1978ء میں لکھا گیا میرا پہلا افسانہ
کب تلک چھائی رہے گی یونہی اندھی روشنی
کب تلک حیدرؔ رہیں گے ان اندھیروں کے عذاب
۔۔۔۔۔اندرداخل ہوتے ہی میری آنکھیں چندھیا کررہ گئی ہیں۔ ہر طرف روشنی کا سیلاب پھیلاہواہے۔ دیواروں پر بڑے بڑے آئینے نصب ہیں جو روشنی کے سیلاب کی شدت میں مزید اضافہ کررہے ہیں۔ میں نے عجیب سے خوفزدہ انداز میں اس کے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑلیاہے۔ مجھے محسوس ہوتاہے کہ میں اندھا ہوگیاہوں۔ جب بینائی کام نہ کرے تو اندھے پن کا احساس قدرتی بات ہے مگر میری تو آنکھیں بھی بالکل ٹھیک ہیں، ان کی بینائی بھی قائم ہے پھر مجھے اندھے پن کا احسا س کیوں ہورہاہے؟
وہ ایک میز پر کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی ہے اور مجھے بھی بیٹھنے کے لئے کہہ رہی ہے۔ مجھے اپنی کرسی بھی نظر آرہی ہے مگر اندھے پن کا احساس بھی بدستور موجودہے۔
میں کرسی پر بیٹھ گیاہوں اور اب آنکھیں پھاڑپھاڑ کر چاروں طرف دیکھ رہاہوں۔
ہال میں اچانک موسیقی کا ایک شور سا اٹھاہے۔ عجیب بے ہنگم سی موسیقی ہے۔ سارا ہال ا س کی لے پر تھرک رہاہے۔
وہ میری طرف دیکھتی ہے اور پھر مجھے جیسے گھسیٹتے ہوئے ہال کے وسط میں لے آتی ہے۔یہاں اور بھی کئی جوڑے ناچ رہے ہیں اور اب میں بھی اس کے اشاروں پر ناچ رہاہوں۔ لیکن ’’میں‘‘ تو ابھی تک اُس کرسی پر گم سم بیٹھا ہوا ہوں بلکہ ’’میں‘‘ نے کرسی کے بازؤں کو اس طرح مضبوطی سے تھام رکھاہے جیسے انہیں چھوڑدیاتو ہوا میں اُڑجاؤں گا۔یا کسی بھیڑ میں گم ہوجاؤں گا، غالبا ً میں اندھیروں کاباسی ہوں اور شاید اسی لئے روشنی کے اس سیلاب میں ڈبکیاں کھارہاہوں۔۔۔۔۔ میرے حواس کھوگئے ہیں۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنا دَم گھٹتا محسوس ہورہا ہے۔۔۔۔۔ اب کرسی بھی ہچکولے کھارہی ہے، جیسے اس نے بھی مجھے اس سیلاب میں ڈوبنے سے بچانے سے انکارکردیاہو۔ میرے چاروں طرف دائرے سے ناچ ر ہے ہیں۔
موسیقی کاشور بڑھ گیاہے۔
دائروں کے رقص کی رفتارتیز ہوگئی ہے۔روشنیوں کی چمک کچھ اور بڑھ گئی ہے اورمیرے اندھے پن میں کچھ اور اضافہ ہوگیاہے، مجھے یوں محسوس ہوتاہے کہ میں کسی تاریک غار میں دوڑتاجارہاہوں۔ ہزاروں آسیب میرے تعاقب میں ہیں، اچانک مجھے ٹھوکر سی لگتی ہے۔
’’دیکھواحتیاط کرو۔ میرا مذاق نہ بناؤ‘‘
۔۔۔۔۔اس کی آواز نے مجھے چونکادیاہے۔ میں غارسے نکل کر واپس ہال میں پہنچ گیاہوں اور اب پھر سنبھل کررقص میں اس کا ساتھ دینے کی کوشش کررہاہوں لیکن ’’میں‘‘ تو ابھی تک اُس کرسی پر بیٹھا ہواہوں۔ پھر اس کے ساتھ رقص کون کررہاہے؟ رقص بھی میں ہی کررہاہوں۔
پھر میں کہاں ہوں؟
