” یہ میری مما ہیں ۔” عنایہ نے سکول کے گیٹ پہ کھڑی اپنی دوست سے اس کا تعارف کرایا ۔
ماہم کو بہت خوشی ہوئی کہ عنایہ اسے اتنی اہمیت دیتی ہیں ۔
“لیکن پچھلے سال تو تمہاری مما کوئی اور تھیں۔” بچی کی یاداشت کافی اچھی تھی۔
” یہ میری سٹیپ مدر ہیں ۔” عنایہ نے جواباً کہا۔
” سٹیپ مدر تو وچ ہوتی ہیں ۔بہت مارتی ہیں ۔” اس بچی نے عنایہ کے کان میں سرگوشی کی۔جو کہ کافی اونچی تھی۔
مارنے والی بات سن کر ماہم کی مسکراہٹ فوراً سے سمٹی۔اس نے ایک نظر کچھ دور کھڑے ارسلان پہ ڈالی۔جو اپنے دوست مزمل سے بات کر رہا تھا۔یہ سکول اسی کا تھا۔
” یہ تو پری ہیں ۔میری رئیل مدر وچ تھیں ۔”عنایہ اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی۔
ماہم کو “وچ” کا مطلب نہیں پتا تھا۔ اس لیے وہ خاموش ہی رہی۔اور نہ ہی اس نے عنایہ سے مطلب پوچھا۔عنایہ کیا سوچتی اسے کچھ نہیں آتا۔
واپسی پہ ارسلان انہیں ریسٹورنٹ میں لے آیا تھا۔جب ابا زندہ تھے تو کبھی کبھی اسے نہاری کھلانے کے لیے محلے میں بنے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں لے جاتے تھے۔زندگی میں پہلی دفعہ اس نے اصل میں اتنا بڑا ہوٹل تھا۔
” اپنے لیے ڈش سلیکٹ کرو ۔”ارسلان مینو کارڈ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔
اسے بالکل بھی سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا منگوائے۔
” جو آپ لوگ منگوا رہے ہیں مجھے بھی وہ ہی منگوا دیں ۔” وہ مینو کارڈ کو میز پہ رکھتے ہوئے بولی۔
” اچار گوشت، چائینز چاول اور رشین سیلڈ لے آئیں ۔عنایہ تم کیا کھاؤ گی۔” ارسلان نے ویٹر کو بتا کر عنایہ سے پوچھا۔
” میرے لیے زنگر برگر۔” عنایہ نے کہا۔
” عنایہ کھانا بھی کھاتے ہیں ۔یہ چیزیں تو فائدہ نہیں دیتی۔اگر آپ نے بڑا ہونا ہے تو کھانا کھانا پڑے گا۔ورنہ آپ تو چھوٹی رہ جاؤ گی۔”وہ عنایہ کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔
ارسلان نے مسکرا کر اسے دیکھا۔
” سچ میں ۔” عنایہ نے پوچھا۔
” بالکل۔”وہ مسکرا کر بولی۔
” اب میں بھی کھانا کھایا کرو گی۔”عنایہ نے کہا۔
” اتنی چھوٹی سی عمر میں تمہیں بچے سنبھالنے کا تجربہ کیسے ہے۔”ارسلان نے پوچھا۔
” تجربے کی تو کوئی بات نہیں ہے بچوں کے ساتھ بچہ بن جاؤ تو سب ٹھیک ہے۔”وہ مسکرا کر بولی۔
” ویسے عنایہ کی پسند کا تو تمہیں پتا ہے پر کیا میری پسند کا بھی کچھ علم ہے۔” پانی پیتے ہوئے ارسلان نے پوچھا۔
” آپ نے کبھی بتایا ہی نہیں اس لیے مجھے نہیں پتا۔” وہ خوامخواہ شرمندہ ہوئی۔
” ارے اس میں شرمندہ ہونے والی کیا بات ہے۔کچھ تم اپنے بارے میں بتاؤ کچھ میں اپنے بارے میں بتاتا ہوں ۔”وہ مسکرا کر بولا۔
” پاپا اس کو گوشت بہت پسند ہے۔” ماہم سے پہلے عنایہ بول پڑی۔
” سچ میں مجھے گوشت اتنا اچھا لگتا ہے کہ دل کرتا ہے روز کھاؤں۔”ماہم نے کہا۔
” چلو اب روز گوشت کا علیحدہ سے کھانا بنا کرے گا۔”اس نے کہا۔
” ارے نہیں گوشت بہت مہنگا ہے۔ روز کسی نہ کسی چیز میں ڈلتا ہے نا۔ اس میں سے کھا لیا کروں گی۔” وہ نفی میں سر ہلا کر بولی۔
” تم اتنی بچت کیوں کرتی ہو۔”وہ حیرت سے بولا۔
” حالات کا کچھ پتا نہیں کب بگڑ جائیں اسلیے بچت کرنی چاہیے۔”وہ ہاتھ اٹھا کر بڑی بوڑھیوں کی طرح بولی۔
