سر باسط ایسا نہیں کر سکتا ۔۔۔یہ اسکے خلاف سازش ہے ۔۔۔تابین کے بعد اب حدید وائس چانسلر کے پاس پہنچا تھا ۔۔
لیکن اسکے خلاف کوئی سازش کیوں کر سکتا ہے ۔۔پرچی باسط سے ہی نمودار ہوئی ہے ۔۔۔
سر بےشمار سٹوڈنٹس ٹاپ پر آنا چاھتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی ایسا کر سکتا ہے ۔۔۔
دیکھیں ۔۔۔سارے ثبوت باسط کے خلاف ہیں ہم کچھ نہیں کر سکتے ۔۔۔
لیکن سر ۔۔۔۔وہ آگے کچھ بولتا اس سے پہلے دروازہ ناک ہوتے ہوئے کھلا ۔۔
ایکسکیوزمی سر ۔۔۔۔۔۔
سامنے امل کو دیکھ کر وہ حیران ہوا ۔۔۔
۔*************۔
” تمہیں یہ الزام اپنے دوستوں پر ڈالنا ہوگا ” سر حمید کے الفاظ ۔۔
” بھائی آپ کو جاب لگنے کے بعد سب سے پہلے ہم اپنا گھر لیں گے ” مناہل کی آس بھری آواز ۔۔
” دولہا بننے کے لئے سب سے پہلے تمہیں ذمہ دار بننا پڑے گا "۔۔۔۔ابا کے الفاظ ۔۔
” تمہیں حزیفہ اور حدید کے خلاف جھوٹی گواہی دینی پڑے گی ۔۔۔”
نہیں میں ایسا نہیں کر سکتا ۔۔۔
وہ سیکنڈ فلور کے برآمدے سے گزرتے ہوئے پاگلوں کی طرح بڑبڑانے لگا ۔۔
میں سر حمید کی بات نہیں مان سکتا ۔۔۔ہر گز نہیں ۔۔۔۔
وہ ہوش و حواس سے بے گانہ اپنی ہی دھن میں مگن لمبے ڈگ بھرتا ہوا نہ جانے کس سمت جانے لگا ۔۔
۔***************۔
رکو ۔۔۔
اسنے تابین کو پیچھے سے آواز لگائی ۔۔
وہ حزیفہ کی آواز سن کر وہیں رک گئی ۔۔
کب سے تم سے بات کرنا چاہتا ہوں ۔۔مگر موقع ہی نہیں مل رہا ۔۔۔
وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا ۔۔
تابی نقاب سے جھانکتی پریشانی بھری آنکھیں اس پر جمائے ہوئے تھی ۔۔کہ نہ جانے اب حزیفہ اب کیا بولنے والا تھا ۔۔
وہ کچھ بولنے ہی لگا تھا کہ پیچھے سے تابین کو کسی نے آواز لگائی ۔۔
تابین وہ باسط ۔۔۔۔۔
باسط ۔۔۔کیا ہوا باسط کو ۔۔؟ وہ پریشانی میں جلدی سے مڑ کر جانے لگی تھی کہ حزیفہ نے اسکی کلائی تھام کر اسے روکنا چاہا ۔۔
تم باسط کے بارے میں فکر مند ہو جبکہ میری کوئی پرواہ ہی نہیں ۔۔۔
وہ لب بھینچتے ہوئے بولا ۔۔
ایسی بات نہیں ۔۔۔وہ ۔۔۔
آ آ آ آ آ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
وہ کچھ بولنے ہی لگی تھی کہ بے شمار چیخوں نے انکی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ۔۔۔۔
۔**************۔
سر ۔۔۔۔وہ گھبراہٹ میں ہاتھوں کو رگڑتے ہوئے کچھ کہنے کے قابل ہوئی ۔۔۔
حدید کو کسی انہونی کا احساس ہوا ۔۔۔وہ مسلسل امل کی جانب دیکھنے لگا ۔۔۔۔
جی بولیں ۔۔۔۔کیا کہنا چاہتی ہیں آپ ۔۔۔۔؟
گھبراہٹ میں ایک نظر حدید پر ڈالتے ہوئے وہ گویا ہوئی ۔۔۔
سر ۔۔وہ پرچی ۔۔۔۔!!!!
