برِصغیر کا بڑا علاقہ عسکری فتوحات کے ذریعے متحد کرنے والے بادشاہ چندرگپت موریا کے پوتے اشوکا تھے۔ مغلیہ دور میں اکبر اور اورنگزیب کے ادوار میں بھی بڑا علاقہ ایک حکمران تلے رہا لیکن تاریخ میں زیادہ تر یہاں پر الگ خودمختار ریاستیں تھیں، جو ایک دوسرے سے متحارب رہیں (ویسے ہی جیسے یورپ میں متحارب آزاد ریاستیں تھیں)۔ یہ علاقہ برٹش کالونی بنا لیکن پلاسی میں فتح سے تختِ لاہور 93 برس اور تختِ لاہور سے چترال تک مزید 43 برس کا وقفہ ہے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کی برِصغیر میں پہلی عسکری فتح بنگال میں ہوئی جب نواب سراج الدولہ کی فورس کو پلاسی کی میدان میں 1757 میں شکست ہوئی۔ کمپنی اپنی فوج کے لئے مقامی افراد بھرتی کرتی تھی اور لڑنے والوں میں اکثریت مقامی افراد کی ہی ہوتی تھی۔ اس جنگ کے بعد بنگال آرمی باقاعدہ طور پر قائم کی گئی۔ 1764 میں بہار میں جنگ لڑی اور شاہ عالم کو شکست دی۔
انیسویں صدی کے آغاز تک موجودہ پاکستان کا تقریباً تمام علاقہ خودمختار حکمرانوں کے پاس تھا۔ سندھ میں تالپور میروں کی تین ریاستیں تھیں جن پر 1843 میں قبضہ ہوا۔ مغلوں کے زوال کے بعد بڑے علاقے پر سکھ حکومت تھی۔ لاہور اس ریاست کا دارالحکومت تھا۔ تختِ لاہور سب سے طاقتور رنجیت سنگھ کے دور میں تھا۔ یہ سلطنت پشاور سے آگے جا چکی تھی۔ 1819 میں کشمیر ان کے پاس تھا۔ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد انگریزوں کو موقع ملا کہ پنجاب پر قابض ہو سکیں۔ سکھوں کے ساتھ دو جنگیں ہوئیں۔ دوسری جنگ کے بعد پنجاب بھی برٹش انڈیا کا حصہ بن گیا اور موجودہ خیبر پختونخواہ بھی۔ امرتسر میں 1850 کے معاہدے کے تحت کشمیر کو ڈوگرہ خاندان کو فروخت کر دیا گیا اور یہ ان کے پاس 1947 تک رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملکہ وکٹوریا 1877 میں انڈیا کی ملکہ بنیں۔ برٹش انڈیا میں وکٹورین ماڈل نافذ ہوا۔ انتظامی معاملات کے لئے ملک کو صوبوں میں تقسیم کیا گیا۔ ڈویژن اور پھر ضلع بنے جس میں ڈسٹرکٹ آفیسر کا کلیدی کردار تھا۔ محصول کی وصولی سے نظامِ انصاف تک اس کے پاس ہوتا تھا۔ ڈسٹرکٹ کلیکٹر، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور کئی علاقوں میں ڈپٹی کمشنر۔ اس کے لئے انڈین سول سروس بنی۔ شروع میں صرف برطانوی ہوا کرتے تھے، پھر اس میں مقامی افراد کو شامل کرنے کے لئے مقابلے کا امتحان آیا۔ جہاں پر انگریز کی براہِ راست حکومت نہیں تھی وہاں پر مہاراجوں اور نوابوں سے معاہدے تھے۔
