میں روزادھر سے گزرتاہوں کون دیکھتاہے
میں جب ادھرسے نہ گزروں گا کون دیکھے گا
(۱)
مجیدامجدکے اس شعر میںژاں پال سارترکا وجودی فلسفہ پوری آب وتاب کے ساتھ موجودہے۔باشعوردنیاکے نئے انسان کایہ احساس تنہائی کوئی نیا تجربہ نہیں بل کہ یہ ایک اہم انسانی جبلت اور موضوع کے اعتبار سے عالم گیریت کی حامل کیفیت ہے،اہل علم و دانش نے اس کے مختلف زاویے بیان کرتے ہوئے تنہائی کو چند حصوں میں منقسم کیا ہے۔مجید امجد کے ہاں تنہائی کا احساس کسی خطرناک داخلی بیماری کو ظاہر نہیں کرتا،آج کا انسان چوںکہ بین الاقوامی برادری کا فرد ہے اس لیے اس کے سماجی دائرے محدود ہوتے جا رہے ہیں۔انفرادی رشتوں کا یہی احساس انسان کو عدم و نیستی کے تصور سے آشنا کرنے کا کام دیتا ہے ۔شعور، معاشرے اور تہذیب و تمدن کے حوالے سے تنہائی کی نوعیت اور حیثیت میں ارتقا ہوتا رہتا ہے لیکن انبیا، فقہااور شعرا نے ہمیشہ نہیں تو گاہے بہ گاہے تنہائی کا دکھ اٹھایا ہے۔ دنیا کے ہر ادب اور ادب کی تقریباً تمام اصناف میں تنہائی ایک پسندیدہ موضوع کے طور پر نمایاں رہی ہے۔اسی احساس تنہائی کی اقسام،تنہائی(loneliness) ،علاحدگی(Isolation)،اکیلا پن (Aloneness)،خلوت(Solitude)اور بے گانگی(Alienation) کے کئی رنگ ہمارے شعرا کے ہاں دکھائی دیتے ہیں۔
مشہور انگریزی رومانوی شاعر،ولیم وڈز ورتھ Words Worth کہتا ہے:
’’Some thing solitude is a great society‘‘
ورڈز ورتھ اپنی تنہائی میں خوش ہے کہ اس کے اندر بھی عظیم معاشرہ موجود ہے۔ فارسی شاعری کی تاریخ میں بھی ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں ،مولانا جلال الدین رومی کے دو شعر دیکھیے:
در ھوایت بے قرارم روز و شب
سرز پایت بر ندارم روز و شب
زاں شبی کہ وعدہ داری روز وصل
روزوشب را می شمارم روز و شب
(۲)
ایک اورفارسی رباعی میں( جو ابوسعیدابوالخیریاسرمدسعید سے منسوب ہے)تنہائی کے موسموں کے انسان پرقیامت کی طرح ورود کرنے کا موضوع کتنے کرب ناک اندازمیںدیکھاجاسکتاہے:
سرما بگذشت و ایں دل زار ہماں
گرما بگذشت وایں دل زار ہماں
القصہ تمام گرم و سرد عالم
بر ما بگذشت وایں دل زار ہماں
(۳)
گذشتہ صدی کے اردو شعرا کے ہاںیہ موضوع تواترسے استعمال ہواہے۔ مجید امجد(۱۹۷۴ء۔۱۹۱۴ء) اردو کے وہ اہم شاعر ہے جن کے ہاں تنہائی کا یہ احساس پورے شعوروادراک کے ساتھ موجود ہے۔اس کا سراغ مجید امجد کی شعری کائنات سے لگایا جا سکتا ہے۔ بچپن میں والدین کی علاحدگی نے مجیدامجد کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے،اس دوران میں انھیںidentity crisis کا سامنا بھی ہوا،غور کریںکہ زندگی کی بھیانک شکلیں ایک معصوم سی جان کے سامنے نہ جانے کتنے زاویوں سے آشکار ہوئی ہوں گی ۔