دونوں بغور امل کا چہرہ تکنے لگے ۔۔۔
وہ پرچی ۔۔میر ۔۔۔۔۔۔۔۔!!
حدید ۔۔۔وہ ۔۔۔۔باسط ۔۔۔۔کہ اچانک انکی کلاس فیلو نے دھڑام سے دروازہ کھولتے ہوئے حدید کو آواز لگائی ۔۔
سب انکی جانب متوجہ ہوئے ۔۔
اچانک چیخیں نمودار ہوئیں ۔۔۔
کیا ہوا باسط کو ۔۔؟ حدید فک چہرہ لئے باھر کی جانب دوڑا ۔۔۔
۔**************۔
باسط ۔۔۔۔۔۔
وہ جلدی سے اپنی کلائی چھڑا کر بھاگی ۔۔
وہ بھی اسی سمت دوڑ لیا ۔۔
جہاں لوگوں کے ہجوم میں باسط کا خون میں لتھڑا ساکن وجود زمین پر پشت کے بل پڑا تھا ۔۔۔
باسط ۔۔۔وہ بھیڑ کو چیرتے ہوئے اسکے پاس پہنچی ۔۔
مگر تب تک شاید بہت دیر ہو چکی تھی ۔۔۔
باسط ۔۔یہ کیا ہو گیا ۔۔۔۔۔آنکھیں کھولو ۔۔۔
وہ اسکو جھنجھوڑنے لگی ۔۔۔
یہ ۔۔۔یہ ۔۔۔۔۔حدید ہانپتے ہوئے وہاں پہنچا ۔۔
باسط ۔۔۔۔اٹھو یار ۔۔اسکا وجود دیکھ کر بے اختیار حدید کی آنسو چھلک پڑے ۔۔۔
ایمبولینس کو بلاؤ ۔۔۔وہ چیخا ۔۔ہر طرف ہلچل مچل گئی ۔۔
” باسط نے خود کشی کر لی ۔۔”
یہ بات جب اسکے سماعت پہنچی ۔۔۔اول تو وہ یقین نہ کر پائی ۔۔۔مگر جب گراؤنڈ میں آس پاس لوگوں کی ہجوم پر نظر پڑی ۔۔
اسکی حسیات نے کام کرنا چھوڑ دیا ۔۔وہ چکراتے ہوئے سر کے ساتھ زمین بوس ہو گئی ۔۔۔
۔************۔
نہ جانے بھائی کا امتحان کیسا ہوا ہوگا ۔۔اٹھتے بیٹھتے اسے یہی خیال کھائے جارہا تھا ۔۔۔
اسی چکر میں سارے کام الٹے ہو رہے تھے ۔۔
سالن میں نمک کی بجائے سوڈا ڈال دیا ۔۔
افف ۔۔۔یہ کیا ہو گیا ہے مجھے ۔۔۔۔وہ جھنجھلاتے ہوئے خود سے کہنے لگی ۔۔
یا خدایا ۔۔۔۔ایک تو بھائی کی ٹینشن ۔۔اوپر سے یہ کام خراب ۔۔? اور دوسرا یہ دروازہ ۔۔۔دروازے کی کھٹکھنے پر وہ پیر پٹختی ہوئے چلی گئی ۔۔۔
۔************۔
ہسپتال میں آتے ہی سب نے ہلچل مچا دی تھی ۔۔
اس طرح کی ایمرجنسی کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹرز کی بھی ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے ۔۔
یہ پولیس کیس ہے ۔۔۔۔
تو کیا آپ اسکا علاج نہیں کریں گے ۔۔۔؟ وہ چیختے ہوئے بولا ۔۔۔
آرام سے آپ چلا کیوں رہے ہیں ۔۔یہ ہسپتال ہے ۔۔۔ڈاکٹر نے اسے دہانی کرائی ۔۔
ہسپتال ہے اس لئے ضبط کئے کھڑا ہوں ۔۔ورنہ کب کا دھرنا دے کر حال خراب کر لیا ہوتا ۔۔۔وہ خود کو سمبھالتے ہوئے بولا ۔۔
