ایک خوب صورت گاؤں کے کشادہ صحن میں ان کا گھر ہوتا تھا ، جہاں سب خرگوش خوشی خوشی چوکڑیاں بھرتے رہتے تھے۔ صحن میں موجود لمبے درختوں کی چھاؤں میں بھینس ، بکری اور گائے بھی رہتی تھیں ۔ خرگوش جب باہر نکلتے تو انہیں لگتا کہ زندگی بہت حسین ہے ، جتنی بل کے اندر ہے اس سے کہیں زیادہ باہر ۔
بکری کی گھاس ہو یا درختوں کے پتے یہ شوق سے کھا لیتے تھے ۔ ایک دن شہر سے ایک شخص آیا اور انہیں اپنے ساتھ لے گیا۔ خرگوش گلگلو اور ٹبکو نے بہت کوشش کی کہ گاؤں میں ہی رہیں ، مگر ان کی گھاس پھوس وہاں ختم ہوچکی تھی سو ان کا رزق ان کو شہر لےگیا۔
شہر آ کر ان کو بڑا خوشی کا جھٹکا لگا ، جہاں ان کو لایا گیا وہ ایک ہرے بھرے پودوں درختوں ،دیوار پہ لپٹی بیل سے لدا پھندا گھر تھا ۔ پیارے سے قطعہ میں ان کو رہائش دی گئی ۔ ان کی تو عید ہوگئی انہوں نے خوب دوڑیں لگائی ، یہاں وہاں جست بھرتے پھولے نہ سماتے ۔جب کھیل کر تھک جاتے تو بس دیوار کی طرف منہ کر کے بیل کے پتے کچڑ کچڑ کھانا شروع کر دیتے تھے ۔ ان کے گھر میں دو حصے تھے ، ایک طرف یہ سبزہ تھا جس کی خرگوشوں نے کھدائی شروع کردی تھی ، بڑے بڑے بل بناتے ، وہاں بہت ریت تھی جس میں خرگوشوں کا دل لگ گیا تھا۔ دوسری طرف مضبوط گھر جو نیا نیا تعمیر کیا گیا تھا ، اس کی چھت بھی بڑی اچھی تھی ۔ مالک مکان نے ان کو بہت سختی سے منع کیا کہ اے گلگلو ٹبکو تمہیں ہر چیز ملےگی مگر خبردار!
یہ میرے بہت پیارے عزیز درخت ،پودے، پھول ،بیل ہیں ، ان کو چکھنا بھی نہیں۔ لیکن خرگوش بھلا کسی کی کیوں سننے لگے۔ جب مالک ان کو سمجھا رہا تھا تو کان کھڑے، آنکھیں نیچی کرکے اتنے معصوم بن کے سن رہے تھے جیسے اصولوں کے بہت پابند ہوں ۔ مالک بڑا رحم دل اور جانور دوست قسم کا بندہ تھا سو ان کی معصوم اداؤں سے عنقریب مار کھانے والا تھا ۔ خیر یہ تو مالک کی بھول تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے چند دنوں میں خرگوشوں نے ہر درخت کی جڑ اور پودوں کو چکھ کے بہت سارا نقصان پہنچا دیا۔ اتنا خوب صورت من چاہا گھر ملنے پر مالک کی نصیحت بھلا دی ۔ پہلے تو مالک نے زیادہ توجہ نہیں دی مگر جب کچھ آتے جاتے لوگوں نے اسے کہا کہ” بھئی خیال کرو کہیں درخت دھڑام سے نیچے نہ آجائیں ” تو اس نے ہوش نے ناخن لیے۔
لیکن ۔۔ افسوس! تب بہت دیر ہو چکی تھی۔ وہ سوچنے لگا کہ چلو شام کو دیکھتا ہوں اور کچھ کرتا ہوں ، بیچ میں دیوار ہی اٹھا دیتا ہوں تا کہ بیل، پودوں کو مزید نقصان نہ ہو۔ مگر شام تک خرگوشوں نے وہ کر دکھایا جس کا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے۔
