(Last Updated On: )
دلی کیفیت کچھ بھی ہو مگر آج انجبین کا اداس ہونے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، وہ تو بس آج میں جینا چاہتی تھی۔
جبین کے ساتھ اپنی تمام حالت اپنی سب باتیں کہ دینا چاہتی تھی اور سننے کے لیے وہ ہمیشہ کی طرح آج بھی تیار نہیں تھی۔۔۔۔ جبین کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ہوئے کمرہ امتحان سے باہر آتے ہوئے انجبین نے بات شروع کی۔
انجبین: جبو پتہ ہے تمہیں آج میں نے نماز پڑھی۔۔۔
انجبین نے آہستہ سے جبین کو بتایا۔ مگر اس بات کو سن کر تو جبین جیسے کرنٹ کھا کر دور جا کر کھڑی ہو گئی۔۔
اور پھٹی پھٹی نگاہوں سے انجبین کو دیکھنے لگی۔۔۔
اسے تو جیسے اپنے کانوں سنی بات پر بھی یقین نہیں آرہا تھا۔۔
اس سے پہلے کہ وہ حیرت سے چیخ اٹھتی انجبین نے آگے بڑھ کر اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ لیا، اور اتنے زور سے رکھا کہ بیچاری جبین کا دم گھٹ کر رہ گیا۔
اسی دھکم پیل میں دونوں گراونڈ میں پہنچ گئیں۔ جبین کو اب تک اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔
مان لو نماز پڑھ کر آئی ہوں اور واپس بھی اسی لیے جلدی جا رہی کہ نمازپڑھنی ہے جا کر۔
انجبین نے کینٹین پر آرڈر دیتے ہوئے بات مکمل کی اور بیٹھنے کے لیے کوئی اچھی سی جگہ تلاش کرنے لگی۔
جبین: لیکن اس اچانک تبدیلی کی وجہ یہ سب کیسے ہو گیا؟
بتاؤ تو مجھے بھی یار میرے سے بھی چھپاؤ گی۔
انجبین: نہ میں نہیں بتا رہی تم مزاق اڑاؤ گی میرا۔
انجبین کی نظریں دور گیٹ کی طرف تھی جہاں گارڈز دو لڑکوں کو روکے ہوئے کھڑے تھے۔۔۔
اور کچھ سوالات کر رہے تھے۔۔۔
جبین: نہی کرتی بابا مزاق اچھی طرح سے بتاؤ بیٹھ کر یہاں۔۔۔
جبین نہیں دیکھ سکی کہ انجبین کی نگاہیں کیا دیکھ رہی ہیں۔۔
انجبین نے گیٹ کی طرف سے رخ موڑ لیا اور جبین کی طرف دیکھنے لگی۔
انجبین: وہ سامنے جو نیلے کرتے شلوار میں ہے نا, اس کی امی نے بولا ہے۔ انجبین نے جبین کو ہاتھ کے اشارے سے بتایا۔
جبین: تو یہ اب یہاں کیا لینے آگیا ہے؟
اور یہ وہی ہیے نا جس کی بھانجی مونسٹر کہتی تمہیں۔۔
جبین اس قدر اونچی آواز میں بولی کے انجبین نے اسے گھور کر دیکھا۔ اور اشارہ کیا کہ چپ رہو۔ اور ہاتھ پکڑ کر اسے دوسری جانب لے گئی ۔۔
دوسری جانب سے گھوم کر وہ دونوں زیان کے سامنے آکر کھڑی ہو گئیں۔ زیان انجبین کو ایسے سامنے کھڑا دیکھ کر ایک لمحے کو نروس سا ہو گیا لیکن جلد ہی اس نے آپنے آپ کو سنبھال لیا۔
انجبین اور جبین دونوں ایک ساتھ بولیں،
” جی فرمائے کیسے آنا ہوا آپکا“؟؟؟
زیان اس سوال سے حیران رہ گیا۔۔
“آپکو اس سے کیا میں یہاں کیوں آیا؟“
زیان نے جواب دینے کے بجائے الٹا ان دونوں لڑکیوں سے سوال کر ڈالا۔
جبین: مم ییہ یہ ہمارا کالج ہے اور گرلز کا ہے آپ مرد ذات کیسے منہ اٹھائے چلے آرہے ہیں۔
جبین نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا۔۔۔