یہ پولیس کیس ہے ۔۔انہوں نے خودکشی کی ہے ۔۔
سہی کہا آپ نے ۔۔۔بلکل سہی ۔۔۔۔اب حذیفہ کا ضبط جواب دے گیا تھا ۔۔۔
یہ پولیس کیس ہے ۔۔۔۔۔”کیوں کہ یہ خودکشی نہیں ۔۔قتل ہے ۔۔۔۔”
ارے کس قسم کی ڈاکٹر ہیں آپ ۔۔یہاں مریض مر رہا ہے اور آپ کو کیس کی پڑی ہے ۔۔۔لعنت ہے ایسی ڈاکٹری پر ۔۔۔۔اسنے ڈاکٹر کی شرم دلانا چاہی ۔۔۔
دیکھیں ۔۔۔۔پولیس کو انفارم کر دیا گیا ہے ۔۔۔وہ پہنچتی ہی ہوگی آپ علاج شروع کریں ۔۔۔۔ڈاکٹر کی تپے ہوئے چہرے کو دیکھ کر حذیفہ نے اسے ٹھنڈا کرنا چاہا ۔۔۔
ورنہ اگر ہمارے پیشنٹ کو کچھ بھی ہوا تو اسکا انجام آپ کو بھگتنا پڑے گا ۔۔ساتھ ساتھ اس نے دھمکی آموز لہجے maiمیں باور بھی کرایا ۔۔۔
انہیں آپریشن تھیٹر میں لے جائیں ۔۔۔حذیفہ کی دھمکی کا اثر ڈاکٹر پر ہونے لگا ۔۔انہوں نے ساتھ ہی اپنے اسٹاف کو حکم دے دیا ۔۔۔
انکا خون کافی بہ چکا ہے ۔۔۔ہمیں بلڈ کی ضرورت ہوگی ۔۔۔آپ ارینج کر لیں ۔۔ڈاکٹر حذیفہ کو حکم دیتا ہوا آپریشن تھیٹر کی جانب بڑھ گیا ۔۔۔
۔**************۔
شاکڈ کی وجہ سے اسکا دماغ ماؤف ہو گیا جسکی وجہ سے اسے ہسپتال منتقل کرنا پڑا ۔۔
اب وہ ڈاکٹر کی ھدایت اور دوائیوں کی زیر اثر ڈرپس میں جکڑی ہوئی نیند میں تھی۔۔تبھی سے تابیں اسکے ساتھ تھی ۔۔
انکے گھر والو کو انفارم کر دیا گیا تھا جو تھوڑی ہی دیر میں پہنچنے والے تھے ۔۔۔
وہ اپنے سر کو ہاتھوں سے تھامے بینچ پر بیٹھی صورتحال کا جائزا لینے لگی ۔۔۔کچھ ہی پل میں کیا سے کیا ہو گیا ۔۔۔
ادھر باسط زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا اور ادھر امل ہوش و حواس سے بے گانہ ۔۔۔
وہ فون کان سے لگائے تابین کی سامنے سے گزر رہا تھا جبھی اسکو روتا ہوا دیکھ کر حذیفہ کا دل چاہا اسے خود سے لپٹا کر تسلی ہی دے دے ۔۔
مگر نہ تو جگہ ایسی تھی اور نہ ہی صورتحال ۔۔۔۔
دکھ تو اسے بھی تھا ۔۔۔۔مگر ساتھ میں غصہ بھی ۔۔۔کہ باسط اور خود کشی ۔۔۔
ایسے ہوشیار بندے سی ایسی توقع نہ تھی ۔۔۔۔
مگر دل جس ہٹ پر اڑا تھا ۔۔دماغ اس بات کو ماننے سے قاصر تھا ۔۔
وہ بلڈ کی سلسلے میں آگے بڑھ گیا ۔۔۔۔۔
وہ اکیلی بینچ پر بیٹھی زار و قطار روئے جارہی تھی جبھی کندھے پر کسی کا نرم ہاتھ محسوس کرتے ہوئے فوراً اٹھ بیٹھی ۔۔۔
