(Last Updated On: )
ابھی اس سارے واقعے کو ایک گھنٹہ ہی گزرا تھا کہ دانین کو اسما کے والد کا فون آیا اور انہوں نے اطلاع دی کہ اسما کوپولیس پکڑ کر لے گئی ہے۔ ان کی بات سن کر وہ ششدر رہ ہی تو گئی تھی ۔ احمد صاحب کو بتا کر وہ گاڑی لے کر باہر نکلی ۔رخ تھانے کی طرف تھا۔ راستے میں وہ مسلسل سوچتی ہوئی جا رہی تھی کہ کیسے اسما کو وہاں سے نکلوائے کیوں کہ وہ لوگ اتنی آسانی سے تو نہیں چھوڑنے والےتھے۔ کچھ سوچ کر اس نے اشعر اور افشین کو فون کر کہ صورتحال بتائی اور انہیں الرٹ رہنے کی تاکید کرتے ہوئے تھانے پہنچی اور خود کو اسما کی رشتے دار ظاہر کرتے ہوئے اس سے ملنے کی خواہش کی ۔ ڈیوتی پر موجود سپاہی اسے ایس ایچ او کے کمرے میں لے آیا۔ اس نے اس سے اسما کو لانے کی وجہ وچھی تو اس نے واضح کہہ دیا کہ عدیل افتخار کے گھر والوں نے اس پر شبہ ظاہر کیا ہے کہ اس کے اغوا اور مار پیٹ کے پیچھے اس کا ہاتھ ہے
“آپ کا دماغ ٹھیک ہے ؟ وہ بیچاری غریب بچی جو خود مظلوم ہے وہ کسی کو کیا نقصان پہنچائے گی ۔” دانین اس کی اپنے اندر گڑتی نظروں پر سختی سے بولی
“لڑکی زرا تمیز سے ۔ یہ تمہارے باپ کا گھر نہیں ہے۔ تھانہ ہے اگر دوبارہ صاحب کے سامنے اونچی آوازمیں بات کرنے کی کوشش بھی کی نہ تو اٹھا کر تمہیں بھی ساتھ ہی حوالات میں ڈال دیں گے ۔” پاس کھڑی لیڈی کانسٹیبل نے وفاداری دکھاتے ہوئے اپنا حصہ ڈالنا ضروری سمجھا ۔ احمد صاحب نے چونکہ اس کو سختی سے منع کیا تھا کہ وہ کچھ نہیں کرے گی اس لیے بس وہ دانت یس کر رہ گئی
“ویسے ایک بات تو بتاؤ ۔ خوبصورتی تمہارے خاندان کو وراثت میں ملی ہے کیا؟ پہلے وہ لڑکی اسما تو آفت تھی ہی ۔تم بھی قیامت سے کم نہیں ہو۔” ایس ایچ او نے اس کے سراپے کا جائزہ لیتے ہوئے کمینگی سے قہقہ لگایا جس میں پاس کھڑی لیڈی کانسٹیبل نے بھی ساتھ دیا۔دانین نے سختی سے مٹھیاں بھینچ کر بمشکل خود کو اس کا حلیہ بگاڑنے سے باز رکھا
“سر پلیز ۔وہ بچی ہے ۔پہلے ہی اتنا ظلم سہہ چکی ہے ۔کچھ تو خیال کریں۔ عزت تو وہ پہلے ہی گنوا چکی ہے اب کیا اس بےچاری کی جان لینی ہے۔” دانین نے ملتجی لہجے میں کہا
ایک صورت میں کام ہوسکتا ہے ۔۔۔” اس نے معنی خیزی سے بات ادھوری چھوڑی تو مارے غصے کے دانین کا چہرہ سرخ ہوا
“سر پلیز ہم غریب لوگ ہیں۔”
“دیکھو لڑکی ! اگر اس کو یہاں سے لے جانا چاہتی ہو تو اگر مگر مت کرو ورنہ جا سکتی ہو ۔فالتو میں ہمارا وقت ضائع مت کرو ۔لیڈی کانسٹیبل نے کھردرے لہجے میں اسے کہا ۔اس نے ترچھی نظر سے اس کو دیکھا اور دل ہی دل میں اس کا اس وردی کا خمار اتارنے کا پختہ تہیہ کیا۔
“چل اٹھ بہت ہوگئی تیری ڈرامے بازی۔ لیڈی کانسٹیبل اس کو بازو سے پکڑ کر زبردستی اٹھایا
