ابراھیم کیا تم فری ہو؟
عنیزہ لاؤنج میں آ کر بولی۔
جی بھابھی۔
کیوں کیا ہوا؟
وہ مجھے مارکیٹ جانا تھا۔ کچھ چیزیں لینی تھیں۔
اچھا۔
آپ بیٹھیں میں کار کی چابی لے کر آتا ہوں۔
وہ صوفے سے اٹھتے ہوۓ بولا۔
نہیں نہیں۔
کار میں نہیں جانا۔ تمہاری والی بائیک پر چلتے ہیں۔
عنیزہ نے فورا انکار کیا۔
بھابھی بھائی ڈانٹیں گے۔
انہوں نے سختی سے منع کیا ہوا کے کسی کو بائیک پر نہیں لے کے جانا۔
کچھ نہیں ہوتا۔
وہ کچھ نہیں کہے گا۔
عنیزہ جلدی سے بولی۔
بھابھی پھر کسی دن بائیک پر چلیں گے آج کار میں چلتے ہیں۔
آج میرا کار میں جانے کو دل چاہ رہا ہے۔
ابراھیم نے بہانہ بنایا۔
اچھا چلو ٹھیک ہے۔
ابراھیم نے کار باہر نکالی اور وہ دونوں چلے گئے۔
ہلکی پھلکی باتوں کے درمیان ابراھیم کار چلا رہا تھا۔ جب ایک دم سے عنیزہ بولی۔
ابراھیم یہاں روکو۔
مجھے یہاں کام ہے پھر آگے چلتے ہیں۔
اس نے کار روک دی۔
تم یہی بیٹھو میں آتی ہوں۔
بھابھی میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔
ابراھیم کو اس کا اکیلے جانا مناسب نہیں لگا تو وہ بولا۔
نہیں نہیں۔
میں ابھی دو منٹ میں آئی بس۔
تھوڑا سا یہاں کام ہے۔ پھر چلتے ہیں۔
وہ جلدی جلدی میں بولی۔
اچھا جلدی آئیے گا۔
وہ اپنا پاؤچ لے کے کار سے باہر نکل گئی اور مارکیٹ کے اندر چلے گئی۔
ابراھیم باہر ہی اس کا ویٹ کرنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنیزہ واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں ایک بیگ تھا۔
وہ بیگ پیچھے رکھتی خود آگے بیٹھ گئی۔
ابراھیم سنجیدہ سا بیٹھا ہوا تھا۔
وہ مجھے کچھ بکس چاہیے تھی تو وہ لے کر آئی ہوں۔
وہ اس کی طرف دیکھ کے بولی۔
اچھا جی۔
ابراھیم نے اتنا کہنے پر ہی اختفاع کیا۔ اور کار گھر کی طرف مور لی۔
کار پورچ میں رکی تو عنیزہ ابراھیم کو شکریہ کہتی اندر چلے گئی۔
ابراھیم بھی کار کھڑی کر کے اندر چلا گیا۔
لاؤنج خالی تھا وہ سیدھا اپنے کمرے میں آ گئی۔
بیگ اور پاؤچ ٹیبل پر رکھ کے وہ واشروم کی طرف بڑھ گئی۔
اس کا ارادہ اب نماز پڑھنے کا تھا۔
مغرب کی اذان رستے میں ہی ہو گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھانا کھا کر سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے تھے۔
عنیزہ نیچے نوال کے ساتھ بیٹھی باتوں میں مصروف تھی۔
حازم بھی کمرے میں جا چکا تھا۔
آپ دونوں اب تک اپنے رومز میں نہیں گئیں؟
عفت بیگم ان دونوں کو لاؤنج میں بیٹھا دیکھ کے بولیں۔
ماما بس جانے لگے ہیں۔
نوال مسکراہٹ سجائے بولی۔
شاباش بیٹے جلدی جاؤ۔
صبح آپ نے یونیورسٹی بھی جانا ہے۔
