سفھاء آج لال فراک میں تھی۔ کچھ دیر کیلیئے وہ اسے
دیکھ کر ادھر ادھر دیکھنا ہی بھول گیا تھا۔ وہ مسکراتی ہوئی اس کی طرف آرہی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ وہ اسے پسند کرتی ہے اور جب اس نے بھی اسے پرپوز کیا تو وہ بہت خوش ہوئی تھی۔ اس کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی تھی۔ لیکن سفھاء نے کبھی عباس کے پرپوز کرنے پر جواب نہ دیا تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ عباس اس کے گھر رشتہ لائے اور عزت سے اسے اپنی زندگی میں شامل کرے۔
“کہیں باہر چلیں؟” شو دیکھتے دیکھتے وہ دونوں ہی اکتا گئے تھے۔ عباس اس کی اکتاہٹ بھانپ چکا تھا۔
“کہاں؟” وہ فرمائش کر رہا تھا۔ سفھاء تذبذب کا شکار ہوئی تھی۔
ساحل سمندر چلتے ہیں۔” وہ اس کے مطالبے پر حیران رہ گئی۔ وجیہہ یا بابا کو پتہ لگ جائے تو۔
“نہیں نہیں پاگل ہو کیا۔” اس نے صاف انکار کیا۔
“آجائینگے چار بجے تک۔” اس نے یقین دلایا تو وہ کچھ توقف کے بعد مان گئی۔ وہ دونوں گاڑی میں خاموش بیٹھے تھے۔ ہلکے ہلکے میوزک سے وہ دونوں لطف اندوز ہورہے تھے۔
“تم جانتی ہو میں کل گھر جا رہا ہوں ماما بابا سے ہماری شادی کی بات کرنے۔” سفھاء حیران ہوئی ساتھ میں خوش بھی تھی۔ وہ مسکرا کر اسے دیکھے گئی۔
گاڑی ایک جھٹکے سے خوبصورت سے اپارٹمنٹ کے سامنے رکی۔ سفھاء نے حیرت سے عباس کو دیکھا۔
“کہاں لے آئے ہو؟” اس نے اپنا خوف چھپاتے کہا۔
“کل صبح میری فلائیٹ ہے۔ پیکنگ کروا دو میری۔ بابا بھی اسلام آباد میں ہی ہیں انھوں نے رات کو آفیس کا ایک کام کرنے کو کہا ہے وہ بھی کرنا ہے آفس جا کر تم پیکنگ میں مدد کر دو گی تو کام آسان ہوجائیگا۔ گھر والوں کیلیئے کچھ گفٹس لیے ہیں وہ پیک کرنے ہیں۔” اس نے تفصیل سے بتایا تو سفھاء پرسکون ہوئی۔ وہ اس کے ساتھ اپارٹمنٹ میں داخل ہوئی نہ جانے کیوں کسی انہونی کا ڈر تھا۔ صرف اس لیے پریشان تھی کہ اس نے ساحل سمندر کا جھوٹ کیوں بولا تھا۔
“نہیں وہ مج۔۔۔ مجھ سے محبت کرتا ہے۔۔۔ پاک محبت۔” سفھاء نے سوچوں کو جھٹکا۔ لیکن اسے کون بتاتا کہ پاک محبت تو شروع ہی نکاح کے بعد ہوتی ہے۔ اس سے پہلے کی تو ساری فضولیات محبت نہیں گمراہی ہوتی ہے۔ ایسی محبتیں انسان کو گنہگار بنا دیتی ہیں۔ ان سے لوگ کتنی اذیتیں اپنے لیے خرید لیتے ہیں۔ رشتوں اور احساس کا قتل بھی ان ہی لوگوں کے ہاتھوں ہی ہوتا ہے۔ ایک ساتھ کتنے گناہ۔۔ اور پھر خود کیلیئے اذیتیں خرید کر، خود کو پاتال میں گرا دینے کے بعد پھر ہم سارا الزام نصیب کو ڈال دیتے ہیں۔
………………….. ……………………….