“دیکھیں میڈم آپ میری بات تو سنیں ۔اس سب میں اس لڑکی کا کوئی قصور نہیں ہے ۔وہ بےگناہ ہے ۔پلیز اس کو چھوڑ دیں۔یہاں رہنا اس کے لیے سیف نہیں ہے ۔دانین نے اپنے اندر اٹھتی غصے کی لہروں کو دباتے ہوئے تحمل سے کہا
چل بی بی چل بڑی دیکھی ہے تیرے جیسی ۔ہمیں سبق نہ پڑھا۔”ایس ایچ او نے اسے باہر کی جانب دھکیلا۔توازن بگڑنے کی وجہ سے وہ اوندھے منہ نیچے جا گری ۔ تھانے میں موجود عملہ شور کی آواز سن کے اٹھ کر وہاں آگیا تھا۔نیچے پڑی دانین نے سختی سے آنکھیں میچ کر کھولیں اور اٹھ کھڑی ہوئی۔
“چلو بھئی شو ختم ہوگیا۔ واپس اپنے اپنے کام پر لگو۔”ایس ایچ او تالی بجاتا واپس اپنے کیبن کی طرف مڑا
“کہاں ایس ایچ او صاحب !شو تو اب شروع ہوگا جب تم اس لڑکی کو آزاد کرو گے اور یہ جو تم نے نیچ حرکت کر کے اپنے گھٹیا خاندان سے تعلق رکھنے کا ثبوت دیا ہے نہ اس کے لیے معافی بھی مانگو گے۔”دانین کی غراتی ہوئی آواز پر بے اختیار اس کے قدم تھمے۔اس نے مڑ کر دیکھا تو کھڑی شعلہ بار نگاہوں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔وہ دانین سے ڈی اے کی روپ میں آ چکی تھی۔
“لڑکی جی دار معلوم ہوتی ہو اور یقین کرو مجھے جی دار لڑکیاں بہت پسند ہیں ۔”وہ خباثت سے مسکراتا ہوا اس کی طرف آیا ۔
“چل اب ایک آفر تجھے میں دیتی ہوں۔ اس دیوار کے پاس رکھی کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے ہوئے ٹانگ پر ٹانگ چڑھاتے ہوئے کہا۔ دانین ابراہیم واپس اپنی جون میں آ گئی تھی
تو اس پوزیشن میں ہے ؟” ایس ایچ او استہزایہ ہنسا
“بالکل سر ! میری پوزیشن کا تو آپ کو اندازہ ہی نہیں ہے اور دعا کرنا کہ ہو بھی نہ ۔”
“خیر ایک ڈیل کرتے ہیں آپ اس بچی کو چھوڑ دیں ۔بدلے میں ہم آپ کی بیٹی چھوڑ دیں گے ۔”اس نے پرسکون سی مسکراہٹ سے کہا۔ وہ کچھ دیر تک اس کے لفظوں پر غور کرتا رہا جب بات سمجھ میں آئی تو اس کے ہاتھ سے اس کی کیپ چھوٹ کر گری
“کیا بکواس کر رہی ہو لڑکی۔”وہ جارحانہ انداز میں اس کی طرف بڑھا
“آں ہاں ۔۔۔۔ اب ہاتھ اٹھانے کی غلطی مت کرنا ورنہ ساری زندگی بیٹی کی شکل نہیں دیکھ پاؤ گے ۔”دانین نے اپنی بیک سے گن نکالتے ہوئے اسے پیچھے ہونے کو کہا
“اب فیصلہ کر لو۔ اپنی بیٹی بچانی ہے یا پرایا بیٹا ۔”
بلکہ رکو میں تمہاری بات کرواتی ہوں تاکہ تمہیں تسلی ہوجائے۔اس نے کہتے ہوئے جیکٹ کی جیب سے موبائل نکال کر اشعر کا نمبر ڈائل کر کہ ساکت کھڑے ایس ایچ او کو تھمایا
“کر لیں بات۔وڈیو کال ہے ”دانین نے ہلکا سا ہنستے ہوئے کہا۔جیسے ہی کال پک ہوئی سامنے سکرین پر اس کی چھ سالہ بیٹی نظر آئی۔اس نے فورا کال کاٹ کر کے موبائل اس کی طرف اچھالا
“اب بول بچی کو چھوڑو گے یا نہیں؟”
“راشدہ لڑکی کو لے کر آو۔ جلدی؟” اس نے ماتھے پر آیا پسینہ صاف کرتے ہوئے لیڈی کانسٹیبل کو آواز دی