جی ماما جا رہی ہوں۔
آپ بھی اٹھو عنیزہ۔
حازم کب سے گیا ہوا ہے اور آپ یہاں بیٹھیں ہیں۔
جی آنٹی میں بھی بس جا ہی رہی تھی۔
عنیزہ بھی مسکرا کے بولی۔
ہمم شاباش۔
جاؤ دونوں۔۔
وہ دونوں اپنے اپنے کمروں کی طرف چلے گئیں۔ اور عفت بیگم کچن کی طرف۔
وہ کچن سے پانی لینے آئی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنیزہ کمرے میں آئی تو ہر طرف خاموشی پھیلی ہوئی تھی۔
وہ اندر آ کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔
اور زور سے انگڑائی لی۔
وہ اپنی ہی دھن میں لگی ہوئی تھی جب حازم بلکونی سے اندر آیا۔
آج کہاں گئی تھی؟
وہ عنیزہ کے سامنے کھڑا ہو کے بولا۔
کیا مطلب کہاں گئی تھی۔
مارکیٹ گئی تھی میں۔ اور میں نے کہاں جانا۔
وہ نخوت سے بولی۔
اچھا۔
کیا لے کر آئی وہاں سے؟
حازم نے دوبارہ سوال کیا۔
یار بکس لے کر آئیں ہوں۔ اور میں نے کیا لانا۔
وہ جھنجھلا کے بولی۔
اس کا حازم کو جواب دینے کا ذرا بھی دل نہیں ہو رہا تھا۔ وہ مجبورًا جواب دے رہی تھی۔
پیسے کہاں سے لیے؟
وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔
عنیزہ نے ایک نظر اٹھا کے اسے دیکھا پھر بولی۔
یہ کیا سوال ہوا۔
جو میں پوچھ رہا ہوں سیدھی طرح سے جواب دو۔
عنیزہ نے پھر اس کی طرف دیکھا وہ اسے کہیں سے بھی مذاق کے موڈ میں نہیں تھا لگ رہا۔
پیسے۔۔
وہ میرے پاس تھے۔
وہ اٹک اٹک کے بولی۔
حازم نے اسے بازو سے کھینچ کے اپنے سامنے کھڑا کیا۔
جھوٹ۔۔
مجھے سچ سننا ہے۔
وہ دھیمی آواز میں گھڑایا۔
ن نہیں۔
ی یہ سچ ہ ہے۔
وہ بہت اٹک اٹک کے بولی۔
اس نے حازم کو غصے میں پہلی دفعہ دیکھا تھا۔
اور وہ سہم گئی تھی۔
تو یہ کیا ہے؟
حازم دوسرے ہاتھ سے چین اس کے آگے کرتا بولا جس میں چھوٹا سا لاکٹ تھا۔
وہ چین کو دیکھ کے منہ کھولے حازم کو دیکھنے لگی۔
ڈر کے آثار اس کے چہرے سے صاف نمودار ہو رہے تھے۔
بتاؤ یہ کیا ہے؟
حازم پھر اسے جھنجھور کے بولا۔
یہ چین ہے۔۔
وہ آہستہ سے بولی۔
اور یہ کس کی ہے؟
تم سے مطلب جس کی بھی ہو۔
میری چیز میں اس کے ساتھ جو مرضی کروں۔
عنیزہ بھی چلائی۔
اور یہ میری بازو چھوڑو۔
اس نے اپنی بازو جھٹکے سے چھوڑائی۔
تم ایک نمبر کی عقل سے پیدل اور بیوقوف لڑکی ہو۔
اگر تمھے پیسوں کی ضرورت تھی تو میرے سے کہ دیتی یا ماما سے کہ دیتی۔
ہم نے کب تم سے انکار کیا جو تم اپنی چیزیں ہی اٹھا کے بیچنے لگ گئی۔
کیوں مانگوں میں کسی سے۔۔
میں مانگنے والی ہوں۔
جس چیز کی مجھے ضرورت ہو گی میں خود لے لوں گی۔
کیوں میں بوجھ بنوں تم لوگوں پر۔
تم لوگوں کا اتنا ہی بہت احسان ہے کے مجھے پناہ دی ہوئی۔