وہ بہت زیادہ نروس ہو گئی تھی۔۔۔۔
اسے زیان کی مونچھوں سے ڈر بھی لگ رہا تھا۔
زیان نے اپنے ہاتھ اپنے سینے پر باندھ لیے, اور سامنے ایسے کھڑا ہو گیا جیسے اسے کسی کام کی جلدی ہی نہیں وہ ان دونوں لڑکیوں سے ویسے تو بحث کرنا نہیں چاہتا تھا. لیکن اب جب کہ بات شروع ہو ہی گئی اس لیے اس بات کو مکمل کیے بنا وہ جانا نہیں چاہتا تھا۔۔اسی دوران گیٹ پر زیان کے ساتھ روکے جانے والا دوسرا لڑکا بھی ان کی طرف ہی چلا آرہا تھا۔۔۔
اس لڑکے کو بھی اپنی جانب آتا دیکھ کر تو جیسے جبین کی سٹی گم ہو گئی تھی۔۔۔۔ اسکا گلا خشک ہونے لگا تھا لیکن انجبین تھی جو بت بنے بس زیان کو دیکھے جا رہی تھی۔۔۔
دوست کے قریب پہنچتے ہی زیان نے بہت نرم لہجے میں اپنے آنے کی وجہ بتائی تو جیسے انجبین کے دل کو کچھ ہونے لگا وہ ایک نہ معلوم سا جزبہ تھا۔ کچھ حسد یا پھر کچھ تو ایسا تھا جس کی وجہ سے زیان کے آنے کی وجہ کے بارے میں جان کر انجبین کو کچھ اچھا نہیں لگا تھا۔۔ وہ ایک طرف کو ہو کر کھڑی ہو گئی اور زیان کو دیکھنے لگی۔۔ زیان جو اس وقت ایک دوست کی بہن کے داخلہ کے سلسلے میں آیا ہوا تھا۔۔ وہ دوست خود تو شہر سے باہر تھا اس کی جگہ یہ کام زیان کے ذمہ تھا۔۔
زیان: ہم جا سکتے ہیں کیا؟ زیان نے دونوں لڑکیوں سے سوال کیا اور باری باری ان کے چہروں پر ایک نظر ڈالی۔۔
جبین بنا کچھ بولے ایک سائڈ کو ہو گئی۔۔۔
انجبین ان دونوں کو جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی اعر معلوم نہیں کتنی دیر وہ ایسے ہی کھڑی رہی۔۔۔۔
جبین کے سوال کرنے پر وہ چونک گئی۔۔۔ “اسکی امی نے نماز پڑھنے کا تمہیں کیوں بولا ہے بتاؤ نا؟
” جبین نے بازو تھام کر ہلاتے ہوئے پوچھا۔
انجبین: شاید نیکی کا کام ہے اس لیے, جیسے بیٹا نیکی کرتا پھر رہا ہے شہر بھر میں۔۔۔
انجبین غصہ میں لال پیلی ہوئی جا رہی تھی۔ کیوں ہو رہی تھی اس کا جواب وہ نہیں جانتی تھی۔۔
خاموشی سے گیٹ کی جانب بڑھتی ہوئی انجبین کے دل اور دماغ پر بس زیان ہی چھایا ہوا تھا۔۔۔۔
#####—–#####
مامی رات میرا تو رکنے کا موڈ بن رہا ہے اب پتہ نہیں انجبین کا کیا ارادہ ہے وہ رکے گی یا واپس آنا چاہے گی کچھ پتہ نہیں ہے۔ قرۃ العین کانوں میں جھمکے ڈالتے ہوئے ممانی کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئے کمرے سے باہر نکل رہی تھی کہ اس کی ٹکر سامنے سے آتے ہوئے اپنے شوہر عابد سے ہو گئی اور جھمکا ہاتھوں سے چھوٹ گیا اور دور جا کر گرا۔ عینی وہیں جم کر کھڑی ہو گئی اور عابد کو گھورنے لگی۔ نئی نویلی دلہن کے ناز نخرے تو ویسے بھی اٹھائے جاتے ہیں،اور اگر دلہن ہو بھی من چاہی تب تو ناز نخرے اٹھانے کی الگ ہی معراج ہوا کرتی ہے۔
عینی: جھمکا اٹھا کر دیں مجھے۔۔ عینی نے مصنوعی غصہ کا اظہار کیا۔۔
عابدبھائی بھابی کو بھجیں اندر۔ انجبین کی چیختی ہوئی آواز نے اس ننھے منے سے رومانس کا گلا گھونٹ کر رکھ دیا۔