سامنے ماروی کو دیکھ کر جلدی سے اپنے آنسو پونچھنے لگی ۔۔۔
کیسے ہوا یہ سب ۔۔۔۔؟ اسکی سوجھع ہوئی آنکھیں دیکھ ماروی نے پوچھا ۔۔
پتا ہی نہیں چلا ۔۔۔پلک جھپکتے ہی ۔۔ایک دم سے آفت نے آگھیرا ۔۔۔وہ روتے ہوئے بولی ۔۔
بس ۔۔۔۔اللہ بہتر کرے گا تم رو کر خود کو ہلکان مت کرو ۔۔۔ماروی نے اسے خود سے لپٹاتے ہوئے کہا ۔۔۔
مناہل کو بتایا ۔۔۔۔؟ کچھ یاد آنے پر وہ جلدی سے پوچھ بیٹھیں ۔۔خواہ ۔۔۔۔!!وہ مناہل سے پہلے مل چکی تھیں ۔۔
نہیں ۔۔۔۔۔۔وہ اپنا چہرہ رگڑتے ہوئے بولی ۔۔
تمہیں اسے بتانا چاہیئے تھا ۔۔۔رات ہونے والی ہے وہ پریشان ہوگی ۔۔۔
کیا بتاؤں اسے ۔۔۔۔۔۔یہی کہ اسکا بھائی خود کشی کرکے زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے ۔۔۔کیا بولوں اسے ۔۔کس منہ سے بولوں اسے ۔۔۔۔
مجھ میں اتنا بڑا ضبط نہیں ہے ۔۔آخر میں وہ دھیمے لہجے میں بولی ۔۔۔
تو پیدا کرو ۔۔۔۔۔زندگی صرف خوشی کا نام نہیں ۔۔۔اس میں بہت سی مشکلات کا بھی سامنا کرنا ہوگا تمہیں ۔۔۔۔ماروی نے اسے سمجھانا چاہا ۔۔۔
اتنی مشکلات کی بعد اب اور کیا دیکھنا باقی ہے ۔۔۔۔؟ میں مناہل کو بتا کر اس حالت میں نہیں دیکھنا چاہتی ۔۔جنکے سوچتے ہوئے بھی میری ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں ۔۔۔وہ بے بسی سی کہنے لگی ۔۔
ہمیشہ مظبوط بنی تابین کو اس حالت میں دیکھ کر ماروی کی آنکھیں بھر آئیں ۔۔۔
یہ وہ تابین تھی جو مستقبل کی پلینز بنا کر ہمیشہ خوش ہوتی تھی ۔۔
وقت مائے اسے ایسا بدلا تھا کہ وہ آج مستقبل کو سوچ کر ڈرنے لگی تھی ۔۔
۔************۔
دیکھیں ۔۔۔بھائی گھر پر نہیں ہیں آپ ۔۔۔آپ جائیں یہاں سے ۔۔۔۔۔۔وہ گھبراہٹ کے مارے جلدی سے بولی ۔۔۔
اس شخص سے اسکی دوسری دفع ملاقات تھی ۔۔۔پہلی مرتبہ باسط اسے اپنے ساتھ لایا تھا ۔۔۔
اور اب ۔۔۔۔وہ خود چل کر آیا تھا اسکے گھر تک ۔۔۔
مگر آواز سنتے ہی ڈر کے مارے اسنے دروازہ ہی نہ کھولا ۔۔۔
میں آپ سے ملنے آیا ہوں ۔۔۔۔صرف ایک مرتبہ دروازہ کھول دو ۔۔۔وہ آس بھرے لہجے میں بولا ۔۔۔
مجھ سے ۔۔۔۔وہ پریشانی سے بڑبڑاتے ہوئے رو دینے کو تھی ۔۔
یا اللہ ۔۔۔بھائی کو جلدی سے بھیج دیں مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔۔۔
