آج شام کو آفس سے گھر لوٹتے وقت تک بھی میں نہیں سوچ سکتا تھا کہ حالات مجھے اس طرح پیس کر رکھ دیں گے۔ میں چاہتا تو اس سانحے کو ٹال بھی سکتا تھا مگر آدمی کے لیے ایسا کر سکنا ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا۔ کچھ باتیں ہمارے چاہنے یا نہ چاہنے کی حدود سے پرے ہوتی ہیں اور شاید ایسے غیر متوقع سانحات ہی کو دوسرے الفاظ میں ‘حادثہ’ کہتے ہیں۔ جو بھی ہو۔ میں حالات کے غیر مرئی شکنجے میں جکڑا ہوا تھا اور اب اس سے نجات کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی تھی۔
آج گھر لوٹنے میں مجھے دیر ہو گئی تھی اس لیے میں لمبے لمبے ڈگ بھرتا گھر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ مجھے بیوی کی پریشانی کا بھی خیال تھا۔ وہ یقیناً کھڑکی کی جھری سے آنکھ لگائے میری راہ دیکھ رہی ہو گی اور ذرا ذرا سی آہٹ پر چونک پڑتی ہو گی۔ سانجھ کی پرچھائیاں گھر آئی تھیں۔ میں جیسے ہی گلی میں داخل ہوا، اس جانے پہچانے ماحول نے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا۔ ٹین کی کھولیوں کے چھجوں سے نکلتا ہوا دھواں ادھر ادھر بہتی نالیوں کی بدبو اور ادھ ننگے بھاگتے دوڑتے بچوں کا شور، کتوں کے پلے، مرغیاں اور بطخیں، دو ایک کھولیوں سے عورتوں کی گالیاں بھی سنائی دیں جو شاید اپنے بچوں یا پھر بچوں کے بہانے پڑوسیوں کو دی جا رہی تھیں۔
میں جب اپنی کھولی کے سامنے پہنچا تو دیکھا کہ میرے دروازے کے سامنے گندے پانی کی نکاسی کے لیے جو نالی بنی تھی، اس میں شامو دادا کا ایک چھوکرا دیسی شراب کی کھن بوتیںک چھپا رہا ہے۔ مجھے اپنے سر پر دیکھ کر پہلے تو وہ کچھ بوکھلایا۔ پھر سنبھل کر قدرے مسکرا دیا۔ دیسی شراب کی بو میرے نتھنوں سے ٹکرا رہی تھی۔ میں نے ذرا تیز لہجے میں پوچھا،
’’یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘
وہ اطمینان سے مسکراتا ہوا بولا، ’’دادا نے یہ چھے بوتلیں یہاں چھپانے کو بولا ہے۔‘‘
گلی کی گندگی جب تک گلی میں تھی تو کوئی بات نہیں تھی۔ مگر اب وہ گندگی میرے دروازے تک پھیل آئی تھی اور یہ بات کسی بھی شریف آدمی کے لیے ایک چیلنج تھی۔ لہٰذا میں چپ نہ رہ سکا۔ میں نے اسی تیز لہجے میں کہا،
’’یہ بوتلیں یہاں سے ہٹاؤ۔ یہ گٹر تمہاری بوتلیں چھپانے کے لیے نہیں بنی ہے۔‘‘
لڑکا تھوڑی دیر تک مجھے گھورتا رہا۔ پھر بولا، ’’اپن کو نہیں معلوم، دادا نے یہاں چھپانے کو بولا تھا۔‘‘
’’میں کچھ نہیں جانتا۔ چلو اٹھاؤ یہاں سے۔‘‘
لڑکے نے ہونٹوں ہی ہونٹوں میں کچھ بڑبڑاتے ہوے بوتلیں واپس اپنے میلے جھولے میں رکھ لیں۔ پھر جاتے جاتے مڑ کر بولا، ’’ساب!جاستی (زیادہ) ہو ساری دکھائے گا تو بھاری پڑے گا۔ یہ نہر و نگر ہے۔‘‘
میں نے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ اس آوارہ چھوکرے کے منہ لگنا بے کار تھا۔ وہ بوتلیں لے کر چلا گیا۔ یہی غنیمت تھا۔ میں اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ میں نے کنکھیوں سے دیکھا، میری اور لڑکے کی گفتگو سن کر ارد گرد کی کھولیوں کے دروازے کھلے اور کچھ عورتیں باہر جھانکتی ہوئی، دلچسپی اور تجسس سے میری طرف دیکھ رہی تھیں۔ میں نے اس طرف دھیان نہیں دیا اور اپنے کمرے کے دروازے پر پہنچ گیا۔ بیوی بھی شاید میری آواز سن چکی تھی۔ وہ دروازہ کھولے کھڑی تھی۔
’’کیا ہوا؟‘‘ اس نے قدرے گھبراہٹ کے ساتھ پوچھا۔ میں کمرے میں داخل ہو گیا۔ بیوی نے دروازے کے پٹ بھیڑ دیے۔
’’کم بختوں کو دوسروں کی تکلیف یا عزت کا ذرا خیال نہیں۔‘‘ میں جوتے کی لیس کھولتے ہوئے بڑبڑایا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ بیوی کا لہجہ گھبرایا ہوا ہی تھا۔
’’ارے وہ شامو دادا کا چھوکرا اپنے گھر کے سامنے والی نالی میں شراب کی بوتلیں چھپا رہا تھا۔‘‘
بیوی تھوڑی دیر چپ رہی پھر بولی، ’’میں کہتی ہوں خدا کے لیے کوئی دوسری جگہ ڈھونڈ لیجیے۔ آج نل پر چھے نمبر والی آنٹی بھی خواہ مخواہ مجھ سے الجھ پڑی تھی۔‘‘
میں نے بش شرٹ کے بٹن کھولتے ہوئے پوچھا، ’’کیا ہوا تھا؟‘‘
’’ہوتا کیا، یہ لوگ تو جھگڑے کے لیے بہانہ تلاشتے رہتے ہیں۔ سب کو نمبر سے تین تین ہنڈے پانی ملتا ہے۔ میں نے صرف دو ہنڈے لیے تھے۔ وہ کہنے لگی، تمہارے گھر میں زیادہ ممبر نہیں ہیں، تم صرف دو ہنڈے لو۔ میں نے کہا سب کو تین ملتے ہیں تو میں بھی تین ہی لوں گی۔ دو کیوں لوں؟ بس اسی پر بات بڑھ گئی۔‘‘