عینی تیزی سے انجبین کے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ انجبین کمرے میں سب کپڑے پھیلائے ہوئے بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی اور اس کی نظر سامنے کرسی پر پڑے ہوئے اپنے ڈریس کو دیکھ رہی تھی۔
عینی: یہ سب کیا ہے؟
اور ابھی تک تم تیار بھی نہیں ہوئی۔
انجبین: میں نہیں جاؤں گی آپ چلی جاؤ۔
انجبین سکون سے بولی۔
عینی: کیوں بابا اب کیا ہوگیا ہے۔۔
عینی جھنجلا اٹھی۔
انجبین: مجھے سمجھ نہیں آرہی میں کون سی ڈریس پہنوں۔۔
انجبین ایسی معصومیت سے بولی کے عینی کو بھی اس پر پیار آگیا۔۔
عینی: چلو یہ سوچنے دو تھوڑا
,( دانتوں میں انگلی دبائے عینی بکھرے ہوئے کپڑوں کا جائزہ لینے لگی۔۔) یہ ساڑھی باندھ لو۔۔
عینی نے وہ ساڑھی نکال کر سامنے رکھی جو انجبین نے عینی اور عابد بھائی کی برات کے روز پہننی تھی۔
انجبین نے ساڑھی کو دیکھا اور پھر منہ دوسری طرف کر لیا۔ وہ اپنی اداسی کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔
عینی اچھی طرح سے جانتی تھی کہ کپڑوں کا تو بس بھانہ ہے اصل وجہ کچھ اور ہے۔۔
عینی نے گرین اور پنک رنگ کا ایک لہنگا چولی پسند کی اور انجبین کو جلدی تیار ہونے کا کہ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔
————————-
امی سب تیاریاں ہو گئی ہیں نائلہ آپی کو بولیں اندر سے پھولوں کی ٹوکریاں باہر لے آئیں۔ کام کاج کرتے کرتے زیان کی حالت ٹینٹ سروس والے لڑکوں سے بھی بری ہو چکی تھی۔ ایک اکیلا بھائی اور پھر شادی کے دنوں میں کاموں کی کثرت اور افرادی قوت کی شدید کمی کے سبب سب کان زیان کو ہی کرنے تھے۔۔
زیان کے بڑے بہنوئی واجد آج ہی آئے تھے اور کافی تھکے تھکے سے دیکھائی دے رہے تھے, ان کے ساتھ ان کا چھوٹا بھائی وہاب بھی آیا تھا جو لگ بھگ زیان کی ہی عمر کا تھا۔۔۔ خاندانی چپقلش کی وجہ سے زیان کے رشتہ داروں میں سے کوئی بھی شادی میں شرکت کے لیے نہیں آیا تھا۔۔ جس کا دکھ زیان کی امی کو تو تھا مگر زیان کے لیے کوئی حیرت کی بات نہیں تھی۔
وہاب اور واجد بھائی نے کھانے پینے کے انتظامات کو اپنے ذمہ لے لیا تھا, جبکہ دیگر کاموں کے لیے اب بھی زیان کو بھاگ دوڑ کرنا تھی۔ نائلہ آپی کی شادی واجد بھائی سے ہوئی تھی جو اپنی دکانوں کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھی پوسٹ پر نوکری بھی کر رہے تھے۔ نائلہ آپی کے ساتھ ان کی ایک نند بھی آئی تھی جو ابھی تک زیان کی نظروں سے اوجھل تھی, یا یوں کہ لیں کہ اب تک زیان اس کی نظروں میں نہیں آیا تھا۔ پلوشہ کا اب تک رشتہ نہیں ہوا تھا اور وہ زیان سے بھی دو سال بڑی تھی۔۔۔۔
نائلہ نے بھائی کے لیے پلوشہ کو بیاہنے کی بات ایک دو بار ماں سے بھی کی تھی لیکن ماں اس کے لیے تیار نہیں تھی۔۔۔۔ تیار کیوں نہیں تھی یہ بات جلد سامنے آنے والی تھی۔