جب نصیحت پر کان نہیں دھرا تو یہی ہونا تھا ، ان کے بل کے قریب ہی ایک پیاری بیل تھی جس کے پتوں نے مکان کا ہر گوشہ کونہ ڈھک دیا تھا ۔ وہ بیل اس گھر کے مکینوں کی جان تھی ، گلگلو اور ٹبکو کے ہاں چند دن پہلے ہی ماموں مامی اور ان کے بچے بھی دوسرے گاؤں سے ان کے ہاں رہنے کے لیے آئے تھے۔ سب نے مل کر بیل کے پتوں کا حشر نشر کردیا۔ پتے کھا لیتے تو بات بھی تھی اس ٹبر نے تو ٹہنیوں پر دانت گاڑ دیئے اب جو ان کو مزا آیا شاید وہ بیان سے باہر تھا ، سب نے مل ملا کے جو کھانے کا پروگرام شروع کیا تو کچھ ہی وقت میں بڑی چاہت سے لگائی گئی بیل کی جڑیں ہی خرگوشوں نے کھا پی کے ڈکار لیں۔ ہوا یوں کہ بیل کی جو شاخیں وغیرہ جڑ سے قریب تھیں ان پر یہ طبع آزمائی کرکے اسے اپنے معدہ میں منتقل کرچکے تھے ۔ اس پہ بس نہیں کی اس کے بعد دیوار پر جہاں تک اپنے پنجوں کے بل چڑھ سکے لٹک لٹک کے پتلی، موٹی ، نرم و لذیذ ٹہنیاں کچڑ کچڑ کر کے کھاتے رہے، ہوش اس وقت آیا جب ٹہنیاں دسترس سے دور اور ڈنڈا ان کے پشت پر پڑا ۔ مالک اپنے کام سے فارغ ہو کر جوں ہی ٹبکو والوں اور بیل بوٹوں سے ملنے آیا تو کیا دیکھا کہ یہاں تو اس کی بڑے چاؤ سے لگائی گئی بیل کی حیاتی مک گئی ہے۔ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں آنکھیں باہر ابلنے کے قریب ہو گئی، بیچارا سخت رنج و کرب میں مبتلا ہو گیا۔ مٹھیاں بھینچ لیں پھر ادھر ادھر دیکھا اور پاس دھری ایک لکڑی اٹھائی، ایک دھاڑ ماری، ارے ظالمو! یہ کیا کردیا ۔۔ پھر تو گلگلو مع رشتہ دار بڑا سٹپٹائے ، کہنے کو کچھ بچا ہی نہیں تھا ۔ سامنے ہی تھا سب کچھ ، مالک سخت طیش میں آچکا تھا ۔ لگا لکڑی سے ان پر ہلکی ضربیں لگانے ۔کیونکہ وہ جانتا تھا یہ بہت نرم نازک ہیں پیار بھی تو بہت تھا ان سے ، مگر ان کی اس حرکت نے اسے سخت رنج پہنچایا تھا۔ خیر! قصہ مختصر! سب نے خوب توبہ کی گڑگڑا کے اپنے قصور کا اعتراف کیا، منہ تو ویسے بھی ان کے معصوم ہی تھے مالک کا دل اوپر سے بےحد پسیجا ، اس نے گالوں پہ بہتے آنسو صاف کیے۔ گلے میں اٹکے آنسو زخمی مسکراہٹ کے ساتھ اندر اتار لیے ۔ قطار میں لمبے کان لٹکائے انتہائی معصومانہ چہروں حسین آنکھوں میں آنسو بھرے خرگوشوں پہ ایک گہری نظر ڈال کر دل گرفتگی سے اپنے قدم اندر گھر کی جانب بڑھا دیئے۔
دوسرے دن مستری آیا اور بیچ میں دیوار کھڑی دی ۔ یہ ناشکری اور حرص کا نتیجہ تھا ، اگر خرگوش شکر کرتے ، مالک کی ہدایات پر عمل کرتے تو آج ہرے بھرے درخت سبزے سے ڈھکی دیوار اور بہت سے پودوں کے درمیان خوشی خوشی رہ رہے ہوتے ۔ چند دن بعد گلگلو کے ہاں بچوں کی پیدائش ہوئی۔ ان کی معصومانہ حرکتوں سے یہ سب کچھ بھلا کے چھوٹے سے گھر میں بھی خوشی خوشی رہنے لگتے ہیں ۔ جب بچے بڑے ہوئے تو ایک دن اپنے بابا ٹبکو کو رات کو صحن میں مٹی پہ ہاتھوں سے لکیریں بنا کے مٹاتا دیکھ لیتے ہیں۔ شونو ، مونو ، ڈوڈو تینوں کو اپنے ٹبکو بابا سے بڑا پیار تھا ۔ یہ آ کر دائیں بائیں لٹک گئےاور پوچھا: بابا آپ روز یہ رات کو کیا کرتے ہیں ؟ تب ٹبکو ماضی میں کھو جاتا ہے اور گاؤں سے لے کر اب تک کا قصہ بچوں کو سنا دیتا ہے اور آخر میں نصیحت کرتا ہے کہ یاد رکھنا!