میں کھاٹ پر لیٹ گیا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر کیا کیا جائے۔ ابھی تین چار ماہ تک کھولی بدلنے جیسی میری حالت نہیں تھی اور یہاں ایک ایک دن گزارنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ مجھے یہاں آئے ہوئے صرف تین مہینے ہوئے تھے۔ بیوی یہاں کے ماحول سے اس قدر پریشان ہو چکی تھی کہ روز رات کو سونے سے پہلے وہ ادھر ادھر کی باتوں کے درمیان گھر بدلنے کی بات ضرور کرتی۔ میں کبھی سمجھا کر، کبھی ڈانٹ کر اسے ٹال دیتا۔ یہ بات نہیں تھی کہ وہ میری مالی حالت سے واقف نہیں تھی۔ مگر وہ بھی ایک عام گھریلو عورت کی طرح ایک اچھے گھر کی خواہش کو اپنے دل سے کسی طرح بھی الگ نہیں کر سکتی تھی۔ اس کی یہ خواہش اس وقت مزید شدت اختیار کر جاتی جب گلی میں کوئی لڑائی جھگڑا یا دنگا فساد ہو جاتا۔ اس قسم کے دنگے یہاں تقریباً روز ہی ہوا کرتے تھے۔ بعض اوقات تو معمولی جھگڑے سے بھی خون خرابے تک نوبت آ جاتی۔ اتوار کے روز یہاں کے ہنگاموں میں خصوصیت سے اضافہ ہو جاتا۔ ہفتے کے چھے دن تو زیادہ تر عورتیں آپس میں لڑتی رہتیں۔ کبھی کبھی نل یا سنڈاس کی لائن میں دو چار عورتیں ایک دوسرے سے الجھ پڑتیں۔ جھونٹے پکڑ کر بھی کھنچے جاتے۔ مگر یہ جھگڑے گالی گلوج یا معمولی نوچ کھسوٹ سے آگے نہ بڑھ پاتے۔ مگر اتوار کا دن ہفتے بھر کے چھوٹے موٹے جھگڑوں کا فیصلہ کن دن ہوتا کیوں کہ اس دن ان عورتوں کے شوہروں، بیٹوں اور دوسرے عزیز رشتے داروں کی چھٹی کا دن ہوتا جو موٹر ورک شاپوں، ملوں اور دیگر چھوٹے موٹے کارخانوں میں کام کرتے تھے۔ اس دن شنکر پاٹل کا مٹکے کا کاروبار بھی کلوز رہتا۔ البتہ شامو دادا کے اڈے پر خاص رونق ہوتی صبح ہی سے پینے والوں کا تانتا بندھا رہتا۔ اور لوگ ’نوٹانک‘ پاوسیر، پی پی کر گلی میں اس سرے سے اس سرے تک لڑکھڑاتے گالیاں دیتے اور ہنستے قہقہے لگاتے گھومتے رہتے۔ ہفتے بھر عورتیں انھیں اپنے چھوٹے چھوٹے جھگڑوں کی جو رپورٹیں دیتی تھیں وہ انھیں رپورٹوں کی بنیاد پر کسی نہ کسی بہانے لڑائی چھیڑ دیتے۔ ہفتے بھر کا حساب چکانے کے لیے مرد اپنے اپنے ٹین اور لکڑیوں کے ناپہتک جھونپڑوں سے نکل آتے۔ دن بھر خوب جم کر لڑائی ہوتی۔ دو چار کا سر پھٹتا اور دو چار کو پولیس پکڑ کر لے جاتی۔ یہ ہر اتوار کا معمول تھا۔
یہاں کے ماحول سے میں بھی کافی پریشان تھا۔ مگر صرف پریشانی سے کب کوئی مسئلہ حل ہوتا ہے۔ شہروں میں ایک صاف ستھرے ماحول میں، مناسب مکان کا حاصل کرنا مجھ جیسے معمولی کلرک کے لیے کتنا مشکل ہے، اس کا صحیح اندازہ بیوی کو نہیں ہو سکتا تھا۔ کیوں کہ وہ گاؤں سے پہلی دفعہ شہر آئی تھی۔
اتنے میں بیوی چائے کا پیالہ لے کر ساڑی کے پلو سے منہ پونچھتی میرے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر تک خاموش نظروں سے میری طرف دیکھتی رہی۔ پھر بولی، ’’لیجیے چائے پی لیجیے۔‘‘
میں نے چائے کا پیالہ اٹھا لیا۔ وہ کہہ رہی تھی۔
’’پرسوں تین نمبر والی زلیخا آئی تھی اس نے مجھ سے ادھار آٹا مانگا۔ میں نے بہانہ کر دیا کہ گیہوں ابھی پسائے نہیں گئے ہیں۔ اس وقت وہ چپ چاپ چلی گئی۔ مگر تب سے سنڈاس کی لائن میں، نل پر مجھے دیکھتے ہی ناک چڑھا کر آنکھیں مچکاتی ہے اور میری طرف منہ کر کے تھوکتی ہے۔ کتیا کہیں کی۔‘‘
بیوی نے منہ بناتے ہوئے تلخ لہجے میں کہا۔ میری نظریں بیوی کے چہرے پر گڑی ہوئی تھی۔ میں نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا، ’’تھوڑا سا آٹا دے دینا تھا۔‘‘
’’کیا دے دیتی؟‘‘ اس کی آواز مزید تیکھی ہو گئی۔ ’’آپ نہیں جانتے، ان لوگوں کی نہ دوستی اچھی، نہ دشمنی۔ اسی لین دین پر تو آئے دن یہاں جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔‘‘ بیوی نے جیسے کسی بہت بڑے راز کا انکشاف کرنے والے انداز میں کہا۔ میں چپ تھا، وہ کہہ رہی تھی۔
’’آج آپ نے دیر کر دی۔ خدا کے لیے آپ آفس سے جلد آیا کیجیے۔ آپ کے آفس سے لوٹنے تک میری جان سوکھتی رہتی ہے۔ یہاں پل، پل ایک جھگڑا ہوتا رہتا ہے۔ آپ کے لوٹنے سے پہلے سامنے والی سکینہ اور رابوں میں خوب گالی گلوج ہوئی۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’کچھ نہیں، سکینہ کے بچے نے رابو کی بطخ کو کنکر مارا تھا۔ بس اسی پر دونوں میں خوب جم کر لڑائی ہوئی وہ تو سکھو تائی نے دونوں کو سمجھا بجھا کر چپ کرایا۔ ورنہ نوچ کھسوٹ تک کی نوبت آ گئی تھی۔‘‘
میں سننے کو تو بیوی کی باتیں سن رہا تھا۔ مگر میرا ذہن شامو دادا کے چھوکرے کے ساتھ ہوئی گفتگو میں الجھا ہوا تھا۔ کمبخت ایک تو غلط کام کرتے ہیں اور ٹوکو تو دھمکیاں دیتے ہیں۔ دادا گری دھری کی دھری رہ جائے گی۔ اچانک بیوی بولتے بولتے چپ ہو گئی۔ وہ کچھ سننے کی کوشش کر رہی تھی۔ آوازیں میرے دروازے پر آ کر رک گئیں۔ میں نے شامو دادا کی آواز سنی، وہ کہہ رہا تھا۔
