رحیم انجان(کینیڈا)
بیرونی دروازے کے تالے میں چابی گھمائے جانے کی آواز سن کرمیں نے چونک کر گھڑی کی طرف دیکھا۔صبح کے پانچ بجے کا عمل تھا۔ ’’ او مائی گاڈ ‘‘ کہتے ہوئے میرے چہرے پر شرمندہ سی مسکراہٹ بکھر گئی۔جیسے میں کوئی چوری کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہوں۔فیصل آنکھوں سے نیند چھلکاتا ہوا گھر میں داخل ہوا ، وہ رات کی شفٹ میں کام کر کے آیا تھا۔اُس نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور کہا۔’’ آپ ابھی تک جاگ رہے ہیں۔۔؟‘‘ میں نے اپنے سامنے رکھے کاغذات کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔’’ کچھ پروف ریڈنگ کا کام تھا ، جس میں لگ کے وقت کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہو سکا۔۔‘‘
’’ اتنی ہی محنت اگر آپ کسی اور کام ۔۔۔‘‘ میری آنکھوں میں دُکھ کی پرچھائیاں دیکھ کر فیصل نے اپنا جملہ نامکمل چھوڑ دیا اور وضاحتی لہجہ ختیار کرتے ہوئے کہا۔’’ میرا مطب ہے ، آپ کو کھانے کا ہوش ہے ، نہ سونے کا اور نہ ہی اپنی صحت کا،آپ ایک ایسے کام پر محنت کر رہے ہیں ، جس کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ اندھوں کے شہر میں آئینے بنانے سے کیا فائدہ۔۔؟
’’ لیکن۔۔۔‘‘ میں نے کچھ کہنا چاہا، لیکن فیصل نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا۔’’ دنیا کی ساری زبانوں میں اُردو سب سے زیادہ بد نصیب زبان ہے کہ جس کے وارث اسے خرید کر پڑھنا پسند نہیں کرتے۔۔‘‘
فیصل (جسے ہم گھر میں پیار سے مون کہتے ہیں)۔۔میرا بھتیجا ہے۔میرے انتہائی عزیز بھائی کی نشانی۔۔مجھے اُس کے ادبی ذوق اور تخلیقی صلاحیتوں پر بڑا اعتماد ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم دونوں اکثر دوستوں ہی کی طرح بات کر لیتے ہیں۔آج بھی جب مجھ سے اس کی بات کا کوئی معقول جواب نہ بن پڑا تو میں نے زچ ہونے والے انداز میں کہا۔’’ یار چھوڑو بھی ، اور یہ دیکھو۔! پاکستان کے ’’گولڈن جوبلی نمبر‘‘ کے لئے یہ ٹائٹل کیسا رہے گا۔۔؟ میرے چہرے پر ایک اعتماد بھری فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔
’’ میں دیکھ چکا ہوں۔‘‘ فیصل کے اندر کا نقاد بیدار ہو کر اُس کی آنکھوں سے تانک جھانک کرنے لگا۔اُس نے سرسری نظر سے ٹائٹل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ بابائے قوم کی بہت ہی نایاب تصویر ہے ، جسے پینٹ کرنے کیلئے بڑی اعلیٰ فنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا گیا ہے اور ٹائٹل پر چاروں صوبوں کی تہذیبی جھلکیوں کے باڈر نے اسے چار چاند لگا دئے ہیں ، لیکن۔‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ میں نے تجسس بھری نظروں سے فیصل کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’ مون بیٹا ! بولو ، بولو ، لیکن کیا۔۔؟
’’ آپ نے یہ تصویر رنگین کیوں بنوائی ہے۔۔؟
’’ فیصل !‘‘ میں نے دکھ بھری حیرت کے ساتھ فیصل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔’’ بھئی ! یہ پاکستان کا’ گولڈن جوبلی نمبرہے۔۔‘‘