پہلے گھر والوں پر بوجھ بنی تھی تو انہوں نے سر سے اتار پھینکا۔
اب اگر تم لوگوں پر بنوں گی تو تم لوگ بھی نکال دو گے۔
وہ اونچی آواز میں بول رہی تھی۔ ساتھ اس کے آنسو بھی بہنے کو تیار تھے جو وہ بامشکل ضبط کر رہی تھی۔
تم۔۔
حازم کہ کے رکا۔
تمہیں کچھ بھی کہنا فضول ہے۔
کہتا بھی تو بندا اسے ہی ہے جس نے ماننی ہو۔
میری طرف سے جو مرضی کرو۔
حازم چین بیڈ پر پھینکتا باہر چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بابر باہر دیکھو کون ہے دروازہ نوک ہو رہا ہے۔
شاہدہ بیگم نے کچن سے اسے آواز دی۔
اچھا جی۔
وہ دھیمی چال چلتا دروازے تک پہنچا۔
دروازہ کھولا تو سامنے حازم کھڑا تھا۔
اوہ تو اس ٹائم۔۔
بابر ہاتھ پر لگی گھڑی کی طرف دیکھ کے بولا۔
کیوں نہیں آ سکتا۔۔
یا واپس چلا جاؤں۔
حازم سنجیدگی سے بولا۔
اوہ ہو۔۔
کیا ہو گیا ہے یار۔
میں نے تو ویسے ہی پوچھا۔
اچھا۔۔
چل آ جا اندر۔
حازم اندر کی طرف بڑھ گیا اور بابر دروازہ بند کر کے اس کے پیچھے ہوا۔
دونوں لاؤنج میں بیٹھ گئے۔
اور سنا؟
خیریت نہیں لگ رہی آج مجھے۔ تو اور میرے گھر خود سے آ جائے نا ممکن سی بات لگتی ہے۔ تجھے تو کہ کہ کے بلانا پڑتا ہے۔
بابر نے کہ کے ریموٹ سے آواز کم کی۔
تجھے صبر نہیں آ رہا۔ میں کیا نہیں۔۔۔
حازم آپ کب آئے؟
وہ بول ہی رہا تھا جب شاہدہ بیگم کچن سے آ کر بولیں۔
یہ ابھی آیا ہی ہے۔
اس کی جگہ بابر بولا۔
السلام علیکم آنٹی۔
کیسی ہیں آپ؟
حازم کھڑے ہو کر بولا۔
وعلیکم السلام۔
الحمداللہ۔ میں ٹھیک ہوں آپ سناؤ؟
وہ مسکرا کے پیار دے کر بولیں۔
میں بھی ٹھیک آنٹی۔
وہ بھی مسکرا کے گویا ہوا۔
بیٹھو آپ بچے۔
گھر میں سب کیسے ہیں؟
وہ سامنے صوفے پر بیٹھ کے بولیں۔
جی آنٹی گھر میں بھی سب ٹھیک۔
اچھا۔
آپ نے بہت دیر بعد چکر لگایا بیٹے؟
اصل میں اب بیوی بچوں والا ہے تو کہاں ٹائم ملتا ہو گا بیچارے کو۔
بابر منہ بنا کے بولا۔
اوہ سوری۔
ابھی بیوی والا ہی ہے۔
بابر نے تصیح کی۔
بچوں والا بھی ہو جائے گا ان شاءاللّه بہت جلد۔
یہ صرف حازم کے کان میں بولا۔
حازم نے اسے گھورا۔
حازم کبھی لے کر آؤ نا اپنی وائف کو۔
شاہدہ بیگم مسکرا کے بولیں۔
جی آنٹی ضرور۔
وہ اتنا بول کے چپ ہوا۔
کیا کھائیں گے آپ بچے؟
کچھ بھی نہیں آنٹی۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی ڈنر کیا ہے تو کسی چیز کی گنجائش نہیں ہے۔
اتنے دنوں بعد تو آئے ہو۔ ایسے تو نہیں جانے دوں گی میں آپ کو۔
یار آپ سمجھیں نا۔
وہ صرف بھابھی کے ساتھ ہی کھاتا ہے اب۔
بابر بتیسی کی نمائش کر کے بولا۔
حازم اسے دیکھ کے رہ گیا۔ اس کی زبان کو تو لگام آ ہی نہیں سکتی تھی۔