“ارے نہیں بھئی ایسی بھی کوئی جلدی نہیں ۔ آرام سے لے آؤ ۔ ” دانین نے اس کی اڑتی ہوائیاں دیکھ کر کہا
“میڈم پلیز۔” وہ رو دینے کو ہوا
“اچھا اچھا ٹھیک ہے۔ جاؤ خود جا کر لے کر آو.” دانین نے تحکم بھرے لہجے میں کہا۔وہ بنا کچھ کہے تیز تیز قدم اٹھاتا حوالات کی طرف گیا اور اگلے ہی لمحے بڑی سی چادر اپنے گرد لپیٹے سہمی ہوئی اسما اس کے پیچھے آتی دکھائی دی
“”اس کے ساتھ تم نے جو بھی بکواس یا بدتمیزی کی ہے ۔اس کے لیے اس سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگو۔” دانین نے پستول گھماتے ہوئے اگلا حکم جاری کیا
“سوری بہن ۔ہم سے غلطی ہوگئی ۔معاف کر دو۔”اس نے باقاعدہ ہاتھ جوڑ دئیے
بدتمیزی تو تم نے مجھ سے بھی کی ہے تو کیا خیال ہے ؟” دانین نے کرسی پر ٹیک لگاتے ہوئے کہا۔اس کے کہنے کہ دیر تھی کہ وہ ہاتھ جوڑتا اس کے سامنے ایا
ایم سوری میڈم ! آپ جو کہیں گی میں کرنے کے کیے تیار یوں ۔مگر میری بیٹی کو کچھ مت کہیے گا۔میری ایک ہی بیٹی ہے ۔مجھے بہت عزیز ہے۔اگر اسے کچھ ہوگیا تو میری بیوی بھی مر جائے گی ۔پلیز میڈم ۔” وہ جو کچھ دیر پہلے شیر کی طرح دھاڑ رہا تھا اب کسی بکری کی مانند گھگھیانے لگا
کیسی بیمار زہنیت کے مالک ہو تم ۔جب بات اپنی بیٹی پر آئی تو تڑپ اٹھے مگر کبھی سوچا ہے اسما بھی کسی کی بیٹی ہے ۔ اس پر جو گزری ہے اس کے باپ کی کیا حالت ہوگی ۔وہ کیسے سہہ رہا ہوگیا ۔مجھے حیرت ہورہی ہے کہ بیٹی کے باپ ہوکر ایسی گھٹیا سوچ ۔” دانین نے افسوس سے نفی میں سر ہلایا
خیر میں اسے لے کر جا رہی ہوں ۔امید کرتی ہوں تم دوبارہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرو گے۔” وہ اسے خاموش کھڑا دیکھ کر اٹھی اور چلتی ہوئی لیڈی کانسٹیبل کے پاس آئی
اپنے لیے کسی نوکری کا بندوبست کر لینا ۔تم جیسی عورتیں عوامی سہولت کے لیے بنائی گئی جگہوں پر کام کرنے کے قابل نہیں ہوتی۔ “اس کا گال تھپتھپاتی وہ اسما کا بازو تھامے اسے تھانے سے لیے باہر نکل گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ہائے سویٹی! کیسی ہو؟” ارتضی نے فون اٹھاتے ہوئے پیار سے پوچھا.وہ ٹی وی لاؤنج میں بیٹھا تھا جب اسے علیزہ کی کال موصول ہوئی
“تم اپنی اس سو کالڈ منگیتر کو سنبھال کر رکھو۔ میرے منہ مت لگے ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔” جوابا علیزہ کی چیختی اواز سن کر وہ چونکا اور پلٹ کر دانین کو دیکھا جو رابیل اور فروا بھابھی کے ساتھ کچن میں کام کر رہی تھی۔
“کیا ہوا بے بی؟ غصہ کیوں کر رہی ہو؟ “
“کیا ہوا ہے؟ یہ تم مجھ سے پوچھنے کی بجائے اپنی فیانسی سے پوچھو۔ مجھے دھمکیاں دے کر گئی۔” ہے ۔” اس نے پھاڑ کھانے والے لہجے میں کہا