وہ اس کے اس انداز پہ مسکرایا۔
” پاپا ہم کب سے کہیں گھومنے نہیں گئے۔کسی جگہ ہم اکھٹے سیر کرنے جاتے ہیں ۔” عنایہ نے کہا۔
” میں تو ماہم کو کہتا ہوں پر یہ جاتی ہی نہیں ہے۔”وہ ماہم کو دیکھ کر بولا۔
” مجھے گھر میں رہنا اچھا لگتا ہے۔سب گھر والے بیٹھ کر باتیں کریں، کوئی گیم کھیلیں مجھے یہ سب پسند ہے۔”اس نے اپنی پسند بتائی۔
” ایسا ہی کریں گے۔لیکن اب عنایہ ویک اینڈ پہ ہی فری ہوا کرے گی تو ویک اینڈ پہ کہیں جایا کریں گے اور تم انکار نہیں کرو گی کیونکہ یہ عنایہ کی خواہش ہے۔”اس نے اپنی خواہش کو عنایہ کی خواہش کا نام دیا۔
اس نے اثبات میں سر ہلایا جبکہ عنایہ خوش ہوگئی۔
بیگم سراج غصے میں بھری ادھر سے اُدھر ٹہل رہیں تھی۔انہوں نے تو عنایہ کے لیے ارسلان کی شادی کی تھی لیکن یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی تھی۔
انہیں اس احمق لڑکی سے اتنی چالاکی کی امید نہیں تھی۔
زری بچاری کی آئے دن احسن سے لڑائی ہورہی تھی اور یہاں ارسلان اس پاگل لڑکی کے پیچھے پاگل ہورہا تھا۔
بہتر یہ ہی تھا کہ وہ اس لڑکی کی لگامیں کھینچ کر رکھیں کیونکہ اگر یہ ہی حالات رہے تو ارسلان یقیناً زری کو بھول جائے گا۔
” کیا ہورہا ہے۔” وہ اس کے برابر بیٹھتے ہوئے بولا۔
” کچھ نہیں ۔” وہ جواباً بولی۔
“عنایہ کب سوئی ہے۔” وہ بیڈ پہ سوتی عنایہ کو دیکھ کر بولا۔
” ابھی تھوڑی دیر پہلے۔وہ آپ کا انتظار کرتے کرتے سوگئی۔” وہ بھی عنایہ کی طرف دیکھ کر بولی۔
” آج دو اہم میٹنگز تھیں اسی وجہ سے دیر ہوگئی۔” وہ پیشانی مسلتے ہوئے بولا ۔
” آپ کے لیے چائے کا کہوں ۔” اس نے پوچھا۔
” میں نے کہہ دیا ہے۔سر میں بہت درد ہورہا ہے۔”وہ صوفے کی پشت سے سر ٹکاتے ہوئے بولا۔
” آپ گولی لے لیں ۔ٹھیک ہوجائے گا۔”وہ فکرمندی سے بولی۔
” اگر تم میرا سر دبا دو تو شاید جلد ٹھیک ہوجائے ۔” وہ مسکراتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔
” میں ۔” وہ حیرت سے بولی۔
” کیوں تمہیں سر دبانا نہیں آتا۔”وہ مصنوعی حیرت سے بولا۔
” کیوں نہیں آتا جی۔اماں کا سر بھی دباتی تھی اور روز سونے سے پہلے ٹانگیں بھی۔”وہ فخریہ انداز میں بولی۔
” تو اب بچارے شوہر کا بھی دبا دو۔”
ماہم نے جھجھکتے ہوئے اس کے ماتھے پہ ہاتھ رکھا۔ارسلان نے آنکھیں موند لیں۔اسے بہت سکون محسوس ہورہا تھا۔
ماہم مسلسل ارسلان کو دیکھ رہی تھی۔اس نے ڈراموں میں محبت لفظ سنا تھا ۔اسے لگتا تھا یہ محبت ہے۔ہر گزرتے دن کے ساتھ ارسلان اسے پہلے سے زیادہ اچھا لگتا تھا۔
” نظر لگانے کا ارادہ ہے۔” وہ آنکھیں کھولتے ہوئے بولا۔
ماہم نے سٹپٹا کر نظریں پھیریں ۔اسے اندازہ نہیں تھا کہ ارسلان کو پتا چل جائے گا۔
” ویسے میں تمہیں کیسا لگتا ہوں ۔” وہ اس کی طرف محبت سے دیکھتے ہوئے بولا۔
” پہلے اب کریلے کی طرح کڑوے تھے اور اب آپ شہد کی طرح میٹھے ہیں ۔”وہ بےدھیانی میں سچ بول گئی۔
” یہ کیا بات ہوئی ۔” وہ حیران ہوتے ہوئے بولا۔
” پہلے آپ مجھے ہر وقت نوکری سے نکالنے کی دھمکی دیتے رہتے تھے۔اس لیے مجھے کریلے کی طرح کڑوے لگتے تھے اور اب آپ مجھے کچھ نہیں کہتے تو شہد کی طرح میٹھے لگتے ہیں ۔”اس نے وضاحت دی۔
