تالش ہاسپٹل کے روم میں رکھے ہوۓ صوفے پر نیم دراز تھا بظاھر نیند میں اور اُسکی بھاری سانسوں کی آواز پورے کمرے میں گونج رہیں تھیں
مایا نے سر اُٹھا کر دیکھا تو گہری نیند میں ہی لگا کُچھ لمحے پہلے کا منظر آنکھوں کے سامنے گھوما
"تمھارا نام کیا ہے ”
مایا نے دیکھا تھا وہ لڑکا کافی دن بعد آیا تھا اتنے دن روز اُسے وہ سڑک خالی سی لگتی ایسا لگتا تھا جیسے ساری دُنیا ویران ہو پہلے ہر روز یہاں ہوتا تھا لیکن جس دن پہلی بار بات ہوئی تھی اُس دن سے وہ غائب ھوتا تھا آج یونی سے نکلتے ہوئے سیاہ لباس میں دور بیٹھے پُروقار انسان کو دیکھا تو تقریباً بھاگتی ہوئی اُسکی طرف آئی جانے اُسے لگا تھا وہ غائب نہ ہوجائے
"لڑکی تم یہاں کیا کر رہی ہو جاؤ یہاں سے ”
بغیر نظر اُٹھے سخت آواز میں کہا ۔۔۔۔دل میں کہیں اچھا لگا تھا اُسے انتظار تھا اور شاید اُسی کے لیے آیا تھا یہاں لیکن يوں بغیر جانے وہ کیسے اسکی طرف آجاتی تھی یہ قابلِ غور تھی
"اچھا ”
وہ جو اُسکے برابر بیٹھنے لگی تھی اُسکی سخت آواز پر کھڑی ہوئی اور دُکھ بھری آواز میں بول کر پیچھے کی طرف موڑی کتنے مان سے آئی تھی لیکن یہاں تو اِس مغرور انسان کو کوئی پرواہ نہیں تھی
اُسے جاتے اور بھوجی ہوئی آواز سن کر نظریں اوپر کی طرف اُٹھائیں
"روکو۔۔۔۔۔نام کی ہے تمہارا ”
گھمبیر سی آواز پر فوراً پیچھے کو ہوئی اور اُسکے برابر بیٹھ گئی
"مایا شیخ ۔۔۔۔۔۔اور تمہارا”
تجسس سے ٹھوڑی تلے ہاتھ کر بولی
"شاہ زار”
کُچھ لمحے سوچنے کے بعد بولا
"کتنا پیارا نام ہے نہ بلکل تمہارے جیسے ”
زبان سے الفاظ پھیسلے تو جلدی سے اپنی زبان بند کرنے کے لیے منہ پر ہاتھ رکھا
جبکہ دوسری طرف عنابی لب مسکراہٹ میں ڈھلے جنہیں دیکھ کر مایا دل میں ماشا اللہ بولی اور نظریں جُھکا گئی
"تمہارے گھر میں کون کون ہوتا ہے ؟”
پانچ منٹ کی خاموشی کے مایا کو ہی بولنا پڑا ۔۔۔۔اُسے یہ لڑکا تھوڑا لڑکیوں کی طرح لگا تھا نظریں کم ہی اُٹھاتا تھا اور بات تو بہت ہی کم
"کوئی بھی نہیں ”
سخت آواز میں بولا کہیں غُصہ کی رمز بھی ماجود تھی اور آواز کاٹدار مایا کو اپنے بولنے کی عادت کو غُصہ آیا
کوئی بھی نہیں تھا تو وہ اتنا صاف سھترا کیسے رہ لیتا تھا کپڑوں پر ایک بھی داغ نہیں تھا بال بلکل سیٹ تھے کپڑوں پر سلواٹیں دور تک نہیں تھی ہاتھ ایسے سفید تھے جسے دودھ ۔۔۔آنکھیں سیاہ تھیں بال چھوٹے چھوٹے ۔۔۔۔۔۔وہ ہر طرح سے ایک مکمل وجاہت رکھنے والا مغرور شہزادہ تھا
"مایا جاؤ اب ”
