“کنول؟
ارے یار بات تو سن لو میری ایک بار
یہ عادت مجھے تمہاری بہت زہر لگتی ہے کمرے میں بند ہو جانے والی”
ربان ایک گھنٹے میں بہت بار کنول کے کمرے کے باہر آ کر اس کی منتیں کر چکا تھا مگر یہ جان کر کہ ربان نے عنایہ کو ایک دن رہنے کی اجازت دے دی ہے
کنول نے خود کو کمرے میں لاک کر لیا تھا
مگر اس سے پہلے جان اور وانی کو بھی کچھ نا کچھ سمجھا دیا تھا تب ہی وہ دونوں پر سکون تھے اور اپنے کھیل میں لگے تھے
“ہاں ہاں
اب تو میری ہر بات زہر لگے گی
جو اچھی لگتی ہے وہ تو آ گئی ہے نا
ہنہہ
آل میز آر ڈوگ”
کنول نے منہ ٹیڑھا کر کے اندر سے جواب دیا
“بری بات ہے میرے بچوں کی ممی
اپنے والد کے بارے میں ایسے نہیں۔کہتے”
ربان نے طریقے سے اسے شرمندہ کر دیا
“میں نے اپنے ابا کی بات کب کی؟”
کنول بولی
“کیوں ؟
تمہارے ابا مین نہیں ہیں ؟”
ربان نے اور جلایا تھا اسے
“بڑے بدتمیز ہیں آپ”
“شوہر کس کا ہوں”
ربان نے فرضی کالر کھڑکھڑائے
“میرے شوہر ہیں
اور یہ بات ہمیشہ یاد رکھیئے گا”
کنول کا انداز وارننگ دینے والا تھا
“میری یادداشت اچھی نہیں ہے
ہو سکتا ہے کبھی بھول جائوں
تو
ہمیشہ یاد کرانے کے لیئے تم میرے آس پاس رہا کرو”
ربان اس بار بڑے الگ سے انداز میں بولا تھا
اپنے کمرے کے دروازے سے چپکی کنول ہنس پڑی مگر ربان کے پیچھے ہی کھڑی عنایہ غصے سے لال پیلی ہوتی گیسٹ روم میں چلی گئی جہاں اس کا اسٹے تھا
🍁🍁🍁
ربان اپنے روم میں بیٹھا آفس کا کچھ کام کر رہا تھا
رات کے دو بج رہے تھے
مگر کام بہت ضروری تھا جس کی وجہ سے وہ ابھی تک جاگ رہا تھا
اپنے کمرے کے دروازے سے جھانک کر عنایہ نے اچھی طرح باہر کا جائزہ لیا اور پھر ربان کے کمرے کے سامنے جا کر رک گئی اور احتیاط سے ہلکی سی دستک بھی دے دی
اندر بیٹھا ربان حیران ہو گیا تھا اس دستک پر پھر اس کے دماغ میں آیا شائد کنول آئی ہو
اس کا سامان تو سب ربان کے کمرے میں پہنچ چکا تھ
مسکراتے ہوئے اٹھ کر وہ دروازے تک پہنچا
مگر دروازہ کھولتے کے ساتھ ہی عنایہ کو دیکھ کر چونک گیا
“تم یہاں؟”
“ربان مجھے تم سے بات کرنی ہے”
“سارا دن پڑا تھا
کر لیتیں”
ربان جھنجلا کر دروازہ واپس بند کرنے لگا جب عنایہ زبردستی اس کے کمرے میں گھس گئی اور چیخنا شروع کردیا
ملازمین گھر کے پیچھے ہیڈ کوارٹر میں تھے تو انہیں کچھ پتہ نہیں لگا
بچوں کا روم بھی سائونڈ پروف تھا تو وہ بھی سکون سے سوتے رہے
مگر کنول کے روم میں ایسا کچھ نہیں تھا تو وہ جلدی سے وہاں پہنچ گئی اور حیران ہو کر اس نے عنایہ کی نائٹی کے قابل اعتراض حلیہ کو اور حیران پریشان سے ربان کو دیکھا تھا
سیکنڈ سے بھی پہلے کنول نے مدعا جان لیا تھا
“اوہ کنول”
عنایہ چیختی ہوئی گئی اور کنول سے چپک گئی
“اچھا ہوا تم آ گئیں
یہ انسان انسان کے نام پر دھبہ ہے
اس نے میرے ساتھ ”
عنایہ ڈرامائی انداز میں بات روک کر منہ پر ہاتھ جما کر رونے لگی
کنول نے گھور کر ربان کو دیکھا تو ربان بھی رونے کو ہو گیا
اتنا گندہ الزام
“دور ہوں مجھ سے”
کنول نے گھن کھا کر عنایہ کو دور کیا جس پر عنایہ اور ربان دونوں چونک گئے
“اس شخص پر آپ لگا رہی ہیں جانتی ہیں یہ کتنا سیدھا ہے؟
شادی کے چھ ماہ تک تو اس نے مجھ میں بھی انٹریسٹ نہیں لیا حالانکہ میں ان کی سگی بیوی تھی”
“سگی بیوی” پر ربان کی ہنسی نکلتے نکلتے رہ گئی
“اور میں تو ہوں بھی آپ سے پیاری
جتنا میک اپ آپ نے کیا ہوا ہے اتنا میں کر لوں تو کترینہ کیف کو مات دے دوں ہنہہ
ایسے میں جو بندہ میری طرف اٹریکٹ نہیں ہوا وہ آپ کے ساتھ ؟
نا ممکن”
“تم خود عورت ہو اور مجھ پر یقین نہیں کر رہی ہو ؟”
