۔اسے جیسے اپنی دوست کی اِسکلز کا پتہ نہیں تھا۔وہ یقین ہی نہیں کر سکتی تھی کہ انابہ نے وہ تصویر کسی اور وقت کے لئے محفوظ نہیں کی ہوگی۔
– – – – – – – –