ساؤنڈ سسٹم کو ٹھیک کرتے ہوئے زیان کو کچھ ہوش نہ تھی کہ اس کے پاس کون کھڑا ہے اور کون پاس سے گزر کر چلا گیا ہے۔ انجبین اور عینی کے آنے پر بھی زیان کو پتہ نہیں چلا اور وہ کام مکمل کر کے تیار ہونے کے لیے اوپر اپنے کمرے کی جانب چل پڑا۔سیڑہیوں کے درمیان میں پلوشہ کھڑی تھی اور زیان کا آتے ہوئے دیکھ کر بھی سایئڈ پر نہ ہوئی بلکہ انجان بن کر کھڑی رہی جب تک زیان کی اس سے ٹکڑ نہ ہو گئی۔۔۔
پلوشہ سے شادی کروانے کے لیے ماں رضامند کیوں نہیں ہوتی، اس سوال کا جواب زیان کو معلوم نہیں تھا۔نہ ہی کبھی اس نے سوال کرنا مناسب سمجھا, وہ ایسے معاملات سے دور ہی رہتا تھا۔مگر یہ سب باتیں ایک دم سے دماغ میں گھوم گئی جب پلوشہ سامنے آئی۔
درمیانے قد کی پلوشہ جو ہمیشہ چہکتی ہی رہتی تھی اور کبھی بھی اسے اداس دیکھا نہیں گیا۔پلوشہ نے آنچل کو ٹھیک کیا اور زیان سے نظریں ملاتے ہوئے سوری کہ کر پاس سے گزر آئی۔۔۔
جلدی جلدی میں زیان نے اس کی ان اداؤں کا معنی سمجھنے کی کوئی کوشش نہ کی۔۔ اور تیار ہونے کے لیے کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔
————————-
مہندی کی رسم یادگار رہی۔ اس لیے نہیں کہ وہ مہندی تھی اور اس موقع پر بہت انجوائے کیا گیا۔ بلکہ اس لیے کے اس موقع پر ہونے والی ہنگامہ آرائی نے ہنستے مسکراتے چہروں پر اداسی اور پریشانی کے اثرات چھوڑ دیے تھے۔
نائلہ کے دیور کی انجبین کے ساتھ بدتمیزی کے جواب میں ذیان کا وہاب سے لڑائی کرنا اس پروگرام کی مین ہیڈلائین بنا تھا۔۔ اس پر پھر پلوشہ کا بے ہودہ ناچنا بھی سب گھر والوں کے لیے شرم کا باعث ثابت ہوا۔۔۔
رات دیر تک جاری رہنے والے پروگرام کی وجہ سے انجبین اور عینی کو بھی رات ادھر رہنا پڑا۔۔ اس سب کے بعد بھی انجبین نے کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے ماحول مزید خراب ہو۔۔۔ انجبین بے حد چپ ہو گئی تھی رات ہونے والے اس واقع کے بعد۔زیان بارات سے پہلے انجبین اور عینی کو ان کے گھر چھوڑ آؤ وہ دونوں ہوٹل آجئیں گی کاشف کے ساتھ, شمائلہ نے زیان سے سرگوشی کی ناشتے کی میز پر۔
شمائلہ نہیں چاہتی تھی کہ یہ بات نائلہ کے کانوں تک جائے اسے اپنے دیور سے ایسے زیان کا لڑنا بلکل بھی اچھا نہیں لگا تھا۔وہ بھی ایک لڑکی کی وجہ سے۔۔
کھانا کھا کر زیان گاڑی کے قریب کھڑا عینی اور انجبین کے آنے کا انتظار کرنے لگا، زیان کا موڈ بے حد بگڑا ہوا تھا اس کی نشانی یہ تھی کہ وہ سخت غصہ میں اپنے سر کے بالوں میں انگلیاں چلاتا رہتا تھا۔ انجبین کو آتے ہوئے دیکھ کر زیان نے ڈریوئنگ سیٹ کو سنبھال لیا اور فرنٹ سیٹ کا لاک اوپن کر دیا۔ انجبین تھکی ہاری بوجھل قدموں سے چلتے ہوئے گاڑی کے قریب آکر رک گئی۔ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ اور وہ بھی انجبین کرے یہ بھی ضیرت کی بات تھی, اور رات کے معاملہ میں تو زیان کا کوئی قصور بھی نہیں تھا۔۔۔