“کیا کہا ہے اس نے ؟” ارتضی نے میز پر پلیٹیں رکھتی دانین کو دیکھتے ہوئے پوچھا
“ہنہ ۔۔ کہہ رہی تھی تم اس کے منگیتر ہو۔اس لیے میں تم سے دور رہوں ورنہ میری جان لے لے گی اور۔۔۔ اس نے جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑی
“اور؟”
“اور بھی بہت سے گھٹیا الزام لگائے ہیں ۔میرے کردار پر انگلی اٹھائی کہ میں لڑکوں کو پھانستی ہوں اور ان سے پیسے بٹورتی ہوں ۔” اس کو غصے میں دیکھ کر اس نے مزید آگ لگائی۔
“میں تمہیں بعد میں کال کرتا ہوں۔”
وہ فون بند کر کے کچن میں آیا جہاں وہ نوشین بیگم کے پاس کھڑی کوئی بات کر رہی تھی
“تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی میری دوست سے ایسے بات کرنے کی ۔” وہ سیدھا اس کے پاس پہنچ کر بنا کوئی دوسری بات کیے بولا
“کون سی دوست؟” دانین نے بھولپن سے پوچھا
علیزہ کی بات کر رہا ہوں۔”اس نے چبا چبا کر کہا
“اوہ مگر وہ تمہاری دوست تو نہیں ہے۔” وہ سادہ سے لہجے میں کہتی پانی کا جگ اٹھانے لگی جب ارتضی نے اس کا بازو پکڑ کر اسے روکا
“ارتضی کیا بدتمیزی ہے یہ؟” نوشین بیگم نے ناگواری سے اسے ٹوکا
“میں بدتمیزی کر رہا ہوں؟اور جو یہ کر کے آئی ہے اس کا کیا؟”اس نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا
کیا کیا ہے میں نے؟”
“علیزہ سے کیا بکواس کی ہے؟”
“مائنڈ یور لینگوئج مسٹر ارتضی ۔ کسی بھی لڑکی سے بات کرنے کا یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔” اس نے سرد لہجے میں کہا
” دوسری بات آج کے بعد مجھے اس انداز میں مخاطب کرنے کی کوشش بھی مت کرنا۔ اس کے ہاتھ سے اپنا بازو چھڑواتے ہوئے اس نے زور سے جھٹکا
“اور تیسری بات ۔تمہاری اس ہوتی سوتی کو میں نے کچھ نہیں کہا۔ پتہ نہیں اس نے تمہیں کیا الٹی سیدھی پٹی پڑھائی ہے جو تم بات کرنے کی تمیز تک بھول گئے ہو۔”
کیا تم نے اسے یہ نہیں کہا کہ وہ مجھ سے دور رہے اور اس کے کردار پر انگلی نہیں اٹھائی۔”ارتضی اس کے تیوروں سے خائف ہوتا جلدی سے بولا مگر اس بار اس کا لہجہ خود بخود ہی دھیما پڑ گیا تھا
“کب؟” دانین نے اس کا جواب دینے کی بجائے الٹا سوال کیا
ابھی کچھ دیر پہلے ۔”
“کیا پاگل ہوگئے ہو؟ وہ تو آج صبح سے کہیں باہر ہی نہیں نکلی۔” نوشین بیگم نے اسے گھورتے ہوئے کہا
واٹ؟” اس نے حیرانگی سے پوچھا
“ہاں ارتضیٰ یہ تو ہمارے ساتھ ہی ہے ۔ ہم لوگ صبح سے اکھٹے ہی کام کر رہے ہیں ۔پہلے رابیل کے ساتھ لڈو کھیلتے رہے اور پھر کافی دیر سے کچن میں ہیں۔” فروا بھابھی نے خاصی سنجیدگی سے تفصیل بتائی
“تو کیا وہ جھوٹ بول رہی ہے ؟” ارتضی جھلا کر بولا
تو کیا ہم جھوٹ بول رہے ہیں؟” نوشین بیگم ہاتھ میں پکڑی چھری پھینکتے ہوئے غصے بولیں