اُسکے منہ سے نام سن کر اپنا آپ اچھا لگا تھا لیکن وہ اتنا اکڑو کیوں تھا
"تم پیارے نہیں ہو ذرا بھی ۔۔۔۔نہ ہی نام پیارا ہے ۔۔۔نہ ہی میں تم سے اب بات کروں گی ”
غُصہ سے اپنا بیگ اُٹھا کر چلی گئ دل میں کہیں چاہت تھی کے وہ اُسے پکارے گا لیکن گھر پہنچ گئی کِسی نے نہیں پکارا
"جو کُچھ مرضی ہو اب میں نہیں جاؤں گی اُسکی طرف ۔۔۔۔۔اکڑو۔۔۔”
منہ بگاڑ کر اسکا نام پکارا اور بیڈ پر گری
ایک مرتبہ پھر اُسکا کا پُر کشش چہرا آنکھوں کے سامنے آیا تو ہونٹ خود با خود مسکراہٹ میں ڈلے
"خوبصوت لوگ اتنے مغرور کیوں ہوتے ہیں ”
خود سے سوال کیا اور آنکھیں چمکیں
دوسری طرف اب سڑک پر بیٹھنے مقاصد ختم ہوچکا تھا جو جگہ پہلے اتنی پُر رونق لگ رہی تھی اُس کے جاتے ہی ویران لگنے لگ گی تھی
کھڑا ہوکر اپنے کپڑے درست کیے اور بیس قدم پر کھڑی اپنی گاڑی کی طرف آیا وہاں آکر اپنے چہرے پر ماجود ماسک اُتارا جس سے اُسکے چہرے کے خدوخال میں واضح تبدیلی رونما ہوئی ۔۔ آنکھیں پہلے سے زیادہ بڑی معلوم ہورہیں تھی ۔۔۔۔رنگ پہلے انگریوں کے رنگ کو مات دے رہا تھا لیکن اب تھوڑا سا سانولا تھا لیکن پہلے سے زیادہ پُر کشش تھا
اُسکے اس چہرے کے پیچھے راز تھا حنان ملک اسی یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھا اور اُسے اب کی بار خود کامیاب ہونا تھا
یہاں وہ غلط تھا ۔۔۔۔۔امیر تھا لیکن اتنے اثر و رسوخ نہیں تھے کے کسی اور آسانی سے ہاتھ ڈال لے اور ادراے خاموش رہیں
مایا کو پہلی مرتبہ اِسی روپ میں ملا تھا اور اب شاید اصل میں اُسے نہ پہچان سکتی
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°
پورا ایک ہفتہ مایا نے اپنا راستہ بدل لیا لیکن نظریں اُسی جگہ پر ہوتیں لیکن وہ وہاں نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔اُسے خود معلوم نہیں تھا دو مرتبہ کسی انسان کو ملنے کے بعد کیوں ہر وقت وہی اُسکے ذہن میں سوار رہتا تھا
اسی سوچوں میں سڑک کروس کررہی تھی اور اچانک جھٹکا لگا اور کافی دور جاگری سمجھ میں کُچھ نہیں آیا لیکن بڑی سی بس اپنے پاس سے گزرتی دیکھ کر چیخیں مارنی شروع کردیں
بازل جو اسکے ڈرامے دیکھ رہا تھا ہاتھ بڑھا کر اسکے کھڑا کیا
"دل تو کر رہا ہے تھپڑ لگوں تمہارے ۔۔۔۔۔عقل نام کی کوئی چیز ہے تمہارے پاس یہ نہیں ۔۔ اللّہ نے دو دو آنکھیں دیں ہیں اُنکی استعمال بھی کرلیا کرو ”
پہلی مرتبہ بول رہا تھا اور مایا دانت نکال رہی تھی
"تمھیں بولنا آتا ہے۔ ۔۔۔۔مجھے لگا تھا زبان بس دو لفظ ہی ادہ کر سکتی ہے ".