” ویسے میرا غصہ بیان کرنے کے لیے تم نے آخر کریلا ہی کیوں چنے۔” وہ ہنستے ہوئے بولا۔
” کریلے کڑوے تو ہوتے ہی ہیں ساتھ میں مجھے بالکل بھی پسند نہیں ہیں ۔اس لیے میں نے آپ کو کریلا کہا اور شہد مجھے بہت پسند ہے اس لیے اب آپ کو شہد کہا۔”وہ مسکرا کر بولی۔
” مطلب میں تمہیں پسند ہوں ۔”اس نے اس کی طرف جھکتے ہوئے سرگوشی کی۔
ماہم نے گھبرا کر دوسری طرف دیکھا۔
تب ہی دروازہ بجا۔
” سر چائے تیار ہے۔”کک نے آواز لگائی تھی۔
” لے آئیں ۔”وہ ماہم کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔جو سر ڈھانپ رہی تھی۔اسے ماہم میں یہ چیز بہت اچھی لگتی تھی۔وہ صرف اس کے سامنے کھلے سر سے آتی تھی اور وہ ابھی ماہم کو یہ نہ بتا پایا تھا کہ اسے اس کے لمبے براؤن بالوں سے عشق تھا۔
” میں سوتی ہوں ۔صبح عنایہ کو سکول کے لیے تیار کرنا ہے۔” وہ صوفے سے اٹھتے ہوئے بولی ۔
ارسلان نے اثبات میں سر ہلایا۔اسے نیچے سوتا دیکھ کر وہ کچھ سوچ رہا تھا۔
” احسن آج تم مجھے بتا ہی دو آخر تم چاہتے کیا ہو۔” زری نے سوچا کہ احسن سے آج فائنل بات ہو ہی جائے ۔
” فلحال تو میں آفس سے تھکا ہارا آیا ہوں اور سکون چاہتا ہوں ۔” وہ ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتے ہوئے بولا۔
” میرا سکون برباد کر کے تمہیں سکون چاہیے۔” وہ تیز لہجے میں بولی۔
” اتنا پڑھ لکھ کر بھی تم جاہل ہی رہی۔شوہر تھکا ہارا گھر آئے تو اسے پرسکون ہوتے دیتے ہیں ۔”وہ بھی تیز لہجے میں بولا۔
” تم مجھے جاہل کہہ رہی ہے۔”وہ ششدر رہ گئی۔
” کیونکہ تم جاہل ہی ہو۔تمہیں بالکل بھی پتا نہیں کہ شوہر کو کیسے ٹریٹ کرتے ہیں ۔” وہ بیڈ پہ بیٹھ کر شوز اتارتے ہوئے بولا۔
” اور تمہیں تو بہت علم ہے کہ بیوی کو کیسے ٹریٹ کرتے ہیں ۔”وہ غصے سے بولی۔
” بہرحال میں تمہیں اس سے کہیں زیادہ اچھا ٹریٹ کرتا ہوں جیسا تم مجھے کرتی ہو۔”وہ اٹھ کر شوز ریک میں شوز رکھتے ہوئے بولا۔
” یہ تمہارا خیال ہے ۔تم نا تو پہلے کی طرح مجھ سے محبت کرتے ہو اور نا ہی مجھے وقت دیتے ہو۔”وہ اس کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔
” تم تو یہ چاہتی ہو کہ میں تمہارے پلو سے لگ کر بیٹھا رہوں تو یہ تمہاری بھول ہے۔میرے باپ کا بہت بڑا بزنس ہے جسے مجھے ہی سنبھالنا ہے۔تمہاری فرمائش پہ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ نہیں رہتا لیکن تمہاری فرمائش پہ میں اپنا بزنس نہیں چھوڑ سکتا۔” وہ سنجیدہ لہجے میں بولا۔
” ضرور تمہارے گھر والوں نے ہی تمہیں بہکایا ہے. ورنہ تم اتنے بےحس نہ تھے۔”وہ یقین سے بولی۔
” میرے پاس اس فضول کی چخ چخ کا وقت نہیں۔بندہ گھر پرسکون ہونے کے لیے آتا تھا لیکن اس گھر میں رہ کر تو بندہ پرسکون نہیں ہوسکتا۔ہاں البتہ پاگل ضرور ہوسکتا ہے۔”وہ نفی میں سر ہلا کر بولا اور ڈریسنگ روم کی طرف بڑھنے لگا۔
” تمہارے کہنے کا مطلب ہے میں بکواس کرتی ہوں۔پاگل ہوں نا میں۔” وہ ایکدم سے اس کا گریبان پکڑتے ہوئے چلائی۔
” اپنی اوقات میں رہو۔میں ارسلان نہیں ہوں جو تمہاری بکواس برداشت کروں گا۔”وہ اس کی دونوں کلائیاں دبوچتے ہوئے غرایا۔