کبھی حرص مت کرنا، اور جو محسن ہو اس کو نقصان مت پہنچانا ۔ جتنا دیا جائے اس سے زیادہ چوری چھپے مت لینا، اپنے بڑوں کا کہنا ماننا اور جتنا بھی ملے اللہ کا شکر کرنا ، تم پر ہمیشہ نعمتوں کا نزول رہےگا۔ اس وقت شونو ، ڈوڈو ، مونو بڑے کان کھڑے کر کے سنتے ہیں پھر ٹبکو کو یوں ہی سبزے اور درختوں بیل بوٹوں کی یاد میں آہیں بھرتا، آسمان کے تارے گنتا چھوڑ کر اندر جا کے اپنی ماما کے پاس سو کر خواب خرگوش کے مزے لینے لگتے ہیں۔
خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ وہ سب ایک ایسی جگہ پہ ہیں جہاں تاحد نظر سبزہ ہی سبزہ ہے ۔ہر چیز سبزے سے ڈھکی ہے۔ غرض بہت خوب صورت نظارے ہوتے ہیں ۔ جب ماما گلگلو ان کو اٹھاتی ہے کہ اٹھ جاؤ صبح ہوگئی تو یہ حیران رہ جاتے ہیں ، جلد ہی ان کی آنکھوں میں مایوسی جگہ لے لیتی ہے اور جمائی بھی لینے کو جی نہیں کرتا۔ یوں بے دلی سے اپنا بستر چھوڑ کر منہ ہاتھ دھو کر گھاس کتر کتر کرنے یعنی کھانے آ جاتے ہیں۔ ٹبکو تو ویسے بھی آج کل ماضی کے سحر میں رہتا ہے سو اس نے کوئی خاص دھیان نہ دیا مگر گلگلو فورًا بھانپ گئی کہ آج کچھ نیا ہوا ہے۔ اس نے کھانا کھا چکنے کے بعد بچوں کو بلایا اور کہنے لگی: میرے جگر کے ٹکڑو! کیا بات ہے آج کچھ اداس لگ رہے ہو ، میرا تو دل ہول کھا رہا ہے ، اب بولو کیا مسئلہ ہے؟
ڈوڈو نے کہا: ماما ! آپ پریشان نہ ہوں ، یقین کریں سب ٹھیک ہے ۔ ماما گلگلو یہ سن کر بہت مطمئن و مسرور انداز میں اپنے لمبو لمبو کان ہلاتی ہے اور سیدھی ہو کر لیٹ جاتی ہے ، نگاہیں مسلسل بقیہ بچوں کا ایکسرے کر رہی ہوتی ہیں ۔ تب شونو تھوک نگل کر گلا صاف کرتا ہے اور ہمیشہ کی طرح پٹر پٹر شوہنا شوہنا بولنے لگ جاتا کہ ہم سب نے رات عجیب خواب دیکھا۔ جیسے جنت دیکھ لی ہو کیا کچھ نہیں تھا اس خوب میں ۔۔۔۔۔وہ سب بتا دیتا ہے۔ ماما گلگلو خواب سنتے ہی اٹھ کر سیدھی ہو کے بیٹھ جاتی ہے اور خوشی سے جھومنے لگتی ہے اور باری باری سب کو گلے لگا کر خوب بھینچ کر ان کا منہ چوم لیتی ہے۔
اور کہتی ہے: اب جلد ہی ہم ایک حسین باغ میں ہوں گے میرے بچو! خوب سن لو تمہارا یہ خواب سچا ہونے والا ہے۔ یہ کوئی عام خواب نہیں اس کی تعبیر بہت قریب ہے۔