اندر سے عینی کا اشارہ ملنے کے بعد انجبین نہ چاہتے ہوئے بھی گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔
“سوری!“ یہ جملہ دونوں کے منہ سے ایک ہی وقت میں ادا ہوا جبکہ دونوں اپنی اپنی جگہ سر جھکا کر بیٹھے ہوئے تھے۔
سوری کا لفظ سنتے ہی زیان اور انجبین کو جیسے کرنٹ سا لگا تھا وہ چونک کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
زیان: تمم سوری کیوں کہ رہی ہو؟ کی آواز بہت موٹی موٹی لگ رہی تھی جیسے کوئی جوان نہیں بہت ہی بزرگ آدمی ہمکلام ہو رہا ہو۔۔
انجبین: ایکسکیوز می! میں آپ کہ رہی ہوں اور آپ بدتمیزی کرتے تم کہ کر آپکو تو سوری کرنا ہی نہیں چاہئیے۔۔ انجبین کو اب کی بار سچ میں غصہ آگیا تھا اور وہ گاڑی سے باہر دیکھنے لگی جہاں اسکی بھابھی ابھی تک خوشگپیوں میں مصروف تھی۔۔۔ عینی کی ںظر جب انجبین کے چہرے پہ پڑی تو وہ دیکھتے ہی سمجھ گئی کہ جنگ کا پھر سے آغاز ہو چکا ہے۔۔۔
اور باتیں ختم کر کے جلدی سے گاڑی کی طرف بڑھنے لگی تیز تیز قدموں سے۔۔۔۔۔
گاڑی میں جلدی سے بیٹھتے ہوئے عینی نے انجبین سے جلدی میں پوچھا،
“کیا بات ہے یہ منہ پہ بارہ کیوں بج رہے ہیں؟”۔۔۔۔
انجبین کے جواب دینے سے پہلے زیان بول اٹھا۔ ” معافی مانگی تھی ہم نے ایک دوسرے سے اور اگلے ہی لمحے میں پھر سے لڑائی شروع ہو گئی۔۔۔
” آپ بتائیں کب لینے آنا ہے آپکو؟
زیان نے بیک ویئو مرر کو درست کرتے ہوئے سوال پوچھا۔۔
ہم شام 7 بجے پہنچ جائیں گے شادی ہال میں تم کدھر ہمیں لینے آتے رہو گے۔۔۔۔۔۔
عینی کی بات ابھی مکمل ہی ہوئی تھی کہ انجبین بول اٹھی، “اس ہم میں یقینی طور پر میں نہیں ہوں گی عینی
“ غصہ میں انجبین اپنی بھابھی کو بھابھی بھی نہیں کہتی تھی بس عینی کہ دینے پر اکتفا کرتی تھی۔ ان باتوں کے بعد گاڑی میں بہت گہرا سکوت چھا گیا اور باقی کا سفر خاموشی سے کٹ گیا۔
$$$$$$$$$$$$$$
بہن کو رخصت کرنے کے بعد جہاں زیان کو دلی خوشی تھی اس فرض کے ادا ہو جانے کی، وہیں پہ اسے اس خالی خالی گھر میں تنہائی کا احساس بھی زیادہ ہونے لگ گیا تھا ۔ شادی کو ہوئے ایک ہفتہ سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا تھا جس کے باعث گھر بھر میں رونق اور تمام ہلا گلا بھی اپنے انجام کو پہنچ چکا تھا۔۔۔۔
سلسبیل بھی آج صبح واپس چلی گئی تھی, جبکہ کل سے زیان نے بھی کام پرواپس جانا تھا جس کے بعد اس کے اپنے امتحانات کا بھی آغاز ہونے والا تھا۔۔۔
دوسری جانب انجبین کے دن بھی شدید بےزاری میں کٹ رہے تھے۔۔۔انجبین کی امی نے ٹیوشن کے لیے کچھ بچوں کو بلایا تھا لیکن انجبین کے آگے بچوں نے ہار مان لی اور دوسرے روز ان میں سے کوئی بھی نہ آیا۔۔۔
<<<<<<<<<<>>>>>>
زندگی میں اونچ نیث آتی ہی رہتی ہے اس لیے انسان کو ہر لمحہ تیار رہنا چائیہے ۔ کوئی نہیں جانتا کل کو کیا ہونے والا ہے۔۔ کون ہماری زندگیوں کا حصہ بنے گا اور کون بیچ راستے میں ہمیں تنہا چھوڑ کر چلا جائے گا۔۔۔۔