زری خوفزدہ ہوگئی۔وہ اس کی کلائیاں چھوڑ کر ڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گیا۔
زری نے ساکت نظروں سے اپنی سرخ ہوتی کلائیاں دیکھیں۔آج پہلی بار احسن نے ناصرف اس کے ساتھ یہ سلوک کیا تھا بلکہ ارسلان کا طعنہ بھی دیا تھا۔
کیا اس کا فیصلہ غلط تھا؟ ۔
” صبح سویرے اٹھنا مجھے بہت برا لگتا ہے۔پاپا آپ مزمل انکل سے کہیں کے عنایہ دیر سے سکول آیا کرے گی۔” عنایہ منہ بنا کر آفس کا کام کرتے ارسلان سے بولی۔
” اس کے بعد اس نے کہنا ہے کہ عنایہ کو گھر ہی بیٹھا لو۔” وہ فائل پہ کچھ لکھتے ہوئے بولا۔
” آخر کو وہ میرے انکل ہیں کچھ تو advantage ہو۔”عنایہ نے کہا۔
” پہلے تو تم کہتی تھی سکول جانا ہے اور اب کچھ دن جا کر ہی تمہارا دل بھر گیا۔” وہ حیرت سے بولا۔
” سکول جانے کا دل کرتا ہے لیکن صبح اٹھنے کا نہیں کرتا۔آخر کوئی تو حل ہوگا۔” عنایہ جھلا کر بولی ۔
” حل یہ ہی ہے کہ سکول چھوڑ دو۔”وہ کمرے میں داخل ہوتی ماہم کو دیکھ کر بولا۔جس کے ہاتھ میں دودھ کا گلاس تھا۔
” نہیں نہیں عنایہ سکول نہیں چھوڑنا۔” ماہم جلدی سے بولی۔
” میں سکول نہیں چھوڑ رہی اور تم یہ دودھ کیوں لائی ہو۔مجھے نہیں پینا۔” عنایہ نے دودھ کو دیکھ کر منہ بنایا۔
” وہ تم سے بڑی ہیں انہیں آپ کہا کرو۔بلکہ مما کہا کرو۔” اس نے عنایہ کو ٹوکا۔
” کوئی بات نہیں ۔”وہ فوراً سے بولی۔
” ٹھیک ہے میں آئندہ مما ہی کہوں گی ۔”عنایہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولی۔
” چلیں اب دودھ پی لیں ۔”وہ گلاس عنایہ کی طرف بڑھا کر بولی۔
” مجھے نہیں پینا۔”عنایہ منہ بسور کے بولی۔
” اگر آپ دودھ نہیں پیے گی تو آپکی ہڈیاں اور دانت کمزور ہوجائیں گے۔پھر آپ جلد بوڑھی ہوجائے گی۔” اس نے عنایہ کے پاس بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے کہا۔
یہ سنتے ہی عنایہ نے دودھ کا گلاس ایک منٹ میں ختم کیا۔
عنایہ لیٹی تو ماہم بھی اسے سلانے کے لیے لیٹ گئی۔ عنایہ کے پاس بیٹھے ارسلان نے مسکرا کر دونوں کو دیکھا۔ دونوں بالکل سگی ماں بیٹی لگ رہیں تھی۔ماہم اب عنایہ کو تھپکتے ہوئے آہستہ آواز میں پتا نہیں کون سے قصے سنا رہی تھی۔
عنایہ کو سلانے کے بعد وہ احتیاط سے اٹھی تب ہی اس کی نظر سامنے ٹیبل پہ پڑے جگ پہ پڑی جو خالی تھا۔
وہ جگ لے کر پانی لینے چلی گئی۔واپس آکر اس نے جگ ٹیبل پہ رکھا اور لیٹنے کے ارادے سے بستر کی طرف بڑھی۔
” تم سے بات کرنی ہے۔” ارسلان آہستہ آواز میں بولا۔
وہ سر ہلاتی اس کی طرف بڑھی۔
” ٹیرس پہ چلتے ہیں ۔” وہ بیڈ سے اٹھتے ہوئے بولا۔وہ دونوں کمرے سے ملحق ٹیرس کی طرف بڑھ گئے۔
” کیا بات ہے۔” اسے تشویش ہوئی۔
“چاند کتنا خوبصورت ہے نا۔” وہ آسمان کے تال پہ چمکتے چاند کی طرف اشارہ کر کے بولا۔
” مجھے نا پورا چاند بڑا پسند ہے۔جب گرمیاں ہوتی تھیں تو میں باہر صحن میں سوتی تھی۔پھر میں رات گئے تک چاند کو دیکھتی رہتی تھی اب تو خیال ہی بھول جاتا ہے۔” وہ پرجوش ہو کر بتانے لگی۔
” تو کیا تمہیں باہر اکیلے سوتے ہوئے ڈر نہیں لگتا تھا۔” وہ اس کی بہادری پہ حیران ہوا۔
” نہیں ۔”
” لیکن تم اس دن کہہ رہی تھی کہ تمہیں اکیلا سوتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔”
