میکس لوب ( Max Lobe) کا کیمرونین افسانہ (The Neighborhood Mirror)
(فرانسیسی سے)
[Max Lobe] میکس لوب، 13/جنوری 1986ء کو’ ڈوؤلا ‘، کیمرون میں پیدا ہوا۔ 2004ء میں وہ سوئسزرلینڈ میں گیا اور وہاں ابلاغیات اور صحافت میں تعلیم حاصل کی۔ پھر اس نے ’لوسین’ کے انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈ منسٹریشن سے ڈگری حاصل کی۔ وہ جنیوا میں رہتا ہے۔
اب تک اس کی پانچ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ان میں ایک ناول ‘ 39، Rue de Berne ‘ بھی ہے۔ یہ ناول جنیوا کے ’ریڈ لائٹ ایریا ‘ کے ماحول پر لکھا گیا ہے جہاں اس کے کردار کیمرون سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ جنسی غلامی اور ہم جنس پرستی پر لکھا اس کا یہ ناول اور کئی افسانے مختلف انعام حاصل کر چکے ہیں۔ اس کے کام میں مختلف سماجی و ثقافتی تھیمز کا ایسا پھیلاؤ ملتا ہے کہ آپ اسے پڑھے بغیر نہیں رہ سکتے۔ غیر قانونی ہجرت، روایتی معاشروں میں جنسی اقدار اور نوآبادیاتی نظام کے بعد، آزاد ہوئے علاقوں پر اس کے مُضمرات اُس کے کام میں اہم موضوعات ہیں۔
یہ افسانہ مُصنف کی اجازت سے ترجمہ کیا گیا ہے۔
اِس صبح ’اینجی ‘ آئینے کے سامنے بیٹھی ہے، آئینہ جسے وہ ’میمی ‘ کہہ کر بلاتی ہے۔ وہ اس چھوٹے سے کمرے سے، جہاں وہ رہتی ہے کم کم ہی باہر نکلتی ہے۔ یہ جھونپڑ پٹی کے دور والے حصے میں کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں کے درمیان ہے۔ اس کے ایک ہاتھ میں ’فاؤنڈیشن ‘ * کی ایک ٹیوب ہے اور دوسرے میں میک اَپ کرنے والا ایک پرانا بُرش۔ عام طور پر اگر وہ میمی کے ساتھ زیادہ وقت گزارتی ہے تو اس لئے کہ اپنی تھوڈی پر اُگتے بالوں کو تلاش کر سکے اور ان کو اچھی طرح چھپا سکے لیکن اِس صبح وہ میمی کے سامنے رونا چاہتی ہے کیونکہ اس کا دل ٹوٹ چکا ہے، قیمہ ہو چکا ہے، اس گوشت کے قیمے کی طرح جس سے وہ ’سویا ‘ * کباب بنا کر، سڑک کے کنارے بیچتے ہیں۔
وہ اُسے بتانا چاہتی ہے کہ اسے اپنی چھاتیوں کے درمیان تکلیف ہو رہی ہے۔ ویسے میمی اس کی چھاتیوں کے بارے میں کیا جانے؟ جب اینجی اپنی چھاتیاں دکھاتی ہے تو پامیلا اینڈرسن * بھی اپنی چھاتیاں فوراً چھپا لیتی ہے۔ وہ میمی سے پوچھتی ہے کہ وہ بتائے کہ اس کی چھاتیاں کتنی بڑی ہیں جیسے وہ، دو بڑے پپیتوں کی مانند ہوں۔ وہ ایک بار پھر اپنی انگیا اوپر کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن، دھت، وہ پھر سے نیچے گر جاتی ہے! ارے، یہاں کچھ ہے۔۔ یہ تو صرف چھاتی ہے۔۔ اتنی بھی بُری نہیں ہے، وہ سوچتی ہے۔ اب وہ اپنے ہمسائے ’چیف’ کی بیوی کی مانند دِکھتی ہے۔ بیچاری! جس کی ایک چھاتی ایک گندی بیماری نے ہڑپ کر لی تھی۔ شاید چیف کی بیوی بھی وہی کرتی ہو گی جو اینجی کرتی ہے، وہ دو سپنج کے ٹکڑے اُڑس لیتی ہو گی۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میمی کو اس بات کا پتہ نہ ہو؟ اس بستی میں سب عورتیں پیٹ کی ہلکی ہیں۔ یہ تو قصبے کی ’پام ‘ وائن کی ہر دکان میں گپ شپ کا سب سے عام موضوع ہے۔ اینجی کو جب جب گزشتہ روز نشئیوں کے چلانے کی آوازیں یاد آتیں تو اس کے سینے میں تڑپا دینے والی درد اٹھتی ہے۔
’’بالآخر! وقت آ ہی گیا ہے کہ تھامس (اس کا محبوب ٹامی) اب سچ میں مرد بن جائے۔‘‘
اِسی سے اُسے پتہ چلا تھا کہ کہ ٹامی ’ندُمبا‘ کے والدین سے ملنے گیا تھا۔ وہ اس سے شادی کرنے والا تھا۔ کیا ثابت کرنے کے لئے؟ اور وہ بھی کس کے سامنے؟ کہ وہ سچ میں مرد ہے؟ ’مرد کا بچہ، سالا نہ ہو تو‘، اس نے اپنے میک اپ والے برش کو بھینچتے ہوئے اس پر لعنت بھیجی۔
اور پھر، اسے یہ بھی یاد آیا کہ اس نے تو اسے ہر شے تھالی میں سجا کر دی تھی۔ وہ پیسے جو وہ کمانے کے لئے پسینے میں بھیگ جاتی تھی، کھانا اور پھر اپنا آپ بھی۔ اس وقت ندُمبا کہاں تھی جب تھامس دبے پاؤں ایک بلونگڑے کی طرح اس کے گھر آتا تھا؟ وہ ہمیشہ اس کے لئے دروازہ کھول دیتی تھی اور جب کبھی وہ پہلے سو جاتی تو اس کے لئے دروازہ کھلا رکھتی۔ اس وقت مِس ندُمبا کہاں تھی جب تھامس آدھی رات کو نجانے کہاں سے آ دھمکتا تھا تاکہ اس سے حظ لے سکے؟ وہ اسے کچھ نہیں، بہت کچھ دیتی تھی۔۔ آگا بھی پیچھا بھی، ہر طرح کی تالا بندی، ہر طرح کا گولا بارود۔ وہ کہاں کہاں نہیں گھُستا تھا؟ کیا اس نے تپتی دھوپ میں اس کے لئے نئے سے نیا اَنگ اختیار نہیں کیا تھا؟ وہ، جس کے لئے اینجی رات کے وقت، اُسے روشن کرنے کے لئے بیٹری کا کام کرتی تھی، وہ جو اس کا خفیہ مرد تھا؟
وہ اسے شیالین کہتا تھا اور جب وہ اسے یہ کہہ کر بلاتا تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ اُسے اب ایک نیا اَنگ درکار تھا۔ وہ ہمیشہ براہ راست رابطہ چاہتا تھا، جسم سے جسم کا، اُسے ان ربڑوں سے چِڑ تھی جو گورے، خود کو بیماریوں سے بچانے کے لئے برتتے تھے۔ اس کی ٹانگیں ہر طرف پھیلی ہوتیں، ایک یہاں اور دوسری ٹھیک وہاں۔ وہ اسے گھماتا، جھُکاتا، جیسے چاہتا ویسے لِٹاتا، ایسے جیسے وہ اس کے لئے ایک کھلونا تھی اور۔۔ اور پھر اسے بس سوراخ ہی یاد رہتا، ہچکولوں اور پنڈولم جیسی، حرکت کی دبی دبی آوازیں کمرے میں ابھرتیں اور پھر فراغت پانے کے ساتھ ہی لطف بھری آہ کی خاموشی چھا جاتی۔ تب وہ اس کے توانا بازوؤں میں سو جاتا، اُس کا سر اس کے بالوں والے سینے پر ہوتا، جو اب نقلی چھاتیوں سے آزاد ہوتا۔ جب تک ایسا تھا تو وہ سمجھتی تھی کہ تھامس اُس کا تھا۔