میں رقص کررہاہوں یا کرسی پر بیٹھا ہوں؟
کرسی پر بیٹھا ہوا’’میں‘‘کھڑا ہوگیاہے۔وہ مجھے بلارہاہے۔
’’واپس لوٹ آؤ
شجرممنوعہ کی داستان نہ دہراؤ۔ واپس لوٹ آؤ۔ جنت سے نکل کر تو زمین پر آگئے تھے۔ زمین سے نکال دیئے گئے تو کوئی ٹھکانہ نہیں ملے گا۔۔۔۔۔ اس حوّاکو چھوڑدو۔۔۔۔۔واپس لوٹ آؤ‘‘
’’میں‘‘پھر کرسی پر بیٹھ گیاہے۔
میں بے اختیارکرسی پر بیٹھے ہوئے ’’میں‘‘ کی طرف بڑھتاہوں۔ کرسی پر بیٹھا ہوا’’میں‘‘ پھر کھڑاہوگیاہے۔ ہم دونوں بغل گیر ہوتے ہیں اور وہ میرے اندر چھپ جاتاہے موسیقی کا بے ہنگم شور جاری ہے۔ رقص بھی جاری ہے۔
’’وہ شاید کوئی دوسرا ساتھی ڈھونڈ چکی ہوگی ‘‘میں یہ سوچتے ہوئے اُدھر دیکھتا ہوں۔
مگر وہ تومیرے سامنے بیٹھی ہے۔
اس کے چہرے پر جھنجھلاہٹ اور بے بسی کے اثرات ہیں۔
’’میں تمہاری وجہ سے جنت بدرہواتھا مگر اب میں تمہاری وجہ سے زمین بدر نہیں ہوسکتا‘‘
’’میری وجہ سے۔۔۔۔۔؟‘‘اس کی آنکھوں میں حیرت ہے
’’تم شجر ممنوعہ تک لے جانے کی ذمہ دار ہو اور شجر ممنوعہ جنت سے نکلوانے کا ذمہ دار ہے‘‘
’’شجر ممنوعہ۔۔۔۔۔!گندم۔۔۔۔۔؟‘‘
’’گندم۔۔۔۔۔شاید۔۔۔۔۔!‘‘
’’کیا گندم اشجار پر اُگتی ہے؟‘‘
’’نہ میں عربی زبان جانتاہوں نہ کسی تفسیری جھگڑے میں پڑنا چاہتا ہوں (جنت میں اشجار پر ہی اُگتی ہوگی)‘‘
’’تم روشنی سے خوفزدہ ہو‘‘ اس کا لہجہ خاصا تلخ ہوگیاہے،
’’پہلے بھی تمہارے ایسے ہی طعنوں نے مجھ سے گناہ کرایاتھا‘‘
گندم میں نے نہیں کھلائی تھی‘‘وہ چیخ پڑتی ہے،
’’میں پھر کہتاہوں کہ میں جھگڑنانہیں چاہتا‘‘
’’تم نے گندم کی تہمت میرے سر کیوں لگائی؟‘‘
’’میں دوبارہ فریب میں نہیں آناچاہتا‘‘
’’فریب!۔۔۔۔۔مرد عورت کے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔۔۔۔‘‘ اس کے لہجے میں بلا کا طنز ہے۔۔۔۔۔‘‘ اپنی عیاشی کا سامان بھی پورا کرتاہے اور اپنی ساری غلطیوں کا بار بھی عورت ہی پر ڈالتارہتاہے‘‘
’’لیکن گندم۔۔۔۔۔‘‘
’’سنو!‘‘۔۔۔۔۔وہ چلّاتے ہوئے بولتی ہے’’گندم کی ہیَت پر غور کرو اور اپنی اس کمزوری پر بھی غور کرو جس کے بغیر تم نہیں رہ سکتے۔ بڑے بڑے تجردپسند بھی جس کے لئے بالآخر مجبور ہوگئے‘‘
’’تم فحش اور ننگی باتیں کررہی ہو‘‘
’’سچ کا کوئی لباس نہیں ہوتااسی لئے ننگا نظر آرہاہے‘‘
اس کا لہجہ بے حد زہریلا ہے اور میں ایک بار پھر اندھے پن کے احساس میں کھوگیاہوں۔
’’اندھیروں کے باسی تم اب بولتے کیوں نہیں‘‘
۔۔۔۔۔اچانک ساری روشنیاں گل ہوگئی ہیں اور مجھے یوں محسوس ہوتاہے جیسے میرا اندھاپن ختم ہوگیاہے، وہ گھبراکرمیرے قریب ہوجاتی ہے۔
’’تم جس مصنوعی روشنی کی باسی ہو اس کا طلسم ٹوٹ جائے تو پھر دیکھ لو کیا ہوتاہے‘‘