اس مرحلے پرمعاشرتی عدم تحفظ کا شکار بچہ عام طور پردو قسم کا رویہ اختیار کرتاہے، وہ بہادر بن کر حالات کے سامنے سینہ سپر ہوجاتا ہے یا تمام عمر کے لیے شرمیلے پن کا عادی بن جاتا ہے۔ موخرالذکرلوگ اپنے گرد تنہائی کا ایک دائرہ سا کھینچ لیتے ہیں۔مجیدامجدکے ہاں یہی دائرہ خودحفاظتی کے طور پر کھنچا دکھائی دیتاہے۔ ہمارے اہل نقد و نظر نے اس کا باریک بینی سے تجزیہ کیا ہے۔ ڈاکٹر شاہین مفتی کے مطابق:
’’ایک معصوم بچہ جس پر اس کے اصل گھر اور پوری شناخت کا دروازہ بند ہو چکا ہے اس کی اصلی زندگی کیا ہو سکتی ہے۔ صرف شرم اور کپکپی۔ چناں چہ مجید امجد نو سال کی عمر میں اپنی تنہائی ، اپنی احتیاجات اور اپنی خوداصلاحی سے اپنی رفاقت کا ہنر تراش لیتے ہیں اور اپنے ماموں میاں منظور علی کی سرپرستی میں جو اسلامیہ سکول میں ٹیچر تھے، شاعرانہ سفر کا آغاز کرتے ہیں۔‘‘(۴)
مجید امجد کی شاعری کا مرکزی کردار ایک ایسی تہذیب کا نمائندہ ہے جس نے پرورش تو پنجاب کے خالص دیہی ماحول میں پائی ہے لیکن تلاشِ رزق نے اسے گائوں کی خالص فضا سے دور شہر کی تضادات کی حامل معاشرت میں لا کھڑا کیا ہے۔ زندگی ایک نئے انداز سے اس کی شخصیت پر اپنے اثرات مرتب کرتی ہے اور وہ حیران و سرگرداں ہو کر آغوشِ فطرت میں پناہ لینے پر مجبور ہو جاتا ہے،بہ قول بلال زبیری:
’’مجید امجد نازک احساسات کا مجموعہ تھے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ قرنِ اول کے کسی انسانی قافلہ سے بچھڑ گئے تھے اور بھٹکے ہوئے راہی کی طرح منزلیں قطع کرتے ہوئے اس جہنم زار معاشرے میں آن پہنچے تھے۔ جب تک پائوں چلتے رہے، پائوں کے چھلنی ہونے کا احساس نہ ہوا۔ جونہی اس معاشرے میں پہنچے اپنے احساس کے زخموں کو زندہ پایا۔ ان کے زخمی احساس نے ان کی روح کے ارد گرد خون کا ہالہ بنا دیا، وہ زندگی بھر اپنے اس ہالے کو عبور کرنے کی فکر میں مصروفِ جہد رہے مگر ہمیشہ خود کو تنہاپایا‘‘ (۵)
مجید امجد کے ہاں تصور تنہائی ، روحانی تشنگی اور صوفیانہ ماورائیت سے بھی ابھر کر سامنے آیا ہے،ایک ایسی تنہائی جو سردیوں کی شام میں زینہ ء دل پرآہستہ آہستہ اترتے ہوئے منکشف ہوتی ہے،اس کی ایک مثال ان کی نظم’’راتوں کو‘‘کا ایک اقتباس ہے :
آنکھوں میں کوئی بس جاتا ہے
میٹھی سی ہنسی ہنس جاتاہے
احساس کی لہریں ان تاریک جزیروں سے ٹکراتی ہیں
جہاںنغمے پنکھ سنوارتے ہیں
سنگین فصیلوں کے گنبدسے پہرے دارپکارتے ہیں
کیا کرتاہے؟
دل ڈرتا ہے،ان کالی اکیلی راتوں سے دل ڈرتاہے
(۶)
ایک اور جگہ پر تنہائی ان کے ہاں یوں جلوہ گرہوتی ہے:
یہی پھولوں کی زیست کا ماحصل ہے
کہ اس کا تبسم اسی کی اجل ہے
یہ دنیا ہے میری کہ مرقد ہے میرا
یہاں بھی اندھیرا وہاں بھی اندھیرا
(۷)
