ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے کہ ۵، اگست ۱۹۸۲ء کے حوالے سے کراچی کے کم و بیش ہر اخبار نے رئیس فروغ کے انتقال کی خبر بڑے دکھ کے ساتھ شائع کی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ روح فرسا خبر پورے ملک بلکہ پڑوسی ملک بھارت میں بھی پھیل گئی اور کیوں نہ پھیلتی مرحوم نے اپنی تیکھی اور اعلیٰ چونکا دینے والی منفرد شاعری کے ذریعے بہت ہی کم مدت میں اردو ادب میں اپنا ایک خاص مقام بنا لیا تھا ان کے پر ستار ہر ایسے علاقے میں موجود ہیں جہاں اردو زبان وا دب کا تھوڑا بہت بھی ذوق اور تعلق موجود ہے۔
اگست۸۲ء میں بھارت کے شہر مراد آباد میں ’’بزم کیف‘‘ کے زیر اہتمام مرحوم کی یاد میں ایک مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں بھارت کے طول و عرض سے چوٹی کے شعراء نے شرکت کی اور مرحوم کی ادبی خدمات پر انہیں خراجِ تحسین پیش کیا تھا جن میں تابش حیدری، ماہر صدیقی، گوہر عثمان، دلشاد بزمی اور شیخ شاداب جیسی شخصیات شامل تھیں۔
فروغ صاحب کے انتقال نے ان کے دوستوں پرستاروں اور عزیزوں کو ہی غمزدہ نہیں کیا بلکہ ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے احباب اور دوست بھی اس حادثے کو نظر انداز نہ کر سکے۔ وہ ’’مجلس‘‘ کے نہیں بلکہ ’’تخلیہ‘‘ کے انسان تھے مگر ان کے فن، شاعری اور سچے جذبوں کے اظہار نے ان کے اطراف دوستوں اور چاہنے والوں کا میلہ سا لگا دیا تھا اور جب انسان ۸۲ء کے آٹھویں مہینے کی پانچویں صبح کو اچانک بڑی خاموشی سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملا تو شہر بھر میں کھلبلی سی مچ گئی۔
ہم عصر شعراء اور ادباء نے جس طرح فروغ صاحب کے فنی محاسن کا اعتراف کیا ہے اس کا ایک اجمالی جائزہ یہاں پیش کرنا بے محل نہ ہو گا۔ بر صغیر کے ممتاز ناقد پروفیسر مجتبیٰ حسین کہتے ہیں کہ ’’رئیس فروغ اپنی وضع کے ایک ہی شاعر تھے، نہ جاگے نہ سوئے ہوئے۔ اندھیرے اجالے کے درمیان چلتے ہوئے۔ یہی ان کی شاعری ہے۔‘‘ ڈاکٹر فرمان فتح پوری یوں گویا ہوئے کہ ’’رئیس فروغ غیر معمولی شاعرانہ صلاحیتوں اور تخلیقی قوتوں کے مالک تھے۔‘‘ ممتاز شاعر عبید اللہ علیم کہتے ہیں کہ‘‘اپنے پیش روؤں میں جو دو تین شاعر مجھے زیادہ اچھے لگتے ہیں ان میں ایک رئیس فروغ ہے۔ میرے خیال میں اردو شاعری خواہ کتنا ہی کڑا انتخاب کرے فروغ کا نام اسے لکھنا ہی پڑے گا۔‘‘ ممتاز ناقد انجم اعظمی نے کہا کہ ’’رئیس فروغ کے مزاج کی سادگی اور قلندری ان کی شعری تخلیق کا جادو بن گئی۔ وہ غزل کے نرم لہجے کے شاعر تھے اور اپنی نثری نظموں میں ایک نرم اور دل پذیر تاثر لیے ہوئے تھے۔‘‘
ممتاز محقق اور ماہر تعلیم ڈاکٹر جمیل جالبی کا کہنا ہے کہ ’’رئیس فروغ کی بعض نظمیں تو ایسی ہیں کہ انہیں پڑھتے ہوئے ایک دلکش آہنگ باطن کے ساز سے خود بخود ابھرنے لگتا ہے۔‘‘ ممتاز مزاح نگار شفیق الرحمن نے اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا کہ ’’رئیس فروغ جدید طرزِ احساس کے ایک منجھے ہوئے شاعر تھے اور چھوٹی بحر کی غزل لکھنے میں انہیں ملکہ حاصل تھا۔‘‘ جامعہ کراچی کے سینئر استاد پروفیسر جمیل اختر خان کہتے ہیں ’’فروغ سچائی، سادگی اور درد مندی کے ساتھ اچھے شعر کہتے تھے۔‘‘
فروغ صاحب کی بے وقت مفارقت پر ان کے دوستوں، چاہنے والوں اور ناقدین نے بہت کچھ کہا اور اپنے اپنے انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا لیکن اس مختصر مضمون میں ان سب کا احاطہ کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ میں صرف فروغ صاحب کی شخصیت، فن اور شاعری کے حوالے سے وہ باتیں کہنا چاہتا ہوں جو مرحوم کی تیرھویں برسی کے موقع پر پچھلے کئی روز سے مجھے بے چین کئے ہوئے ہیں۔ جہاں تک فروغ صاحب کی شخصیت کا تعلق ہے میں اس موضوع پر لب کشائی کی جرات بھی نہیں کر سکتا البتہ وہ جو سر سید احمد خان نے اپنے مضمون ’’آدم کی سرگزشت‘‘ میں انسان کو مختلف قویٰ کا مجموعہ قرار دیا ہے اس حقیقت اور صلاحیت کی روشنی میں بڑے وثوق اور یقین کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ ان تمام قویٰ اور جذبوں میں عفو و درگذر اور عاجزی و انکساری کا جذب فروغ صاحب کی شخصیت میں بدرجہ اتم موجود تھا اور یہی وہ حد فاصل ہے جو فروغ صاحب کو اپنی ہم عصر شخصیات سے ممتاز اور منفرد کرتی ہے۔ فروغ صاحب کی شاعری اور فن کا قدر دان تو میں نہ جانے کب سے ہوں مگر ان سے میرے براہ راست تعلق کی ابتدا ۷۶ء میں ان کی بیٹی شہناز سے میری شادی سے ہوتی ہے اس تعلق نے ان کی شخصیت کے کئی پہلوؤں سے مجھے روشناس کرایا۔ مجھے یہاں یہ اعتراف کرنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ میرے خاندان کا زبان و ادب سے کبھی کوئی واسطہ نہیں رہا اور نہ میرے سوا خاندان کے کسی بھی فرد نے شعر و ادب سے کوئی تعلق رکھا۔ اس تعلق کے بعد فروغ صاحب جب کبھی ہمارے گھر آتے تو بجائے اپنی علمیت کا سکّہ جمانے کے وہ مجھ سمیت میرے گھر والوں کی سیدھی سادی باتوں کو بھی بڑے انہماک سے سنتے انہیں اہمیت دیتے اور جواباً بہت کم بولتے۔
رئیس فروغ کی بڑائی، متانت اور علمیت کے ضمن میں اس جیسے کئی اور واقعات میرے ذہن میں محفوظ ہیں مگر ان کا بیان یہاں ممکن نہیں۔ فروغ صاحب کی عالمانہ شخصیت سے میں نے بہت کچھ سیکھا ان کے اس رویے نے مجھ میں بلا کا اعتماد اور حوصلہ پیدا کیا جو آج میرے کام آ رہا ہے۔ میں جب ان کے ہاں جاتا یا وہ ہمارے گھر آتے تو میں گھنٹوں بیٹھا ان سے تحصیلِ علم کرتا رہتا تھا۔ وہ مجھے زیادہ بولنے کا موقع دیتے اور برے فخر سے کہتے کہ ’’جمیل میاں میں اپنی بات سمجھانے کا بڑا سلیقہ موجود ہے۔‘‘ ان کے فن اور شاعری کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ ان کی صلاحیتوں کوششوں اور فن شاعری میں ان کے نت نئے تجربوں کو بھی سراہا گیا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ ابھی تک ادب بالخصوص جدید ادب میں انہیں وہ مقام نہیں مل سکا ہے جس کے وہ حقدار تھے۔ شاید یہ ادب یا زمانے کی روایت رہی ہے کہ فنکار اپنی زندگی میں یا اپنے زمانے میں وہ پذیرائی حاصل نہیں کر پاتا جو اس کا حق ہوتی ہے۔ فروغ صاحب کیسے شاعر تھے اور ادب میں ان کا کیا مقام تھا اس بحث سے مجھے کوئی غرض نہیں میں تو بس یہ جانتا ہوں کہ ان کے شاعر ہونے کو ان کے دوست اور دشمن سب مانتے تھے اور ادب میں ان کے مقام کا تعین آنے والا وقت کرے گا۔
رئیس فروغ کو چھوٹی بحر کی غزل میں ملکہ حاصل تھا :
دیا بنو اور جلتے جاؤ
پھر سایوں میں ڈھلتے جاؤ
*
زندگی یاد رکھنا کہ دو چار دن
میں ترے واسطے مسئلہ بھی رہا
انہوں نے بچوں کے لیے بھی گیت اور نظمیں لکھیں اور وہ اپنے اندر کے بچے کو بیدار کر کے بچوں میں کچھ اس طرح گھل مل جاتے کہ دوئی کا فرق مٹ جاتا اور ان کے نغمے، گیت اور نظمیں ہر بچہ اپنی ملکیت اور میراث سمجھنے لگتا ہے۔ ۷۸ء میں فروغ صاحب نے بچوں کے ٹی وی پروگرام ’’ہم سورج چاند ستارے‘‘ کے لیے جو نظمیں، گیت اور نغمے لکھے وہ آج بھی اتنے ہی مقبول اور بچوں میں زبان زد عام ہیں جتنے پروگرام کے دوران تھے بچوں کے لیے لکھے گئے ان گیتوں نظموں اور نغموں کو ایک مجموعہ کی صورت میں ۱۹۸۰ء میں شائع کیا گیا تھا جس کا نام ’’ہم سورج چاند ستارے‘‘ ہے اس مجموعہ کی ادبی حلقوں نے بڑی پذیرائی کی تھی۔
بنیادی طور پر فروغ صاحب ایک مستند غزل گو ہی تھے اور غزل ہی ان کا حوالہ، ان کی پہچان اور ان کی شاعرانہ رفعتوں کا نشان بھی ہے مگر زندگی کے آخری ایام میں انہوں نے نثری نظم کے میدان میں بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ کاش وہ کچھ عرصے اور زندہ رہ جاتے تو شاید ہمیں اور بھی بہت کچھ دے جاتے۔
فروغ صاحب مخلص دوستوں کی دولت سے بھی مالا مال تھے یہی وجہ ہے کہ ان کے انتقال کے بعد ان کے ایک نہایت مخلص دوست شمیم نوید نے ان کے مجموعہ کلام ’’رات بہت ہوا چلی‘‘ کی اشاعت کو ممکن بنایا۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...