” میں نے بولا تھا کہ آپ لوگوں کے گھر میں ڈر لگتا ہے۔وہ تو میرا گھر ہے وہاں مجھے کیوں ڈر لگے گا۔”وہ مسکرا کر بولی۔
” یہ بھی تمہارا گھر ہے۔”وہ جواباً بولا۔
” یہ تو آپ لوگوں کا گھر ہے۔” وہ فوراً سے بولی۔
” میں تمہارا کون ہوں؟ ”
” شوہر ۔”
” تو میرا گھر تمہارا گھر ہوا۔”
” سچ میں یہ میرا بھی گھر ہے۔”اسے یقین نہیں آیا تھا۔
” جتنا ہم سب کا گھر ہے اتنا ہی تمہارا گھر ہے۔”اس نے اسے یقین دلایا۔
” افف مجھے تو یقین نہیں آرہا ۔مجھے بڑے گھر بہت اچھے لگتے ہیں ۔” وہ پرجوش ہو کر اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولی۔
” چلو ٹھیک ہے میں تمہارے لیے ایک بڑا سا گھر بناؤں گا۔”وہ اس کے ہاتھ پکڑنے پہ مسکرا کر بولا۔
” ہیں سچ میں ۔”وہ مزید خوش ہوئی۔
” بالکل اور تمہاری پسند کے مطابق ۔”وہ اسے خوش ہوتا دیکھ کر مزید خوش ہوا۔
” آپ کتنے اچھے ہیں نا۔” وہ اسکا ہاتھ چھوڑتے ہوئے مسکرا کر بولی۔
” بتانے کا شکریہ۔”وہ سر کو خم دے کر بولا۔
” پھر نا ہم اس میں پرندے رکھیں گے اور خرگوش تو لازمی رکھیں گے ۔عنایہ کو بہت پسند ہیں نا۔” اس کی فرمائشی لسٹ شروع ہوچکی تھی۔
” ٹھیک ہے اور کچھ۔” اس نے اسکے خوشی سے دمکتے چہرے کو محبت سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
” اور ہم اپنے گھر میں سوئمنگ پول نہیں رکھیں گے۔بچے اس میں گر سکتے ہیں ۔”اس نے کہا اور ساتھ وضاحت بھی دی۔
” تمہیں بچے اچھے لگتے ہیں ۔” اس نے پوچھا۔
” مجھے بچے بہت پسند ہیں ۔عنایہ مجھے سب سے اچھی لگتی ہے اور اس کے کرلی بال تو بہت ہی پیارے ہیں ۔”
” ویسے عنایہ اپنے پاپا پہ گئی ہے ۔”
” پتا نہیں کبھی غور نہیں کیا۔”وہ اپنی ازلی معصومیت کے ساتھ بولی۔
” میرے لیے شرم کا مقام ہے کہ تم نے مجھ پہ کبھی غور ہی نہیں کیا۔”وہ افسوس سے سر ہلا کر بولا۔
” آپ اداس تو نہ ہوں۔اب میں آپ کی شکل پہ غور کروں گی۔” اس نے تسلی دی۔
” مہربانی آپ کی۔ “وہ جل کر بولا۔
” آپ نے ضروری بات کرنی تھی۔” اس نے یاد دلایا۔
” پڑھائی کے حوالے سے تمہارے پاس دو آپشن ہیں یا تو شام کو اکیڈمی چلی جایا کرو۔ میں آفس سے جلدی آ کر عنایہ کے پاس رک جاؤں گا۔یا پھر گھر پہ ٹیوٹر بلا لیتے ہیں ۔تم اور عنایہ ایک ہی ٹائم پڑھ لیا کرو۔” یاد دلانے پہ وہ بتانے لگا۔
” ہائیں آپ تو سنجیدہ ہی ہوگئے ۔” وہ ناک پہ انگلی رکھتی تعجب سے بولی۔
” بالکل میں بہت سنجیدہ ہوں اور اب تم بھی ہوجاؤ۔کیا تمہیں پڑھنے کا شوق نہیں ہے۔”اس نے پوچھا۔
” مجھے پڑھنے کا بہت شوق ہے ۔ابا کے انتقال کے بعد اماں نے مجھے سکول سے اٹھوا لیا تھا۔میں نے ان کی بہت منتیں کی تھیں لیکن وہ نہیں مانیں ۔” ماضی کو یاد کر کے وہ اداس ہوئی۔
” تم ماضی کو بھول جاؤ اور میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ حال بہت خوبصورت ہوگا۔” وہ اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔
وہ جواباً مسکرائی تھی۔
” پھر کونسا آپشن قبول ہے۔”ارسلان نے پوچھا۔
” گھر پہ ٹیچر سے پڑھ لوں گی۔”وہ سوچتے ہوئے بولی۔وہ عنایہ کے لیے تو اس گھر میں تھی ۔اور یہ کوئی اچھی بات نہیں تھی کہ وہ عنایہ کو چھوڑ کر پڑھنا شروع کردیتی۔
” چلو ٹھیک ہے۔” وہ مسکرا کر بولا۔