’’ وہ تو ٹھیک ہے ، پاکستان کا’ گولڈن جوبلی نمبر‘ توہے یہ۔۔‘‘ فیصل نے اپنے لہجے میں ملائمت پیدا کرتے ہوئے کہا۔’’ لیکن آپ اِس کا خرچہ کہاں سے پورا کریں گے۔؟ ‘‘ اُس کے اس سوال کا جواب میرے پاس تھا، مگر میں اپنے جواب پر کوئی منفی تنقید سن کر وقت سے پہلے ہی مایوس نہیں ہونا چاہتا تھا، میں نے سوچ رکھا تھا جو میگزین مفت میں آٹھ ہزار کے قریب اُٹھ جاتا ہے ۔ رنگین ٹائٹل ، معیاری مضامین اور افسانوں کے ساتھ نوئے سینٹ فی کاپی کے حساب سے، کیا دو تین ہزار کے قریب بھی نہیں اُٹھے گا۔؟ اپنے سوال کے جواب میں مجھے خاموش پا کر فیصل اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ میں بھی تھکے تھکے انداز میں کاغذ سمیٹنے میں لگ گیا۔ فجر کی نماز پڑھنے کیلئے میری بیوی کے اُٹھنے کا وقت ہو رہا تھا۔میں اُس کے جاگنے سے پہلے ہی سو جانا چاہتا تھا۔
میرے سبھی گھر والے ’’ملاقات‘‘ کی اشاعت کی مخالفت پر کمر بستہ تھے۔اُن سب کی ایک ہی رٹ تھی۔’’اتنی محنت اگر آپ کسی اور کام پر کریں تو اچھے خاصے پیسے بنا سکتے ہیں۔
ایک دن تو گھر بھر میں میرے خلاف اچھا خاصا ہنگامہ ہو گیا۔ہوا یوں کہ میں کچھ اشتہاروں کے سلسلے میں کہیں باہر گیا ہوا تھا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی بیوی نے ایک فون میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔’’ یہ صاحب عید کے شمارے کیلئے آپ کو پورے صفحے کا اشتہار دینا چاہتے ہیں۔‘‘ میں نے خوشی خوشی اُس نمبر پر فون کیا اور یہ جان کر کہ وہ ہنڈی کا کاروبار کرنے والے لوگ ہیں، اشتہار لینے سے انکار کر دیا۔ بس پھر کیا تھا۔ سارا گھر ایک طرف او ر میں تن و تنہا ایک طرف ، جس کی بات سننے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں تھا۔ بس ایک فیصل تھا جو ایک کونے میں اپنے سامنے چائے کان پیالہ رکھے خاموش بیٹھا میری طرف دوستانہ نظروں سے دیکھتے ہوئے مسکرائے جا رہا تھا۔ بیوی نے اُس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔’’ مون ! تم بھی تو کچھ بولو، کیا تمہارے چچا کو اِس اشتہار سے انکار کرنا چاہیے تھا۔۔؟‘‘اُس نے شرارت بھری نظروں سے اپنی چچی کی طرف دیکھتے ہوئے ۔’’ بالکل بھی نہیں۔‘‘ کہنے کے بعد ، فیصل نے میری طرف دیکھا اور کسی کامیاب سفارت کار کی طرح اپنا کانٹا بدلتے ہوئے کہا۔’’ ماں! (وہ چچی کو ماں اور مجھے ڈیڈ کہہ کرمخاطب کرتا ہے۔’’ ڈیڈ بے چارے بھی کیا کریں۔ ’’پاکستان دوستی‘‘ کو اِنہوں نے شروع ہی سے اپنی ادارتی پالیسی کا حصہ بنا رکھا ہے۔اب آپ ہی بتائیں، اپنی اِس ادارتی پالیسی کے ساتھ یہ ہنڈی کا اشتہار کیسے شائع کر سکتے ہیں۔ ؟ فیصل نے چند لمحے سوالیہ نظروں سے ماں کی طرف دیکھنے کے بعد کہا۔’’آپ کو تو اِس اشتہار کے بارے میں آج اتفاقیہ معلوم ہو گیا ہے۔ یہ تو شروع ہی سے ہنڈی کے اشتہاروں سے انکار کرتے آ رہے ہیں۔‘‘اُس کی اِس بات کے جواب میں بیوی نے کیا جواب دیا، میں سنے بغیر ہی ڈائنگ ٹیبل سے اُٹھ کے اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔
میں اڑھائی تین برس پرانی باتوں میں گم تھا کہ میرے حواس پر نیند نے اپنی زلفیں بکھیر کے میری سوچوں کا تسلسل توڑ دیا اور میں نے یہ سوچتے ہوئے خود کو نیندکے حوالے کر دیا کہ صبح پریس بھی جانا ہے۔
میری تین چار ماہ کی محنت رنگ لائی اور پاکستان کا گولڈن جوبلی نمبر چھپ کے مارکیٹ میں آ گیا جسے ادب سے لگاؤ رکھنے والے لوگوں نے بہت پسند کیا۔اُن کا کہنا تھا کہ اتنے محدود وسائل کے ساتھ اِس سے بہتر گولڈن جوبلی نمبر شائع ہوہی نہیں سکتا تھا۔ بشیر خان ہمارے شہر کے ایک معتبر ٹی۔وی پروگرام پر ڈیوسر ہیں۔انہوں نے بھی ’’ملاقات‘‘ کے گولڈن جوبلی نمبر کی اپنے پروگرام میں اچھی خاصی تعریف کی اورمجھے ، جیسے اپنی محنت کا پھل مل گیا، میں بہت خوش تھا۔۔
ایک دن میں جیرارڈ اسٹریٹ( ٹورونٹو کا انڈین بازار ) پر پان کی ایک دوکان پر کھڑا تھا کہ ایک صاحب آئے۔اُنہوں نے دوکاندار سے پانچ پان بنانے کیلئے کہا۔اور ہاتھ بڑھا کر ’’گولڈن جوبلی نمبر ‘‘ کی ایک کاپی اُٹھا لی۔وہ مجھے نہیں جانتے تھے ۔ انہوں نے جی بھر کے ’’گولڈن جوبلی نمبر‘‘ کی تعریف کی۔یہاں تک کہ جتنی دیر دوکاندار پان بناتا رہا وہ الٹ پلٹ کر گولڈن جوبلی نمر کو دیکھتے اور اُس کی تعریف کرتے رہے۔’’ اِس میگزین میں پڑھنے کا مواد تو ہمیشہ ہی اچھا ہوتا ہے لیکن اِس بار تو بابائے قوم کی فل کلر میں تصویر اور تصویر کے گرد چاروں صوبوں کی تہذیبی جھلکیوں کا باڈر شائع کر کے رحیم انجان صاحب نے خوب پیسہ خرچ کیا ہے۔‘‘ اُن کے پان بن گئے تو انہوں نے ’’ گولڈن جوبلی نمبر ‘‘ کو بغل میں دباتے ہوئے اپنے والٹ سے پانچ ڈالر کا نوٹ نکال کر دوکاندار کی طرف بڑھا یا تو دوکاندار نے کہا۔’’ جناب نوے سینٹ اور دیجئے ۔۔‘‘اُن کے ماتھے پر بل پڑ گئے اور انہوں نے نوئے سینٹ کیلئے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے دوکاندار سے پوچھا۔ ۔’’ کیا پان کی قمت بڑھا دی ہے آپ نے۔؟‘‘ دوکاندار نے جواب دیا۔’’ پان کی قیمت تو وہی ہے، البتہ اِس بار اِس خصوصی نمبر کی قیمت نوئے سینٹ رکھی گئی ہے۔‘‘دوکاندار کا یہ جواب سن کر اُنہوں نے ایک لمبی سی ’’ او وو۔۔‘‘ کے ساتھ گولڈن جوبلی نمبر واپس رکھ دیا اور مُنہ میں پان رکھتے ہوئے چلتے بنے۔۔
اِس واقعہ نے مجھے بہت متاثر کیا۔میں تمام رات اپنی تین ماہ کی محنت کو صفحہ بہ صفحہ دیکھتا رہا کہ آ خر اِس میں کیا کمی رہ گئی ہے جو ایک پڑھا لکھا آدمی اِس کی اتنی دیر تعریف کرنے کے باوجود اس کے لئے صرف نوئے سینٹ تک دینے کیلئے بھی تیار نہیں ہوا۔؟ اُس رات میں ایک لمبی پرواز لے کر پاکستان پہنچ گیا۔ راولپنڈی کے صدر بازار (جہاں کبھی پاکستان ٹائمز کا آفس ہوا کرتا تھا) میں ایک کتابوں کی دوکان ہوا کرتی تھی۔جس کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ بہت ہی معیاری کتابیں انتہائی سستے داموں پر فراہم کیا کرتے تھے۔میں کچھ کتابوں کی تلاش میں خاص طور پر وہاں پہنچا۔ اُس دوکان کی جگہ ایک تکے کباب کی دوکان دیکھ کر یہ سمجھا کہ وہ کہیں کسی بڑی جگہ پر منتقل ہو گئے ہوں گے۔لیکن اڑوس پڑوس کے پرانے دوکانداروں سے یہ جان کر مجھے بہت دکھ ہوا کہ وہ دوکان خسارے کا شکار ہو کر ختم ہو چکی ہے۔