انجبین اور زیان کی زندگیوں میں ایک دوسرے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی لیکن ایک دوسرے کے لیے دلوں میں کچھ جزبات پیدا ہو گئے تھے۔۔
وہ دوںوں اپنی اپنی جگہ ایک دوسرے کو یاد بھی کرتے تھے مگر کسی نے بھی رابطے کی کوئی کوشش نہیں کی جب تک کہ نائلہ اپنے دیور کا رشتہ انجبین کے لیے لے کر گھر آگئی۔۔
امی سے شددید بحث مباحثے کے بعد ایک بار کوشش کرنے کی اجازت ماں سے حاصل کرنے میں نائلہ کامیاب ہو گئی تھی۔
شمائلہ کو جب یہ خبر ملی وہ سر پیٹ کر رہ گئی۔۔
اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ کیسے بہن اپنے بھائی کی جگہ دیور کے لیے وہاں رشتہ لے کر جارہی ہے جہاں پر ماں کا پہلے سے دل ہے کہ اس لڑکی کو اپنی بہو بنا لیں۔۔۔۔
زیان کو جب بہن کے آنے کی اصل وجہ معلوم ہوئی تو اس نے اپنے جزبات کو اپنی زبان پر آنے سے سختی سے روک لیا۔۔۔۔ شمائلہ کے شوہر کیپٹن عاصم نے کئی مرتبہ باتوں باتوں میں زیان سے اس بارے میں پوچھنے کی کوشش کی لیکن کوئی واضع جواب نہ مل سکا۔۔
قسمت کا لکھا سمجھ کر زیان چپ ہو گیا اور اپنی زندگی میں پھر سے مصروف ہو گیا۔ ماں باپ کے لیے اولاد کا کوئی بھی رویہ انجانا نہیں ہوا کرتا، انہیں سب معلوم ہوتا ہے کہ کب کیا چل رہا ہے ان کے بچوں کی زندگیوں میں۔۔کس چیز میں وہ دلچسبی لے رہے ہیں اور کون سے ایسے. کام ہیں جن پر بچوں کی توجہ نہیں ہے۔۔ نائلہ کی تند مزاجی کے باعث شاہدہ بیگم نے زیان کے بجائے وہاب کا رشتہ لے جانے کی حامی بھر لی تھی وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس بات سے ان کی بیٹی کے دل میں ماں کے لیے کوئی شکوہ شکایت باقی رہے۔۔۔
نائلہ جب شادی کر کے اس گھر میں گئی تھی تب وہاب اور پلوشہ کی عمر اتنی زیادہ نہیں تھی, اور شادی کے چند ماہ بعد ہی نائلہ کی ساس اور سسر وقفے وقفے سے انتقال کر گئے تھے۔۔۔ اس قدر جلدی میں اپنوں سے بچھڑ جانے کی وجہ سے نائلہ کا مزاج بے حد سخت ہو چکا تھا۔۔
————- —————
خضر صاحب کے گھر رشتہ کی بات کرنے جانے کے لیے نائلہ اسکی امی کے ساتھ پلوشہ بھی آئی تھی، جبکہ ان سب کے ساتھ زیان بطور خاص آیا تھا۔ وہ آیا نہیں لایا گیا تھا زبردستی اپنے ساتھ۔ امی کا کہنا ٹالنے کی اس میں جرت نہیں تھی, بس اسی وجہ سے وہ ماں کے ساتھ چلا آیا تھا۔
ڈرائنگ روم کے ایک کونے میں بیٹھے ہوئے زیان کی نگاہیں مسلسل انجبین کی تلاش میں تھی۔ ایسا پہلی بار تھا کہ وہ اس گھر میں آیا ہو اور اس کا سامنا انجبین سے نہ ہوا ہو۔۔ سب بڑوں سے الگ تھلگ بیٹھے ہوئے زیان کی طرف کسی کی بھی توجہ نہیں تھی اگر تھی بھی تو وہ صرف سلسبیل کی ہی تھی جو چائے کے ساتھ آنے والے بسکٹ ایک کے بعد ایک اٹھا کر ماموں کو دینے آرہی تھی۔۔۔ ننھی سی پری کو دیکھ کر زیان کا موڈ قدرے بہتر ہو جاتا تھا, کتنی الگ سی فطرت ہے ماں سے بیٹی کی۔۔۔۔
