The most exciting phrase to hear in science, the one that heralds new discoveries, is not ‘Eureka!’ (I found it!) but ‘That’s funny …’
Isaac Asimov
سائنس کی تاریخ میں متعدد ایسے مواقع موجود ہیں جہاں نسبتاً حادثاتی واقعات حیرت انگیز پیش رفت کا باعث بنتے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے مشہور مثال سر الیگزینڈر فلیمنگ کی ہے جنھوں نے یہ مشاہدہ کیا کہ تجرباتی پیٹری ڈش کے اندر حادثاتی طور پر بننے والی فنگس وہاں موجود بیکٹیریا کو ختم کررہی تھی۔ یہ وہ اتفاقی واقعہ تھا جو پینسلین کی دریافت اور اینٹی بائیوٹک کی پوری فیلڈ کے وجود میں آنے کا باعث بنا۔ اس بظاہر اتفاقی دریافت کے نتیجے میں لاکھوں زندگیاں بچائی گئیں۔
الیگزینڈر فلیمنگ کو 1945 کا فزیالوجی اور طب کے میدان میں نوبل انعام ارنسٹ چین اور ہارورڈ فلوری کیساتھ دیا گیا جنھوں نے یہ پتہ لگایا کہ پینسلین کو کثیر مقدار میں کیسے بنایا جاسکتا ہے تاکہ زیادہ مریضوں کا علاج کیا جاسکے۔ اس باب کے شروع میں لکھی آئزک اسیموف کی بات ہمیں یہ یاد دلارہی ہے کہ الیگزینڈر فلیمنگ محض ایک خوش قسمت انسان نہیں تھا جسکی قسمت نے اسکا ساتھ دیا۔ اسکی بصیرت محض ایک تکا نہیں تھی۔ یہ بات ناممکن معلوم ہوتی ہے کہ فلیمنگ سے پہلے کسی کی تجرباتی پیٹری ڈش فنگس سے متاثر نہیں ہوئی تھی۔ اسکی کامیابی یہ تھی کہ اس نے دیکھا کہ کچھ غیر معمولی ہوا ہے اور اسکی اہمیت کو سراہا۔ علم اور تربیت نے فلیمنگ کے دماغ کو حادثاتی واقعات سے زیادہ سے زیادہ سیکھنے کے قابل بنا دیا تھا۔ اس نے وہ دیکھا جو شاید اس پہلے بھی بہت سے لوگوں نے دیکھا تھا لیکن اس نے وہ سوچا جو پہلے کسی نے نہیں سوچا تھا۔
یہاں تک کہ اگر ہم تحقیق میں عجیب و غریب واقعات کے کردار کو قبول کرتے ہیں ، تب بھی یہ سوچنا بہت پر سکون ہوگا کہ سائنس عام طور پر منطقی اور ترتیب وار انداز میں آگے بڑھتی ہے۔ یہاں ایک طریقہ ہے کہ ہم ایپی جینیٹکس میں اس طرح کی پیشرفت کا تصور کرسکتے ہیں۔۔
ایپی جینیٹک ترمیم سیل کی تقدیر کو کنٹرول کرتی ہے۔ یہ وہ عمل ہے جس کے ذریعہ جگر کے خلیات جگر کے خلیوں کی طرح رہتے ہیں اور خلیات کی دوسری اقسام میں تبدیل نہیں ہوتے ہیں۔ کینسر، خلئیے کی قسمت کے معمول کے کنٹرول میں خرابی کی نمائندگی کرتا ہے ، کیونکہ جگر کے خلیات جگر کے خلیات بننا بند کردیتے ہیں اور کینسر کے خلیات بن جاتے ہیں ، جس سے پتہ چلتا ہے کہ کینسر میں ایپی جینیٹک ریگولیشن صحیح نہیں رہا۔ لہذا ہمیں ایسی دوائیوں کی تیاری کے بارے سوچنا چاہئے جو اس ایپی جینیٹک غلط ریگولیشن کو متاثر کرتی ہیں۔ ایسی دوائیں کینسر کے علاج یا ان کو کنٹرول کرنے کے لئے کارآمد ثابت ہوسکتی ہیں۔