’’چل بے لالو! رکھ اس میں بوتلیں۔ دیکھتا ہوں کون سالا روکتا ہے۔‘‘
ایک لمحے کو میرا دل زور سے دھڑکا۔ آخر وہی ہوا جس سے میں اب تک بچتا آیا تھا۔ میں نے بیوی کی طرف دیکھا۔ اس کا چہرہ پیلا پڑ گیا تھا۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا:
’’جانے دیجیے، رکھ لینے دیجیے۔ پنا کیا جاتا ہے۔‘‘
پیالے میں تھوڑی سی چائے بچی تھی۔ میں نے پیالہ اسی طرح فرش پر رکھ دیا۔ پھر اس سے اپنا ہاتھ دھیرے سے چھڑاتا ہوا بولا۔
’’تم چپ بیٹھی رہو۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ہم اس طرح ان کی ہر بات برداشت کر لیں گے تو یہ لوگ ہمارے سر پر سوار ہو جائیں گے۔‘‘ میں کھاٹ پر سے اٹھ گیا۔
بیوی گھگھیائی۔ ’’نہیں خدا کے لیے آپ باہر مت جائیے۔ آپ اکیلے کیا کر سکیں گے۔ وہ بدمعاش لوگ ہیں۔‘‘
میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا، ’’پاگل ہوئی ہو۔ میں کیا جھگڑا کرنے جا رہا ہوں۔ آخر بات کرنے میں کیا حرج ہے۔‘‘
میں دروازہ کھول کر باہر آ گیا۔ شامو دادا کمر پر دونوں ہاتھ رکھ کھڑا تھا۔ اس کے پاس اور دو چھوکرے جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑے تھے۔ وہی چھوکرا جو پہلے بھی آیا تھا، جھولے سے بوتلیں نکال نکال کر گٹر میں دبا رہا تھا۔ میرے باہر نکلتے ہی وہ چاروں میری طرف دیکھنے لگے۔ شامو ایک لمحے تک مجھے گھورتا رہا۔ پھر چھوکرے سے مخاطب ہوا۔
’’اے سالے! سنبھال کر رکھ، کوئی بوتل پھوٹ ووٹ گئی تو تیری بہن کی… ایسی تیسی کر ڈالوں گا۔‘‘
میں اپنے چبوترے کے کنارے پر آ کر کھڑا ہو گیا۔ وہ لوگ میری طرف مڑے۔ ان کی آنکھوں میں غصہ، نفرت اور حقارت کے بھاؤ اتر آئے۔ میں نے قریب پہنچ کر نہایت نرم لہجے میں شامو سے کہا۔
’’آپ ہی شامو دادا ہیں؟‘‘
’’ہاں کیوں؟‘‘ شامو کسی کٹکھنے کتے کی طرح غرایا۔
’’دیکھیے یہاں ان بوتلوں کو مت رکھیے ہمیں تکلیف ہو گی۔‘‘
’’تکلیف ہو گی تو کوئی دوسری جگہ ڈھنڈو۔ اس جھونپڑ پٹی میں کیوں چلے آئے۔‘‘
’’میری بات سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ یہ چیزیں ہمیں پسند نہیں ہیں۔ کسی دوسری جگہ کیوں نہیں رکھتے انھیں۔‘‘
’’یہ بوتلیں یہیں رہیں گی، تمہیں جو کرنا ہے کر لو۔‘‘
اس کے باقی دونوں ساتھی میری طرف بڑھتے ہوئے بولے، ’’یہ تمہارے باپ کی گٹر ہے کیا؟‘‘
اس وقت اندر ہی اندر ابلتے غصے کی وجہ سے میری جو حالت ہو رہی تھی وہ بیان سے باہر ہے۔ جی میں آ رہا تھا کہ ان تینوں کم بختوں کی ایک سرے سے لاشیں گرا دوں۔ مگر میں جانتا تھا کہ ایسی جگہوں پر اپنا ذہنی توازن کھونے کا مطلب سوائے پٹنے کے اور کچھ بھی نہیں۔ میں نے لہجے کو ذرا بھاری بناتے ہوئے کہا۔
’’دیکھو باپ دادا کا نام لینے کی ضرورت نہیں۔ میں اب تک شرافت سے آپ لوگوں کو سمجھا رہا ہوں۔‘‘
’’ارے تو، تو کیا کر لے گا ہمارا۔ تیری ماں کی…. مادر… سالا…. ایک جھاپڑ میں مٹی چاٹنے لگے گا اور ہم سے ہوشیاری کرتا ہے۔‘‘ شامو نے دو قدم میری طرف بڑھا تے ہوئے کہا۔
گالی سن کر میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ میں نے انگلی اٹھا کر کہا۔ ’’دیکھو شامو! اپنی حد سے آگے مت بڑھو۔ ایک تو غیر قانونی کام کرتے ہو اور اوپر سے سینہ زوری کرتے ہو۔‘‘
’’ارے تیرے قانون کی بھی ماں کی……‘‘ شامو میری طرف لپکتا ہوا بولا۔ اس کے ایک ساتھی نے اسے پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا، ’’ٹھہرو دادا، اس سالے کو میں ٹھیک کرتا ہوں۔‘‘
اس نے جیب سے ایک لمبا سا چاقو نکال لیا۔ کڑ، ڑ، کڑ، ڑکڑ، ڑ، چاقو کھلنے کی آواز کے ساتھ ہی میرے جسم میں سر سے پیر تک چیونٹیاں رینگ گئیں۔ میری انتہائی کوشش کے باوجود حالات میرے قابو سے باہر ہو چکے تھے۔ ایک لمحے کو میں سر سے پیر تک کانپ گیا۔ ارد گرد کے جھونپڑوں سے عورتیں، مرد اور بوڑھے سب نکل آئے تھے۔ سب کے سب اس جھگڑے کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔ شامو کے ساتھی کے چاقو نکالتے ہی دو تین عورتوں کے منہ سے چیخیں نکل گئیں اور ان چیخوں نے میری نس نس میں ایک کپکپاہٹ سی بھر دی۔ میں زندگی میں پہلی دفعہ اس قسم کی سچویشن سے دو چار ہوا تھا۔ میرا سارا غصہ ایک خوف زدہ بچے کی طرح سہم کر میرے اندر ہی دب گیا۔ میں اب صرف ایک گھبراہٹ بھرے پچھتاوے کے ساتھ اس غنڈے کے چمچماتے چاقو کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں اس وقت بھاگ کر اپنے کمرے میں چھپ سکتا تھا۔ مگر اب بھاگنا بھی اتنا آسان نہیں رہ گیا تھا۔ کیوں کہ بیسیوں آنکھیں مجھے اپنی نظر کے ترازو میں تول رہی تھیں۔ بھاگنے کا مطلب تھا میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان نگاہوں میں مر جاتا۔