ٹکر ٹکر کنول کی شکل تکتے ہوئے عنایہ چلائی
“ارے رہنے دیجیئے
عورتیں بھی کچھ کم نہیں ہیں آج کی
اور دوسری بات میں عورت نہیں لڑکی ہوں
ہاں تو میں کہ رہی تھی کہ جو انسان اپنی حور پریوں جیسی دلہن کو اگنور کر سکتا ہے وہ آپ کے ساتھ کچھ ایسا ویسا کیوں کرے گا جبکہ اس کی بیوی بھی گھر میں ہی موجود ہے
اور ہاں آپ کی ایکٹنگ بھی بہت بکواس تھی
مجھے غصہ بہت آ رہا ہے ورنہ میں ہنس پڑتی
آپ ماڈلنگ کرتی ہیں نا ؟
بس ماڈلنگ ہی کرتی رہیے گا
کبھی کوئی فلم یا ڈرامے کی آفر کرے تو اسے میری طرف سے دو جھانپڑ رسید کیجیئے گا
اور آخری بات
وہ واز دیکھ رہی ہیں آپ ؟”
کنول نے ربان کے کمرے میں رکھے واز کی طرف اشارہ کیا
پھر مزید بولی
“اس میں ہڈن کیمرہ لگا ہے
یہ جو ڈرامہ آپ نے کیا ہے اس میں قید ہو گیا یے
آئندہ کچھ بھی کرنے سے پہلے یاد رکھیئے گا ایک ثبوت ہے ہمارے پاس آپ کے اوچھے پن کا
آپ کو آپا کہا تھا
اس لیئے اتنی رات کو دھکے مار کر نہیں نکال رہی گھر سے
مگر صبح میرے کہنے سے پہلے چلتی بنیے گا
ورنہ اگر یہ ویڈیو منظر عام پر آگئی تو ؟”
اور کنول کی آدھی ادھوری دھمکی پر عنایہ ڈرکر اپنی ایکٹنگ سدھارنے کا اردہ کرتے ہوِئے اپنے کمرے میں چلی گئی
“آپ کو کیا ہوا ہے ؟”
اس نے دم سادھے کھڑے ربان کا بازو ہلایا تو وہ ہڑبڑا کر ہوش میں آیا پھر بولا
“میرے کمرے میں کونسا ہڈن کیمرہ ہے ؟”
“ششش پاگل میاں
زور زور سے بول کے سب کو بتا دیں
اگر میں یہ جھوٹ نا کہتی تو وہ آگے بھی ایسی اوچھی حرکت کر لیتی
یا اس بات کو میڈیا پر پھیلا کر مظلوم بن جاتی
میں تو جانتی ہوں آپ کتنے سیدھے ہیں
مگر کوئی اور یقین نا کرتا آپ پر وہ عورت ہیں ہمدردیاں سمیٹ لیتیں”
کنول اپنی ذہانت پر خود ہی خود کو داد دینے لگی جب ربان نے بے ساختہ ہی بڑے بزرگوں کی طرح کنول کی بلائیں لے ڈالیں پھر اسے اپنے کمرے کے اندر کھینچا اور دروازہ بند کرتے ہوئے بولا
“بتاتا ہوں میری حور پریوں جیسی دلہن کہ یہ پاگل میاں کتنے سیدھے ہیں”
🍁🍁🍁
کنول ناشتے سے بھی پہلے عنایہ کو گھر سے نکالنا چاہتی تھی مگر اس وقت حیران رہ گئی جب سیکیورٹی گارڈ نے بتایا کہ
“میڈم صبح صبح نیم اندھیرے یں ہی چلی گئیں”
“شکر ہے
لگتا ہے عزت بڑی پیاری تھی آپا کو”
کنول جان اور وانی کو ناشتہ کروا رہی تھی تب ربان بھی تیار شیار فریش سا ڈائننگ روم میں چلا آیا
“گڈ مارننگ ڈارلنگ”
کرسی پر بیٹھتے ہوئے ربان نے آنکھ مار کر کنول سے کہا تو کنول کے ہاتھ سے گلاس چھوٹتے چھوٹتے رہ گیا
ربان مسکراہٹ دبا کر ناشتے کی طرف متوجہ ہو گیا جبکہ کنول نے اسے ایک نیا نام دے دیا
“پیا بے شرم”
🍁🍁🍁
سب کے چلے جانے کے بعد کنول اپنی زندگی میں اچانک آنے والی تبدیلی کو سوچ کر شرما بھی رہی تھی غصہ بھی کر رہی تھی جب کنول کا فون بجنے لگا
وقاص بھائی کالنگ دیکھ کر اسے وقاص کا مدعا بھی یاد آ گیا تو اس نے جلدی سے کال ریسیو کی
“جی وقاص بھائی کیسے ہیں آپ؟”
“میں جیسا بھی ہوں مگر تم بہت بے وفا ہو کزن”
وقاص کے انداز میں ناراضگی تھی
پھر وہ اور بولا
“اور رخشندہ بھی مجھے اگنور کر رہی ہے
مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہا”
وقاص کےطہریشان سے انداز پر کنول شرمندہ ہو گئی
“سوری بھائی
گھر میں کچھ مہمانآ گئے تھے
آپ ٹینشن نا لیں میں آج شام ہی خالہ اور خالو سے بات کرنے آئونگی”
“آج شام ؟
پکا ہے نا؟”
“جی پکا ہے”
کنول ہنس کر بولی تو وقاص بھی پر سکون ہو گیا
“اوکے تھینکس
میں تو شائد گھر پر نا پہنچ سکوں مگر امی ابو کو انفارم کر دوں گا”
“جی اوکے اللہ حافظ”
“اللہ حافظ”
🍁🍁🍁