تب ہی عنایہ کی آواز آئی اسے پانی چاہیے تھا۔
” میں سو جاؤں ۔”ماہم نے پوچھا۔
ارسلان نے اثبات میں سر ہلایا۔
ناعمہ نے رکشے سے اتر ایک نظر اس خوبصورت بنگلے پہ ڈالی اور گیٹ کی طرف بڑھی۔یہ سب تو وہ ڈیزرو کرتی تھی ۔اور اسے ماہم سے یہ سب چھیننا تھا۔آج وہ خوب تیاری کر کے آئی تھی۔کل ہی اس نے پارلر سے فیشل کروایا تھا اور بال بھی ڈائی کروائے تھے۔پنک سوٹ کے ساتھ اس نے لائٹ لائٹ میک اپ کیا تھا۔اس کے خیال میں وہ قلوپطرہ لگ رہی تھی۔
اندر داخل ہو کر اسے سامنے ہی ماہم عنایہ کے پیچھے دوڑتی نظر آئی۔تب ہی ماہم کی نظر اس پہ پڑی۔حیرت سے اس کا منہ کھل گیا۔
عنایہ نے ناعمہ کو دیکھ کر منہ بنایا۔
“آپ یہاں ۔” وہ ناعمہ کے پاس آ کر بولی۔
” کیوں یہاں آنا منع ہے۔” وہ ایک ادا سے بال جھٹکتے ہوئے بولی۔
” میرا وہ مطلب نہیں تھا۔” وہ ایک نظر لاؤنج کے بند دروازے پہ ڈالتے ہوئے بولی۔بیگم سراج اور ارسلان اتوار ہونے کی وجہ سے ابھی تک سو رہے تھے۔اگر بیگم سراج کو ناعمہ کے آنے کا پتا چلا تو انہوں نے اسے چھوڑنا نہیں تھا۔
” کیا گھر پہ کوئی اور نہیں ہے۔” ناعمہ متلاشی نظروں سے ارسلان کو ڈھونڈتے ہوئے بولی۔
” باقی سو رہے ہیں ۔” اس نے جواب دیا۔
” آپ یہاں کیوں آئیں ہیں ۔” عنایہ تنک کے بولی۔
” تم سے ملنے کے لیے۔یہ دیکھو میں تمہارے لیے چاکلیٹ بھی لائی ہوں ۔” ناعمہ عنایہ کی طرف چاکلیٹ بڑھاتے ہوئے بولی۔
عنایہ نے خوش ہو کر چاکلیٹ تھام لی جبکہ ماہم حیران تھی کیونکہ ناعمہ کی تو بچوں بالکل بھی لگاؤں نہیں تھا۔
” کیا یہاں ہی کھڑا رکھو گی۔” ناعمہ نے اس سے کہا۔
وہ تذبذب کا شکار ہوئی۔
” اندر آئیں نا۔”عنایہ جھٹ سے بولی۔
اندر آنے کے بعد وہ ناعمہ کے لیے جوس لینے چلی گئی۔ جبکہ ناعمہ عنایہ کے ساتھ باتیں کرنے لگی۔عنایہ ارسلان پہنچنے کی سیڑھی تھی ۔
تب ہی ارسلان لاؤنج میں داخل ہوا۔عنایہ کے ساتھ کسی لڑکی کو بیٹھا دیکھ کر وہ حیران رہ گیا ۔تب ہی ماہم کچن سے نکلی۔
” آپ ابھی ناشتہ کریں گے۔” وہ اس کے پاس آتے ہوئے بولی۔
” یہ کون ہیں ۔” اس نے پوچھا ۔
” میری بہن ہے۔” وہ جواباً بولی۔
” اوہ اچھا۔” اس نے کہا۔
ماہم ناعمہ کو جوس دینے کے بعد کچن میں ناشتے کا کہنے چلی گئی۔
ارسلان نے ماہم کی بہن سمجھ کر اس سے دو چار باتیں کرلیں تو وہ خود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کرنے لگی۔جوس پیتے ہوئے وہ مسلسل عنایہ کے ساتھ باتوں میں مصروف ارسلان کو دیکھ رہی تھی۔
ارسلان بھی اس کا دیکھنا محسوس کرچکا تھا۔لیکن وہ اگنور کر رہا تھا۔
جب ماہم نے ناشتہ ٹیبل پہ لگوایا تو وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
” تمہارے کمرے میں چلتے ہیں ۔” ناعمہ نے اس سے کہا۔
اس نے پریشان ہوتے ہوئے ارسلان کی طرف دیکھا جس نے اسے جانے کا اشارہ کیا۔
اندر آکر ناعمہ نے اس سے کہا کہ وہ اپنے کپڑے دیکھائے ۔وہ ڈریسنگ روم سے سارے کپڑے نکال کر لے آئی۔اماں نے اسے سستے سے پانچ جوڑے دئیے تھے جو اس نے ابھی تک پہنے نہیں تھے۔
ناعمہ نے حسد نے ان قیمتی جوڑوں کو دیکھا۔پھر ہاتھ میں موجود بلیڈ سے جوڑوں کو دیکھنے کے بہانے کٹ لگاتی گئی۔ماہم کو پتا نہیں چل سکا۔ناعمہ نے بری کے سارے کپڑوں کا یہ ہی حال کیا تھا۔