میں اس سے یہ کہنا چاہتاہوں لیکن کہہ نہیں سکتا کیونکہ روشنیاں پھر آگئی ہیں۔ میرا اندھاپن بھی آگیاہے۔
۔۔۔۔۔اب ہماری میز پر ایک اجنبی بھی موجود ہے اجنبیت کے باوجود ہمیں اس میں اپنائیت کااحساس ہوتاہے۔ ’’شاید میں آپ لوگوں کی بحث کو کسی حتمی نتیجے تک پہنچاسکوں!‘‘ اجنبی پر خلوص لہجہ میںکہتاہے۔
’’ہماری بحث کاموضوع جنت بدر ہونے کا سبب یعنی گندم ہے‘‘ میں وضاحت کرتاہوں۔
’’کیا واقعی تمہیں جنت بدر کرنے کا سبب گندم ہی ہے؟‘‘
’’مجھے یادتو کچھ ایسے ہی پڑتاہے ‘‘میں ذہن پر زور دیتے ہوئے بتاتاہوں۔
’’مولوی صاحبان بھی یہی بتاتے ہیں‘‘وہ میرے موقف کی تائید کرتی ہے۔
’’مجھے شک پڑتا ہے آپ نے گندم کی بجائے اس کا بھوسہ کھالیاہوگا‘‘
اجنبی کی اس بات پر ہم احمقوں کی طرح ہنستے ہیں۔
’’ذہن پر زوردیجئے۔۔۔۔۔ وہ گندم سرخ رنگ کی تو نہیں تھی؟‘‘ اجنبی سوال کرتاہے۔۔۔۔۔ پھر ایک بھرپور قہقہہ لگاتاہے اور خود بھی اس قہقہے میں گم ہوجاتاہے۔ ہم دونوں ہی جیسے نیند سے بیدارہوگئے ہیں۔’’سرخ گندم کا مطلب سمجھتی ہو؟‘‘
’’اوہ۔۔۔۔۔ اب سمجھی۔۔۔۔۔ اس کا اشارہ امریکی گندم کی طرف تھا‘‘
’’سالا کوئی کمیونسٹ معلوم ہوتاتھا‘‘
’’میں بھی یہی سوچ رہی ہوں‘‘
٭٭٭
۔۔۔۔آج صبح کے اخبارات میں قوم کو یہ نوید سنائی گئی ہے کہ قحط کے خطرے کے پیش نظر ایک دوست ملک سے طویل مدت قرض کی بنیاد پر کئی ہزار ٹن گندم خریدنے کے ایک معاہدے پر دستخط ہوگئے ہیں۔
میرے اندرکا’’میں‘‘سورج نکلنے سے پہلے ہی مرگیاہے۔
٭٭٭
میں پھر اپنی حواکو ملنے چلاگیاہوں
پھر وہی رشنیاں ہیں۔۔۔۔۔وہی موسیقی ہے اور وہی رقص ہیں۔ میری وہ کرسی اب خالی پڑی ہے۔
یہ روشنیاں اب مجھے راس آگئی ہیںاور میرا اندھاپن ختم ہوگیاہے۔
اب میں اس کے اشاروں پر نہیں ناچ رہابلکہ اسے اپنے اشاروں پر نچارہاہوں۔۔۔۔۔ لیکن یہ کیا۔۔۔۔۔؟
سامنے دیوار پرنصب آئینے میں میرے اندر کے’’میں‘‘ کی بے کفن لاش مجھے گھور رہی ہے۔
میں گھبراکرمنہ دوسری طرف پھیرلیتاہوں۔ لیکن ادھر بھی بڑا آئینہ نصب ہے اور اس میں بھی وہی منظر ہے میرے چاروں طرف میری لاشیں بکھری ہوئی ہیں اور میں سوچ رہاہوں:
’’کاش میرا وہ اندھاپن ہی لوٹ آئے‘‘
موسیقی کا شورکچھ اور بڑھ گیاہے۔
ہمارے رقص کی رفتار تیز ہوگئی ہے۔
لیکن ہمارے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی ہے۔ ہم بے زمین ہوگئے ہیں۔
صرف اپنی لاشوں پر کھڑے رقص کررہے ہیں۔
روشنیاں تیز ہوگئی ہیں۔
موسیقی کا شور مزید بڑھ گیاہے
اور رقص کی رفتار مزید تیز ہوگئی ہے۔
تیز۔۔۔۔۔تیز۔۔۔۔۔اور تیز
روشنیاں موسیقی اور رقص
بے زمین لوگوں کا اپنی لاشوں پر رقص!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...