بری بات بابر۔
شاہدہ بیگم نے اسے ڈپٹہ۔۔
چائے بنا دیتی ہوں۔ دونوں باتیں بھی کرنا اور ساتھ ساتھ چائے سے لطف اندوز ہونا۔
جیسے آپ کی مرضی آنٹی۔
حازم مودب سا بولا۔
بابر تھوڑی دیر بعد کچن سے ٹرولی لے آنا بچے۔
میں نے وہی سے کمرے میں چلی جانا ہے آپ دونوں انجوئے کرو۔
اچھا جی۔
وہ اٹھ کے چلے گئیں۔
تیری زبان بہت چلتی ہے بابر۔ کسی دن تو نے میرے سے کھا لینی ہیں۔
حازم ان کے جانے کے بعد بولا۔
اہ ہا۔۔
مار لے جگر۔
اب تجھے تو کچھ نہیں کہ سکتا نا۔
اور بھابھی ٹھیک ہیں؟
وہ حازم کی طرف دیکھ کے بولا۔
ہاں ٹھیک ہی ہو گی۔
وہ بے زاری سے بولا۔
کیا مطلب تیرا؟
کہیں لڑ کے تو نہیں آیا؟
بابر نے سنجیدگی سے پوچھا۔
نہیں یار۔
پر مجھے سمجھ میں نہیں آتا میں کیا کروں۔
مجھے لگتا ہے جیسے میری زندگی تو ختم ہی ہو گئی ہے۔ روز کوئی نہیں ٹنشن روز کچھ نیا۔
مجھے تو اپنا قصور ہی سمجھ نہیں آتا۔
حازم آہستہ آواز میں ایل سی ڈی کی طرف دیکھ کے بولا۔
مجھے نہیں پتہ کیا ہوا ہے پر یار قصور کسی کا بھی نہیں ہے۔ یہ قسمت ہے۔ اور تو اتنا نا امید کیوں ہو رہا ہے آج؟
ہمیشہ تو مجھے سمجھاتا ہے اور آج خود ایسی عجیب عجیب باتیں کر رہا ہے۔
بابر بھی سنجیدگی سے بولا۔
تو اور کیا کروں۔
کچھ بھی نا کر۔
ساری پریشانیوں کو دفعہ کر۔ ان شاءاللّه سب ٹھیک ہو جائے گا۔ وقت چاہیے تم دونوں کو۔
ایک دوسرے کو وقت دو۔ سمجھو۔ کون کیسا ہے اور کیسی نیچر ہے اگلے بندے کی۔
پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔
ہممممم ان شاءاللّه۔۔
حازم بول کے چپ ہوا۔
تو بیٹھ میں ابھی چائے لے کر آتا ہوں۔
بابر کہ کے کچن کی طرف بڑھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات گئے حازم کمرے میں داخل ہوا۔
کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔
وہ بیڈ کی طرف بڑھا اور لیمپ اون کی۔
بیڈ کی دوسری طرف عنیزہ سوئی ہوئی تھی۔
سارے بال منہ کے اوپر آئے ہوۓ تھے۔
حازم بیڈ پر بیٹھا اور آگے کو ہو کر اس کے بال پیچھے کیے۔
صاف شفاف رنگت پر آنسووں کے مٹے مٹے نشان صاف ظاہر ہو رہے تھے۔
حازم کو دیکھ کے بہت شرمندگی ہوئی۔
اسے اپنے رویے پر بہت شرمندگی ہو رہی تھی۔
کیسے وہ اتنا ڈانٹ گیا تھا اسے۔
ایک پل کو تو اس کا دل چاہا اسے ابھی اٹھا دے اور اپنے رویے کے لیے سوری کر لے۔
پر اسے بے آرام کرنا حازم کو ٹھیک نہیں لگا۔
وہ پیچھے ہو کر بیٹھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح عنیزہ کی آنکھ کھلی تو بیڈ خالی تھا۔
کیا ابھی تک نہیں آیا ؟
اس نے لیٹے لیٹے دل میں سوچا۔
کیا میں رات کو زیادہ بدتمیزی کر گئی تھی؟