تو بچو! خواب دیکھے ہوئے ابھی چند ہی دن ہوئے ہوں گے کہ ایک صبح نہ سورج نکلا نہ ہی رات کو چندا ماموں اور تارے۔ نیلی چھتری تلے ہر طرف بادلوں کا راج تھا، تب پتہ نہیں کیوں ماما گلگلو کو لگتا ہے کہ ہو نہ ہو جلد ہی کچھ مختلف ہوگا ۔ممکن ہے ہمارے بچوں کو اس ڈربے نما گھر سے نجات مل جائے، خواب کی تعبیر پالیں۔ رات گہری ہوگئی اور اوپر سے کالے گھنیرے بادلوں کی وجہ سے ہر چیز تاریکی میں ڈوب گئی۔ اچانک بادلوں کی گھن گرج ، بجلی کی چمک اور موسلادھار بارش کی زور دار آواز سے سب کی نیند ٹوٹ گئی۔ یا اللہ خیر! رات بھر بادلوں کی گھن گرج، بجلی کی چمک اوربرسات کا شور جاری رہا ۔ اللہ اللہ کرکے صبح ہوئی۔لیکن ایسی صبح جس میں ہلکی بارش کے ساتھ ٹھنڈی میٹھی ہوا کے جھونکے تھے ۔
خرگوشوں کو جہاں رات کی نیند خراب ہونے سے عجیب سی کیفیت نے اپنے حصار میں لےلیا تھا، اب صبح اتنی پاکیزہ پیاری پاکر بہت اچھا محسوس ہورہاتھا ۔ جہاں تازہ ہوا نے ساری کلفت دُور کر دی تھی وہاں ہلکی پھوہار سے طبیعت خوش ہو گئی۔ ابھی ناشتہ بھی نہیں کیا تھا کہ مالک درختوں کی اوٹ سے خرگوشوں کے ڈربے کی طرف آتا دکھائی دیتا ہے ۔ گلگلو کو کچھ بھی سوچنے کا موقع نہ ملا دفعتاً مالک کانوں سے پکڑ اسے ایک طرف لے گیا۔ اس کے بعد تمام خرگوش ۔۔۔۔کیا دیکھتے ہیں یہ تو ہر طرف سبزہ ہے ، ہری بھری ،نرم شبنمی گھاس اور درخت بھی ہیں، یہ کیا اتنے خوب صورت پھول اور یہ بیل بھی بالکل ویسی ۔۔۔اللہ اللہ کہتے ہوئے خرگوشوں نے قلانچیں بھرنا شروع کیں تو پھر کوئی کسی کو پہچاننا بھی بھول گیا ۔
کوئی کس طرف بھاگ کھڑا ہوا تو کوئی کس طرف۔ گویاآج ان کے لیے عید کا دن تھا۔ اتنی خوب صورت جگہ تو خواب میں ہی دیکھی تھی ۔۔۔ یہ قلانچیں بھرتے۔ گاہے گاہےپتے کھاتے، کبھی بیل پہ منہ مارتے ۔ کبھی کسی پھول کو سونگھتے اور اس کے پتے چکھتے ہیں ۔ مستی و سرور میں آ کر زور زور سے زمین پر پنجے مارتے درختوں کی لٹکتی شاخوں پرجھولا جھولتے ۔ غرض! دلوں میں پھول کھلے ہوئے تھے آنکھوں کی چمک بڑھ گئی تھی۔ گلگلو نے ٹبکو کو بتایا کہ یہ میرے خوش نصیب بچوں کے صدقے ہے۔ یہ خواب نہ دیکھتے تو آج یہ دن ہم کیسے دیکھتے؟ ٹبکو نے کہا تم ٹھیک کہتی ہو ۔ گلگلو ، میں بجائے حسین مستقبلِ کا خواب دیکھنے کے ماضی پر ہی آنسو بہاتا رہا۔ بےشک حالات جیسے بھی ہوں خواب دیکھنے چاہیں ۔۔۔