وہ غنڈا چاقو لیے میری طرف بڑھا اور میں بے حس و حرکت وہیں کھڑا رہا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس وقت میں بہت بہادری سے کھڑا تھا۔ بلکہ اس وقت اپنے پیروں کو اس جگہ جمائے رکھنے میں مجھے جس کش مکش اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا وہ میرا ہی دل جانتا ہے۔ میں اپنے کمرے کے چبوترے پر کھڑا تھا۔ وہ غنڈا بالکل میرے قریب پہنچ چکا تھا۔ قریب پہنچ کر وہ بھی ایک لمحے کو ٹھٹکا شاید اسے بھی توقع تھی کہ میں بھاگ کر کمرے میں گھس جاؤں گا۔ مگر جب خلاف توقع اس نے مجھے اسی طرح کھڑا پایا تو بجائے مجھ پر چاقو کا وار کرنے کے میری ٹانگ پکڑ کر مجھے نیچے کھینچ لینا چاہا۔ میں ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ میری ٹانگ اس کے ہاتھ نہ آ سکی۔ اتنے میں پیچھے سے ایک چیخ سنائی دی اور کوئی آ کر مجھ سے لپٹ گیا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا، میری بیوی میری کمر پکڑے مجھے اندر کھنچنے کی کوشش کرنے لگی۔ وہ بری طرح رو رہی تھی۔
’’چلیے آپ اندر چلیے۔ خدا کے لیے آپ اندر چلیے۔‘‘ اس نے مجھے کمرے کی طرف گھسیٹتے ہوئے کہا۔ بیوی میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ مجھے اندر گھسیٹ لے جاتی۔ مگر میرا شعور بھی شاید اسی میں اپنی عافیت سمجھ رہا تھا۔ بیوی نے مجھے کمرے میں دھکیل کر دروازہ اندر سے بند کر لیا اور زور زور سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ایک لمحے تک باہر سناٹا چھایا رہا۔ صرف میری بیوی کی زور زور سے رونے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ پھر باہر سے مغلظات کا ایک طوفان امڈ پڑا۔ وہ سب مجھے بے تحاشا گالیاں دے رہے تھے۔ پھر ایسا بھی سنائی دیا جیسے کچھ لوگ انھیں سمجھا رہے ہوں۔ مگر دو تین منٹ تک گالیوں کا سلسلہ برابر چلتا رہا۔ بیوی دونوں پیر پکڑے میرے گھٹنوں پر سر ٹکائے بری طرح رو رہی تھی۔ میں کھاٹ پر کسی بت کی طرح چپ چاپ بیٹھا رہا۔ آخر مغلظات کا طوفان رکا اور پھر ایسا لگنے لگا جیسے بھیڑ چھٹ رہی ہو۔ تھوڑی دیر بعد باہر مکمل سناٹا چھا گیا۔ صرف رہ رہ کر کسی کھولی سے کسی عورت کی کوئی تیکھی گالی اڑتی ہوئی آتی اور ایک طمانچے کی طرح کان پر لگتی۔ میں پتہ نہیں کتنی دیر تک اسی طرح چپ چاپ بیٹھا رہا۔ بیوی پتہ نہیں کب تک گود میں سر ڈالے روتی رہی۔ اس وقت ندامت غصہ اور خوف سے میری عجیب کیفیت تھی۔ ذہن گویا ہوا میں اڑا جا رہا تھا اور دل تھا کہ سینے میں سنبھلتا ہی نہیں تھا۔ میری ساری کوششوں کے باوجود معاملہ کسی کانچ کے برتن کی طرح میرے ہاتھوں سے چھوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا اور اب اس کی کرچیں میرے جسم میں اس طرح گڑ گئی تھیں کہ میرا سارا وجود لہو لہان ہو گیا تھا۔ میری ساری تدبیریں ناکام ہو گئی تھیں اور اب میں بہت بلندی سے گرنے والے کسی بدنصیب شخص کی طرح ہوا میں معلق ہاتھ پیر مار رہا تھا۔ کسی کگار کو چھو سکنے یا کسی ٹھوس جگہ پر پاؤں جمانے کی بے نتیجہ کوشش… آخر میں نے طے کر لیا کہ میں جلد ہی یہ کھولی چھوڑ دوں گا۔ مگر کھولی چھوڑنے سے پہلے اپنی توہین کا بدلا بھی لینا تھا۔ مگر میں اکیلا کیا کر سکتا تھا۔ میں بہت دیر تک اسی پیچ و تاب میں بیٹھا رہا۔ آج میں اپنی نظروں میں ذلیل ہو گیا تھا۔ رہ رہ کر غنڈوں کی گالیاں میرے کانوں میں گونج رہی تھیں اور میری بے بسی کا احساس بڑھتا جا رہا تھا اور اس بے بسی کے احساس کے ساتھ ہی میرا غصہ بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ بیوی کی سکسکیاں اب تھم چکی تھیں مگر اس کا سر میری گود میں اسی طرح رکھا تھا۔ میں نے آہستہ سے اس کا سر اٹھاتے ہوئے کہا،
’’اٹھو چار پائی پر لیٹ جاؤ۔‘‘
بیوی اسی طرح فرش پر بیٹھی ساڑی کے پلو سے اپنی ناک سڑکنے لگی۔ میں اٹھ کر بس شرٹ پہننے لگا۔ بیوی نے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’کہاں جا رہے ہو؟‘‘
میں نے کہا۔ ’’تم آرام کرو۔ میں ابھی پولیس اسٹیشن سے ہو آتا ہوں۔‘‘
’’نہیں آپ کہیں نہ جائیے۔‘‘
’’گھبراؤ نہیں۔‘‘ میں نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ ’’ابھی دس منٹ میں آ جاؤں گا۔‘‘
’’نہیں خدا کے لیے آپ ان لوگوں سے نہ الجھیے۔ وہ لوگ بہت بدمعاش ہیں۔‘‘