پھر خیال آیا۔
پر وہ بھی تو۔۔
اس سے آگے وہ مزید کچھ نا بولی۔
وہ اٹھ کے بیٹھی تو اسے اپنا سر چکراتا ہوا محسوس ہوا۔
وہ ویسے ہی بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔
ایسے بیٹھے اسے کچھ ہی وقت گزرا تھا جب حازم کمرے میں آیا۔
اس کے ہاتھ میں کچھ بیگز تھے۔
یہ کچھ چیزیں ہیں تمھارے لیے۔
دیکھ لینا۔
وہ ٹیبل پر رکھ کے دوبارہ باہر چلا گیا۔
عنیزہ سے اٹھنے کی ہمت بھی نہیں ہو رہی تھی۔
وہ وہی بیٹھی رہی۔
سر میں پین بھی شروع ہو گئی تھی۔
اسے سمجھ نہیں تھی آ رہی کسے آواز دے۔
اس کی آنکھوں سے نمکین پانی نکلنا شروع ہو گیا۔
ہمت کر کے وہ بیڈ سے اٹھی اور دروازے کی جانب چلے گئی۔
دروازہ کھول کے باہر نکلی اور نوال کے کمرے کا دروازہ نوک کیا۔
آ جائیں۔۔
اجازت ملنے پر وہ فورا اندر بڑھی۔
نوال صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی۔
بھابھی آپ۔۔
آپ مجھے بلا لیتیں۔
نوال بول رہی تھی لیکن عنیزہ کو کچھ سمجھ نہیں تھا آ رہا۔
وہ سر چکراتے کے ساتھ وہی نیچے بیٹھ گئی۔
کیا ہوا ہے آپ کو بھابھی؟
وہ باگ کے عنیزہ کی طرف بڑھی۔
میرا سر۔۔
عنیزہ صرف اتنا ہی بولی۔
بھابھی آپ اٹھیں۔۔
بیڈ پر بیٹھیں۔
میں ابھی ماما کو بلاتی ہوں۔
عنیزہ کو کھڑا کر کے اسے بیڈ کی طرف لے کر گئی اور اسے لٹا دیا۔
ماما۔
ماما۔
اس نے اوپر سے ہی آوازیں دیں۔
جی۔
عفت بیگم کی آواز آئی۔
ماما ذرا اوپر آئیں۔
بھابھی کی طبیعت بہت خراب ہے۔
وہ پریشان سی بولی۔
عفت بیگم فوری اوپر آ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حازم یہ دودھ کا گلاس پڑا ہے۔
جب عنیزہ اٹھے تو اسے ضرور دے دینا۔
میں اور نوال ابراھیم کے ساتھ بازار جا رہیں ہیں ہم لوگ جلدی ہی آ جائیں گے۔
اچھا جی۔
آپ لوگ جائیں میں یہاں ہی ہوں۔
حازم فون سائیڈ پر رکھ کے بولا۔
آج وہ پولیس سٹیشن نہیں گیا تھا۔
میں جاتی تو نا پر آج آپ کے چاچو آ رہے ہیں تو ان کے لے کیے کچھ سامان لانا ہے۔
ماما آپ سکون سے جائیں میں یہاں ہی ہوں۔
حازم نے انھیں مطمئن کرنا چاہا۔
تم ہو اسی لیے تو میں جا رہی ہوں۔
خیال رکھنا عنیزہ کا۔
وہ کہ کے باہر نکل گئیں۔
اچھا جی۔
حازم دوبارہ فون میں مصروف ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حازم میں کہ رہی ہوں میرا ہاتھ کھولو ورنہ میرے سے برا کوئی نہیں۔
عنیزہ چیخی۔
ہاں مجھے پتہ ہے کے تم سے برا کوئی نہیں پر میں تمہارا ہاتھ کبھی بھی نہیں کھولوں گا۔
وہ طنزیہ مسکراہٹ اچھال کے بولا۔
تم بہت برے ہو۔
آنٹی کو آنے دوں تمہاری ایک ایک بات بتاؤں گی۔
وہ اسے گھورتے ہوۓ بولی۔