۔۔۔۔۔۔
موت کتنی تیرہ و تاریک ہے
ہوگی لیکن مجھ کو اس کا غم نہیں
قبر کے اندھے گڑھے کے اس طرف
اس طرف باہر اندھیرا کم نہیں(۸)
مجید امجد کی نظموں میں تنہائی صدرنگ جلوے لیے ظاہرہوتی ہے۔اس میں آٹے کے کھلونے بنانے والے مشفق ہاتھ دکھائی دیتے ہیںتو کہیں گھاس کی گٹھڑی کے نیچے معصوم اور روشن چہروںکی یادیں دل میں ماضی کی دبی راکھ کوکریدتی ہیں۔تنہائی کی اسی انجمن آرائی میں منقش یادیں اس کے لیے سوہان روح بن جاتی ہیں :
میری مانند خود نگر تنہا
یہ صراحی میں پھول نرگس کا
اتنی شمعیں تھیں تیری یادوں کی
اپناسایہ بھی اپنا سایہ نہ تھا
(۹)
دل نے ایک ایک دکھ سہا تنہا
انجمن انجمن رہا تنہا
ڈھلتے سایوں میں تیرے کوچے سے
کوئی گزرا ہے بارہا تنہا
کہنہ یادوں کے برف زاروں پر
ایک آنسو بہا ، بہا تنہا
ڈوبتے ساحلوں کے موڑ پہ دل
اک کھنڈر سا رہا سہا تنہا
(۱۰)
تخلیقی واردات کے حوالے سے مجید امجد کی کاوشیں اور تجربے انتہائی جاں گسل ہیں۔ شبِ رفتہ کے آغاز میں ابتدائیے کے طور پر مجید امجد نے ایک نظم کے آٹھ مصرعے لکھے ہیں۔ جن کا اگرچہ کوئی عنوان نہیں لیکن محسوس یہی ہوتا ہے کہ وہ جیسے قاری کو اپنی ذات سے متعارف کروانا چاہتے ہیں ۔ مندرجہ ذیل اشعار میں ’’گم سے اندھیرے‘‘ سے تنہائی کو مراد لیا گیا ہے:
ہاں اسی گم سے اندھیرے میں ابھی
بیٹھ کر وہ راکھ چننی ہے مجھے
راکھ ان دنیائوں کی جو جل بجھیں
راکھ جن میں لاکھ خونی شبنمیں
زیست کی پلکوں کی ٹپ ٹپ ٹوٹتی
جانے کب سے جذب ہوتی آئی ہیں
کتنی روحیں ان زمانوں کا خمیر
اپنے اشکوں سے پروتی آئی ہیں
(۱۱)
مجیدامجد بڑے ادبی مراکزسے دور ایک چھوٹے شہرمنٹگمری(اب ساہیوال )میں قیام پذٰیررہے۔اس کے برعکس فیض احمدفیض ،ن۔م۔رشد اور میراجی نے بھرپور مجلسی زندگی بسرکی ۔آج کے نئے لکھنے والوں نے انھی شعرا کے اسلوب کی پیروی کی۔مجیدامجدکانام بھی انھی شعرا کے ساتھ لیا جاتا ہے لیکن ان سے منفرداورجدادکھائی دیتے ہیں۔ان کی شاعری کے اس پہلوکی طرف شہزاد احمدنے اشارہ کیا ہے :
’’میرا جی ،فیض اور راشد نے اپنے اپنے مکاتب فکر کو جنم دیاہے۔ اس عہد کے بیش تر لکھنے والے ان تینوں میں سے کسی نہ کسی کے پیچھے لمبی قطاروں میں کھڑے ہیں مگر مجید امجد تنہا ہے اس نے کسی کی تقلید کی ہے اور نہ کسی کو اپنے تقلید کرنے کی ترغیب دی ہے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اس نے تلمذ کا سلسلہ بھی شروع نہ کیا تھا۔ ایک آدھ شاعر جس کی نظموں میں اس کے مشورے بھی شامل تھے اب اپنے علاوہ کسی کی عظمت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ چناں چہ مجید امجد اردو شاعری کا اکیلا آدمی ہے مگر اس کی تنہائی کسی معاشرتی دبائو کی پیدا وار نہیں ہے بل کہ اس کی اپنی اختیار کردہ ہے۔‘‘(۱۲)