’’تم خواہ مخواہ گھبرا رہی ہو۔ یہ لوگ سیدھے سادے لوگوں پر اسی طرح دھونس جماتے ہیں۔ کسی کو مارنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ تم دیکھنا دس منٹ بعد پولیس ان سب کے ہتھکڑیاں لگا کے لے جائے گی۔ کسی شریف آدمی کو اس طرح پریشان کرنا ہنسی کھیل نہیں ہے۔‘‘
’’مگر آپ اکیلے ہیں اور وہ بہت سارے ہیں۔ آپ اکیلے کتنوں سے لڑیں گے۔‘‘
’’ارے میں لڑنے کہاں جا رہا ہوں۔ پولیس شکایت درج کراؤں گا۔ پولیس خود آ کر ان سے سمجھ لے گی۔ ہم اس طرح ان کی بدمعاشی کو سہتے رہیں تو جینا دو بھر ہو جائے گا۔ انھیں ان کی بدمعاشی کی آخر کچھ تو سزا ملتی چاہیے۔‘‘
بیوی کی آنکھوں سے پھر آنسو بہنے لگے۔ ’’جب ہمیں یہاں رہنا ہی نہیں ہے تو پھر خواہ مخواہ ان کے منہ لگنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
میں نے ذرا کڑے لہجے میں کہا، ’’تم اندر سے کنڈی لگا لو۔ تم ان باتوں کو نہیں سمجھتیں۔ وہ لوگ ہمارے دروازے پر آ کر ہمیں یوں ذلیل کر جائیں اور ہم پولیس میں شکایت تک نہ کریں۔ اس سے بڑی بزدلی اور کیا ہو سکتی ہے۔ آج انھوں نے دروازے پر گڑبڑ کی، کل گھر میں گھس سکتے ہیں۔‘‘ پھر لہجے کو تھوڑا نرم بناتے ہوئے کہا، ’’تم سمجھ دار ہو۔ ہمت سے کام لو۔ میں ابھی لوٹ آؤں گا۔ چلو اٹھو دروازہ اندر سے بند کرو۔‘‘
یہ کہہ کر میں باہر نکل گیا۔ بیوی مرے قدموں سے چلتی میرے پیچھے آئی۔ میں نے دروازہ بند ہونے کے ساتھ ہی اس کی ہلکی ہلکی سسکیوں کی آواز بھی سنی۔ گلی میں کافی اندھیرا تھا۔ پاس کی کھولیوں کے دروازے بند ہو چکے تھے۔ چاروں طرف ایک ناخوشگوار قسم کا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ میں گلی کو پار کر کے سڑک کے کنارے آ گیا۔ یہاں لیمپ پوسٹ کی ملگجی روشنی اونگھ رہی تھی۔ میں نے مڑ کر دائیں طرف نظر دوڑائی جہاں شامو کا شراب کا اڈہ تھا۔ چاروں طرف ٹاٹ سے گھرے اس اڈے میں کافی روشنی ہو رہی تھی۔ باہر بینچوں پر کچھ لوگ بیٹھے پیتے دکھائی دیے۔ پاس ہی سیخ کباب والا اپنی انگیٹھی دہکائے بیٹھا تھا۔ اڈے سے رہ رہ کر ہلکے ہلکے قہقہوں اور گلاسوں کے کھنکنے کی ملی جلی آوازیں آ رہی تھیں۔ پولیس اسٹیشن جانے کا راستہ اسی طرف سے تھا۔ مگر میں اس طرف جانے کے بجائے دوسری طرف مڑ گیا اور ریل کی پٹری کراس کر کے بڑی سڑک پر نکل آیا۔ میں دل ہی دل میں پولیس اسٹیشن میں انسپکٹر کے سامنے کی جانے والی شکایت کا خاکہ ترتیب دینے لگا۔ میں زندگی میں پہلی دفعہ پولیس اسٹیشن جا رہا تھا۔ دل میں ایک طرح کی گھبراہٹ بھی تھی۔ مگر ان بدمعاشوں کو مزہ چکھانے کا جذبہ اس گھبراہٹ پر کچھ ایسا حاوی تھا کہ پیر پولیس اسٹیشن کی طرف بڑھتے ہی گئے۔ میں نے سن رکھا تھا کہ وہاں شریف آدمیوں سے کوئی سیدھے منہ بات تک نہیں کرتا۔ میں ذہن میں ایسے جملوں کو ترتیب دینے لگا جن کے ذریعے پولیس انچارج کے سامنے اپنی بے بسی اور پریشانی کا واضح نقشہ کھینچ سکوں اور وہ فوراً متاثر ہو جائے۔ پولیس اسٹیشن کی عمارت آ گئی تھی۔ گیٹ میں داخل ہوتے وقت ایک بار پھر میرا دل زور سے دھڑکا۔
میں عمارت کی سیٹرھیاں چڑھ کر ورانڈے میں پہنچا۔ پاس ہی بچھی بینچ پر ایک کانسٹیبل بیٹھا ہتھیلی پر تمباکو اور چونا مسلتا نظر آیا۔ اس نے اپنی ٹوپی اتار کر پر بینچ رکھ لی تھی اور اس کی گنجی کھوپڑی بلب کی روشنی میں چمک رہی تھی۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی اس نے استہاٹمیہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔ میں اس کے قریب پہنچ کر ایک وقفے کے لیے رکا۔ پھر بولا، ’’مجھے ایک کمپلین لکھوانی ہے۔‘‘
’’کہاں سے آئے ہو؟‘‘ اس نے تیوری چڑھا کر پوچھا۔
’’نہرو نگر سے۔‘‘
’’کیا ہوا؟‘‘ اس کی نظریں سر سے پیر تک میرا جائزہ لے رہی تھیں۔
’’وہاں کچھ غنڈوں نے مجھ پر حملہ کرنا چاہا تھا۔‘‘
’’ہم۔‘‘ اس نے تمباکو کو اپنے نچلے ہونٹ کے نیچے دباتے ہوئے زور سے ہنکاری بھری۔ پھر ہاتھ جھاڑتا ہوا بولا، ’’جاؤ، ادھر جاؤ۔‘‘ اس نے سیدھے ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ میں اس طرف مڑ گیا جدھر کانسٹیبل نے اشارہ کیا تھا۔ کچھ قدم چلنے کے بعد ایک کھلا دروازہ دکھائی دیا۔ میں دروازے میں ٹھٹک گیا اور سامنے کرسی پر بیٹھے ایک موٹے حوالدار کو دیکھنے لگا۔ وہ شاید ہیڈ کانسٹیبل تھا اور گردن جھکائے ہوئے کوئی فائل الٹ پلٹ رہا تھا۔ پاس ہی ایک دوسری میز پر کوئی کلرک کچھ ٹائپ کر رہا تھا اور ایک دوسرا کانسٹیبل ایک طرف کرسی پر بیٹھا جمائیاں لے رہا تھا۔ میں نے ایک لمحے توقف کے بعد کھنکار کر کہا، ’’مے آئی، کم ان؟‘‘ ہیڈ کانسٹیبل نے فائل سے گردن اٹھائی جماہی لینے والا کانسٹیبل چندھیائی آنکھوں سے مجھے دیکھنے لگا۔ ہیڈ کانسٹیبل نے گردن ہلا کر مجھے اندر آنے کی اجازت دی۔ میں اندر داخل ہوا اور میز کے پاس جا کر کھڑا ہوا۔