ایک آنسو اس کے گال پر ٹپکتا ہے۔ اینجی اسے اپنی انگلی سے صاف کرتی ہے۔ وہ ایک سرد آہ بھرتی ہے اور سر جھکا لیتی ہے۔ وہ میمی، اپنے پیارے آئینے، سے کہتی ہے۔
’’مجھے بتاؤ اور کہو، میں قصبے کے اس حصے کی سب سے خوبصورت عورت ہوں۔‘‘
پھر وہ مسکراتی ہے۔ میمی بالکل جھوٹی ہے۔ جب وہ جھوٹ بولتی ہے تو ایسے لگتا ہے جیسے وہ اُن سیاست دانوں جیسی ہے جو ٹیلیویژن پرجھوٹا بحث مباحثہ کرتے ہیں۔ میمی اندھے پن سے یہ قسم کیسے کھا سکتی ہے کہ اینجی اس علاقے کی سب سے حسین عورت ہے جبکہ وہ چڑھے دن کی طرح دیکھ سکتی ہے کہ اس کی تھوڈی کی جلد ریشم کی طرح ملائم نہیں ہے۔ اسے دیکھنا چاہیے کہ یہ کھردری ہے اور اس پر ایسے دانے ہیں جیسے برتن صاف کرنے والا دھاتی جھانوا۔ اینجی کو یاد آتا ہے کہ جب وہ چھوٹی تھی تو اس کی ماں اسے کھانا پکانے کے برتنوں کے پیندوں کو اچھی طرح رگڑنے کے لئے کہا کرتی تھی جو ساری رات لکڑیوں کی آگ پر پڑے رہتے تھے۔ اس کی ماں اب دوسرے جہان میں چلی گئی ہے۔ اور یہ لوگ بھی دوسرے ہی تھے جن کی نفرت بھری نظروں نے اسے مار ڈالا تھا۔ کوئی ماں ایسے بھلا کیسے جی سکتی ہے۔ جس نے یہ جانا کہ وہ بیٹے کو جنم دے رہی ہے، انتہائی اذیت سے، لالٹین کی روشنی میں، اسے دنیا میں لائی تھی، وہ بچہ اب اینجی بن چکا تھا۔ نو ماہ کا حمل بے معانی رہا تھا۔
اس صبح اس نے تھامس کو ایک ٹیکسٹ میسج بھیجا تھا۔ جب سے اس نے خبر سنی تھی، وہ مزید برداشت نہ کر پائی تھی۔ اس کا جسم یوں پگھل رہا تھا جیسے ’مارجرین ‘ دھوپ میں پڑے پڑے مائع ہو جاتا ہے۔ اس نے لکھا تھا’۔
’’مجھے تم سے محبت ہے۔‘‘
بس اتنا ہی لکھا تھا۔
اور تھامس میں اتنی بھی ہمت نہ تھی کہ وہ کوئی جواب دیتا۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مِس ندُمبا کو یہ سمجھ نہ آئی ہو کہ اس کے منگیتر کو عورت نہیں چاہیے؟ اَگواڑا اس کا مسئلہ ہے ہی نہیں۔ یہ کوئی راکٹ سائنس تو ہے نہیں! اور اینجی جانتی ہے کہ تھامس لطیف محبت کی راہوں پر تو چلتا ہی نہیں ہے۔ اور مِس ندُمبا تو ہپوپوٹومس کی مانند ہے۔ اب بھلا سوچا جائے کہ تھامس کو گوشت کے اُس پہاڑ کا پچھواڑا تلاش کرنے میں کتنی تگ و دو کرنا پڑے گی۔ اینجی کو تھامس پر ترس آنے لگتا ہے۔