درحقیقت پہلے سے ہی بین الاقوامی ادویہ سازی کی صنعت میں لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری ایپی جینٹک ادویات کی تیاری کیلئے کی جاچکی ہے۔ لیکن اوپر بیان کیا گیا واضح سوچ کا عمل وہ نہیں ہے جسکے تحت کینسر کے خلاف ادویات کی تیاری کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔
پہلے سے ہی لائسنس یافتہ دوائیں موجود ہیں جو کینسر کا علاج کرتی ہیں اور جو ایپی جینیٹک اینزائمز کو روک کر کام کرتی ہیں۔ یہ مرکبات کینسر خلیوں کے خلاف متحرک دکھائے گئے تھے اس سے پہلے کہ وہ ایپی جینیٹک اینزائمز پر کام کرتے دکھائے جائیں۔ دراصل ، یہ ان مرکبات کی کامیابی ہے جس نے واقعی ایپی جینیٹک علاج میں اور ایپی جینیٹکس کے پورے شعبے میں دلچسپی پیدا کردی ہے۔
حادثاتی ماہر ایپی جینیٹکس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1970 کی دہائی کے اوائل میں ، پیٹر جونز نامی ایک نوجوان جنوبی افریقی سائنسدان 5-ایزاسائٹیڈین نامی ایک مرکب کے ساتھ کام کر رہا تھا۔ اس کمپاؤنڈ میں پہلے سے ہی کینسر کے انسداد اثرات مرتب ہوئے تھے کیونکہ یہ لیوکیمیا خلیوں کو تقسیم سے روک سکتا ہے ، اور بچپن کے لیوکیمیا کے مریضوں میں جب ٹیسٹ کیا جاتا ہے تو اس کے کچھ فائدہ مند اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
پیٹر جونز اب کینسر کے ایپی جینیٹک علاج کے بانی کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ لمبا ، پتلا ، اور گھنے قریب سے کٹے ہوئے سفید بالوں والا ، وہ کسی بھی کانفرنس میں فوری طور پر پہچانا جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے ذکر کیے گئے بہت سارے بہترین سائنسدانوں کی طرح ، اس نے بھی کئی دہائیوں تک ایک ابھرتے ہوئے میدان میں تحقیق کی ہے۔ وہ ایپی جینوم کے صحت پر اثرات کو سمجھنے کی کوششوں میں سب سے آگے ہے۔ اس وقت وہ خلیوں کی مختلف اقسام اور بیماریوں کی ایک بڑی تعداد میں موجود تمام ایپی جینیٹک ترمیموں کی نشاندھی کے لئے کوششیں کر رہا ہے۔ ان دنوں وہ ان ٹیکنالوجیوں کو استعمال کرنے کے قابل ہے جو ان کی ٹیم کو انتہائی مخصوص اور خصوصی آلات سے لاکھوں پڑھنے والے آؤٹ لیٹس کا تجزیہ کرنے کی اجازت دیتی ہے۔
چالیس سال پہلے کوئی یقین سے نہیں جانتا تھا کہ 5-ایزا سائٹیڈین کسطرح کام کرتا تھا۔ کیمیکل ساخت کے لحاظ سے یہ ڈی این اے اور آر این اے میں موجود بیس ساٹیڈین سے مماثلت رکھتا ہے۔ یہ خیال تھا کہ 5-ایزاسائٹیڈین ڈی این اے میں شامل ہوجاتا تھا اور کسی طرح ڈی این اے ٹرانسکرپشن اور ریپلیکشن کو متاثر کرتا تھا۔ کینسر خلیات خاص طور پر جو لیوکیمیا میں پائے جاتے ہیں وہ کافی فعال ہوتے ہیں۔ انکو بہت زیادہ پروٹین بنانے کی ضرورت ہوتی ہے جسکا مطلب ہے کہ انکو بہت زیادہ میسینجر آر این اے بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ بہت جلدی تقسیم ہوتے ہیں تو انکو اپنے ڈی این اے کی نقلیں تیار کرنے میں بھی کافی مہارت چاہئیے ہوتی ہے۔ اگر 5-ایزاسائٹیڈین ان میں کسی عمل کو متاثر کررہا تھا تو اسکو کینسر خلیات کی بڑھوتری اور تقسیم میں رکاوٹ ڈالنا چاہئے تھی۔
پیٹر جونز اور اسکے ساتھی ممالیہ جانداروں کے مختلف اقسام کے خلیات پر 5-ایزاسائٹیڈین کے اثرات کو دیکھ رہے تھے۔ کسی انسان یا جانور کے جسم سے براہ راست خلیات لیکر لیبارٹری میں تیار کروانا قابل ذکر کام ہے۔ اگر آپ انکو لیبارٹری میں رکھتے ہیں تو کچھ دفعہ تقسیم ہونے کے بعد یہ مرجاتے ہیں۔ اس سے نمٹنے کیلئے ، پیٹر جونز نے سیل لائنز کے ساتھ کام کیا۔ سیل لائنز اصل میں جانوروں سے اخذ کی گئی ہیں جن میں انسان بھی شامل ہیں ، لیکن اتفاقی طور پر یا تجرباتی ہیرا پھیری کے نتیجے میں۔ اگر انکو صحیح غذائیت ، درجہ حرارت اور ماحول دیئے جائیں تو وہ کلچر میں غیر یقینی طور پر نشوونما پانے کے اہل ہیں۔ سیل لائنز ہو بہو جسم کے خلیوں کی طرح نہیں ہوتی ہیں ، لیکن یہ ایک مفید تجرباتی نظام ہیں۔
پیٹر جونز اور اسکے ساتھی جن خلیات کیساتھ کام کررہے تھے وہ اکثر گلاس فلاسک کے اندر تیار کئیے جاتے ہیں۔ یہ عموماً فلاسک کے اندر خلیات کی ایک تہہ بناتے ہیں لیکن کبھی بھی ایک دوسرے کے اوپر نہیں بنتے ہیں۔ ہفتوں تک 5-ایزاسائٹیڈین کیساتھ کلچر کرنے کے بعد ایک صبح محققین نے دیکھا کہ ایک فلاسک کےاندر ایک لوتھڑا سا بنا ہوا تھا۔ عام آنکھ سے ابتدائی طور پر یہ ایک مولڈ انفیکشن معلوم ہوتی تھی۔ زیادہ تر لوگ اسکو ضائع کردیتے اور دوبارہ احتیاط کا ارادہ کرتے کہ آئندہ ان خلیات کو کلچر کرواتے وقت ایسا نہ ہو۔ لیکن پیٹر جونز نے ایسا نہیں کیا۔ اس نے اس لوتھڑے کا بغور جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ کوئی مولڈ انفیکشن نہیں ہے۔ یہ بہت سے خلیات کا مجموعہ تھا جوکہ دراصل پٹھوں کے دھاگے تھے جوکہ کبھی کبھار حرکت بھی کرتے تھے۔
یہ واقعی بہت عجیب تھا۔ اگرچہ سیل لائن اصل میں چوہوں کے ایمبریو سے اخذ کی گئی تھی ، لیکن یہ عام طور پر کبھی بھی پٹھوں کے خلیےتشکیل نہیں دیتی ہے۔ اس کی بجائے ایپی تھیلیل خلیوں کی تشکیل کا رجحان ہوتا ہے جو ہمارے بیشتر اعضاء کی سطح پر موجود ہوتے ہیں۔ پیٹر جونز کے کام سے پتہ چلتا ہے کہ 5-ایزاسایٹیڈین ان ایمبریونک خلیات کی صلاحیت کو تبدیل کرسکتی ہے ، اور ایپی تھیلیل خلیوں کی بجائے انھیں پٹھوں کے خلیات بننے پر مجبور کرسکتی ہے۔ لیکن ایک کمپاؤنڈ جس نے ممکنہ طور پر ڈی این اے اور ایم آر این اے کی پیداوار میں خلل ڈال کر کینسر کے خلیوں کو مار ڈالا، وہ اس قسم کے اثرات کیسے دکھا سکتا ہے؟