’’کیا ہے؟‘‘ ہیڈ کانسٹیبل نے فائل پر سے نظریں اٹھاتے ہوئے پوچھا۔
’’جی…. جی…. مجھے ایک کمپلین لکھوانی ہے۔‘‘
’’کہاں رہتے ہو؟‘‘
’’نہرو نگر میں۔‘‘
’’کیا ہوا، جلدی بولو۔‘‘ اس کا لہجہ بڑا اہانت آمیز تھا۔
میں نے دل میں الفاظ تولتے ہوئے کہا، ’’جی بات یہ ہے کہ میں نہرو نگر میں پانچ نمبر بلاک میں رہتا ہوں۔ وہاں شامو دادا کا شراب کا اڈہ ہے۔ اس کے چھوکروں نے آج مجھ پر چاقو سے حملہ کرنا چاہا تھا۔‘‘
’’کیوں؟ تم نے اسے چھیڑا ہو گا۔‘‘ ہیڈ کانسٹیبل نے کہا۔
میں اس ریمارک پر بوکھلا گیا۔ میں سمجھ رہا تھا شراب کے اڈے کا ذکر آتے ہی یہ لوگ ان غنڈوں کی غنڈا گردی کو سمجھ جائیں گے۔ کیوں کہ شامو نا جائز شراب کا کاروبار کرتا تھا۔ مگر اب حوالدار کے تیور دیکھ کر میرا دل ڈوبنے لگا۔ میں نے مسمی صورت بنا کر کہا۔ ’’جی میں نے کچھ نہیں کیا۔‘‘
’’پھر کیا اس کا دماغ خراب ہو گیا تھا جو خواہ مخواہ تم سے جھگڑا کرنے آ گیا۔‘‘ اس کے درشت لہجے نے میرے رہے سہے حواس بھی غائب کر دیے تھے۔ پھر بھی میں نے سنبھلتے ہوئے کہا:
’’جی بات یہ تھی کہ وہ ہمارے گھر کے سامنے والی نالی میں شراب کی بوتلیں چھپا رہا تھا۔ میں نے منع کیا۔ بسی اسی پر بگڑ گیا۔‘‘
’’ہم، یہ بات ہے۔ یہ بتاؤ تم نے منع کیوں کیا؟‘‘
’’جی!‘‘ میں حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔ ’’صاحب وہ میرے گھر کے سامنے شراب چھپا رہا تھا۔ میں ایک شریف آدمی ہوں۔ کیا مجھے اس پر اعتراض کرنے کا حق بھی نہیں۔‘‘
ہیڈ کانسٹیبل نے ایک بار مجھے گھور کر دیکھا اور بولا، ’’ارے شراب کی بوتلیں نالی میں چھپا رہا تھا نا، تمھارا کیا بگڑتا تھا اس سے۔‘‘
مجھے اب سچ مچ غصہ آ گیا تھا۔ میں نے دل ہی دل میں اس موٹے حوالدار کو ایک موٹی سی گالی دی مگر بہ ظاہر اپنے لہجے کو حتی الامکان نرم بناتے ہوئے کہا، ’’مگر حوالدار صاحب (حرامی صاحب) وہ غنڈہ آدمی ہے۔ اگر میں اس وقت اعتراض نہ کرتا تو وہ کل میرے گھر میں گھس سکتا تھا اور پھر اس کا دھندا بھی تو قانوناً نا جائز ہے۔‘‘
’’بس بس ہم کو معلوم ہے۔ یہاں قانون مت بگھارو۔ ادھر جاؤ پہلے صاحب سے شکایت کرو۔ وہ کہے گا تو ہم کمپلین لکھ لے گا۔‘‘ اس نے بائیں طرف ایک کیبن کے بند دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ پھر وہ کرسی میں پڑے جماہی لیتے سپاہی سے مخاطب ہوا، ’’بھالے راؤ اس آدمی کو صاحب کے پاس لے جاؤ۔‘‘
بھالے راؤ نے ایک بار پھر منہ پھاڑ کر جماہی لی اور کچھ بڑبڑاتا ہوا ناگواری سے بولا۔ ’’چلو۔‘‘
وہ کرسی سے اٹھا اور لڑکھڑاتے قدموں سے چلتا ہوا کیبن کی چق ہٹا کر اندر چلا گیا۔ پھر چند سیکنڈ بعد ہی باہر نکلا اور میری طرف دیکھے بغیر بولا، ’’جاؤ۔‘‘ اور خود دوبارہ اسی کرسی کی طرف مڑ گیا جہاں پہلے بیٹھا جماہیاں لے رہا تھا۔ میں چق ہٹا کر اندر داخل ہوا۔ سامنے ایک سخت چہرے اور بڑی بڑی مونچھوں والا شخص مجھے گھور رہا تھا۔ میں نے تھوک نکلتے ہوئے دونوں ہاتھ جوڑ کر اسے نمسکار کیا اور اس کے سامنے جا کھڑا ہوا (میرے دونوں ہاتھ نمسکار کی شکل میں اب بھی جڑے ہوئے تھے ) سامنے دو خالی کرسیاں پڑی تھیں۔ مگر میں اس قدر نروس ہو گیا تھا کہ کرسی پر بیٹھنے کے بجائے، میز کے کونے سے لگ کر کھڑا ہو گیا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ اس سخت چہرے والے پولیس انسپکٹر نے (ہاں وہ صورت سے پولیس انسپکٹر لگتا تھا) اپنی موٹی آواز میں پوچھا۔
میں نے پھر اپنے خشک ہوتے گلے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ’’صاحب میں ایک کمپلین لکھوانے آیا ہوں۔‘‘
’’کہاں رہتے ہو؟‘‘ اس نے مجھے سر سے پاؤں تک گھورتے ہوئے پوچھا۔
’’نہرو نگر میں۔‘‘ میں نے انتہائی نرم اور ملتجی آواز میں جواب دیا۔
’’بیٹھو۔‘‘ اس نے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔
میں ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور شام کے جھگڑے کی تفصیلات سنانے لگا۔ میری گفتگو کے دوران وہ سگریٹ سلگا کر ہلکے ہلکے کش لیتا رہا۔ وہ میری باتیں اتنی بے دلی سے سن رہا تھا جیسے کوئی گھسا پٹا ریکارڈ سن رہا ہو۔ بس وہ سننے کے لیے سن رہا تھا۔ جب میں چپ ہوا تو ایک لمحے کو اس کی تیز نگاہیں میرے چہرے پر جمی رہیں۔ پھر اس کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔
’’اچھا تو اب تم کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’جی!‘‘ میں اس کے سوال کا مطلب نہیں سمجھ سکا تھا۔ اس لیے جی کر کے رہ گیا۔ انسپکٹر نے شاید میرے لہجے میں چھپے استعجاب کو بھانپ لیا تھا۔ اس نے فوراً دوسرا سوال کیا۔
’’کیا کام کرتے ہو؟‘‘
’’جی صاحب میں ’سی‘ وارڈ میں کلرک ہوں۔‘‘
’’گھر میں کون کون ہے؟‘‘
’’جی، میں اور میری بیوی۔‘‘
’’شاید نئے آئے ہو؟‘‘
’’جی ہاں، چھے ساتھ مہینے ہوئے ہیں۔‘‘
’’اچھا دیکھو واقعی تمہارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور مجھے اس کا بڑا افسوس ہے مگر…‘‘
انسپکٹر کے ان جملوں سے میری ڈھارس بندھی اور میرا حوصلہ بھی بڑھا۔ میں نے درمیان میں جلدی سے کہا، ’’سر! اگر آپ چاہیں تو…‘‘
انسپکٹر کو شاید میرا اس طرح درمیان میں ٹوکنا برا لگا۔ اس نے قدرے سخت لہجے میں کہا۔
’’پہلے ہماری بات سنو!‘‘
’’جی سر!‘‘ میں سہم کر ایک دم سے چپ ہو گیا۔
’’دیکھو! ہم ابھی تمہارے ساتھ دو چار سپاہی روانہ کر سکتے ہیں اور ساتھ ہی اس کے آدمیوں کی مشکیں کسوا کر یہاں بلا سکتے ہیں۔ مگر سوچو اس سے کیا ہو گا۔ وہ دوسرے ہی دن ضمانت پر چھوٹ جائے گا اور پھر تمہیں وہی رہنا ہے اور وہ ہے غنڈا آدمی۔ چھوٹنے کے بعد وہ انتقاماً کچھ بھی کر سکتا ہے۔ کیا تم میں اتنی طاقت ہے کہ اس سے ٹکرا سکو؟‘‘
’’مگر سر! قانون…‘‘
اس نے ہاتھ اٹھا کر مجھے چپ کرا دیا اور سگریٹ کی راکھ ایش ٹرے میں جھاڑتا ہوا بولا۔
’’قانون کی بات مت کرو۔ قانون ہم کو بھی معلوم ہے۔ پولیس تمھاری کمپلین پر ایکشن لے سکتی ہے۔ مگر چوبیس گھنٹے تمہاری حفاظت کی گارنٹی نہیں دے سکتی۔‘‘
میں گردن جھکائے چپ چاپ بیٹھا رہا۔ انسپکٹر نے دوسری سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا۔
’’دیکھو! تم سیدھے سادے آدمی معلوم ہوتے ہو۔ ہو سکے تو وہ جگہ چھوڑ دو، اور اگر وہیں رہنا چاہتے ہو تو پھر ان غنڈوں سے مل کر رہو۔‘‘
’’مگر سر! وہ ناجائز شراب کا دھندا کرتا ہے کیا پولیس اس کا دھندا بند نہیں کراسکتی؟‘‘ (مجھے فوراً احساس ہوا کہ مجھے یہ سوال نہیں پوچھنا چاہیے تھا) ایک پل کے لیے انسپکٹر کی آنکھوں میں غصہ اتر آیا۔ اس نے مجھے گھور کر دیکھا۔ پھر گمبھیر آواز میں بولا، ’’پولیس خوب جانتی ہے کہ اسے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔ شامو کا دھندا بند ہونے سے سارے کالے دھندے بند ہو جائیں گے، ایسا نہیں ہے۔‘‘
جی میں آیا کہہ دوں۔ کالے دھندے تو بند نہیں ہوں گے۔ مگر شامو سے ملنے والا ہفتہ ضرور بند ہو جائے گا اور تم یہی نہیں چاہتے۔ مگر ایسا کچھ کہنا اپنے آپ کو اندھے کنویں میں گرانے جیسا ہی تھا۔ کیوں کہ اگر یہ سامنے بیٹھا ہوا انسپکٹر ناراض ہو جائے تو الٹا مجھے اندر کرا سکتا ہے۔ میں نے کتنی ہی دفعہ شمامو کے اڈے پر پولیس والوں کو کوکا کولا پیتے اور سیخ کباب اڑاتے دیکھا تھا۔ ایک دو دفعہ تو وہ باہر بیٹھا ہوا ہیڈ کانسٹیبل بھی دکھائی دیا تھا۔ یہ میری ہی بھول تھی کہ میں یہاں دوڑا چلا آیا تھا۔ مجھے سچ مچ یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔ ان حرام خوروں سے منصفی کی توقع رکھنا، کنجوس سے سخاوت کی امید رکھنے جیسا ہی تھا۔ مجھے یوں گم سم بیٹھا دیکھ کر انسپکٹر نے سگریٹ کو ایش ٹرے میں رگڑتے ہوئے کہا۔
’’دیکھو! اب بھی کمپلین لکھوانا چاہتے ہو تو باہر جا کر لکھوا دینا۔ ایک کانسٹیبل تمہارے ساتھ جائے گا اور شامو کو یہاں بلا لائے گا۔ اب تم جا سکتے ہو۔‘‘ اتنا کہہ کر اس نے میز پر رکھی گھنٹی بجائی۔ جھٹ ایک حوالدار اندر داخل ہوا۔ انسپکٹر نے رعب دار آواز میں کہا۔
’’دیکھو یہ کوئی کمپلین لاج کرانا چاہتے ہیں۔ پانڈے سے کہو ان کی کمپلین لکھ لے اور بھالے راؤ کو ان کے ساتھ بھیج دے۔‘‘
’’یس… سر…!‘‘ حوالدار نے سر جھکا کر کہا۔ پھر میری طرف مڑ کر بولا۔ ’’چلو۔‘‘
میں حولدار کے پیچھے باہر نکل آیا۔ حولدار نے اسی موٹے کانسٹیبل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
’’پانڈے صاحب! بڑے صاحب نے اس آدمی کی کمپلینٹ لاج کرنے کو کہا ہے۔‘‘
پانڈے نے خشونت آمیز نظروں سے میری طرف دیکھا۔ چڑچڑاہٹ اور بیزاری اس کے چہرے سے صاف پڑھی جا سکتی تھی۔ ایک لمحے کو اس کی اور میری نظریں ملیں۔ میں نے دھیرے سے کہا۔
’’نہیں مجھے کوئی کمپلین نہیں لکھوانی ہے۔‘‘
اتنا کہہ کر میں تیزی سے دروازے کے باہر نکل گیا۔ اپنے پیچھے میں نے پانڈے کی آواز سنی جو شاید بھالے راؤ سے کہہ رہا تھا۔
’’ذرا ان کا حلیہ تو دیکھو۔ دم تو کچھ بھی نہیں اور چلے ہیں دادا لوگوں سے ٹکر لینے۔‘‘