یہی لہجہ اور یہی تصورِ تنہائی مجید امجد کو صرف اردو ادب بل کہ عالمی ادب میں بھی دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔ یہاں فی الوقت شعرائے مغرب کی ایک طویل فہرست دینا مقصود نہیں صرف سموئیل ٹیلر کالریج (s.t.colredge)کی ایک نظم ’’سمندری مسافر کی کتھا‘‘ کا ایک بند بطور ِ حوالہ پیش ہے:
Alone, alone all all alone
Alone on a wide sea
and never a saint took pity
on my soul in agnoye.(13)
سمندری مسافر نے بلا سبب و قصور ’’سمندری پرندے‘‘ کی جان لے لی اور عذاب کے طور پر اس پر بے برکتیوں اور بد توفیقیوں کے در وا کر دیے گئے۔ سمندری مسافر ایک ایسے معاشرے کا نمائندہ ہے جہاں ہم مشربوں سے انسان کا رشتہ منقطع ہے۔ لیکن بند میں تنہائی ایک خوب صورت جل پری کی بجائے ایک خوف ناک عفریت کی طرح چیختی اور چنگھاڑتی ہوئی نظر آتی ہے اور قاری کو دہشت زدہ کر دیتی ہے۔ اس کے برعکس مجیدامجد فطرت سے ہم کنار ہو کرجب تنہائی کو اپنی ذات کا جزو بنا لیتے ہیںتو انھیں احساس ہوتا ہے کہ قادر مطلق کی بنائی ہوئی اس وسیع کائنات میں موجود ہر شے اس قدر تنہا ہونے کے باوجود اپنی اپنی حیثیت میں کس قدر انجمن آرا ہے۔اس حوالے سے ڈاکٹر سلیم اختر رقم طراز ہیں:
’’مجید امجد تمام عمر لوگوں سے جذباتی لحاظ سے منقطع رہا۔ ان کی انفرادی نظموں کے ساتھ ان کی شاعری کی عمومی فضا سے بھی اس کا اظہار ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس کیفیت نے ان کی سائیکی سے جنم لیا اور نفسیاتی لحاظ سے جس کے اظہار کے لیے وہ مجبور تھے آنے والے شعرا کے لیے وہ بھی ایک طرح کی روایت بل کہ فیشن بن گئی۔ جہاں تک مجید امجد کا تعلق ہے تو اس کے ہاں تنہائی کے کرب کا یہ رجحان نمایاں تر نظر آنے کے ساتھ ساتھ اس کے ڈکشن میںخاص انداز سے رنگ آمیزی بھی کرتا ہے۔ اس کا اظہار اس نے غزلوں میں بھی کیا اور نظموں میں بھی۔‘‘(۱۴)
مجید امجد اپنے تنہا وجود کو نرگس کا پھول اور اپنی سوچ کو لہکتی ڈال قرار دیتے ہیں ۔درخت کا استعارہ،تنہائی اور کرب کی ایک علامت کے طور پر مجید امجد کی شاعری میں استعمال ہوا ہے۔ ’’توسیع شہر‘‘ درختوں کا نوحہ ہے جو لوئر باری دوآب کے کنارے درخت دشمن مافیا کی مہربانیوں کے سبب کٹ جانے والے درختوں کے سوگ میں لکھا گیا ہے لیکن یہاں پر درختوں کا کٹ جانامحض چند درختوں کا کٹنا نہیں بل کہ ایک پوری روایت کا کٹ جانا ہے۔ یہ روایت محبت کی کوئی گم نام کہانی بھی ہو سکتی ہے۔ کٹے ہوئے درختوں کو وہ زرد کفن میں لپٹی لاشوں سے تشبیہ دیتا ہے اسی ایک نظم ’’دور کے پیڑ‘‘ میں وہ کہتا ہے۔
خستہ دل پیڑوں کی اک سونی قطار
خشک چٹانیں کھڑکھڑاتی ٹہنیاں
بے کفن لاشوں کی طرح آویختہ
(۱۵)
