ناگ پنچمی آئی، ساٹھے کے زندہ دل نوجوانوں نے خوش رنگ جانگھیے بنوائے اکھاڑے میں ڈھول کی مردانہ صدائیں بلند ہوئیں قرب و جوار کے زور آزما اکھٹے ہوئے اور اکھاڑے پر تمبولیوں نے اپنی دکانیں سجائیں کیوں کی آج زور آزمائی اور دوستانہ مقابلے کا دن ہے عورتوں نے گوبر سے اپنے آنگن لیپے اور گاتی بجاتی کٹوروں میں دودھ چاول لیے ناگ پوجنے چلیں۔
ساٹھے اور پاٹھے دو ملحق موضع تھے دونوں گنگا کے کنارے، زراعت میں زیادہ مشقت نہیں کرنی پڑتی تھی اس لیے آپس میں فوج داریوں کی گرم بازاری تھی۔ ازل سے ان کے درمیان رقابت چلی آتی تھی۔ ساٹھے والوں کو یہ زعم تھا کہ انھوں نے پاٹھے والوں کو کبھی سر نہ اٹھانے دیا۔ علی ہذا پاٹھے والے اپنے رقیبوں کو زک دینا ہی زندگی کا مقدم کام سمجھتے تھے۔ ان کی تاریخ فتوحات کی روایتوں سے بھری ہوئی تھی پاٹھے کے چروا ہے گیت گاتے ہوئے چلتے تھے۔
ساٹھے والے کایر سگرے
پاٹھے والے ہیں سردار
اور ساٹھے کے دھوبی گاتے:
ساٹھے والے ساٹھ ہاتھ کے جن کے ہاتھ سداتروار
ان لوگن کے جنم نسائے جن پاٹھے مان لیں اوتار
غرض رقابت کا یہ جوش بچوں میں ماں کے ساتھ داخل ہوتا تھا اور ان کے اظہار کا سب سے موزوں اور تاریخی موقع یہی ناگ پنچمی کا دن تھا۔ اس دن کے لیے سال بھر تیاریاں ہوتی رہتی تھیں۔ آج ان معرکے کی کشتی ہونے والی تھی ساٹھے کو گوپال پر ناز تھا۔ پاٹھے کو بلدیو کا غرّہ۔ دونوں سورما اپنے اپنے فریق کی دعائیں اور آرزوئیں لیے ہوئے اکھاڑے میں اترے۔
تماشائیوں پر مرکزی کشش کا اثر ہوا۔ موضع کے چوکیداروں نے لٹھ اور ڈنڈوں کا یہ جمگھٹ دیکھا اور مردوں کی انگارے کی طرح لال آنکھیں تو تجربۂ سابقہ کی بنا پر بے پتّہ ہو گئے۔ ادھر اکھاڑے میں داؤں پیچ ہوتے رہے بلدیو الجھتا تھا گوپال پینترے بدلتا تھا اسے اپنی طاقت کا زعم تھا اسے اپنے کرتب کا بھروسہ۔ کچھ دیر تک اکھاڑے سے خم ٹھوکنے کی آوازیں آتی رہیں تب یکایک بہت سے آدمی خوشی کے نعرے مار مار کر اچھلنے لگے کپڑے اور برتن اور پیسے اور بتاشے لٹائے جانے لگے کسی نے اپنا پرانا صافہ پھینکا کسی نے اپنی بوسیدہ ٹوپی ہوا میں اڑا دی۔ ساٹھے کے منچلے جوان اکھاڑے میں پل پڑے اور گوپال کو گود میں اٹھا لائے۔ بلدیو اور اس کے رقیبوں نے گوپال کو لہو کی آنکھوں سے دیکھا اور دانت پیس کر رہ گئے۔ دس بجے رات کا وقت اور ساون کا مہینہ آسمان پر کالی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں۔ تاریکی کا یہ عالم تھا گویا روشنی کا وجود ہی نہیں رہا۔ کبھی کبھی بجلی چمکتی تھی مگر تاریکی کو اور زیادہ تاریک کرنے کے لیے مینڈکوں کی آواز زندگی کا پتہ دیتی تھی ورنہ چاروں طرف موت تھی خاموش خوفناک اور متین۔ ساٹھے کے جھونپڑے اور مکانات اس اندھیرے میں بہت غور سے دیکھنے پر کالی بھیڑوں کی طرح نظر آتے تھے۔ نہ بچے روتے تھے نہ عورتیں گاتی تھیں پیران پارسارام نام بھی نہ جپتے تھے۔