“نہیں مام میرا وہ مطلب نہیں تھا۔” ان کو غصے میں دیکھ کر وہ جلدی سے بولا
“نہیں کہہ دو ہم تین لوگ جھوٹ بول رہے ہیں اور وہ سچ بول رہی ہے۔” نوشین بیگم کا پارہ ہائی ہوتا دیکھ کر اس نے خاموشی میں ہی عافیت جانی اور باہر کی جانب بڑھا جب دانین اس کے پیچھے آئی
“لسن مسٹر ارتضی !اتنی فارغ نہیں ہوں میں جو اس جیسی لڑکی کے منہ لگتی پھروں۔ ویسے بڑی ہی چالاک ہے۔ دو منٹ میں تمہیں تمہارے گھر والوں کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا۔”
“اس جیسی سے کیا مراد ہے تمہاری؟” وہ جو کچھ حد تک نارمل ہوا تھا اس کی بات پر پھر سے بھڑک اٹھا
“جیسی وہ ہے اور وہ کیسی ہے؟ یہ بات تمہیں بہت جلد پتہ چل جائے گی۔” اس نے استہزایہ لہجے میں کہا اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔
“ہے یو۔” وہ پیچھے سے چیخا مگر وہ جاچکی تھی ۔ وہ غصے سے مٹھیاں بھینچتا باہر نکل گیا۔ دانین اپنے کمرے میں جا کر افشین کا نمبر ملانے لگی تاکہ اس سے اس پھیلے ہوئے رائتے کے بارے میں جان سکے
ایس ایچ او تھانے میں بیٹھا معمول کے کام کر رہا تھا کہ کچھ لوگ تھانے میں آ پہنچے۔ ان کو دیکھ کر وہ چونکا اور ایک بار پھر اپنی شامت سامنے دیکھ کر گہری سانس لے کر رہ گیا۔ وہ عدیل افتخار کا بڑا بھائی احتشام افتخار تھا ۔ وہ نہایت ہی بدتمیزی سے دندناتا ہوا ایس ایچ او کے کمرے میں داخل ہوا اور اس کے سامنے رکھی کرسی پر جا بیٹھا۔ ایس ایچ او گھبرا کر اٹھا مگر اس کے ایک اشارہ کرنے پر بھیگی بلی کی مانند وہیں بیٹھ گیا
“کافی اونچا اڑنے لگے ہو۔ہمارے مجرم کو ہماری اجازت کے بغیر ہی چھوڑ دیا ۔ یہ کوئی اچھی بات تو نہ ہوئی ۔” اس نے کڑی نظروں سے اسے دیکھا جو سر جھکائے کھڑا تھا
‘یوں مجرموں کی مانند سر مت جھکاؤ ۔ سیدھا سیدھا بتاؤ کہ کیسے ہمت کر لی بنا مجھ سے پوچھے اس لڑکی کو چھوڑنے کی ۔” اس کو خاموش دیکھ کر اس اس نے غصے سے کہا
“سوری جناب میں مجبور ہوگیا تھا۔” اس نے آہستگی سے کہا
“مجھ سے زیادہ پیسے تو کوئی تمہیں دے نہیں سکتا تو پھر مجبوری کا نام جان سکتا ہوں؟”
“سر کوئی لڑکی تھی ۔”
“ایک لڑکی سے ڈر گئے؟” اس نے طنزیہ کہا
“سر اس نے میری بیٹی کو لے کر مجھے بلیک میل کیا تھا۔ میری بیٹی اس کے پاس تھی ۔اگر میں اسے نہیں چھوڑتا تو وہ میری بیٹی کو مار دیتے۔”اس نے گھگھیاتے ہوئے کہا
“اب اگر تم نہیں چاہتے کہ تمہاری بیٹی میرے ہاتھوں مرے تو چپ چاپ مجھے اس لڑکی ڈیٹیل دے دو۔” احتشام نے دانت پیسے
“سوری سر مجھے نہیں پتہ کون تھی ۔بس اچانک سے آئی اور خود کو اسما کا رشتے دار کہنے لگی ۔ جب میں نے اس کو تھانے سے باہر نکالنا چاہا تو گن نکال کر بیٹھ گئی اور اس کے کسی ساتھی نے میری بیٹی کو اغوا کیا ہوا تھا ۔شاید وہ لوگ سارا پلان بنا کر آئے تھے۔ اس لیے مجبورا مجھے اسے چھوڑنا پڑا