تنہائی اور درختوں سے محبت دراصل فطرت سے محبت ہے۔ فیض احمد فیض نے اگر سیاست کو محبوبہ کے طور پر پیش کیا تویہ کہنا بھی بجا ہوگا کہ یہی بات مجید امجد کے ہاں فطرت کے بارے میں کہی جا سکتی ہے:
مہینہ تھما ہے اور ابھی ہلکی پھہار آتی ہے
کچکچاتے ہوئے کیچڑ کو کچوکے دیتی
کھلکھلاتی ہوئی قدموں کی قطار آتی ہے
(۱۶)
ان چیزوں کے مشاہدے کے بعد مجید امجد کا قاری تنہائی، درخت اور مجید امجد کو ایک مثلث کے تین زاویے سمجھنے لگتا ہے، ان چیزوں اور مجید امجد میں کئی قدریں مشترک ہیں۔ مثال کے طور پرمجید امجد ایک دبلے پتلے، بہ ظاہر واجبی سی شکل و صورت والے انسان ہیں جن کی آنکھوں کی بینائی بھی خاصی کمزور ہے اور ساتھ پھیپھڑوں کی بیماری بھی انھیں ورثے میں ملی ہے۔ اس طرح درخت بھی باہم جڑے ہوئے لیکن تنہا اور انسانی خیرات کردہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے محتاج اسی طرح یہ تمام چیزیں بہ ظاہر علاحدہ علاحدہ ہونے کے باوجود باہمی طور پر مربوط نظر آتی ہیں۔ مجید امجد کی تنہائی کے ان ساتھیوں کا جب قتل عام ہوتاہے تو ایک مرنے والے کی آخری پکارکی طرح بے اختیار غم واندوہ کی کیفیت میں یہ کرب ناک آواز بلندہوتی ہے:
اس مقتل میں صرف اک میری سوچ لہکتی ڈال
اس پر بھی اب کاری ضرب اک اے آدم کی آل!
(۱۷)
شاعر فرشتہ نہیں گوشت پوست سے بنا انسان ہے، اس کے ہاں انسانی فطری جذبوں کی چنگاریاں بجھی نہیں ہیں اس کے ہاں جنھیں مخالف کا تصور اور جنسی آسودگی کا احساس اس کی مختلف نظموں کے پس منظر میں جھانک رہا ہے۔ اس کی مثال اس کی نظم آٹو گراف ایکسٹریس کا کنٹریکٹ ، برہنہ اور دیوار پر کیلنڈر ہے۔ ان نظموں کے بیان میں شاعر نے جنس کی نمائش اور اپنی نارسائی کا دکھ محسوس کیا ہے۔ مثال کے طور پر نظم آٹو گراف کا آخری بند دیکھیے:
میں اجنبی ، میں بے نشاں ، میں پابہ گل
نہ رفعت مقام ہے نہ عظمتِ دوام ہے
یہ لوحِ دل یہ لوح دل
نہ اس پہ کوئی نقش ہے نہ اس پہ کوئی نام ہے
(۱۸)
مجید امجد کی شاعری کی اس نمایاںجہت کے بارے میں ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں:
’’تنہا مرد کی جنسی آسودگی کے نقطۂ نظر سے میں نے مجید امجد کا مطالعہ کیا تو یہ احساس ہوا کہ گو اس کے یہاں جنس پر واشگاف انداز سے لکھنے کا رجحان تو نہیں لیکن اس کے باوجود اس نے جنس کے بارے میں جو کچھ لکھا تنہا مرد کے ردعمل کے لحاظ سے وہ بے حد دل چسپ ہے۔‘‘(۱۹)