مگر آبادی سے بہت دور کہیں پر شورنالوں اور ڈھاک کے جنگلوں سے گذر کر جوار اور باجرے کے کھیت تھے اور ان کی مینڈوں پر ساٹھے کے کسان جا بجا منڈیا ڈالے ہوئے کھیتوں کی رکھوالی کر رہے تھے۔ تلے زمین اوپر تاریکی میلوں تک سنّاٹا چھایا ہوا کہیں جنگلی سوروں کے غول، کہیں نیل گایوں کے ریوڑ۔ چلم کے سوا کوئی ساتھی نہیں آگ کے سوا کوئی مددگار نہیں۔ ذرا کھٹکا ہوا اور چونک پڑے۔ تاریکی خوف کا دوسرا نام ہے۔
جب ایک مٹّی کا ڈھیر، ایک ٹھونٹھا درخت اور ایک تودۂ کاہ بھی متحرک اور حساس بن جاتے ہیں تاریکی ان میں جان ڈال دیتی ہے۔ لیکن یہ مضبوط ارادے والے کسان ہیں کہ یہ سب سختیاں جھیلتے ہیں تاکہ اپنے سے زیادہ خوش نصیب بھائیوں کے لیے عیش اور تکلف کے سامان بہم پہنچائیں انھیں رکھوالوں میں آج کا ہیرو ساٹھے کا مایہ ناز گوپال بھی ہے جو اپنی منڈیّا میں بیٹھا ہوا ہے اور نیند کو بھگانے کے لیے دھیرے سروں میں یہ نغمہ گا رہا ہے۔
میں توتو سے نینا لگائے پچھتائی رے
دفعتاً اسے کسی کے پاؤں کی آہٹ معلوم ہوئی جیسے ہرن کتوں کی آوازوں کو کان لگا کر سنتا ہے اسی طرح گوپال نے بھی کان لگا کر سنا۔
نیند کی غنودگی دور ہو گئی لٹھ کندھے پر رکھا اور منڈیّا سے باہر نکل آیا چاروں طرف سیاہی چھائی ہوئی تھی اور ہلکی ہلکی بوندیں پڑ رہی تھیں وہ باہر نکلا ہی تھا کہ اس کے سر پر لاٹھی کا بھر پور ہاتھ پڑا وہ تیورا کرکرا۔ اور رات بھر وہیں بے سدھ پڑا رہا۔ معلوم نہیں اس پر کتنی چوٹیں پڑیں، حملہ آوروں نے تو اپنی دانست میں اس کا کام تمام کر ڈالا لیکن حیات باقی تھی یہ پاٹھے کے غیرت مند لوگ تھے جنھوں نے اندھیرے کی آڑ میں اپنی ہار کا بدلہ لیا تھا۔
گوپال ذات کا اہیر تھا نہ پڑھا نہ لکھا بالکل اکھڑ دماغ۔ روشن ہی نہیں ہوا تو شمع جسم کیوں کھلتی پورے چھ فٹ کا قد گٹھا ہوا بدن للکار کر گاتا تو سننے والے میل بھر پر بیٹھے ہوئے اس کی تانوں کا مزہ لیتے۔
گانے بجانے کا عاشق ہولی کے دنوں میں مہینہ بھر تک گاتا ساون میں ملہار، اور بھجن تو روزمرہ کا شغل تھا۔ نڈر ایسا کہ بھوت اور پشاچ کے وجود پر اسے عالمانہ شکوک تھے۔ لیکن جس طرح شیر اور پلنگ بھی سرخ شعلوں سے ڈرتے ہیں اسی طرح سرخ صافے سے اس کی روح لرزاں ہو جاتی تھی۔
اگر چہ ساٹھے جیسے جوان ہمّت ورسورما کے لیے یہ بے معنی خوف غیر معمولی بات تھی لیکن اس کا کچھ بس نہ تھا سپاہی کی وہ خوفناک تصویر جو بچپن میں اس کے دل پر کھینچی گئی تھی نقش کالحجر بن گئی تھی شرارتیں گئیں، بچپن گیا، مٹھائی کی بھوک گئی لیکن سپاہی کی تصویر ابھی تک قائم تھی آج اس کے دروازے پر سُرخ صافے والوں کی ایک فوج جمع تھی لیکن گوپال زخموں سے چور درد سے چور، درد سے بے تاب ہونے پر بھی اپنے مکان کے ایک تاریک گوشے میں چھپا ہوا بیٹھا تھا۔ نمبردار اور مکھیا، پٹواری اور چوکیدار مرغوب انداز سے کھڑے داروغہ کی خوشامد کر رہے تھے۔ کہیں اہیر کی داد فریاد سنائی دیتی تھی کہیں مودی کی گریہ و زاری، کہیں تیلی کی چیخ پکار، کہیں قصاب کی آنکھوں سے لہو جاری، کلار کھڑا اپنی قسمتوں کو رو رہا تھا۔ فحش اور مغلظات کی گرم بازاری تھی داروغہ جی نہایت کار گذار افسر تھے گالیوں سے بات چیت کرتے تھے۔ صبح کو چار پائی سے اٹھتے ہی گالیوں کا وظیفہ پڑھتے مہتر نے آ کر فریاد کی ہجور انڈے نہیں ہیں۔ داروغہ جی ہنٹر لے کر دوڑے اور اس غریب کا بھرکس نکال دیا۔ سارے گاؤں میں ہل چل پڑی ہوئی تھی۔ کانسٹبل اور چوکیدار راستوں پر یوں اکڑتے چلتے تھے گویا اپنی سسرال میں آئے ہیں۔ جب گاؤں کے سارے آدمی آ گئے تو داروغہ جی نے افسرانہ اور اندازِ تحکم سے فرمایا۔ ’’ موضع میں ایسی سنگین واردات ہوئی اور اس بد قسمت گوپال نے رپٹ تک نہ کی۔‘‘
مکھیا صاحب بید لرزاں کی طرح کانپتے ہوئے بولے ’’ہجور اب ماپھی دی جائے۔‘‘
داروغہ جی نے غضب ناک نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ کر کہا یہ اس کی شرارت ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ اخفاء جرم ارتکابِ جرم کے برابر ہے۔ میں اس بدمعاش کو اس کو مزہ چکھا دوں گا وہ اپنی طاقت کے زعم میں پھولا ہوا ہے اور کوئی بات نہیں۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔
مکھیا صاحب سربہ سجود ہو کر بولے۔ ’’ہجور اب ماپھی دی جائے۔‘‘
داروغہ جی چیں بہ چیں ہو گئے اور جھنجھلا کر بولے۔ ’’ارے ہجور کے بچے کچھ سٹھیا تو نہیں گیا ہے اگر کسی طرح معافی دینی ہوتی تو مجھے کیا کتّے نے کاٹا تھا کہ یہاں تک دوڑ آتا؟ نہ کوئی معاملہ نہ معاملے کی بات بس معافی کی رٹ لگا رکھی ہے۔ مجھے زیادہ فرصت نہیں ہے میں نماز پڑھتا ہوں جب تک تم صلاح مشورہ کر لو اور مجھے ہنسی خوشی رخصت کرو ورنہ غوث خاں کو جانتے ہو اس کا مارا پانی بھی نہیں مانگتا۔
داروغہ تقویٰ و طہارت کے بڑے پابند تھے پانچوں وقت کی نماز پڑھتے اور تیسوں روزے رکھتے عیدوں میں دھوم دھام سے قربانیاں ہوتیں اس سے زیادہ حسنِ ارادت کسی انسان میں اور کیا ہو سکتا ہے۔
مکھیا صاحب دبے پاؤں رازدارانہ انداز سے گور اکے پاس آئے اور بولے ’’یہ دروگا بڑا کاپھر ہے پچاس سے نیچے تو بات ہی نہیں کرتا درجہ اوّل کا تھانیدار ہے میں نے بہت کہا، ہجور غریب آدمی ہے گھر میں کچھ سبھیتا نہیں۔ مگر وہ ایک نہیں سنتا۔
گورا نے گھونگھٹ میں منہ چھپا کر کہا دادا ان کی جان بچ جائے کوئی طرح کی آنچ نہ آنے پائے روپے پیسے کی کون بات ہے اسی دن کے لیے تو کمایا جاتا ہے۔
گوپال کھاٹ پر پڑا یہ سب باتیں سن رہا تھا اب اس سے ضبط نہ ہو سکا لکڑی گانٹھ پر ٹوٹتی ہے۔ نا کردہ گناہ دبتا ہے مگر کچلا نہیں جا سکتا۔ وہ جوش سے اٹھ بیٹھا اور بولا پچاس روپے کی کون کہے میں پچاس کوڑیاں بھی نہ دوں گا کوئی گدر (غدر) ہے میں نے کسور (قصور) کیا کیا ہے۔ مکھیا کا چہرہ فق ہو گیا بزرگانہ لہجے میں بولے رسان رسان (آہستہ آہستہ) بولو۔ کہیں سن لے تو گجب ہو جائے گا۔
لیکن گوپال بپھرا ہوا تھا اکڑ کر بولا ’’میں ایک کوڑی نہ دوں گا دیکھیں کون میرے پھانسی لگا دیتا ہے۔
گورا نے ملامت آمیز لہجے میں کہا اچھا جب میں تم سے روپے مانگوں تو مت دینا۔ یہ کہہ کر گورا نے جو اس وقت لونڈی کی بجائے رانی بنی ہوئی تھی چھپّر کے ایک کونے میں سے روپیوں کی ایک پوٹلی نکالی اور مکھیا کے ہاتھ میں رکھ دی۔ گوپال دانت پیس کر اٹھا لیکن مکھیا صاحب فوراًسے پہلے سرک گئے۔ داروغہ جی نے گوپال کی باتیں سن لی تھیں اور دُعا کر رہے تھے کہ اے خدا اس مردود شقی کی تالیفِ قلب کر۔ اتنے میں مکھیا نے باہر آ کر پچیس روپے کی پوٹلی دکھائی پچیس راستے ہی میں غائب ہو گئے تھے۔