“ہوں۔” اس کی بات پر وہ کچھ دیر کے لیے سوچ میں پڑ گیا اور پھر کچھ کہے بغیر باہر نکلا ۔ اس کے پیچھے ہی ایس ایچ او بھی نکلا ۔ابھی وہ لوگ تھانے کی عمارت سے نکل ہی رہے تھے کہ اس کی نظر ایک کونے میں لگے سی سی ٹی وی کیمرے پر پڑی اور وہ رک گیا
“اندر بھی کیمرہ لگا ہوا ہے نہ ؟” اس نے مڑ کر ایس ایچ او سے پوچھا ، اس کے اثبات میں سر ہلانے پر وہ اس کو فوٹیج نکلوانے کا کہتا واپس اندر آیا۔
“سر یہی لڑکی ہے۔” تھانے میں داخل ہوتی دانین کی وڈیو دیکھ کر وہ پرجوش سا بولا۔ کمپیوٹر سکرین کو دیکھتے احتشام نے چونک کر اسے دیکھا اور اگلے ہی لمحے اس ے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ دوڑی
ابے الو کے پٹھے! کس گدھے نے تمہیں ایس ایچ او بنایا ہے؟ یہ کہاں سے اس لڑکی کی رشتے دار لگ رہی ہے ۔”
“مطلب ؟” ایس ایچ او نے حیرانگی سے پوچھا
“زرا اس کے چلنے کا انداز دیکھو ۔ وہ تھانے میں یوں داخل ہوئی ہے جیسے اس کا ذاتی گھر ہو۔ عام مرد بھی اگر تھانے میں آئے تو اچھا خاصا پریشان ہوتا ہے مگر یہ لڑکی ہو کر اتنے اطمینان سے آ رہی ہے اس کے چہرے سے کہیں سے بھی نہیں لگ رہا ہے کہ یہ اس لوئر کلاس فیملی سے تعلق رکھتی ہے ۔ اس کی چال ڈھال ،کانفیڈینس چیک کرو ۔” اس نے وڈیو میں دانین کو ایس ایچ او کے کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر کہا
“میں اب بھی نہیں سمجھا۔” ایس ایچ او نے ناسمجھی سے پوچھا
” یہ لڑکی خفیہ والوں کی ہے ۔” اس کی بات پر ایس ایچ او گرتے گرتے بچا
“واٹ؟”
“یس۔ شکر کرو کہ بات آسانی سے ختم ہوگئی ورنہ تم اس وقت اس تھانے میں نہیں موجود ہوتے ۔خیر تمہارا کام ختم ہوگیا ہے ۔ اب میں جانوں اور میرا کام ۔ ” وہ کہتے ہوئے اٹھا اور باہر نکل گیا۔ پیچھے ایس ایچ او گرنے والے انداز میں کرسی پر بیٹھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لاؤنج میں بیٹھی ایان کے ساتھ کھیل رہی تھی اور پاس ہی رابیل بھی بیٹھی کالج کا کام کر رہی تھی۔ اس نے ایان کو کھلونے سیدھے کر کے دیتے ہوئے دوسری طرف پڑی گیند لانے کو کہا۔ کام کرتی رابیل نے یونہی نظر اٹھا کر دیکھا تو اس کی نظر دانین کی گھڑی پر گئی ۔اس کے زہن میں کچھ دن پہلے والا واقعہ گھوما۔ ایان نے باہر جانے کا شور مچایا تو دانین فروا بھابھی کو بتا کر اسے لے کر باہر نکل گئی۔ گاڑی سٹارٹ ہونے کی آواز پر اس نے مڑ کر دروازے کی طرف دیکھا ۔کچھ سوچ کر نوٹس سائیڈ پر رکھ کر اٹھی اور اوپر کی طرف آ کر اس نے ارسل کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا ۔اس کے پوچھنے وہ اسے خاموش رہنے کا کہتی دانین کے کمرے کے سامنے رکی ۔ایک بار محتاط نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے کے بعد وہ اس کے کمرے میں داخل ہوئی اور آہستگی سے دروازہ بند کر کے ڈریسنگ ٹیبل کے دراز چیک کرنے لگی۔ وہاں سے ہٹ کر وہ الماری کی طرف آئی ۔