جانے سے پہلے اس کا دل دوبارہ سے ارسلان سے ملنے کا تھا لیکن ارسلان اسے نظر نہ آیا البتہ بیگم سراج سے ضرور اس کی ملاقات ہوگئی۔جو خاصی عجیب نظروں سے اسے دیکھ رہیں تھیں ۔
ارسلان عنایہ کے ساتھ باہر گیا تھا۔وہ کمرے میں آکر کپڑے سمیٹنے لگی۔اور کپڑوں کی حالت دیکھ کر اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔کل تک تو سارے کپڑے بالکل ٹھیک تھے ۔اس کا ذہن یہ ماننے سے انکاری تھا کہ ناعمہ نے ایسا کچھ کیا ہے۔
تب ہی بیگم سراج دندتاتی ہوئیں اندر داخل ہوئیں اس نے گھبرا کر کپڑے بیڈ پھینکے۔
انہوں نے آتے ساتھ ہی ماہم کے منہ پہ تھپڑ مارا تھا۔وہ ششدر رہ گئی۔اس نے تو کپڑے چھپا لیے تھے پھر بیگم سراج کو کیسے پتا چلا۔
” کیا کہا تھا میں نے تمہیں ۔ارسلان سے فری نہ ہونا۔تمہاری یہ ہمت کہ تم میری بات اگنور کرو ۔” وہ اسکا بازو دبوچتے ہوئے غرائیں۔
” میں تو ان سے فری نہیں ہوتی۔اور میں نے ان سے کہا تھا کہ میں ان سے بات نہیں کروں گی لیکن انہوں نے منع کردیا۔” وہ روتے ہوئے بولی۔
” واٹ ۔تم نے ارسلان کو بتا دیا۔”وہ حیرت سے بولیں ۔
” انہوں نے پوچھا تھا تو بتا دیا۔”وہ سر جھکا کر بولی۔
” ایک بات میری کان کھول کر سن لو۔اگر تھپڑ والی بات اس کو بتائی تو منہ توڑ دوں گی۔ “وہ اس کے بال پکڑ کر منہ اوپر کرتے ہوئے بولیں ۔
اس نے روتے ہوئے اثبات میں گردن ہلائی۔
” اور میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ تمہارے میکے سے کوئی نہ آئے پھر تمہاری بہن کیوں آئی ۔” وہ اس کے بال چھوڑتے ہوئے غصے سے بولیں ۔
” وہ خود ہی آگئ تھی۔”وہ شرمندگی سے بولی۔
” آئندہ اگر تمہارے گھر میں سے کوئی آیا تو ٹانگیں توڑ کر ہاتھ میں پکڑا دوں گی۔” وہ انگلی اٹھا کر اسے وارن کرتے ہوئے بولیں ۔
اس نے آنسو صاف کرتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
بیگم سراج کے جانے کے بعد اس نے بال ٹھیک کیے اور منہ دھویا۔
اسے بیگم سراج سے بہت ڈر لگ رہا تھا۔اب وہ نہ ہی ارسلان سے بات کرے گی اور نا ہی کچھ بتائے گی۔
” تم نے بالکل ٹھیک کیا۔یہ ماہم کچھ زیادہ ہی ہواؤں میں اڑ رہی ہے۔” رفعت بیگم نے ناعمہ کو شاباشی دی۔
” سچ اماں بھلے اس کا شوہر اسے منہ نہ لگاتا ہو پر وہ رہ تو عیش و عشرت میں رہی ہے۔” ناعمہ نے افسوس سے سر ہلا کر کہا۔
” یہ بھی خیر سے چار دن کی چاندنی ہوگی۔”انہوں نے کہا۔
” کیا اس کی پہلی بیوی واپس آرہی ہے۔”ناعمہ نے پرتجسس انداز میں پوچھا۔
” وہ تو پتا نہیں لیکن جب وہ اپنی بےوقوفی ظاہر کرے گی تو اگلے دن ہی اس کو نکال باہر پھینکیں گے۔” وہ یقین سے بولیں۔
” اس کو ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہے اس کی ہر ہر ادا خود ہی سب کچھ ظاہر کردیتی ہے۔پھر بھی وہ وہاں پہ ٹکی ہے۔سچ اماں دونوں ماں بیٹی نے اچھی قسمت پائی ہے۔ابا اس کی ماں کے دیوانے تھے اور اس کو اتنی آسائشات ملیں ہیں ۔”ناعمہ کے لہجے میں حسرت تھی۔
” اس کی ماں کا میرے سامنے ذکر مت کر۔اس ڈائن کی وجہ سے شبیر احمد نے کبھی مجھ سے سیدھے منہ بات نہیں کی۔”وہ تیز لہجے میں بولیں ۔