پیٹر جونز نے اس پر کام جاری رکھا اس دوران وہ جنوبی افریقہ سے جنوبی کیلیفورنیا یونیورسٹی منتقل ہوئے۔ دو سال بعد ، اس نے اور اس کے پی ایچ ڈی کے طالب علم شرلی ٹیلر نے دکھایا کہ 5-ایزاسائٹیڈین کے ساتھ کلچر شدہ سیل لائنوں نے صرف پٹھوں کی تشکیل نہیں کی۔ وہ خلیات کی دوسری اقسام بھی تشکیل دے سکتے ہیں۔ ان میں چربی کے خلیات (اڈیپوسائٹس) اور دوسرے خلیات شامل تھے جن کو کانڈروسائٹس کہتے ہیں جو کارٹلیج پروٹین تیار کرتے ہیں۔
پیٹر جونز نے اپنے پیپر می یہ تجویز کیا کہ دراصل 5-ایزاسایٹیڈین صرف پٹھوں کے خلیات کیلئے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ خلیات کو واپس پلوریپوٹنٹ حالت کی طرف موڑ دیتا ہے۔ آسان لفظوں میں یہ گیند کو واڈنگٹن ایپی جینیٹک لینڈ سکیپ پر بہت پیچھے دھکیل دیتا ہے اور وہ دوبارہ نیچے آتے ہوئے کسی اور راستے میں سفر کرتے ہوئے ایک الگ منزل پر پہنچتی ہے۔
لیکن ابھی تک ہمارے پاس کوئی تھیوری نہیں تھی کہ یہ کمپاونڈ غیرمعمولی اثرات کیوں ظاہر کر رہا ہے۔ پیٹر جونز اسکے بارے میں دلچسپ کہانی خود سناتے ہیں۔ وہ اس وقت جنوبی کیلیفورنیا یونیورسٹی میں پیڈیاٹریکس ڈیپارٹمنٹ میں کام کررہے تھے لیکن وہ اسکے ساتھ ساتھ بائیو کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنے کے بھی خواہشمند تھے۔ اس اضافی عہدے کیلئے انہیں انٹرویو دینا پڑا۔ دوران انٹرویو 5-ایزاسائٹیڈین کے متعلق سوال پر انھوں نے بتایا کہ کوئی نہیں جانتا کہ یہ کمپاونڈ خلیےکی پلوریپوٹنسی پر کیوں اثرانداز ہوتا ہے۔ انٹرویو کمیٹی میں موجود اسی یونیورسٹی کے ایک سائنسدان پیٹر سٹیلویگن نے ان سے پوچھا ” کیا آپ نے ڈی این اے میتھائی لیشن کے بارے سوچا ہے؟” اسکے جواب میں پیٹر جونز نے تسلیم کیا کہ نہ صرف انھوں نے اسکے بارے سوچا نہیں بلکہ وہ اسکا نام بھی پہلی بار سن رہے ہیں۔
پیٹر جونز اور شرلی ٹیلر نےفوراً ڈی این اے میتھائی لیشن پر اپنی توجہ مرکوز کی اور یہ پتہ لگا لیا کہ ڈی این اے میتھائی لیشن ہی 5-ایزاسائٹیڈین کے اثرات کی بنیادی وجہ تھی۔ یہ ڈی این اے میتھائی لیشن کو ختم کررہا تھا۔ انھوں نے اس سے ملتے جلتے مرکبات تیار کئیے اور انکے اثرات سیل کلچر پر دیکھے۔ جو مرکبات ڈی این اے میتھائی لیشن کو متاثر کررہے تھے وہ 5-ایزاسائٹیڈین سے ملتے جلتے اثرات فینوٹائپ یعنی ظاہری خصوصیات پر ظاہر کررہے تھے۔ اور جو ڈی این میتھائی لیشن پر اثرانداز نہیں ہورہےتھے انکے اثرات فینوٹائپس پر بھی موجود نہیں تھے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...