بتا دینا پہلے چپ کر کے یہ دودھ کا گلاس فنش کرو۔
وہ گلاس کی طرف اشارہ کر کے بولا۔
نہیں پینا مجھے۔
پچاس بار کہ چکی ہوں۔
وہ چلائی۔
بس پھر ٹھیک ہے جب تک نہیں پیو گی تب تک تمہارا ہاتھ بھی نہیں کھلے گا۔
زہر لگ رہے ہو اس ٹائم مجھے۔
کوئی بات نہیں۔
آگے میں کونسا تمھے شہد لگتا ہوں۔
وہ دوسری طرف بیٹھتے بولا۔
پلیز کوئی تو کھول دے۔
وہ ہتھکڑی میں قید اپنا ہاتھ دیکھ کے رونے والے انداز میں بولی۔
کوئی نہیں کھولے گا۔
جب تک پیو گی نہیں۔
تم سے میں بات نہیں کر رہی ہوں۔ چپ ہی رہو۔
عنیزہ کھا جانے والے انداز میں بولی۔
جب سے وہ سو کر اٹھی تھی تب سے حازم اسے دودھ پینے کا کہ رہا تھا پر وہ مان ہی نہیں رہی تھی۔ پھر مجبورًا حازم کو اس کے ساتھ ایسا کرنا پڑا۔
اللّه کرے حازم تمھے تمھارے پولیس والے سر سے اتنی ڈانٹ پڑے اتنی ڈانٹ پڑے کے تم رونے لگ جاؤ۔
بعد میں وہ تمھے سٹکس بھی لگائیں۔
عنیزہ منہ میں بربرائی۔۔
ہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔
حازم کا قہقہ بلند ہوا۔
کہاں سے سوچتی ہو ایسی بچوں والی باتیں۔
وہ اس کی بات سن چکا تھا تو قہقہ لگا کر بولا۔
تم سے میں نے بات نہیں کی۔
اور ویسے بھی اتنی فنی بات نہیں تھی جو تم ایسے ہنس رہے ہو۔
عنیزہ نے اس کے ہنسنے پر چوٹ کی۔
اچھا۔
میری بات سنو۔
تم گلاس ختم کرو پھر ایک بہت اہم بات بتاتا ہوں۔
نہیں مجھے نہیں سننی کوئی بات۔
وہ دوسری طرف رخ کر کے بولی۔
حازم اٹھا اور عنیزہ کی طرف بڑھا۔
اس کے سامنے جا کے کھڑا ہو گیا۔
عنیزہ نے نا سمجھی سے اسے دیکھا۔
حازم بیڈ پر بیٹھ گیا اور اس کا آزاد ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑا۔
عنیزہ بلکل خاموش اس کی کاروائی دیکھ رہی تھی۔
حازم نے اپنا ایک ہاتھ بڑھا کے گلاس اٹھایا۔
حازم نو۔
عنیزہ نے سر ہلایا۔
عنیزہ یس۔۔
وہ بھی اسی کے انداز میں بولا۔
پلیز نا۔
تم تو میرے پیارے دوست ہو۔
وہ معصومیت لیے بولی۔
ہاں ہوں۔
تم بھی تو میری بات مان لو نا۔
آج تم مان لو نا۔
وہ گلاس کی طرف ایسے دیکھ رہی تھی جیسے گلاس اسے کھا جائے گا۔
آج تم مانو پرومیس اگلی بار میں مانوں گا۔
حازم نے گلاس اس کے منہ کے ساتھ لگایا۔
عنیزہ نے آنکھیں زور سے میچ لیں۔
اور آہستہ آہستہ پینے لگی۔
اسے ایسے دیکھ کے حازم کے چہرے پر مسکراہٹ آئی جو وہ فورا چھپا گیا۔
گلاس خالی ہوا تو حازم نے ٹیبل پر رکھ دیا۔
شاباش۔۔
حازم بولا اور اس کا ہاتھ آزاد کیا۔
کٹی۔
ناراض ہوں میں تم سے۔
آج سے ہماری دوستی ختم۔
وہ منہ بناتے بولی۔
ہاہاہاہاہاہاہا۔۔
اچھا دیکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...