’’اوہو، میمی!‘‘، وہ رو پڑتی ہے، ’’دیکھو یہ بال پھر سے اُگ آئے ہیں!‘‘، وہی موئے بال جنہیں وہ ہمیشہ اکھاڑ پھینکتی ہے اور وہ ہر بار زیادہ توانا ہو کر نہ صرف اُگ آتے ہیں بلکہ ان میں اضافہ بھی ہو جاتا ہے۔ اور یہاں میمی ہے کہ وہ اینجی کو یہی کہے جاتی ہے کہ وہ اس قصبے کی سب سے حسین عورت ہے۔۔۔۔ ایسا بھلا کیسے ہو سکتا ہے۔
وہ ’فاؤنڈیشن ‘ کی ایک اور تہہ لگاتی ہے۔ پھر ایک اور۔ اس سب کو چھپانا بھی تو ہے۔ وہ اس طرح تو باہر نہیں جا سکتی جیسے کسی چھوٹے دیہات کی چھنال ہو۔ وہ چھنال نہیں ہے بلکہ ایک آزاد عورت ہے۔ اور یہ بھی کہ وہ باہر جائے اور راستے میں اسے ٹامی مل جائے؟ اور ذرا سوچو تو، اس نے اسے کبھی دن کی روشنی میں، بِنا سنگھار دیکھا بھی ہے؟
اسے معلوم نہیں ہے کہ شور، اچانک کہاں سے اٹھا ہے، اُسے لگتا ہے جیسے اس نے کسی شیر کی دھاڑ سنی ہو۔
’’بس کافی ہو گیا۔ ہم اس غلیظ ’ڈیپسو‘ * کے یہاں رہنے سے تنگ آ چکے ہیں۔ اب یہ اس علاقے میں نہیں رہے گی!‘‘۔ کان پھاڑ دینے والی اِس آواز کے پیچھے اور بھی شور تھا جس سے تشدد کی بُو آتی تھی۔ اور شور۔۔ اور پھر ایک اور آواز۔۔ اور پھر یہ ایک کورس میں بدل گیا، ’’کافی ہو گیا، بس کافی ہو گیا!‘‘
وہ اٹھتی ہے اور کمرے کی کھڑکی کی طرف جاتی ہے تاکہ باہر دیکھ سکے۔ باہر مجمع بہت قریب آ چکا ہے۔ وہ سب خنجروں اور لاٹھیوں سے لیس ہیں۔ اُن کا غصہ عروج پر ہے۔ وہ اس ہجوم میں ایک شخص کو صاف پہچان لیتی ہے۔ یہ اس کا ٹامی ہے۔ وہ قدم بڑھاتا ہے اور ہجوم کے سامنے آ جاتا ہے۔ وہ اس شورش کی اَگوائی کر رہا ہے۔ وہ چلاتا ہے، ’’وہ سالا اُس دن کو پچھتائے گا جب وہ پیدا ہوا تھا! وہ مجھے محبت کے پیغام بھیجتا ہے۔ کیا، وہ یہ سمجھتا ہے کہ میں اس جیسا ہوں؟ نہیں، میں نہیں ہوں، میں مرد ہوں، مرد کا بچہ اور میں جلد ہی شادی کرنے والا ہوں۔ ندُمبا، وہ میری بیوی بننے والی ہے۔ اور یوں یہ سب ختم ہونے والا ہے!‘‘
اینجی کے ہاتھ سے برش گر جاتا ہے، ’’میمی! کیا تم نے یہ سب سنا؟‘‘
میں کیا بچاؤں؟ میں اپنے ساتھ کیا لے کر جاؤں؟ جاؤں تو کہاں جاؤں؟ اور وہ بھی یوں اچانک۔ اسے ماں کی یاد آتی ہے۔ وہ اگر یہاں ہوتی تو شاید اس کا دفاع کر لیتی۔ ایک ماں اپنے بچوں کو کسی نہ کسی طرح بچا ہی لیتی ہے۔ لیکن۔۔ لیکن اس کی ماں نے تو اس پھٹکل پنے سے آزاد ہونے کی ٹھان لی تھی۔ اس نے زہر پھانکا اور اینجی کو دنیا کا سامنا کرنے کے لئے تنہا چھوڑ دیا تھا۔ اس نے تو اسے ابھی یہ بھی نہ سکھایا تھا کہ کینہ اور تحقیر کے ڈنگ سے کیسے بچنا تھا۔ وہ تو اسے یہ بھی نہ بتا پائی تھی کہ وہ کوڑے کے ڈھیروں کے درمیان ہمیشہ تاریکی میں ہی رہی تھی اور منتظر رہتی تھی، منتظر اپنے محبوب کی، تھامس کی منتظر۔ اوہ، ٹامی، تم ایسا کیسے کر سکتے ہو؟