بارش زوروں پر تھی اور ابھی وہ لائبریری سے اسائمنٹ بنا کر نکلی ہی تھی کہ اسے شدید حیرت ہوئی۔ اتنی تیز بارش کی تو وہ توقع ہی نہیں کر رہی تھی۔ یونیورسٹی بھی تقریباً خالی تھی اور کچھ منچلے نوجوان موج مستیوں میں مگن تھے۔
“پوائنٹ نے بھی آج ہی مس ہونا تھا۔” اس نے غصے سے سوچا۔ ساریہ بھی اسلام آباد گئی ہوئی تھی۔ سامنے سے وھاج کی گاڑی زن سے گزری تو اسے لگا کہ جیسے اسے ہی چڑایا گیا ہے۔ وہ فضول سوچوں میں گھری تھی کہ ایک گاڑی اس کے سامنے آکر رکی۔ اور سامنے والے بندے کو دیکھ کر اس کا دل کیا تھا شوٹ کردے۔
اس سے دوستی تو کرنی ہی تھی ناں۔ آج شاید یہ موقع مل گیا تھا۔ وہ اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔ اور اس دن سے ان کی دوستی کا آغاز ہوچکا تھا۔ اب وہ اکثر یونیورسٹی میں عباس رضوی کے ساتھ گھومتی نظر آتی۔ وھاج نے دیکھا تو اسے شدید دھچکا لگا۔ عباس رضوی کو وہ اچھا نہیں سمجھتا تھا۔ وہ اسے کافی اچھے سے جانتا تھا لیکن وھاج خاموش رہا۔ وہ کچھ کہنے کا حق بھی کہاں رکھتا تھا ہاں البتہ بہت خاموشی سے ہی سہی وہ وجیہہ کو نظر میں رکھتا۔ اور وہ وھاج اور احد سے بالکل ویسے ملتی جیسے پہلے ملتی تھی۔
“ہیلو سینیرز کیا حال ہے؟” ساریہ وجیہہ کو عباس کے پاس بھیج کر وھاج اور احد کے پاس چلی آئی۔
“آگئیں محترمہ دوست کے پاس سے۔ کبھی ہمیں بھی وقت دے دیا کرو۔” احد نے شکایت کی۔
“بس کر جاؤ ڈرامے باز۔” ساریہ نے کتاب اس کے سر پر دے ماری۔ وھاج مسکرایا۔
“اور تمہاری دوست کیسی ہے؟” احد نے وجیہہ کا پوچھا۔
“صرف میری نہیں آپ لوگوں کی بھی دوست ہے۔” ساریہ نے خفگی سے کہا۔
“نہ بھئی عباس رضوی کے دوستوں سے میں دوستی نہیں رکھتا۔” احد کو عباس رضوی سے کوئی خاص بیر تھا شاید۔
“احد وہ وجیہہ سے محبت کرتا ہے اب ہم تو یہ نہیں کہہ سکتے ناں کہ اس کو پسند کرو اور اس کو نہیں۔ یہ وجیہہ کی زندگی ہے وہ جو بھی کرے۔ ہے ناں وھاج بھائی۔” اس نے وھاج سے تائید چاہی۔ وہ خاموش رہا۔
“وہ اچھا لڑکا نہیں ہے اور سب سے بڑی بات بہت سے لڑکے اسے پسند کرتے ہیں۔ کچھ تو پرپوز بھی کر چکے ہیں۔ لیکن وجیہہ کو وہی ملا تھا گھٹیا لڑکا۔” احد تلخ ہوا۔
“اچھا لڑکا ہے وہ احد۔”ساریہ کو بھی غصہ آیا۔
“جانتا ہوں کتنا اچھا ہے۔” احد نے منہ پھیرا۔
“اچھا تم دونوں تو نہ لڑو۔” وھاج نے پہلی بار گفتگو میں حصہ لیا “احد تم مجھے میری برتھ ڈے پر کیا گفٹ دے رہے ہو؟” ساریہ نے موبائل نکال کر لاک کھولتے ہوئے احد کو دیکھا۔
“سوچ رہا ہوں اپنا دل نکال کر دے دوں۔ فرمائشی پروگرام سننے والا تو کوئی نہ رہے گا۔” احد نے ساریہ کو تنگ کرنا چاہا پر وہ سنجیدہ ہو گئی۔
“چاہیے بھی نہیں مجھے کچھ۔ پاس رکھو اپنے۔” وہ جھٹکے سے اٹھی اور کلاس کی طرف بڑھ گئی۔
“ارے سنو تو لڑکی۔ مذاق کر رہا تھا۔” وہ اس کے پیچھے لپکا۔ وھاج نے زیر لب مسکراتے ہوئے انھیں دعا دی۔ وہ دونوں اسے بہت خوش نصیب لگتے تھے ۔ دو محبتیں ایک ساتھ ہوں تو خوش نصیب ہی کہلاتے ہیں ناں۔
وہ اٹھا اور گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔ یہ پہلی بار ہوا تھا کہ وہ ساری کلاسس لیے بغیر اور احد کو بغیر بتائے گھر آگیا۔ احد کلاس میں آیا تو وھاج اسے نہ دکھا اسے شدید حیرت ہوئی۔ کال کی تو موبائل آف تھا اسے مزید حیرت ہوئی۔
“شاید وجیہہ کی وجہ سے پریشان ہے۔” وہ جانتا تھا کہ وھاج وجیہہ سے محبت کرتا ہے خاموش محبت۔ جو اس نے احد سے بھی چھپائی ہوئی تھی۔ بلکہ نہیں اس نے تو خود سے بھی چھپائی ہوئی تھی اپنی محبت تو پھر احد کو کیا بتاتا۔۔۔۔۔۔ کیسے بتاتا۔۔۔۔۔؟
☆☆ ☆☆ ☆☆ ☆☆