اُسے ہنستا دیکھ کر ہلکا سا مسکرایا
"تمہیں میری نظر لگ جانی ہے ۔۔۔۔۔۔”
با آواز بولی تو بازل کی مسکراہٹ سمٹی ۔۔۔۔۔
دن گزرتے گئے اور بازل کو معلوم ہی نہیں ہوا کب اُس ہنستی مسکراتی لڑکی اسکے دل میں گھر کر گئ کب وہ اُسکے لیے سب سے اہم ہوگئی
اب آگر اُسے ایک دن نہ دیکھتا تو دن گزرنا مُشکل ہوجاتا
دن بہ دن دُشمن بڑھ رہے تھے ۔۔۔۔جیسے جیسے معاملے کی تہ تک جا رہا تھا ہر دوسرا دولت کے نشے میں چور انسان جنسی تکسین کے لیے غریب لڑکیوں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر رہا تھا
ہر ایسے واقع کے بعد کتنے دن تک وہ سو نہیں پاتا تھا ایسا معلوم ہوتا تھا آج پھر اُسکی بہن کی عزت لوٹی گئی ہے آج پھر اُسکے ماں باپ بے نام موت مر گئے ہیں
روز با روز ایک عام زِندگی جینے کی خواہش دم توڑ رہی تھی ۔۔۔۔شادی پہلے تو اُسکی ذندگی میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی ۔۔۔ اُسے لگتا تھا اپنے باپ کی طرح وہ بھی ناکام ہوجائے گا اپنے گھر کی دیواروں کو ڈھانپنے میں
۔۔۔۔۔بس ایک مقصد تھا غلط یا صحیح طریقے سے ایسے لوگوں کو جہنم وصل کرنا اتنی تکلیف دینا جتنی ایک باپ نے برداشت کی ہو
آہستہ آہستہ اللّٰہ سے تعلق بنتا جارہا تھا نمازیں اکثر طویل ہوتیں تھیں ۔۔۔۔لیکن دُعا صرف ایک ہی تھی کے کوئی بھائی اُس تکلیف سے نہ گزرے ۔۔۔۔۔کسی کی بہن اُسکے ہوتے ہوئے داغ دار نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔
جِس دن سے مایا سے ملا تھا مسکراہٹ چہرے پر آجائے كرتی تھی
لیکن زندگی بہت کٹھن تھی اگر آج کسی کا قتل کرتا تو کل کو جیل بھی ہوسکتی تھی ۔۔۔۔۔۔اور مایا جیسے معصوم لڑکی کو اپنی وجہ سے ایسے جنبیلوں میں نہیں ڈالنے چاہتا تھا
•°•^°•^•^°•°•^•^•^•^•^•^•^•^•^
"یہ اور مجھے پیسو دو ”
کمبل میں لپٹا ہوا۔ چھوٹا سا وجود جس کی آنکھیں بھی ابھی پوری طرح سے نہیں کھل رہیں تھیں ۔۔۔۔اجنبی لمس پا کر رو رہا تھا
"وہ لوگ کہاں تھے”
انکھوں میں عجیب سي چمک آئی بچے کو کھینچنے والے انداز میں اپنے بازوں میں لیا جس کی وجہ سے وہ اور رونے لگ گیا
"مہر کا آپریشن کامیاب ہوا ہے جس کی وجہ سب وہاں تھے اور بچہ نرس کے پاس تھا ۔۔۔اب تم جلدی سے چلی جاؤ ”
کہتے ہوئے اپنی چیزیں سمیٹے لگی
"دیکھو تم اس طرح اپنے اوپر شک بڑھا لو گی ابھی آرام سے بیٹھو میں بچہ لے کر چلی جاؤں تو پھر آرام سے جانا یہ رہے تمہارے پیسے”
چیک اُسکی طرف بڑھا کر بچہ کو دیکھا جو اپنا پورا زور لگا کر رو رہا تھا
"نہیں وہ بہت خطر ناک آدمی ہے میں پہلے جاؤں گی”
تالش کا اُس دن والا روپ دیکھ کر جان ہوا ہوئی
ملیحہ اپنا بیگ لیے بچے کو دوپٹے کے نیچے چھپے باہر کی طرف گئی
تیز تیز قدم اٹھاتی ہاسپٹل سے باہر چلی گئی
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
"وہ اُسکی بیوی تھی ۔۔۔۔ ۔۔۔کیسے وہ ہمیں پاگل بنا گیا ۔۔۔۔۔۔میرا بھائی مر گیا اور اسکے پاس دونوں رشتے ماجود ھیں ۔۔۔۔۔۔”
بڑے سے حال میں کھڑا چیخ رہا تھا جبکہ سب سر جھکائے نادم کھڑے تھے
"جو بازل کی بیٹی کو زندہ یہ مردہ لائے گا اُسے اپنا پارٹنر بنا لوں گا یہ سب کو بتا دو ”