داروغہ جی نے خدا کا شکر ادا کیا دعا مستجاب ہوئی، روپیہ جیب میں رکھا اور رسد پہچانے والوں کے انبوہ کثیر کو روتے اور بلبلاتے چھوڑ کر ہوا ہو گئے۔ موذی کا گلا گھٹ گیا، قصاب کے گلے پر چھری پھر گئی، تیلی پس گیا، مکھیا صاحب نے گوپال کی گردن پر احسان رکھا گویا رسد کے دام گرہ سے دئیے گاؤں میں سرخ رو ہو گئے وقار بڑھ گیا ادھر گوپال نے گورا کی خوب خبر لی۔ گاؤں میں رات بھر یہی چرچا رہا گوپال بہت بچا اور اس کا سہرا مکھیا کے سر تھا۔ بلائے عظیم آئی تھی وہ ٹل گئی۔ پتروں نے، دیوان ہرودل نے، نیم تلے والی دیبی نے، تالاب کے کنارے والی ستی نے، گوپال کی رکھشا کی یہ انھیں کا پرتاپ تھا۔ دیوی کی پوجا ہونی ضروری تھی ستیہ نارائن کی کتھا بھی لازمی ہو گئی۔
پھر صبح ہوئی لیکن گوپال کے دروازے پر آج سرخ پگڑیوں کے بجائے لال ساڑیوں کا جمگھٹ تھا۔ گورا آج دیوی کی پوجا کرنے جاتی تھی اور گاؤں کی عورتیں اس کا ساتھ دینے آئی تھیں اس کا گھرسوندھی مٹی کی خوشبو سے مہک رہا تھا جوخس اور گلاب سے کم دل آویز نہ تھی۔ عورتیں سہانے گیت گا رہی تھیں۔ بچے خوش ہو ہو کر دوڑتے تھے۔ دیوی کے چبوترے پر اس نے مٹی کا ہاتھی چڑھایا ستی کی مانگ میں سیندور ڈالا۔ دیوان صاحب کو بتاشے اور حلوا کھلایا۔ ہنومان جی کو لڈو سے زیادہ رغبت ہے انھیں لڈو چڑھائے۔ تب گاتی بجاتی گھر کو آئی اور ستیہ نارائن کی کتھا کی تیاریاں ہونے لگیں۔ مالن پھول کے ہار، کیلے کی شاخیں اور بندھن واریں لائی۔ کمہار نئے نئے چراغ اور ہانڈیاں دے گیا۔ باری ہرے ڈھاک کے تیل اور دونے رکھ گیا۔ کمہار نے آ کر مٹکوں میں پانی بھرا۔ بڑھئی نے آ کر گوپال اور گورا کے لیے دو نئی نئی پیڑھیاں بنائیں۔ نائن نے آنگن لیپا اور چوک بنائی دروازے پر بندھن واریں بندھ گئیں۔ آنگن میں کیلے کی شاخیں گڑ گئیں۔ پنڈت جی کے لیے سنگھاسن سج گیا۔ فرائض باہمی کا نظام خود بخود اپنے مقررہ دائرے پر چلنے لگا۔ یہی نظام تمدن ہے جس نے دیہات کی زندگی کو تکلفات سے بے نیاز بنا رکھا ہے لیکن افسوس ہے کہ اب ادنی اور اعلیٰ کے بے معنی اور بیہودہ قیود نے ان باہمی فرائض کو امداد حسنہ کے رتبے سے ہٹا کر ان پر ذلّت اور نیچے پن کا داغ لگا دیا ہے۔ شام ہوئی پنڈت موٹے رام جی نے کندھے پر جھولی ڈالی، ہاتھ میں سنکھ لیا اور کھڑاؤں کھٹ پٹ کرتے گوپال کے گھر آ پہنچے۔ آنگن میں ٹاٹ بچھا ہوا تھا گاؤں کے معززین کتھا سننے کے لیے آ بیٹھے۔ گھنٹی بجی سنکھ پھوکا گیا اور کتھا شروع ہوئی۔ گوپال بھی گاڑھے کی چادر اوڑھے ایک کونے میں دیوار کے آسرے بیٹھا ہوا تھا۔ مکھیا، نمبردار اور پٹواری نے از راہ ہمدردی اس سے کہا۔
’’ستیہ نارائن کی مہما تھی کہ تم پر کوئی آنچ نہ آئی۔‘‘
گوپال نے انگڑائی لے کر کہا ستیہ نارائن کی مہما نہیں یہ اندھیر ہے۔
٭٭٭