قصہ کوتاہ! بچے اپنی دنیا میں مگن ہوگئے۔ وہاں وہ سب کچھ تھا جس کا خواب دیکھا جائے ۔ کچھ عرصہ بعد ٹبکو چکر لگانے نکل کھڑا ہوا تو چلتے چلتے اس کا گزر ایک درخت پر ہوا ، کیا دیکھتا ہے کہ درخت کا تنا کچھ زخمی ہے۔ وہ فورًا سمجھ گیا کہ تاریخ خودکو دُہرا رہی ہے۔ اس نے وہیں اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا اور اچانک اسے لگا کہ وہ بوڑھا ہوگیا ہے۔ جسم بے جان ٹانگیں آگے چلنے سے انکاری۔ خود کو گھسیٹ کر بڑی مشکل سے گلگلو کے پاس آیا ۔ گلگلو کو آواز دی تو وہ دوڑی دوڑی آئی مگر ٹبکو کا رنگ پیلا دیکھ کر اس نے اپنا سینہ پکڑا لیا ، ابھی کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھی کہ ہاتھ کے اشارے سے ٹبکو نے اسے منع کردیا اور خود خلاؤں میں تکنے لگا۔ یہ سب گلگلو سے کیسے برداشت ہوتا اس نے باہر کی طرف دوڑ لگائی۔۔
لگی زور زور سے بچوں کو پکارنے: ڈوڈو ،شونو کہاں ہو! مونو کسی درخت کا تنا کھانے میں مگن تھا جیسے ہی ماں گلگلو کی گھبرائی بھرائی آواز اس کے کانوں میں پہنچی ، اس نے کھانے سے منہ روک لیا اور جلدی جلدی منہ صاف کرتا جی مما کہتا بھاگتا آن پہنچا۔ کیا ہوا مما خیریت ؟ “تمہارے بھائی کہاں ہیں”؟ مما کا سوال سن کر پہلے تو وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگا مگر جب گلگلو مما نے اس کے کان مروڑے تو وہ دہائیاں دینے لگا اور سچ سچ بتانے کا وعدہ کیا ۔ ” مما ہم سب آج کل اس باغ میں جو دائیں طرف درخت لگے ہیں اس وقت وہی کھانے جاتے ہیں “۔ بچے کا اعتراف سن کر گلگلو سب سمجھ گئی اور گرنے کے انداز میں دھپ سے زمین پر بیٹھ گئی۔ مونو کے ہاتھ پاؤں پھول گئے وہ بھاگتا گرتا پڑتا بھائیوں کے پاس پہنچا اور انہیں مما کے پاس لا لا کر کھڑا کر دیا ۔ مما کا بھی وہی حال ہوتا ہے جو ٹبکو کا ہوا ۔ تینوں معصوم مسکین چہرے بنا کر مما سے پوچھنے لگ جاتے ہیں” مما آخر ہوا کیا ہے آپ یوں اچانک گم سم کیوں ہو گئی ہیں؟ بابا کہاں ہیں ؟ ” گلگلو اٹھ کر بیٹھ جاتی ہے اور دھاڑیں مار مار کے رونے لگی ۔ بچے پریشان ہوگئے ۔ رونے کی آواز سن کر ٹبکو باہر آگیا اور بڑی خونخوار نظروں سے سب کو گھورنے لگتا ہے۔ اپنے باپ کا مزاج برہم دیکھ کر مونو، شونو، ڈوڈو سہم گئے۔ اچانک مالک پہنچ گیا اور دو مضبوط ہاتھ انہیں پکڑ کر ایک طرف چل پڑدیئے۔