میں تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا پولیس اسٹیشن کے باہر نکل آیا۔ کلائی کی گھڑی دیکھی، دس بج رہے تھے۔ دکانیں قریب قریب بند ہو چکی تھیں۔ صرف، نیو اسٹار، ہوٹل کھلا تھا اور پان والے کی دکان پر کچھ لوگ کھڑے نظر آ رہے تھے۔ میں جیب سے دس پیسے کا ایک سکہ نکالا اور پان والے سے ایک پناما سگریٹ خرید کر پاس ہی جلتے ہوئے چراغ سے اسے سلگایا۔
میرے قدم پھر اپنے محلے کی طرف اٹھ گئے۔ میں اس وقت بالکل خالی الذہن ہو گیا تھا۔ نہ مجھے شامو پر غصے آ رہا تھا نہ پانڈے حوالدار پر نہ پولیس انسپکٹر پر۔ مجھے وہ تینوں ایک جیسے ہی لگے۔ انسپکٹر کی باتوں نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا، سچائی، انصاف اور شرافت سب کتابی باتیں ہیں۔ حقیقی زندگی سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اس دنیا میں شریف اور ایمان دار آدمی کو لوگ اسی طرح نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں جس طرح کسی زمانے میں برہمن، شدر لوگوں کو دیکھتے تھے۔ میں ریلوے پٹری کراس کر کے پتلی سڑک پر آ گیا تھا۔ نالیوں سے اٹھنے والے بدبو کے بھبکوں نے میرا استقبال کیا۔ میں پھر اپنے محلے میں داخل ہو چکا تھا۔ سامنے شامو کے اڈے پر ویسی ہی چہل پہل تھی۔ سیخ کباب والے کی انگیٹھی برابر دہک رہی تھی اور گلاسوں کی کھنک اور پینے والوں کی بہکی بہکی گالیاں فضا میں تیرتی پھر رہی تھیں۔
میں ایک پل کے لیے ٹھٹکا۔ پھر اپنے گھر کی طرف مڑنے کے بجائے شامو کے اڈے کی طرف بڑھ گیا۔ قریب پہنچ کر میں نے اڈے کا جائزہ لیا۔ پانچ دس آدمی بنچوں پر بیٹھے، سیخ کباب چکھتے، شراب کے گھونٹ لے رہے تھے۔ سوڈا واٹر کی بوتلیں اور شراب کے گلاس ان کے سامنے رکھے تھے۔ دیسی شراب کی تیز بو میرے نتھنوں سے ٹکرائی۔ دو چھوکرے پینے والوں کو سرو کر رہے تھے۔ ان میں ایک وہی تھا، جس نے مجھ پر چاقو اٹھایا تھا۔ میں جیسے ہی روشنی میں آیا۔ اس کی نظر مجھ پر پڑی۔ ایک لمحے کے لیے وہ چونکا پھر اپنے ہاتھ میں دبی سوڈے کی بوتل دوسرے چھوکرے کے ہاتھ میں تھماتا ہوا دھیمی آواز میں کچھ بولا۔ اس چھوکرے نے بھی پلٹ کر مجھے دیکھا اور پھر لپک کر اندر کے کمرے میں چلا گیا۔ مجھ پر چاقو اٹھانے والا اپنی کمر پر دونوں ہاتھ رکھے اسی طرح کھڑا مجھے گھور رہا تھا۔ میں دھیرے دھیرے چلتا ہوا قریب کی ایک بینچ پر جا کر بیٹھ گیا۔ اتنے میں شامو لنگی اور بنیان پہنے باہر نکلا۔ اس کے ساتھ دو چھوکرے اور بھی تھے۔ شامو کے تیور اچھے نہیں تھے۔
’’کون ہے رے!‘‘ اس نے تیکھے لہجے میں مجھ پر چاقو اٹھانے والے چھوکرے سے پوچھا۔ پھر اس کے جواب دینے سے پہلے ہی اس کی نظر مجھ پر پڑ گئی اور وہ بھی ایک لمحے کے لیے ٹھٹک گیا۔ میری نظریں اس کے چہرے پر گڑی ہوئی تھیں۔ اس نے ان چھوکروں سے کچھ کہا۔ جسے میں نہیں سن سکا۔ پھر وہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا میرے قریب آ کر کھڑا ہو گیا۔ دوسرے چھوکرے چند قدم کے فاصلے سے مجھے نیم دائرے کی شکل میں گھیر کر کھڑے ہو گئے۔ شراب پینے والے دوسرے گاہک بھی اب بہکی بہکی باتیں کرنے کی بجائے ہماری طرف دیکھنے لگے تھے۔ شاید وہ بھی سمجھ گئے تھے کہ اب یہاں کچھ ہونے والا ہے۔ میں اسی طرح بینچ پر بیٹھا شامو کی طرف دیکھ رہا تھا۔ شامو نے اپنی لنگی اوپر چڑھاتے ہوئے کڑے لہجے میں پوچھا۔
’’اب کیا ہے؟‘‘
معاً اس کی اور میری نظریں ملیں۔ اس کی آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔ میں نے نہایت پر سکون لہجے میں جواب دیا۔
’’پاؤ سیر موسمبی اور ایک سادا سوڈا۔‘‘
شامو کے ہاتھ سے لنگی کے چھور چھوٹ گئے اور وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگا۔
نیم دائرے کی شکل میں کھڑے اس کے چھوکرے بھی حیران نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ ان کے لیے میرا یہ رویہ شاید قطعی غیر متوقع تھا۔ وہ سب پتھر کی مو رتیوں کی طرح بے حس و حرکت کھڑے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ ان کی آنکھوں میں اس وقت ایک عجیب قسم کی پریشانی جھلک رہی تھی۔ چند ثانیوں کے لیے ہی کیوں نہ ہو، اس وقت وہ مجھے بہت بے بس نظر آئے اور ان کی اس بے بسی کو دیکھ کر مجھے اندر سے بڑی راحت کا احساس ہوا۔ چند سیکنڈ تک کوئی کچھ نہ بولا۔ میں نے اسی ٹھہرے ہوئے لہجے میں آگے کہا،
’’اور ایک پلیٹ بھنی ہوئی کلیجی بھی دینا۔‘‘
٭٭٭
سیکولرزم کیا ہے؟
سیکولرزم: سیکولرزم خالص مغربی اصطلاح ہے۔لاطینی زبان میں سیکولم Seculum کے لغوی معنی دنیا کے ہیں۔قرون وسطی میں رومن کیتھولک...