وہ میک اپ کا سامان اکٹھا کرتی ہے۔ اور میمی، وہ میمی کو بھی ساتھ لیتی ہے۔۔ وہ دروازے کی طرف جاتی ہے تاکہ وہاں سے جا سکے، بھاگ سکے، فرار ہو سکے۔ لیکن دیر ہو چکی ہے۔ ایک پتھر نے اس کے کمرے کی پلائی ووڈ کی دیوار کو چھید دیا ہے جبکہ ایک دوسرے بڑے پتھر نے اس کا ماتھا کھول دیا ہے۔ اُسے لگتا ہے جیسے وہ مرغوں کے ڈربے میں ایک لال بیگ ہو۔ ‘ تم جو بھی کرو، میری جان، وہ تمہیں ایک کیڑے کی طرح چُگ لیں گے۔ ‘
وہ زور لگا کر اپنی پوری آنکھیں کھولتی ہے لیکن کچھ دیکھ نہیں پاتی اور نہ ہی کچھ سُن سکتی ہے۔ وہ اپنا آئینہ پکڑتی ہے، مسکراتی ہے، اس کا چہرہ خون سے لتھڑا ہوا ہے، وہ پوچھتی ہے۔
’’میمی! مجھے بتاؤ، کہ میں قصبے کے اس علاقے کی سب سے حسین عورت ہوں، کیا میں نہیں ہوں؟ میمی؟ میمی؟ کیا تم مجھے سن سکتی ہو؟‘‘
[ یہ ترجمہ اس ’چاندنی‘، جو ماں کی کوکھ میں مکمل ہو کر پیدا ہوتی تو ایک خوبصورت عورت ہوتی، کے نام، جو اپنے گرو اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ انارکلی، لاہور میں میرے آبائی گھر کے قریب ہی ایک کٹری میں رہا کرتی تھی۔ اس کا انجام بھی موت ہی تھا لیکن وہ ‘ایڈز’ (AIDS) کا شکار ہو کر فوت ہوئی تھی۔۔ اور جس کی آخری رسومات مولویوں، پادریوں اور مذہبی پنڈتوں نے ادا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔۔ یہ خود اس کی گرو نے ادا کی تھیں۔ اس کی گرو نے اسے کہاں دفنایا، آگ کی نذر کیا یا اس کے مردہ جسم کو کیسے dispose off کیا یہ میرے لئے تو کیا، ان سب کے لئے معمہ ہے جو پہلے اسے اور اس کے ساتھیوں کو اپنے گھر کے دروازے پر کاغذی پھولوں کی لڑیاں سجاتے اور ڈھولک و مخصوص تالیوں کے ساتھ ’جیوے بنڑا، شالا جوانیاں مانے۔۔’ گاتے دیکھتے تھے اور بعد میں۔ ۔ ۔! ]
۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔
نوٹس:
* ’فاؤنڈیشن ‘ = foundation، غازے کا وہ لیپ، جو میک اَپ کرنے سے پہلے چہرے پر لگایا جاتا ہے۔
* ’پامیلا اینڈرسن ‘ = Pamela Anderson، کنیڈین نژاد امریکی اداکارہ و ماڈل، جو اپنی سیکس اپیل اور بڑی چھاتیوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ ٹی وی سیریل ’بے واچ ‘ اس کی ایک اہم سیریل رہی ہے۔
* ‘سویا ’= suya، ایک مغربی افریقی کباب
* ’ڈیسپو ‘ = depso، کیمرون کی بازاری زبان میں ہم جنس پرست کو کہتے ہیں۔
* ’میکس لوب ‘ کے آبائی وطن ’کیمرون ‘ میں ہم جنس پرستی غیر قانونی ہے اور اس کی سزا پانچ سال قید با مشقت ہے۔
٭٭٭