“تم کر کیا رہی ہو؟” ارسل اس کا بند منہ اور چلتے ہاتھ دیکھ کر جھنجھلایا
” اس دن جو کچھ بھی ہوا تم اس کو بھول گئے؟” اس نے پلٹ کر پوچھا
“تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ اس دن جب ہم گھر ائے تھے تو آپی پہلے سے گھر میں تھی اور ماما نے بھی بتایا تھا کہ وہ کہیں نہیں گئی ہیں۔ فضول میں جیمز بانڈ مت بنو اور چلو یہاں سے ۔اگر آپی آگئیں تو کیا سوچیں گی کہ ہم ان کے روم کی تلاشی لیتے پھر رہے ہیں۔” ارسل نے کہتے ہوئے اسے بازو سے پکڑ کر باہر لےجانا چاہا ۔
“ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ دانین آپی ہی تھیں۔ چلو انگوٹھی کا اتفاق ہو سکتا ہے مگر گھڑی ۔نہیں بالکل بھی نہیں۔” اس نے ہاتھ چھڑوا کر الماری کھولی ۔
“تم یہ بیگ کھول کر دیکھو۔ میں باقی خانے چیک کرتی ہوں۔ رابیل نے کہا ۔وہ کوفت زدہ سا نیچے جھکا اور ںیگ کھولنے لگا۔ رابیل نے درمیان والے خانے میں لٹکے کپڑوں کو آگے پیچھے کیا تو اسے ایک طرف پڑی جیکٹ نظر آئی۔ اس نے جلدی سے اٹھا کر الٹ پلٹ کر دیکھا اور ایک طرف کرتے ہوئے جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگی ۔ایک کونے میں رکھے کپڑے پیچھے کیے تو نیچے پڑا پسٹل دیکھ کر اس کی آنکھیں پھیلیں۔ ابھی وہ پسٹل دیکھ ہی رہی تھی کہ اس کی نظر وہیں پڑے کارڈ پر گئی ۔اس نے اٹھا کر دیکھا تو وہ کسی سیکورٹی ادارے کا تھا جس پر دانین ابراہیم کا نام جگمگا رہا تھا ۔ وہ شاک زدہ سی منہ اور آنکھیں کھولے ارسل کی طرف مڑی تو اس کا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں پسٹل اور کافی سارے میگزین تھے جو کہ بیگ سے برآمد ہوئے تھے۔
“اب بتاؤ۔ رابیل نے اس کے سامنے کارڈ لہرایا
“مائی گاڈ ۔مجھے یقین نہیں آ رہا۔” وہ جیرت زدہ سا بولا مگر اس کی آواز سرگوشی سے زیادہ نہیں تھی۔
“رابیل ۔”
“رابیل کہاں ہو؟ بیٹا۔” نیچے سے آتی نوشین بیگم کی پکار پر وہ جلدی جلدی سب کچھ سمیٹنے لگے اور الماری کو پہلے والی حالت میں لا کر باہر نکل گئے۔
“مجھے ابھی بھی یقین نہیں آ رہا۔” ارسل رابیل کےکمرے میں اس کے پیچھے اتا ہوا بولا
“اور مجھے یقین تھا کہ لازمی کچھ گڑبڑ ہے اور دیکھو میں نے ڈھونڈ ہی لیا۔ “اس نے فخر سے آنکھیں مٹکائیں۔ ہارن کی آواز پر اس نے ارسل کی جانب دیکھا اور باہر کو بڑھی۔ نیچے آئی تو دانین اور ایان گھر میں داخل ہو رہے تھے۔ دانین نے ایان کو گود میں اٹھا رکھا تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا شاپر تھا