کہاں ایک بہن اپنے سگے بھائی کے بجائے اپنے دیور کو فوقیت دے رہی تھی۔۔۔۔۔۔
بھائی بہن میں عزت اور احترام کا جزبہ اب بھی موجود تھا اور اسے ہمیشہ ایسے ہی قام بھی رہنا تھا۔
کچن میں کھڑی ہوئی انجبین نے عینی کا بازو پکڑ کر اسے اندر کھینچ لیا اور چائے پھینٹنے والا چمچہ اٹھا کر تیزی سے مگر دھیمی آواز بولی ” یہ سب لوگ کیوں آئے ہیں آج؟“
انجبین کا رویہ اس وقت کسی تفتیشی افسر کے جیسا تھا,جو ملزم کو اپنے سخت مزاج کی وجہ سے ہی کردہ اور نہ کردہ جرم کو کرنے کا اقرار کر لیتے ہیں۔
*کیا تم بھی انجبین ڈرا دیتی ہو*
ہنس کر ٹالتے ہوئے عینی نے بات کو ٹالنا چاہا مگر وہ انجبین ہی نہ ہو جو ایسے آسانی سے بات کو جانے دے ۔۔
انجبین:” بتا دو صاف صاف ورنہ میں وہ شور مچاؤں گی کہ سب یاد رکھیں گے۔
” انجبین نے اپنی جانب سے بھرپور قسم کی دھمکی دیتے ہوئے بھابھی پر رعب ڈالنے کی ناکام سی کوشش کی۔۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ ایسی دھمکی بھی آج کوئی مدد نہیں کرنے والی۔۔
مائے ڈئیر نند صاحبہ اب یہ غصہ سنبھل کر رکھیں اچھا نا, اور یہ چمچہ رکھ دو ورنہ میں اسی سے دھلائی کردوں گی۔۔۔ بہت لاڈ ہو گیا اب میں اصلی بھابھی بن کر تمھارے کان کھینچا کروں گی,,,,,
مصنوعی غصہ کا اظہار کرتے ہوئے قرۃالعین نے انجبین کا کان سچ مچ ہی کھینچ لیا تھا۔۔۔۔
نند بھاوج کی ایسی نوک جھونک چلتی ہی رہتی تھی، ان دونوں کی ایسی حرکتوں سے گھر میں رونق سی لگی رہتی تھی۔ ورنہ جس حادثے کا شکار یہ گھر ہوا تھا اس کے بعد اس قدر جلدی نارمل زندگی کی جانب آنا یہ بھی انجبین اور قرۃالعین کی بدولت ہی ممکن ہوا تھا۔۔کہتے ہیں
“زندگی کسی کے چلے جانے سے رک نہیں جاتی۔”
مگر یہ بھی سچ ہے کہ “اس جانے والے کے بعد زندگی پہلے جیسی بھی نہیں رہتی۔”
انجبین اندر سے کیسی تھی یہ وہ ہی جانتی تھی, کتنے ہی آنسوں کو وہ اپنے اندر اتارتی رہتی تھی صرف اس لیے کہ اس کے گھر کے لوگ اس کے پیارے اداس نہ ہوں۔۔ وہ اندر سے کس قدر بدل چکی تھی اس کا اندازہ کسی کو نہیں تھا۔ انجبین اب جو کچھ تھی وہ اس کی ذات کا عکاس نہیں تھا, وہ تو کچھ اور بن گئی تھی لیکن گھر والوں کی اپنے ماں باپ کی خاطر وہ اب تک ویسی ہی تھی جیسا دیکھنے کی تمنا وہ لوگ کرتے تھے۔ ورنہ انجبین نے پہلے جیسا وہ غرور اور غھمنڈ سب کب کا چھوڑ دیا تھا۔۔۔
وہ اب نماز پڑھتی تھی, اس کے بعد وہ دعا کے لیے ہاتھ تو اٹھاتی تھی لیکن کبھی دعا مانگ نہیں پائی تھی۔
“کیا مانگتی خدا سے, کس چیز کی کمی تھی۔”
سکون قلب تو مل ہی چکا تھا اب اس سے بڑھ کر اور کس چیز کی تمنا کی جا سکتی تھی۔کچن سے فارغ ہو کر انجبین اپنے ماں بابا کے کمرے میں چلی گئی انہوں نے کوئی اہم بات کرنا تھی۔۔
انجبین اب تک اس بات سے لا علم تھی کہ آج آنے والے مہمان کس غرض سے آئے تھے۔
ان کے آنے کا اصل مقصد کیا تھا اس کے ساتھ جڑے ہوئے سوالوں کے جوابات اسے ملنے کو تھے۔۔