انکھوں میں عجیب سی بے چینی لیے بولا
"کل کے اخباروں میں یہ خبر ہیڈ لائنز میں ہونی چاہیے کے ۔۔۔۔۔بازل شاہ کے ایک عورت کے ساتھ ناجائز تعلقات ھیں ۔۔۔۔۔اسی ویڈیو سے کُچھ کلپ لے کر ثبوت کے طور پر پیش کرو۔ ۔۔۔۔۔۔سی پورٹ پر سمگلنگ اور لڑکیوں کے دھندے میں ملوث ہونے کے الزامات لگا دو۔۔۔۔۔دو دن میں سارے ممالک کی اجینسیاں اگر آسمان سے نیچے نہ پٹھک دیں تو ہمیں مغل کون کہے گا ”
سارا پروگرام اُنکو سانتا ہُوا بولا۔۔۔انتقام کی آگ میں بلکل پاگل ہوچکا تھا ۔۔۔۔۔حسد کی آگ جب تک انسان کو جلا نے دے تب تک انسان سنبھلتا ہی نہیں ہے
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
"ماہی اپنی پڑھائی پر توجہ دو”
گاڑی میں بیٹھا اپنے برابر بیٹھی مایا سے مخاطب ہوا جو اُسکے عشق میں گوڈے گوڈے ڈوب چکی تھی
"چلو جی ۔۔۔۔شاہ زار ۔۔۔۔پتہ ہے ہمارے تین بچے ہونگے ”
بے شرمی کی انتہا تھی بازل کا چہرے پر سارا خون نچڑ کر جمع ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔جیتنا وہ کم بولتا تھا وہ لڑکی سارے حساب برابر کے دیتی تھی ۔۔۔۔جو بھی تھا اس بات کی اُمید نہیں تھی ۔۔ کم از کم لڑکیاں ایسی باتوں پر چہرہ چھپتی ہیں ادھر وہ اُسے کے کتنے بچے ہونگے
"ایک میرے جیسا ہو گا دو تمہارا جیسے ہونگے ”
ہاتھ اور حساب لگا کر بتا رہی تھی
"نہیں تین کم نہیں ہوگے ”
اُسے شرم دلانے کی ننھی سی کوشش
"اچھا مجھے تو صحیح لگے۔۔۔۔۔چلو پھر پانچ ٹھیک ہیں ”
پہلے تھوڑی کنفیوز ہوئی لیکن ایک آدھ بات اُسکی بھی تو ماننی تھی
دوسری طرف شدید قسم کی کھانسی لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ نہیں تھا کے وہ شرمیلا بچہ تھا لیکن پتہ نہیں کیوں مایا اُسے ایسا سمجھتی تھی تو وہ ایسا بنا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔اُسے وہ اتنی اچھی لگتی تھی باتیں کرتے ہوئے کے کبھی کبھی رات کو وہ فون پر بات کرتے ہوئے سوجاتی تو بازل ریکارڈ کئی کئی مرتبہ سنتا پھر بھی اُسکی باتوں سے دل نہیں بھرتا تھا
وہ عشق کا اظہار کیا کرتی تھی ہر لمحے ۔۔۔۔لیکن اظہار کے معاملے میں بازل بہت زیادہ کنجوس واقع ہوا تھا
خیر جو بھی تھا اس بات کی امید نہیں تھی کے بچوں کی بات اس طرح کے دے گئ
"شاہ زار ۔۔۔۔۔۔۔کتنا اچھا لگے گا ایک طرف ایک گڑیا ایک طرف دوسری ۔۔۔۔آپکے کے ساتھ ہمارے پیارے سے تین شہزادے ۔۔۔۔۔کتنا اچھا لگے گا نہ ”
سوچوں کی دُنیا میں پتہ نہیں کہاں پہنچی ہوئی تھی چہرے اور پیاری سی مسکان۔ ۔۔۔۔۔۔انکھوں میں بے پناہ خواب۔ تھے شاید ہر وقت اُسے سوچتی تھی
اُسکی وجہ سے وہ ایک خوبصورت زندگی کا سوچنے لگا تھا ۔۔۔۔۔۔اُسکی آنکھوں میں سجے خواب پورے کرنے کا دل کرتا تھا ۔۔۔۔۔اسکے سامنے ایک اچھے گھرانے کا تھا لیکن کبھی یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ ایک امیر زدہ ہے جس کے پاس نہ پیسے کی کمی تھی نہ خوابوں کی بس زندگی کا مقصد کُچھ ایسا تھا کسی کو شامل نہیں کر سکتا تھا
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...