میں اپنی ناکا میوں کا الزام حالات یا مختلف حیلوں بہانوں سے دوسروں پر رکھنے کا مریض نہیں ہوں، میں اپنی ناکامی کا الزام ، اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور محنت کی کمی پر رکھتے ہوئے،خود میں مزید محنت کرنے کی ہمت پھونکتا رہتا ہوں اور اپنی ہر ناکامی کے پیچھے اپنی کوتائیاں تلاش کرنے کی کوشش کیا کرتا ہوں۔ لیکن پان کی دوکان پر پیش آنے والے واقعہ اور ڈیڑھ دو برس پہلے پنڈی کے صدر بازار میں کتابوں کی دوکان کی جگہ تکے کبابوں کی دوکان کے قیام والے قصے نے میری سوچ کا رخ ہی موڑ دیا۔
’’ اتنی ہی محنت اگر آپ کسی دوسرے کام پر کر یں تو آپ اچھے خاصے پیسے کما سکتے ہیں۔۔‘‘یہ جملہ کسی ’’ریکنگ بال‘‘ کی طرح آہنی جذبوں پر مشتمل میری پہاڑ جیسی شخصیت کو توڑنے پھوڑنے لگا۔میں نے اس جملے سے بچنے کیلئے اپنی زندگی کو دو شفٹوں میں بانٹ دیا۔ایک شفٹ ٹی۔وی دیکھنے یا پڑھنے کیلئے اور ایک لمبی تان کر سونے کیلئے۔ ایک قومی ادارے نے گولڈن جوبلی نمبر کا Back Pageفل کلر کے ساتھ ایک ہزار ڈالر میں خریدا تھا اور بعد میں پیسے دینے سے انکار کر دیا تھا۔جس انکار کے سبب پریس کے میری طرف طرف بارہ سو ڈالر کے قریب بقایا رہ گئے تھے۔قومی ادارے کے مینجر کے انکار اور پان کی دوکان والے واقعہ نے مل کر مجھے مایوسیوں کے اندھیروں میں دہکیل دیا تھا۔ یہاں تک کہ وقت کے کتنے ہی چھوٹے بڑے پیمانے ، میں نے بن پیئے ہی خود پر سوار مایوسیوں کی کیفیت کے دامن میں انڈیل دئے ۔
’’بھئی ! کہاں ہو ۔۔؟‘‘ میرے دوست احباب فون کر کے پوچھتے۔’’نہ ہی خود نظر آ رہے اور نہ ہی تمہارا ’ملاقات‘۔۔۔ ‘‘
’’ کچھ دنوں سے بیمار پڑا ہوں۔۔‘‘ میں اپنی بیماری کا عذر پیش کر دیتا۔دو ہی مہینوں میں ، اپنی فرضی بیماری کے ذکر اور دو شفٹوں میں بے مقصد سی زندگی سے بھی میں تنگ آگیا۔روز مرہ کے کاموں سے مُنہ موڑ کے بیٹھ جانے کے سبب اندھیروں کی چھوٹی چھوٹی دیواریں، پھل پھول کے پہاڑ بن چکی تھیں۔ایک دن میں نے اپنی بکھری ہوئی ہمتوں کو یکجا کرتے ہوئے اپنے ٹیبل کی طرف دیکھا ،جہاں بڑی بے ترتیبی سے بکھرے ہوئے کاغذات کا ایک انبار لگا ہوا تھا۔جس کی طرف دیکھتے ہوئے میں نے سوچا۔۔’’اندھیروں کے اِس پہاڑ کو ، کہاں سے کاٹنا شروع کروں ۔۔؟ میرے دل و دماغ سے کم ہمتی اور مایوسیوں کے بادل اُٹھ اُٹھ کر ، مجھ پر حملہ آوّر ہونے لگے، جن کا شکار ہو کر میں گم سم سا ہو کر پھر سے بستر میں دبک گیا۔۔ پھر ایک دن ، ٹی۔وی کے سامنے بیٹھے بیٹھے اچانک ٹی۔وی بند کر کے میں کھڑ ہو گیا۔