” ویسے اماں اگر میں سچ کہوں تو اس میں بھی تیرا ہی قصور تھا۔بےشک تیرا رنگ سانولا تھا لیکن پھر بھی ابا نے تیرے ساتھ اتنے سال گزارے شادی تو انہوں نے تیری بدزبانی اور لڑاکی طبیعت سے تنگ آکر کی تھی۔”ناعمہ نے سچ بولا۔
” کچھ شرم کر میں ماں ہوں تیری اور توں میری سوتن کی تعریف کر رہی ہے۔یہ میں ہی جانتی ہوں کہ میں نے کیسے شبیر احمد کے ساتھ گزارا کیا۔اس کے دل میں شروع سے ہی میری جگہ نہیں تھی۔اتنی ہی میں بدزبان تھی تو تیسری کرلیتا۔پر تم لوگوں نے تو ہر بات پہ ماں کو ہی الزام دینا ہوتا ہے۔” وہ ناعمہ کو کندھے پہ ایک تھپڑ لگاتے ہوئے غصے سے بولیں۔
” سچ بولو تو لوگوں کو آگ لگ جاتی ہے۔ابا نے ماہم کی وجہ سے تیسری شادی نہیں کی تھی۔”وہ تخت سے اٹھتے ہوئے بولی اور جاتے جاتے ایک اور سچ بول گئی۔
پیچھے سے رفعت بیگم نے اپنی اولاد کو دو چار القابات سے نوازا۔
عنایہ کو گھر ڈراپ کر کے وہ ضروری کام سے باہر چلا گیا تھا واپس آیا تو عنایہ اسے لاؤنج کے دروازے کے باہر لگی سیڑھیوں پہ سر جھکائے بیٹھی نظر آئی۔وہ مسکراتے ہوئے اس کی طرف بڑھا لیکن قریب آکر ٹھٹھک کر رک گیا عنایہ رو رہی تھی۔
” کیا ہوا ہے؟” وہ پریشان ہوا۔
” مجھے ماہم نے مارا ہے۔” عنایہ آنکھیں ملتے ہوئے بولی۔
اسے یقین نہیں آیا تھا لیکن عنایہ تو ماہم سے اتنا پیار کرتی ہے وہ جھوٹ کیوں بولتی۔اس کے اندر اشتعال کی ایک تیز لہر دوڑی تھی۔مٹھیاں بھینچتا وہ اندر کی طرف بڑھا۔اسے ماہم سے یہ توقع نہیں تھی۔
ماہم اسے رانی کے ساتھ کچن میں ہی مل گئی۔
” السلام علیکم ۔” وہ مسکرا کر بولی۔
” وعلیکم السلام ۔روم میں آؤ۔” وہ سنجیدہ لہجے میں بولا۔
ماہم اس کے رویے پہ حیران ہوتے ہوئے اس کے پیچھے چل دی۔کمرے میں آکر ارسلان نے دروازہ لاک کیا۔کمرہ ساؤنڈ پروف تھا ۔وہ ملازموں کے سامنے تماشہ نہیں لگوانا چاہتا تھا۔
” کیا ہوا ہے۔”وہ حیرت سے بولی۔
” میں تمہیں کیا سمجھتا تھا اور تم کیا نکلی۔میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تم ایسی ہو گی۔” وہ اس کے دونوں بازو دبوچتے ہوئے غرایا۔
” کک کیا ہوا۔” نیلی آنکھوں میں خوف اترا تھا۔بازوؤں میں درد ہورہا تھا۔
” عنایہ کو مار کر تم مجھ سے پوچھ رہی ہو کہ کیا ہوا۔ “وہ اسے ایک جھٹکا دیتے ہوئے غصے سے بولا۔
” میں نے عنایہ کو نہیں مارا ہے۔”وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے بمشکل بولی۔اسے ارسلان سے بہت ڈر لگ رہا تھا۔
“تو وہ جھوٹ بول رہی ہے۔” وہ دہاڑا۔
” پپ پتا نہیں۔” وہ ممنائی۔
” میں نے تمہیں دوسری عورتوں سے مختلف سمجھا تھا لیکن تم بھی عام عورت نکلی۔میں یہ بھول گیا کہ جب سگی ماں نے پروا نہیں کی تو سوتیلی کیوں کرے گی۔” وہ ایک جھٹکے سے اسے چھوڑتے ہوئے بولا۔
” قسم سے میں نے کچھ نہیں کیا۔”وہ روپڑی ۔وہ تو عنایہ سے اتنی محبت کرتی تھی وہ بھلا کیوں اسے مارتی۔
” شٹ اپ۔ جسٹ شٹ اپ۔”وہ انگلی اٹھا کر غصے سے بولا۔
ماہم خوفزدہ ہوتے ہوئے چپ ہوگئی۔اسے لگا ابھی ارسلان اسے ماریں گے۔
ارسلان غصے سے کھولتا باہر عنایہ کی طرف بڑھ گیا۔
ماہم نیچے بیٹھ کر رونے لگی۔اب ارسلان اسے گھر سے نکال دیں گے۔وہ پھر سے اپنے گھر چلی جائے گی جہاں سب دوبارہ سے اس کے ساتھ برا سلوک کریں گے۔