“کہاں گئے تھے؟” رابیل نے اس کے ہاتھ سے شاپر اچکتے ہوئے پوچھا
“میں اور ایان آئس کریم کھا کر آئے ہیں اور تم دونوں کے لیے برگر لائے ہیں
“اتنی سردی میں آئس کریم؟”
“شش !یہ میرا ایان کا سیکرٹ ہے تم کسی کو بتانا مت۔”دانین نے ایان کو دیکھتے ہوئے ڈرامائی انداز میں منہ پر انگلی رکھی
“بس یہی سیکرٹ کسی نہیں بتانا یا کوئی اور سیکرٹ بھی سیکرٹ ہی رکھا جائے۔” رابیل مڑ کر کچن میں جاتے ہوئے بولی۔ اس کا لہجہ تھا تو سادہ ہی مگر جانے اس کیوں کھٹکا ۔وہ ایان کو گود سے اتارتی اس کے پیچھے آئی
اس کا کہا مطلب؟”
“کس کا؟” اس نے انجان بنتے ہوئے پوچھا اور پلیٹیں لے کر کچن سے باہر نکل آئی ۔
“وہی جو ابھی کہا۔”وہ اس کے پیچھے ہی کچن سے نکلی
“میں نے تو جسٹ ایک بات کی ہے۔آپ تو ایسے چونک گئی ہیں جیسے کوئی چوری پکڑی گئی ہو۔” اس نے پلیٹوں میں برگر نکال کر ایک پلیٹ ارسل کو پکڑائی اور دوسری خود لے کر بیٹھ گئی۔وہ کچھ دیر تک اس کو غور سے دیکھتی رہی پھر وہیں بیٹھ گئی ۔
“آپی اپ کو پتہ ہے۔ کچھ دن پہلے میں نے روڈ پر ایک لڑکی دیکھی بالکل آپ کے جیسے لگ رہی تھی ۔اس نے منہ تو لپیٹا ہوا تھا مگر اس کی گھڑی اور انگوٹھی بالکل سیم ٹو سیم آپ جیسی تھی۔” رابیل نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد کہا
“اچھا پھر؟” اس نے سرسری سے لہجے میں پوچھا
“پھر کیا ؟ کچھ غنڈے ٹائپ کے تین آدمی ہمارے پیچھے پڑگئے تھے ۔ اس نے ان آدمیوں کو بہت مارا۔ایک تو بے ہوش بھی ہوگیا تھا۔”
“اچھا۔” دانین نے مختصر جواب دیا
“کیا اچھا؟”آپ کو حیرانی نہیں ہو رہی کہ ایک لڑکی ہو کر تین تین آدمیوں کو مار رہی تھی۔” رابیل نے برگر کا بائٹ لیتے ہوئے اس کو جانچتی نگاہوں سے دیکھا مگر وہ چہرے پر نارمل تاثرات سجائے بیٹھی رہی۔
“اس میں حیرانی والی کیا بات ہے؟” فلموں میں دیکھا تو ہے لڑکیوں کو ۔”
“ہاں دیکھا تو ہے لیکن ایک بات سمجھ نہیں آئی آپ کو ۔۔۔۔۔آئی مین اس لڑکی کو کیسے پتہ چلا کہ ہم لوگ مشکل میں ہیں۔”رابیل جان بوجھ کر اس کا نام لیتے کیتے بات بدل گئی ۔اس کو چونکتے دیکھ کر اس نے ارسل کو معنی خیزی سے دیکھا
“مجھے کچھ کام ہے ۔آتی ہوں۔” دانین اس کی مشکوک حرکتیں دیکھ کر وہاں سے اٹھ گئی۔ وہ خالی پلیٹ میز پر رکھتے ہوئے مسکرا دی ۔ابھی وہ سیڑھیوں تک ہی پہنچی تھی کہ چوکیدار ایک لفافہ لے کر آیا کہ یہ ارتضیٰ صاحب کا ہے ۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو رابیل لفافے کو دیکھ رہی تھی۔ وہ زیرلب مسکراتی اوپر کمرے میں چلی آئی اور الماری کھول کر چیک کرنے لگی سب چیزیں اپنی جگہ پر موجود دیکھ کر وہ اس کا رویہ سوچتے ہوئے بیڈ پر بیٹھی۔اس کے انداز سے ایک بات تو وہ سمجھ چکی تھی کہ وہ کچھ نہ کچھ ضرور جان چکی ہے ۔