ایک دو تین کے بعد سب کے سب واپس اسی ڈربہ نما گھر میں لائے جاتے ہیں ، جہاں کبھی وہ سبزہ زار کے خواب دیکھا کرتے تھے۔ انہوں نے تعبیر پالی تھی مگر اب۔۔یہ کیا؟
پورا دن گھر میں ہر طرف خاموشی کا راج رہتا ،کوئی کسی سے بات کرتا نہ ہی کسی کو کھانے پینے کا خیال آتا ہے۔ ہر طرف اداسی کسی چڑیل کی طرح بال کھولے ہوا میں اُڑ رہی ہوتی ہے۔
ڈر کے مارے ڈوڈو اور اس کے بھائی بل سے باہر منہ ہی نہیں نکالتے ۔
جی ہاں، بچو! آپ ٹھیک سمجھے۔ یہ سب اسی لیے ہوا کہ بابا ٹبکو کی نصیحت پہ انہوں نے کان نہیں دھرا۔ اگر یہ شکر کرتے اورحرص نہ کرتے،اپنے مالک کی بات مانتے،درختوں اورپودوں کو نقصان نہ پہنچاتے تو آج بھی اسی گل و گلزار وادی میں قلانچیں بھر رہے ہوتے ۔ ۔۔
رات وہی تاروں بھری تھی ، چندا چمکتا ہوا چہرہ لیے نیلی چھتری تلے آج بھی بڑی شان سے مسکرا رہا تھا۔ نیچے دور ایک مکان کے گوشہ میں چھوٹے سے ڈربے کے اندر ٹبکو بابا زمین پر لیکریں کھینچ رہا تھا، ڈوڈو بھی اداس سا ٹبکو کے ساتھ چپکا بیٹھا تھا ۔ قریب ہی شونو اور مونو بھی مما گلگلو کے ساتھ زمین پر آڑھی ترچھی لکیریں بنا کر ماضی میں کھوئے ہوئے تھے۔
سبق۔۔۔! پیارے بچو اس کہانی سے کیا سبق ملتاہے؟
***
پیسے کے اسماءِ مختلفہ
عبادت گاہ میں اسے نذرانہ کہتے ہیں۔
اسکول میں اسے فیس کہتے ہیں۔
دکان پر اسے قیمت کہتے ہیں۔
شادی میں اسے جہیز کہتے ہیں۔
کسی کو واپس کرنے ہوں تو ادھار کہتے ہیں۔
حکومت کو دینا ہو تو ٹیکس کہتے ہیں۔
عدالت میں اسے جرمانہ کہتے ہیں۔
ملازمت ختم ہو تو اسے پنشن کہتے ہیں۔
دفتر، دکان یا کارخانے سے ملے تو تنخواہ کہتے ہیں۔
بنک سے لیں تو قرضہ کہتے ہیں۔
ویٹر کو دیں تو بخشش کہتے ہیں۔
اغواکار کو دیں تو تاوان کہتے ہیں۔
کسی غلط کام کے عوض لیں یا دیں تو رشوت کہتے ہیں۔
***
نقاط کے اعتبار سے حروف کی اقسام
باعتبار نقاط حروف کی دو اقسام ہیں:
1: منقوط (نقطہ والے )
ش، چ، ج، ظ، ض، ق، ف، غ، ث، ت، ب وغیرہ
2: غیرمنقوط( نقطہ کے بغیر)
ح، ع، ط، س، ر، ص، و، ک، ل، م، د وغیرہ
غیرمنقوط حروف قوی اورطاقتور مانےجاتے ہیں جبکہ منقوط حروف کمزور وضعیف مانےجاتے ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...