آپ پریشان نہ ہوں ۔۔میں ایسا ویسا انسان بلکل بھی نہیں ۔۔بس مجھے ایک بار آپ سے مل کر اپنے دل کی کیفیت بتانی تھی ۔۔۔
مناہل کو خوف محسوس ہونے لگا جلدی سے اندر کی طرف بھاگتے ہوئے اسنے دروازہ اندر سے بند کر دیا ۔۔
یا اللہ ۔۔۔۔۔اتنے برے انسانوں کو ہی کیوں بھیجتے ہیں ۔۔۔
وہ گھٹنے میں سر دیئے سہم کر بیٹھ گئی ۔۔۔
کچھ دیر کی خاموشی کی بعد پھر سے دروازہ بجا ۔۔۔
شاید بھائی آئے ہوں ۔۔۔وہ کچھ سوچتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔
نہیں ۔۔اگر بھائی نہ ہوئے تو ۔۔۔۔
اگر بھائی نہ ہوئے تب بھی نہیں چھوڑوں گی اسے ۔۔۔اپنے اندر ہمت مجتمع کرتے ہوئے وہ آگے بڑھ گئی ۔۔۔
۔***********۔
ماروی کی کہنے پر وہ مناہل کو لینے اسکے گھر پہنچا تھا ۔۔
خون آلود کپڑے ۔۔بال بکھرے ہوئے ۔۔رونے کی وجہ سے آنکھیں سرخ ۔۔۔وہ خود کو ناکام عاشق سمجھتے ہوئے اسکے گھر کی جانب بڑھ دیا ۔۔
مگر اگلے ہی لمحے انجان شخص کو اسکے دروازے کے با ھر کھڑے دیکھ کر وہ ٹھٹھک اٹھا ۔۔
تھری پیس سوٹ میں داشنگ قسم کی پرسنیلٹی میں وہ سب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا ۔۔
حدید کی بھنویں تن گئیں ۔۔۔وہ جب تک اسکی جانب بڑھتا تب تک وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر جا چکا تھا ۔۔۔
دروازے پر پہنچتے ہی اس نے توڑنے والے انداز میں دروازہ کھٹکھٹانا شروع کیا ۔۔
ذہن میں بہت سارے سوالات نے جنم لینا شروع کیا ۔۔۔
کو کون ۔۔۔۔۔؟اٹکتے ہوئے اس نے پوچھا ۔۔۔
دوسری جانب سے جواب نہ پاکر اللہ کا نام لیتے ہوئے آخر کار دروازہ کھولتے ہوئے وہ بول اٹھی ۔۔
کیا مسلہ ہے آپکا ۔۔آپ جات ۔۔۔۔ابھی اسکے الفاظ منہ میں ہی تھے کہ سامنے حدید کو دیکھ کر اسکی نان اسٹاپ چلنے والی زبان بند ہوئی ۔۔
اجڑے ہوئے حدید کو دیکھ کر وہ حیران رہ گئی ۔۔
یہ یہ خون ۔۔۔۔۔بے اختیار اسکی نظر حدید کی شرٹ پر جا اٹکی ۔۔۔
بھائی کہاں ہیں ۔۔۔؟ اب اسے باسط کی فکر کھائے جارہی تھی ۔۔
چلو میرے ساتھ ۔۔۔مضبوطی سے اسکی کلائی اپنی گرفت میں لیتے ہوئے وہ اسے اپنے ساتھ لے گیا ۔۔
کہاں لے جارہے ہیں ۔۔چھوڑیں میرا ہاتھ ۔۔۔۔اس نے اعتراض کرنا چاہا ۔۔مگر وہ کہاں کسی کی سنتا ۔۔۔۔
۔*************۔