موجودہ پاکستان کے مغرب میں کم آباد قبائلی علاقوں میں پالیسی بدلتی رہی۔ روس نے وسطی ایشیا میں پیشقدمی شروع کر دی تھی۔ اس خطرے سے نپٹنے کیلئے فاروڈ پالیسی اپنائی گئی۔ خان آف قلات سے 1876 میں معاہدہ ہوا۔ خاران، مکران اور لسبیلہ بھی اب برٹش حکمرانی میں آ گیا۔ دوسری افغان جنگ کے بعد افغان امیر نے پشین، سبی، ہرنائی اور تھل چھوٹیالی کا علاقہ برٹش کے سپرد کر دیا۔ اگلے برسوں میں برٹش نے دوسرے قبائلی علاقوں پر فوجی قبضہ کیا۔ 1883 میں کوئٹہ کے جنوب مشرق میں بولان پاس خان آف قلات سے مستقل لیز کر لیا اور 1887 میں بلوچستان کے کچھ علاقوں کو برٹش علاقہ قرار دے دیا گیا۔
شمال کی طرف برطانوی پولیٹیکل ایجنٹ 1876 میں روسی حرکات کی خبر رکھنے کے لئے گلگت میں تعینات ہوا۔ 1889 میں گلگت ایجنسی مستقل ہوئی۔ ہنزہ اور نگر میں عسکری دستے بھیج کر کنٹرول حاصل کر لیا گیااور ہنزہ میں نئے میر کو تعینات کر دیا گیا۔ ہنزہ اور چترال میں 1892 میں برطانوی گیریژن بنے اور 1893 میں ہنزہ اور چترال کو رسمی طور پر برٹش پروٹیکٹوریٹ کا حصہ بنا لیا گیا۔
مورٹیمیر ڈیورنڈ نے 1893 میں افغانستان کے امیر عبدالرحمان خان سے ایک معاہدہ کیا جس میں چترال سے بلوچستان تک سرحد کھینچی گئی کہ کونسے علاقے افغان اور کونسے برطانوی ہوں گے۔ دونوں نے معاہدہ کیا کہ ایک دوسرے کی زمین میں مداخلت نہیں کریں گے۔ اس سے وہ لوگ بھی برطانوی حکومت کے زیرِتحت آ گئے جنہیں فوج بھیج کر فتح نہیں کیا گیا تھا۔ بعد میں پاکستان اور افغانستان میں مشکل تعلقات کی وجہ یہ بنا۔ برطانیہ نے یہاں پر انڈیا کے دوسرے حصوں کی طرح کی ضلعی انتظامیہ کا نظام قائم نہیں کیا۔ مقامی رسومات اور روایتی نظام چلتا رہا۔ یہ پوری سرحد برطانوی اور روسی سلطنتوں کے درمیان ایک بفر زون تھی اور برٹش انڈین آرمی نے لئے ٹریننگ گراونڈ۔ لیکن یہ برٹش انڈین آرمی کیا تھی؟ یہ بڑی حد تک مقامی فوج تھی جس کو علاقائی بنیادوں پر منظم کیا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انیسویں صدی کی ابتدائی تین دہائیوں میں انگریزوں نے بڑے علاقے پر فتوحات کیں۔ اس میں بنگال آرمی نے اہم کردار ادا کیا۔ میسور، کرناٹک، پنجاب، کیرالہ، مرہٹوں کے خلاف جنگ کے علاوہ اس نے چین، برما، انڈونیشیا کی جنگوں میں بھی حصہ لیا۔ 1857 میں اس فوج کے 74 ریجیمنٹ تھے۔
بنگالی سپاہی انگریز جونئیر آفیسرز کے ہتک آمیز رویے سے نالاں تھے۔ نئے علاقے برٹش انڈیا کا حصہ بن جانے کے بعد بنگالی فوجیوں کے لئے ان علاقوں میں تعیناتی “غیرعلاقے” کی تعیناتی نہیں رہی تھی۔ پنجاب اور اودھ انگریزوں کے پاس چلے جانے کے بعد ان کی اضافی تنخواہ بھی ختم کر دی گئی تھی۔ کم تنخواہ، ہندو مسلم کشیدگی اور انگریز افسروں کے رویے کی وجہ سے مورال کم تھا۔ اس موقع پر یہ افواہ کہ گولیوں پر سور اور گائے کی چربی ہے، فلیش پوائنٹ ثابت ہوئی۔ منہ سے ان کو کھولنے کا حکم مسلمان اور ہندو دونوں کے لئے قابلِ اعتراض تھا۔ یہ وہ پس منظر تھا جہاں سے1857 کی جنگِ آزادی شروع ہوئی۔ اس کا آغاز 26 فروری 1857 کو بنگال انفینٹری سے ہوا جب مقامی فوجیوں نے پریڈ کرنے سے انکار کر دیا۔ 29 مارچ 1857 کو بیرک پور پریڈ گراونڈ میں انگریز افسر پر گولی چلانے والے پہلے سپاہی منگل پانڈے تھے جو 34ویں بنگال انفینٹری سے تعلق رکھتے تھے۔