مجید امجد کی شاعری میںبے گانگی کا یہ احساس مختلف نظموں کی شکل میں سامنے آتا ہے اگر ان کی نظم ’’قیدی‘‘ کا تجزیہ کریں تو اس میں زندگی کے جبر کی کیفیات فرد کو عجب زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں ،اس صورت حال میں فرد اپنے داخل کی تمام تر قوت کے باوجود زندگی کے ان آلام سے نبردآزما ہونے کے معاملے میں اپنے آپ کو تنہا محسوس ہوتا ہے۔اس مرحلے پران کی نظموں میں سماج کی جھوٹی اورسفاک قدروں کے خلاف ایک ہلکی سی صدائے احتجاج ضروربلندہوتی ہے ،ان کی شاعری کے اس زاویے پرڈاکٹر تبسم کاشمیری کی اس بات سے اتفاق کرناپڑے گا کہ:
’’مجید امجد تنہائیوں کو اپنے سینے سے چمٹائے زندگی کے سفر پر رواں دواں نظر آتا ہے۔۔۔ وہ خارجی دنیا کی جھوٹی قدروں کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے۔ وہ سماج کی جعلی اقدار اور ان اقدار سے بننے والے ڈھانچے کو رد کرتا ہے اور سماجی خود غرضی سے نفرت کرتا ہے اسی سماجی اجنبیت کا شکار ہوتا ہے۔‘‘(۲۰)
مجید امجد نے جس ماحول میں آنکھ کھولی اور اس میں زندگی کی حقیقت ان پرآشکار ہوئی،انھوںنے پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں عالمی کساد بازاری کا قریب سے مشاہدہ کیاتھا، اس لیے ان کے ہاں نارسائی کا دکھ اور بڑھا، تنہائی کے عفریت انھیںزندگی بھر ڈستے رہے اور وہ خاموش خراماں خراماں زندگی کے جبر کا جستی دستہ تھامے عمر بسر کرتے رہے۔مجید امجد کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے بڑی مہارت اور وضع داری کے ساتھ تنہائی کو ایک ذاتی اور کائناتی تجربے کے طور پر پیش کیا ہے۔وہ ایک ایسے انسانی کارواں کا حصہ ہیںجس میں ہر مسافر دیگرلوگوں کی معیت میں اپنے انت کی جانب رواں دوں تو ہے لیکن اس کو اپنی تنہائی کا احساس بھی کھائے جاتا ہے،البتہ یہ تنہائی شعوری بھی ہے۔
حوالہ جات
۱۔مجید امجد،کلیات مجید امجد،لاہور:الحمد پبلی کیشنز،۲۰۰۳ء،ص۴۵۵
۲۔رومی،جلال الدین،مثنوی مولوی معنوی،دفتردوم،لاہور:اسلامی کتب خانہ،س ن ،ص۳۳۲
۳۔ارشاد،محمد،فارسی رباعی کا موضوعاتی تنوع،مشمولہ رسالہ،بیاض،شمارہ ،۳،لاہور:مارچ۱۹۹۷ء،ص۴۰
۴۔شاہین مفتی، ڈاکٹر، جدید اردو نظم میں وجودیت، لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۱ء، ص:۲۴۳
۵۔بلال زبیری، شہید تنہائی،مشمولہ رسالہ، القلم،مجید امجد نمبر،جھنگ ادبی اکیڈمی،جھنگ:۱۹۹۴ء:ص۲۹۳
۶۔مجید امجد،کلیات مجید امجد،لاہور:الحمد پبلی کیشنز،ص۳۴۳
۶۔مجید امجد،کلیات مجید امجد،ص۷۰۱
۷۔ایضا،ص۱۳۲
۸۔ایضا،ص۹۱
۹۔ایضا،ص۳۸۵
۱۰۔ایضا،ص۱۴۲
۱۱۔ایضا،ص۹۲
۱۲۔شہزاد احمد ، تنہائی کا مسافر، القلم، مجید امجد نمبر،ص۸۵
13۔Colredge,s,t,Selected English poetry,London:willium duglos &sons,1976 a.d,p117
۱۴۔سلیم اختر، ڈاکٹر، پھول نرگس کا،القلم ،مجید امجد نمبر، ص۳ ۳۰
۱۵۔مجید امجد،کلیات مجید امجد،ص۸۴
۱۶۔ایضا،ص۹۴
۱۷۔ایضا،ص۳۵۲
۱۸۔ایضا،ص۱۵۴
۱۹۔سلیم اختر، پھول نرگس کا،ص ۳۰۳
۲۰۔تبسم کاشمیری، ڈاکٹر،آشوب زیست اورمقام وجود کاتجزیہ، القلم ، ص۳۱۴