’’ دت تیرے کی ۔۔‘‘ میں نے خود کو کوستے ہوئے سوچا۔’’ یہ بھی کوئی بات ہوئی،ایک آدمی کے انفرادی روّیے سے مایوس ہو کر تم ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گئے ہو ، اگر تمہاے ایک قومی ادارے کے مینجر نے ، تمہارا بل دینے سے انکار کر دیا ہے تو لعنت بھیجو اُس پر، وہ سالا تو تھا ہی چور۔ تمہارے سامنے اُس پر محکمانہ آ ڈیٹرز کی ٹیم بیٹھی اور وہ شہر سے ذلیل و خوار ہو کے نکلاہے ۔ ‘‘ میرے خون میں حرارت کی اک لہر سے دوڑ گئی ، میں نے اک نئے عزم و استقلال کے ساتھ اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ اُٹھو ! اور اپنے ہاتھوں میں پڑی ہوئی مایوسیوں کی ہتھکڑیوں کو کاٹ دو۔۔‘‘دیکھتے ہی دیکھتے چند ماہ سے، مجھے اپنی آ غوش میں دبوچے ہوئے کم ہمتی اور مایوسی کے اندھیروں کے پہاڑ ،روئی کے گالوں کی طرح کٹ کٹ کر فضا میں بکھرنے لگے۔یہاں تک کہ مجھے اپنے سر پر آسماں اور آگے بڑھنے کیلئے راستہ نظر آنے لگے۔۔
دیکھتے ہی دیکھتے میری ٹیبل پر بے ترتیبی سے بکھرے ہوئے کا غذات کا انبار صاف ہو گیااور ’’ ملاقات‘‘ ایک بار پھر مارکیٹ میں نظر آنے لگا۔میرے دوستوں نے ، مجھے صحت یاب ہو کر روز مرہ کی زندگی کے دھارے میں شمولیت پر مبارکبادی کے فون کئے اور میں اپنے میگزین پر پہلے سے بھی زیادہ محنت کرنے لگا۔
مارچ کا مہینہ تھا اور شہر میں قرار دادِ پاکستان کی تقریبات کا ایک میلہ لگا ہوا تھا۔کہیں تیس پچاس ڈالر کی ٹکٹ پر ڈنر ہو رہے تھے تو کہیں میلے۔چو نکہ میلے کی ٹکٹ ذرا کم تھی اس لئے میں ایک میلے میں چلا گیا۔میں نے دیکھا کہ اُس میلے میں ایک کتابوں کا سٹال بھی ہے۔جس پر لوگوں کا اچھا خاصا ہجوم ہے ،کتابوں کی دوکان پر ہجوم دیکھتے ہوئے یہ سوچ کر مجھے بہت خوشی ہوئی کہ اگر مال صاف ستھرا اور معیاری ہو تو شہر میں صاحبِ ذوق لوگوں کی کمی نہیں ہے۔‘‘ میں اُس بک سٹال کے مالک کوجانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ اپنے سٹال پر بڑی معیاری اور دنیائے اسلام کے سبھی قد آوّر علمائے دین اور مورخین کی کتابیں رکھتے ہیں۔میں خوشی خوشی بک سٹال کی طرف بڑھنے لگا۔بک سٹال کے قریب پہنچ کر یہ دیکھنے کے بعد کہ وہ ہجوم بک سٹال کے پڑوسی سٹال پر حلیم نان خریدنے والوں کا ہے۔مجھے دُکھ کے بجائے اِک گوناگوں خوشی و مسرت ہوئی ، میں اپنے میگزین کی ناکامی کا الزام اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر رکھتا چلا آ رہا تھا۔اُج میں نے خود کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔’’ رحیم انجان !تم توخواہ مخواہ اپنی ناکامیوں کا دوش، اپنی محنت اور صلاحیتوں پر رکھ کے خود کو ہلکان کرتے رہتے ہو۔اُس بک سٹال پر رکھی ہوئی کتابوں کے معیار کو دیکھو اور اِکا دکا خریداروں کے مقابلے میں ،حلیم نان کی دوکان پر ہجوم کو دیکھو۔اُس دن مجھ پر اپنی ناکامیوں کے راز کا کھل جانا ہی ، میری منزل بن گیا۔میں نے اپنی محنت اور لگن پر تمسخرانہ انداز میں ہنستے ہوئے سوچا۔ایسے کام پر محنت اور خرچ کرنے سے کیا فائدہ جس کا کوئی پرسانِ حال ہی نہ ہو ، اگر محنت ہی کرنی ہے تو کہیں حلیم نان کی دوکان کھول لو،نان چھولے بیچنے شروع کر دؤ۔ اُس رات میں بڑی مدت کے بعد سکون کی نیند سویا، جیسے کوئی مسافر اپنی منزل پر پہنچ کر لمبی تان کے سوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ حضرت عمرؓ ابنِ خطاب کا قول ہے۔’’ میرا بہترین دوست وہ ہے جو میرے عیب ،مجھے تحفے میں بھیجتا ہے۔‘‘ اگر آپ اپنی تحریر کو اپنے قارئین میں کسی عزت مندانہ مقام پر پہنچانا چاہتے ہیں تو اپنے مخلص دوستوں کی تنقید کو اہمیت دینا سیکھیں اور مسئلہ اس بات کو نہ بنائیں کہ کیا لکھا جائے۔۔؟ مسئلہ اس بات کو بنائیں کہ کیا نہ لکھا جائے۔۔؟
مکمل ذات اللہ سبحان و تعالی کی ہے۔عقلِ کل کا دعویٰ کوئی بھی ذی الشعور انسان نہیں کر سکتا اور جو کرتا ہے،اُس پر ترقی کے راستے بند ہو جاتے ہیں۔ تعمیری تنقید کو ہمیشہ خندہ پیشانی سے لینا چاہیے اور اپنی کسی غلطی پر نہ صرف شرمندہ ہونا چاہیے اُس سے کچھ سیکھنا بھی چاہیے۔ورنہ ؤایسی شرمندگی کس کام کی۔؟ کہ آپ شرمندگی کا اظہار بھی کریں لیکن دل و دماغ میں زہریلے پھوڑے نہ صرف پالتے رہیں ، وقتاً فوقتاً وہ زہریلے پھوڑے ، اپنے فن پاروں میں پھوڑتے بھی رہیں۔۔۔ صحافت کے کچھ اصول ہوتے ہیں ، جن میں سے کسی کی تحریر کو ، خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہو، صاحبِ تحریر کی اجازت کے بغیر نہ چھاپنا بھی ایک بنیادی اصول ہے۔ چونکہ اُس خط میں میرے کام کی تعریف کی گئی تھی۔میں نے اُن کی اجازت کے بغیر ہی وہ خط چھاپ دیا۔ جب اُنہوں نے شکایت کی کہ آپ نے تو میرا خط چھاپنے کے لئے مجھ سے پوچھا تک نہیں ۔ تو مجھے اُن پر بہت غصہ آیا میں نے اپنے طور پر ملاقات میں اُن کا خط چھاپ کر اُنہیں عزت دی تھی اور اپنی اِس غلطی کو خاطر میں نہیں لا رہا تھا کہ میں نے اُن کا خط چھاپنے کے لئے اُن سے پوچھا تک نہیں۔ میں نے بڑے بد مزہ لہجے میں کہا۔ٹھیک ہے جناب ! میں اگلے شمارے میں معذرت چھاپ دوؤں گا۔اُنہوں نے بڑے ہی دوستانہ لہجے میں جواب دیا۔’’ ارے نہیں بھئی ! جو ہونا تھا وہ ہو گیا، اب آپ کو معذرت چھاپنے کی بالکل بھی کوئی ضرورت نہیں ہے اور اگر آپ نے معذرت چھاپی تو میں سمجھوں گا کہ آپ نے مجھے معاف نہیں کیا۔‘‘ وہ اپنے جائز اعتراض پر بھی شرمندہ شرمندہ نظر آ رہے تھے۔
وہ میری نو جوانی کا دور تھا، اپنے لکھے ہوئے کو میں کبھی تنقید ی نظر سے نہیں دیکھتا تھا۔نہ صرف یہ کہ لکھنے کے آداب سے نا واقف تھا، اِس خوش فہمی میں بھی مبتلا تھا کہ میں ایک ہی نشست میں جو چاہوں لکھ لیتا ہوں اور بہت اچھا لکھ لیتا ہوں۔میں نے اُن صاحب کے اُس دوستانہ رویے کو ،اُن کی کمزوری اور اُن کی درخواست پر معذرت نہ چھاپنے کو بھی اپنی برتری کے کھاتے میں ڈال دیا۔ لیکن مجھے اپنا یہ چھوٹا پن بالکل بھی نظر نہیں آرہا تھا کہ میرے دل و دماغ میں اُن کے خلاف زہریلے پھوڑے کسی خود رو بیل کی طرح بنتے اور میری تحریروں میں پھوٹتے رہتے ہیں۔ میں اپنی تحریروں میں اُن زہریلے پھوڑوں کے پھوٹنے کو بھی اپنی فنی صلاحیتوں سے تعبیر کیا کرتا تھا۔
(رحیم انجان کے مشہور کالم نویدِ ملاقات ’’ اپنا لکھا مٹا دینا ،بہت مشکل ہوتاہے‘‘سے اقتباس
بحوالہ اردو پوائنٹ ڈاٹ کام)