اس بغاوت کو شروع کرنے والے اور اس میں سب سے زیادہ حصہ لینے والے بنگالی فوجی تھے۔ یہ شمالی اور وسطی انڈیا میں بڑی لڑائی میں بدل گئی۔ برطانیہ نے اس کو ڈیڑھ سال میں 1858 تک کچل دیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی ختم ہو گئی۔ انڈیا اس کے بعد باقاعدہ طور پر برطانوی کالونی بنا لیا گیا اور تاجِ برطانیہ کے تحت آ گیا۔ چونکہ اس میں سب سے بڑا ہاتھ بنگالی سپاہیوں کا تھا، اس لئے برطانیہ نے بنگالی آرمی کو ختم کر دیا۔ اور ان پر بھروسہ کرنے سے بھی کتراتے رہے۔ برٹش فوج میں شمال مغربی انڈیا سے آنے والوں کو ترجیح دی گئی۔ اس میں پنجابی اور پختون سب سے زیادہ تھے۔ بنگال آرمی کی مدد سے انگریزوں نے پنجاب سمیت برِصغیر کے بڑے حصے پر قبضہ کیا تھا، لیکن انیسویں صدی کے دوسرے نصف اور بیسویں صدی میں انگریزوں کی بڑی جنگوں میں، جن میں افغان جنگ اور جنگِ عظیم شامل تھے، پنجابی اور پختون غالب تھے۔
برٹش انڈین آرمی کے سربراہ لارڈ فریڈرک رابرٹس نے “مارشل نسل” کی مِتھ بنائی۔ یہ 1885 میں سربراہ بنے تھے۔ ان کی تھیوریوں کے مطابق ہونے والی بھرتیوں کا دور برٹش فوج میں پنجابیوں اور پٹھانوں کا دور تھا۔ برٹش انڈین آرمی میں 1920 کی دہائی میں پنجاب سے 350,000 لوگ تھے۔ جبکہ بنگال، جس کی آبادی پنجاب سے دگنی تھی، سے لوگوں کی تعداد صرف 7,000 تھی۔ یہ وہ پس منظر اور بھرتی کی پالیسی تھی، جس نے ایک صدی بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کی قسمت تشکیل دی۔
ابتدائی برسوں کے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے فوج کا سیاست میں کلیدی کردار، فوج میں یہ شدید عدم توازن، مغربی پاکستان میں تاریخ کی وجہ سے کشمیر کے مسئلے کی اہمیت، مغربی سرحد میں برٹش سول نظام کی عدم موجودگی کے باعث انٹیگریشن میں مشکلات ۔۔۔۔۔ یہ پاور سٹرکچر کے عدم توازن کا مسئلہ تھا جو حل نہ ہو سکا اور مشرقی پاکستان کے عوام کے لئے “پنجابی اسٹیبلشمنٹ” کا مسئلہ کہلایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساتھ لگی تصویر میں توفرق کی جنگ کی عکاسی کی گئی ہے جو 22 مارچ 1885 کو لڑی گئی۔ برٹش انڈین آرمی نے اس میں سوڈان کے عثمان دقنہ کی مہدی آرمی کو بھاری شکست دی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...